ہمارا اسکول گھر سے بہت نزدیک تھا۔ محلے کی دو اور لڑکیاں بھی میرے ساتھ پڑھتی تھیں اور ہم تینوں ساتھ اسکول جایا کرتی تھیں۔ میٹرک تک سکون سے پڑھائی کی، کبھی کسی مسئلے سے دوچار نہ ہونا پڑا کیوں کے پانچ منٹ میں اسکول پہنچ جاتے تھے۔ میٹرک کے بعد کالج داخلے کا مرحلہ آیا تو پریشانی لاحق ہو گئی۔ کالج گھر سے فاصلے پر تھا اور ابو روز کالج پہنچانے نہ جاسکتے تھے جبکہ بھائی دونوں اپنے بزنس کے لئے صبح گھر سے نکتے تو شام کو لوٹتے تھے تبھی والد صاحب مجھ کو کالج داخلہ لینے کی اجازت نہ دے رہے تھے۔ بہت افسردہ تھی۔ کھانا پینا چھوڑ دیا تب امی آڑے آئیں اور ابوکو سمجھایا کہ اب زمانہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ لڑکیوں کو خود اعتمادی دینی چاہئے ، محلے کی دو بچیاں اور بھی کالج میں داخلہ لے رہی ہیں۔ اگر یہ ان کے ساتھ کالج چلی جائے گی تو اس میں کیا ہرج ہے۔ آخر پہلے بھی تو یہ تینوں اکٹھی اسکول جاتی تھیں ۔ آپ اجازت دے دیں۔ والد صاحب کا کہنا تھا کہ اسکول تو گھر سے دو قدم پر ہے مگر کالج کیلئے کسی سواری کا انتظام کرنا پڑے گا۔ بہرحال بہت دلائل دے کر امی جان نے بالآخر اپنی بات منوالی اور مجھے کالج میں داخلے کا اذن مل گیا۔ میں نے بشری اور تنویر کے ساتھ فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا۔
روز ہم کو بس پر جانا ہوتا تھا۔ بس اسٹاپ گھر سے زیادہ دور نہ تھا مگر مقررہ وقت پر بس ملتی تھی لہذا ہم ٹائم سے پندرہ منٹ پہلے گھر سے نکل جاتی تھیں اور بس اسٹاپ پر انتظار کرتی تھیں۔ اس روز جب بس آئی کافی رش تھا۔ اسٹاپ پر تین ہیرو ٹائپ لڑکے بھی کھڑے تھے غالباً بس کا انتظار کر رہے تھے تاہم ان کی نظریں ہم پر مرکوز تھیں۔ اس صورتحال سے میں تو
پہلے ہی دن سخت پریشان ہوگئی ۔ جب ہم کالج اسٹاپ پر اترے، وہ بھی ساتھ اتر گئے۔ ان کے انداز سے یوں لگا جیسے کہ ان کو تعلیم سے زیادہ ہم لڑکیوں میں دلچسپی ہو۔ وہ کچھ آوارہ قسم کے لگ رہے تھے اور ہمارے بارے ہی آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ سوچا کہ اگر روز یہی صورتحال رہی تو کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر ہی میں پریشان ہوگئی۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ اگلے روز بھی وہ ہم سے پہلے بس اسٹاپ پر موجود تھے ۔ ہمارے فوراً بعد بس میں سوار ہوئے اور کالج اسٹاپ پر ہمارے ساتھ اتر گئے ۔ آج وہ کچھ ذومعنی فقرے بھی کس رہے تھے۔ ہم نے سنی ان سنی کر دی اور کالج کے گیٹ میں گھس کر ان سے پیچھا چھڑا لیا۔ تیسرے دن پھر انہوں نے ہمارا پیچھا کیا اور جب میں بس سے اتر کر کالج گیٹ کی طرف بڑھی تو ایک خط مروڑ کر میری کتابوں پر پھینک دیا۔ ان کا نشانہ بالکل صحیح تھا۔ خط پھینکنے والے کا نام شعیب تھا۔ اس کے ساتھی اسی نام سے اس کو پکار رہے تھے۔ میری کتابوں کو چھوتا خط قدموں میں گر گیا اور میں آگے بڑھ گئی لیکن میری ساتھی نغمہ نے کاغذ کی اس ننھی منی گول گیند کو اٹھا لیا۔ کالج کے اندر داخل ہونے کے بعد میں نے اسے کہا۔ تم نے کیوں اسے اٹھایا ؟ اب وہ روز ایسا ہی کریں گے۔ وہ بولی۔ اگر نہ اٹھاتی تو ہمارے پیچھے آنے والی کوئی دوسری لڑکی اٹھا لیتی اور پھر تمہاری بدنامی ہو جاتی اور لڑکیاں بھی تو آرہی تھیں۔ انہوں نے یقینا لڑکوں کی اس حرکت کو نوٹ کیا ہوگا ۔ خدا جانے اس نے خط میں کیا خرافات لکھی ہیں۔ دوسری لڑکیاں پڑھ لیتیں تو تمہارا تماشا بناتیں، اس وجہ سے اٹھایا ہے۔ لواب پڑھ تو لو۔ ہم نے تجس میں اس وقت کاغذ کو سیدھا کر کے پڑھا۔ لکھا تھا ایک بار بات کر لو ورنہ روز ایسے ہی خط تم کو ملیں گے۔ تمہارا خادم شعیب۔ اس خادم کو روکنا ضروری ہے نغمہ ورنہ میں کالج چھوڑ دوں گی۔ میں نے روہانسی ہو کر کہا۔ نغمہ دلیرلڑکی تھی بولی۔ بے وقوف ان دو ٹکے کے آوارہ لڑکوں کی خاطر تم تعلیم کو خیر باد کہہ دو گی ۔ ہمت سے کام لو، ہم ان سے نمٹ لیں گے۔ مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ کل بس اسٹاپ پر ان کو زبانی سمجھائیں گے۔ اگر باز نہ آئے تو پھر ان کی شکایت کر دیں گے۔ اگلے دن جب انہوں نے وہی حرکت کی تو نغمہ نے مجھے ہمت دی کہ اس سے بات کرو کیونکہ یہ خط تمہاری طرف پھینکتا ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تب میں جرات کر کے آگے بڑھی اور لڑکے کو مخاطب کیا۔ مسٹر شعیب! دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جیسی تم سمجھ رہے ہو۔ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ، اپنا اور میرا وقت ضائع مت کرو ورنہ میں تمہاری شکایت کر دوں گی۔ کس سے شکایت کرو گی؟ اس نے ڈھٹائی سے کہا۔ جو بھی سورما ہے، سامنے آجائے۔ ہم بھی ڈرنے والے نہیں ہیں۔ دھمکیاں نہ دو۔ اسی وقت بس آگئی اور میں گرفتہ دل بس پر چڑھ گئی۔ تمام راستہ دعا کرتی جاتی تھی۔ اے اللہ! اس شریر انسان سے نجات دلا دے۔ اگر ابا یا بھائی سے شکایت کرتی تو وہ مجھے کالج سے ہٹا لیتے کیونکہ بہت مشکل سے اجازت ملی تھی۔
میں نے ایسی بہت سی کہانیاں پڑھی تھیں، کافی محتاط تھی مگر یہ لڑ کے باز آنے والے نہیں تھے۔ جب موقع ملتا، خرافات بھرے خط لکھ کر میری کتابوں پر نشانہ تاک کر پھینکتے ۔ کبھی کاغذ کی یہ ننھی منی گیند کتابوں پر اٹک جاتی تو کبھی زمین پر جا پڑتی ۔ یہ تو ایسی مصیبت تھی کہ میں کانپ کر رہ جاتی تھی۔ جب اس مسئلے کا کوئی حل سمجھ میں نہ آیا تو ایک روز جبکہ اتوار تھا اور چھٹی کے باعث بھائی گھر پر تھے، میں نے بھائی جان سے بات کرنے کی ٹھان لی اور ان کو کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ ایک مسئلے نے بہت پریشان کیا ہوا ہے جبکہ تعلیم بھی ترک نہیں کرنا چاہتی ۔ وہ بولے ۔ ہاں ہاں کہو، میں تمہاری پوری طرح مدد اور پاسداری کروں گا۔ میں نے ان کو مسئلہ بتا دیا اور خط بھی دکھا دیا جس میں شعیب نے لکھا تھا کہ اگر ایک بار ملاقات کر لو تو پھر کبھی پریشان نہیں کروں گا۔ انہوں نے مجھے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، میں ان بد معاشوں سے نمٹ لوں گا۔ انہوں نے قلم اور کاغذ مانگا اور پھر میری طرف سے شعیب کو خط لکھا کہ فلاں دن ، فلاں پارک میں آجاؤ ۔ وقت بھی لکھ دیا اور یہ بھی کہ تمہارے بے حد اصرار پر ملاقات کر رہی ہوں مگر یہ میری تم سے پہلی اور آخری ملاقات ہو گی۔ بہتر ہوگا تم اکیلے آجاؤ اور کسی دوست کو ہمراہ نہ لانا ۔ یہ بھی لکھا کہ میں سیاہ عبایہ پہن کر آؤں گی۔ میں حیران ہو گئی کہ بھائی جان یہ کیا کر رہے ہیں مگر ان سے وضاحت مانگنے کی مجھ میں جرات نہ تھی۔ مقررہ دن مقررہ وقت پر بھائی جان نے میرے سب سے چھوٹے بھائی امین کو میرے جوتے پہنا دیے اور برقع بھی پہنا دیا۔ کپڑے بھی اسے میرے ہی پہنائے تھے۔ وہ ان دنوں آٹھویں میں پڑھتا تھا اور میرے برابر قد تھا۔ اس پر میرے حلیے کا گمان ہوتا تھا۔ بھائی جان اسے لے کر گاڑی میں مقررہ وقت سے کافی پہلے چلے گئے اور راستے میں اپنے دوستوں کو بھی ہمراہ لیا۔ یہ لوگ مقررہ جگہ پہنچے تو امین کو پارک میں بٹھا دیا۔ چہرہ نقاب سے پوشیدہ تھا۔ بھائی جان اور ان کے دوست جو ہاکیاں وغیرہ لے گئے تھے، کچھ دوری پر گاڑی میں بیٹھ کر شعیب کا انتظار کرنے لگے۔ شعیب اکیلا نہیں آیا، اپنے دوستوں کے ہمراہ تھا۔ دونوں دوست موٹر سائیکل پر پارک کے پاس ٹھہر گئے اور یہ اندر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ نظر کالے برقعے میں ملبوس بینچ پر بیٹھی اکیلی لڑکی پر پڑی تو اس کی طرف بڑھا۔ جب نزدیک آیا تو مجھے مخاطب کیا۔ نقاب تو اٹھاؤ ۔ دیکھوں تو سہی جس کو بلایا تھا، وہی ہے یا کوئی اور ہے۔ امین نے فورا نقاب الٹ دیا۔ وہ بھونچکا رہ گیا۔ اس نے امین کے سر سے حجاب کھینچ لیا اور گالی دی کہ مجھے بے وقوف بنایا ہے۔ اب اپنی بہن کا حشر بھی دیکھ لینا۔ یہ کہ کر سیٹی بجائی ۔ اس کے چیلے پارک میں داخل ہو گئے۔ تبھی بھائی جان اپنے دوستوں کے ہمراہ امین کی طرف دوڑے۔ ان کے دوستوں کے پاس ہاکیاں تھیں اور وہ شعیب کی طرف لپکے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے ساتھی اپنی موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے مگر شعیب گھر چکا تھا۔ انہوں نے اس پر ہاکیاں برسا دیں۔ وہ زخمی ہو کر گر گیا اور یہ سب واپس گھر آگئے۔
اپنی دانست میں تو میرے بھائی نے شعیب کو سبق سکھایا تھا لیکن افسوس یہ ہم کو مہنگا پڑ گیا۔ شعیب کے سر میں ہاکی کی چوٹ سے ایسا گہرا زخم آیا کہ وہ بے ہوش ہونے کے بعد دوبارہ ہوش میں نہ آسکا اور ایک ماہ اسپتال میں رہ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کے والدین نے اس کے ساتھیوں سے لڑائی کا سبب پوچھا تھا تو انہوں نے بتا دیا۔ جس لڑکی نے ملاقات کا خط لکھ کر پارک میں بلایا تھا، وہی اس کی موت کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے میری سہیلیوں کی نشاندہی کی کہ یہ لڑکیاں ہیں جن کے ساتھ وہ لڑکی بھی ہوتی تھی جس کی وجہ سے شعیب کی جان چلی گئی ہے۔ انہوں نے مجھ پر یہ بھی الزام لگا دیا کہ میں شعیب سے دوستی رکھتی تھی اور خط و کتابت بھی تھی۔ میری ساتھیوں کے گھر شعیب کے والد آئے اور پھر ہمارے گھر آپہنچے۔ ان کا بیٹا وفات پا گیا تھا، وہ بہت دکھی تھے۔ انہوں نے بھائی جان اور ان کے دوستوں پر پرچہ کرا دیا تھا کہ ان کی بہن کے ہمارے بیٹے سے غلط مراسم تھے سو انہوں نے دوستوں کے ہمراہ شعیب پر ہاکیوں سے حملہ کر کے اسے اتنا مضروب کیا کہ آخر کار وہ جان کی بازی ہار گیا۔ کیس کافی عرصہ چلا۔ والد صاحب نے عمر بھر کی جمع پونجی بھائی جان کو چھڑانے کیلئے لگا دی اور ہم شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس سانحے کا سب سے زیادہ تاریک پہلو یہ ہے کہ میرے بھائی کو جہاں سات برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے، وہاں میری تعلیم بھی ادھوری رہ گئی اور تعلیم حاصل کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
آج بھی اخبارات میں تعلیم کی اہمیت پر مضامین شائع ہوتے ہیں اور یہی شور و غوغا سنائی دیتا ہے کہ اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوائیں اور ان کا مستقبل محفوظ کریں۔ یہ تو واقعی اچھی بات ہے مگر میں سوچتی ہوں کہ ہمارا یہ معاشرہ اور اس کی سوچیں کب بدلیں گی، کب شعیب اور اس کے ساتھیوں جیسے آوارہ افراد سے یہ معاشرہ چھٹکارہ حاصل کرے گا جو ہم لڑکیوں کے مستقبل اور ان کی ترقی و تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہم لڑکیوں کے ساتھ ایسے واقعات دیہاتوں یا چھوٹے شہروں میں ہی نہیں ہوتے، بڑے شہر بھی ان واقعات و سانحات سے پاک نہیں ہیں اور اس ترقی یافتہ دور میں یہ ایک بہت افسوسناک بات ہے۔ ایسے لڑکوں کے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے لڑکوں کی ذہنی پرورش صحیح خطوط پر کریں اور کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لے ورنہ ہماری طرح شدید مسائل سے دوچار ہوگا۔