رمضان آنے میں کچھ ہی دن باقی تھے ، ہر طرف رمضان کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ اسکول اور مدارس میں بھی اساتذہ بچوں کو رمضان کے حوالے سے کافی معلومات فراہم کرتے نظر آرہے تھے، جن میں سے چند بچے اپنے استاد کی باتوں کو غور سے سنتے اور کچھ سنی ان سنی کر دیتے۔ اسی طرح ایک دن میں نازیہ نے اپنے ننھے منے بچوں کو بتایا کہ جو بچے ابھی روزہ نہیں بھی رکھتے، انہیں بھی چاہیے کہ رمضان کا ادب کریں سحری میں کھائیں پئیں اور دن میں کھانا کھانے کیلئے گھر والوں سے ضد نہ کریں اور ہر مغرب کی اذان کے وقت دعا کر کے سب کے ساتھ افطار کریں۔ خود بھی ادب کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
آج رمضان کی پہلی سحری تھی۔ ننھے بلال کے کانوں میں میں نازیہ کے الفاظ گونج رہے تھے تو گویا امی جان سے بول پڑے۔ ”امی جان مجھے سحری میں ضرور اٹھائے گا۔“ یہ سن کر امی جان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ ”ہاں بیٹا ضرور اب جلدی سے جاکر سو جاؤ۔“ یہ سن کر بلال خوش ہو کر اپنے کمرے کی طرف لوٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سحری کا وقت ہو گیا تھا، اتنی اچھی نیند سے اٹھنے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن رمضان کا ادب بھی تو کرنا تھا، یہی سوچتے ہوئے بلال اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ دھونے کے لیے غسل خانے کا رخ کرتے ہوئے اسے ایک کانچ کا پیالہ نظر آیا، جس میں دو مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ یہ مچھلیاں کچھ دن پہلے انس بھائی لے کر آئے تھے اور اپنے سنہری رنگ کی وجہ سے یہ سب کو بہت پسند آئی تھیں۔ مچھلیوں کو پانی میں تیرتا دیکھ اسے خیال آیا کہ انہیں بھی تو رمضان کا احترام کرنا چاہیے۔ بس یہ خیال آتے ہی اس نے اس کانچ کے برتن میں بہت سارا دانہ ڈال دیا تا کہ وہ خوب سیر ہو کر کھا لیں اور خود بھی سحری کھانے چلا گیا۔ سحری سے فارغ ہو کر بلال نے اس کانچ کے برتن کا سارا پانی پھینک دیا اور اسے ایک طرف رکھ دیا۔ بلال کا خیال تھا کہ اگر مچھلیاں پانی میں رہیں گی تو سارا دن پانی پیتی رہیں گی۔ دوسرے دن جب انس بھائی سو کر اٹھے تو کانچ کے برتن پر نظر پڑی، جو بالکل خشک پڑا تھا اور مچھلیاں ایک طرف اوندھی پڑی تھیں۔ انس بھائی کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ سارے گھر میں ایک کہرام مچ چکا تھا۔ بلال اتناڈر گیا تھا کہ فورا پلنگ کے نیچے جا چھپا اور اب سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ آپی بھی بہت اداس تھیں کیونکہ انہیں مچھلیاں بہت اچھی لگتی تھیں ، امی اس سوچ میں گم تھیں کہ آخر یہ حرکت کس کی ہے۔ بلال پر شک کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ تو مچھلیوں کا خاص خیال رکھتا تھا۔
انس بھائی ایک طرف بیٹھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ، امی صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھیں، آپی منہ لٹکائے کھڑی تھیں اور مچھلیاں برتن میں مری پڑی تھیں۔ اف خدا یہ سب کیا ہو گیا ؟ یہ سب دیکھ کر بلال خود بھی بہت پریشان ہو چکا تھا، اتنی دیر میں ظہر کی اذان کی آواز آئی اور وہ وضو کر کے نماز پڑھنے چلا گیا۔ نماز پڑھنا تو اسے نہیں آتی تھی لیکن امی اور بہن کو اٹھک بیٹھک کرتے دیکھا تھا تو گویا اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ نماز کے بعد اس نے اللہ تعالی سے رو رو کر دعائیں کیں اور اپنی نادانی میں مچھلیوں کو مارنے کی معافی بھی مانگی جبھی اسے کوئی خیال سوجا، اس نے آنکھیں صاف کیں اور امی کا فون حاصل کر کے میں نازیہ کو فون ملایا۔ دوسری طرف سے کسی نے فون اٹھایا اور سلام کیا۔ وہ فوراً سمجھ چکا تھا کہ یہ مس نازیہ ہی ہیں۔ سلام کے جواب کے بعد اس نے میں نازیہ سے پوچھا کہ کیا روزے کی وجہ سے کوئی مر سکتا ہے۔ اس پر مس نے بہت ہی تسلی بخش جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ روزہ تو اللہ تعالی کی رحمت کا ایک ذریعہ ہے۔ بلال پھر بھی مطمئن نہ ہوا، تھوڑی ہی دیر میں سورج ڈھلنے کو تھا اور افطار کا وقت ہونے والا تھا سب دستر خوان پر بیٹھ چکے تھے، تبھی بلال نے انس کو کہتے سنا کہ ان مچھلیوں کو یہاں وہاں نہیں پھینکیں گے بلکہ یہ جاندار ہیں انھیں دفنادیا جائے گا۔ بلال دستر خوان پر اپنے ساتھ وہ کانچ کا برتن لے کر بیٹھا ہوا تھا ، سب کا خیال تھا کہ بلال مچھلیاں کے مر جانے سے نہایت اداس ہے تو اس لیے اپنے ساتھ لے کر بیٹھا ہے۔ کچھ ہی لمحوں میں مغرب کی اذان کی آواز بلند ہوئی تو سب نے کھجور کھا کر روزہ کھولا۔ کھجور کھانے کے بعد بلال نے اس برتن میں بہت سارا پانی ڈالا ، جس میں مچھلیاں مری پڑی تھیں۔ جیسے ہی برتن میں پانی گیا، ایک مچھلی میں تھوڑی سی حرکت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ تیر ناشروع ہو گئی ، اب سب کی نگاہیں افطاری سے ہٹ کر مچھلیوں پر مرکوز تھیں۔ تیرنے والی مچھلی نے دوسری کو ہلانا شروع کیا اور اب دونوں مچھلیاں تیر رہی تھیں، دیکھنے والے سب ہی لوگ حیران تھے، آپی بھی حیرت سے کہہ رہی تھیں کہ یہ کیسی خدا کی قدرت ہے۔ گھر کے سب افراد جب مچھلیوں کی طرف دیکھنے لگے تو یہ دیکھ کر بلال کے چہرے پر گہری سی مسکراہٹ ابھری اور وہ بول اٹھا کہ یہ مچھلیاں مری نہیں تھیں بلکہ روزے سے تھیں۔
بلال کی اس بات پر گھر کے تمام افراد ہی مچھلیوں کے پانی کو باہر نکالنے کے معاملے کو سمجھ گئے اور انہوں نے پھر بلال کو سمجھایا کہ بیٹا مچھلیاں تو سمندر میں رہتے ہوئے روزہ رکھنے والوں کے لیے دعائیں کرتی ہیں۔ آپ نے انہیں زبردستی روزہ رکھوا تو لیا مگر یہ ان کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ پانی میں رہتی ہیں اور پانی ہی میں ان کی زندگی ہے۔ پانی سے باہر آنے کے بعد یہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ سب باتیں سن کر بلال کی سمجھ میں آگیا اور اب وہ روزانہ افطار کے وقت مچھلیوں کے پاس جا کر کہتا ہے کہ روزہ کھلنے کا وقت ہونے والا ہے ، ہمارے لیے دعا کرو۔