Thursday, October 10, 2024

Ruswai Ki Seyahi

دادی نے لاکھ منع کیا کہ تہمینہ سے شادی نہ کرو مگر ابو نہ مانے لیکن جب بیوی کے گن کھلے تو وہ پریشان رہنے لگے ، تب دادی ان سے کہتیں۔ میں نے سمجھایا تھانا ! بیوی ہو خاندانی، بے شک ہو کانی، لیکن تم نے اس وقت میری بات نہ مانی۔ میرے والد صاحب بھی شادی کی بازی محض اس باعث ہا رے کہ انہوں نے جس لڑکی کا انتخاب کیا اس کا خاندانی پس منظر ہماری دادی کی نظر میں درست نہ تھا اور جب وہ بیٹے کے کہنے سے ان کی پسندیدہ لڑکی کارشتہ دیکھنے اس کے گھر گئیں تو سر پکڑ لیا۔ آتے ہی ابو سے کہا۔ بیٹا ! بے شک لڑکی بہت خوبصورت ہے لیکن مجھ کو ان کے گھر کا طور طریقہ کسی طور نہیں بھایا د اد ی تفصیل سے بتائیے آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ بیٹا ، میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ تہمینہ اور اس کی بہن بہت صاف ستھری اور جدید طرز کے اچھے لباس میں تھیں، ان کے بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے لیکن گھر کی چیزیں بے ترتیب وبے ٹھکانہ ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔ باورچی خانہ گندا اور گھر کا نظام بد نظمی کی چغلی کھا رہا تھا۔ ایک کمرے سے کچھ لڑنے جھگڑنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس کی ایک خالہ اور دو بڑی بہنوں کو طلاق ہو چکی ہے اور پھوپی نے شوہر پر خلع کا کیس کیا ہوا تھا، اس بات پر کہ اس کا شوہر اس کو روز شام کو باہر لے جا کر کھانا نہیں کھلاتا۔ جب مجھے چائے دی تو حلوے کی سینی کو ڈھکا نہیں، اس پرمکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ ایسا ہی حال فروٹ کا تھا۔ میلے میلے دھوئے گئے تھے، گلاس میں پانی دیا تو بساند آرہی تھی۔ بیٹا ایسے گھر سے رشتہ لے رہے ہو جہاں کی خواتین کو اتنا بھی شعور نہیں کہ مہمانوں کی تواضع کس طرح کی جاتی ارے ! آپ بھی کسی زمانے کی باتیں کر رہی ہیں۔ جب تہمینہ ہمارے ماحول میں آئے گی تو ہمارے طور طریقے سیکھ جائے گی۔ وہ غریب لوگ ہیں مگر بڑے نہیں ہیں۔ میں غربت کی بات نہیں کر رہی بیٹا، ہم بھی بس کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ، ہم کوئی ساہوکار نہیں ہیں۔ بات ہو رہی ہے اچھے خاندان کی اور اچھے خاندان سے مراد وہ لوگ جن کو اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاس ہوتا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے امی؟ ارے ، نادان یہ اتنی سی بات نہیں ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ پھر تہمینہ کے خاندان میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ لڑکیاں ماں سے تو تراخ سے بات کر رہی تھیں۔ تہمینہ کے ماموں کی دولڑکیوں نے کورٹ میرج کی ہے۔ بس کریں اماں، ایک بات تو بتائیں یہ ساری معلومات آپ کو کس نے دی ہیں ؟ ان کی ایک پڑوسن نے ، تہمینہ کے گھر جانے سے ایک روز پہلے میں اس سے ملی تھی۔ کمال ہے امی جان لیکن آپ کی سب محنت بیکار گئی، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ شادی تو میں تہمینہ ہی سے کروں گا۔ ماں سے اس بحث مباحثہ کے بعد بھی جیتنا تو نے تھا کہ دادی ان سے بہت پیار کرتی تھیں، ان کی خوشی پوری کرنے کو وہ تہمینہ کو بہو بنا کر گھر لے آئیں۔ امی واقعی چندے آفتاب چندے ماہتاب تھیں محلے کی جو بھی خواتین ان کو دیکھنے آتیں ، ان کی صورت دیکھ کر خوش ہو جاتی تھیں اور کہتیں۔ خالہ جی ! آپ بڑی دھنوان ہیں۔ لیکن ابھی تو نئی نئی بات تھی اور ان کے گن کسی پر کھلے نہیں تھے۔ آدمی کی شناخت کچھ دنوں بعد کھلتی ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ اس کے طور طریقوں سے واسطہ پڑتا ہے اور اس کی شخصیت گھر پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ شروع میں تہمینہ یعنی میری ماں نے اپنے اوپر اخلاق و تمیز کا لبادہ اوڑھے رکھا، دادا اور دادی کی عزت کرتیں لیکن گھر کے کام کو ہاتھ نہ لگا تھیں، تب دادی کہتیں۔ کوئی بات نہیں، نئی دلہن ہے ، رفتہ رفتہ گھر سنبھال لے گی۔ آخر یہ اسی کا گھر ہے۔ بوڑھی ہونے کے باوجود وہ خود سارے گھر کا کام کر لیتیں ، کھانا بھی ٹرے میں رکھ کر بہو کے سامنے لاتیں۔ یہ مزے سے کھاپی کے بر تن رکھ دیتیں، دادی ہی جھوٹے برتن اٹھا کر لے جاتیں۔ چار سال تک یہی ہوتا رہا۔ ایک روز ابو نے بیوی سے کہا۔ میری ماں بوڑھی ہیں، ان کی عمر پینسٹھ سال سے بھی اوپر ہے، وہ اکیلی کچن سنبھالتی ہیں۔ تہمینہ تم بھی ان کا ہاتھ بٹا لیا کرو۔ بس اس بات پر ابو امی کی نوک جھوک ہو گئی۔ تبھی والد صاحب نے ہی جھگڑا رفع دفع کرنے کو خاموشی اختیار کر لی اور دفتر کی راہ لی۔ دادی اب بیمار رہنے لگی تھیں۔ والد صاحب نے کچن سنبھالنے کے لئے ملازمہ رکھ دی تاکہ ان کی والدہ کے اوپر سے کام کا بوجھ ہلکا ہو کیونکہ امی کو تو گھر داری سے کچھ غرض نہ تھا۔ وہ ٹی وی دیکھتیں یا فون پر اپنے گھر والوں سے باتیں کرتی رہتیں۔ میں اب چھ برس کی ہو چکی اور میری بہن چار سال کی تھی۔ ہماری پرورش پھوپھونے کی تھی ، اب ان کی۔ شادی ہو گئی تھی تو دادی سے اکیلے کام نہیں ہوتا تھا۔ دادا کپڑے کا بزنس کرتے تھے، صدر بازار میں ان کی دکان تھی ہمارا گزارا صحیح طرح سے ہو رہا تھا ، دولت کی ریل پیل نہ تھی تاہم کسی شے کی کمی بھی نہ تھی۔ خدا کی کرنی کچھ دن بیمار رہ کر دادی فوت ہو گئیں اور اس کے بعد دادا بھی چل ہے۔ اب دُکان کلی طور پر ابو نے سنبھال لی ، وہ صبح کے گئے رات کو لوٹتے تھے۔ میری والدہ قناعت پسند طبیعت کی نہیں تھیں۔ ان کو جدید ڈیزائن کے نت نئے جوڑے پہنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی خواہش ہوتی ہر روز ایک نیا جوڑا پہنیں۔ والد کی دُکان پر جاکر کئی کئی جوڑے قیمتی لیتیں، مہنگے درزی سے سلواتیں اور دو چار بار پہن کر اپنی بہنوں کو دے کر آجاتیں۔ والد صاحب کے بہت سے روپے ہر ماہ درزی کی جیب میں چلے جاتے تھے۔ میری چھوٹی پھپھو دادی کی جگہ کچن سنبھالتی تھیں پھر ان کی بھی شادی ہو گئی تو والدہ نے کچن اور گھر میرے سپرد کر دیا۔ انہی دنوں مارکیٹ میں آگ لگنے کا حادثہ ہوا اور کئی دکانیں جل گئیں۔ انہی میں آبو کی بھی دکان تھی جو آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ لاکھوں کا مال نذر آتش ہو گیا اور والد صاحب بالکل تہی دامن ہو گئے۔ کچھ دن تو صدمے میں رہے جب گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تو مجبوراً اسی مارکیٹ میں ایک واقف کار کی دکان پر سیلز مین کی نوکری کر لی۔ اب آمدنی کم تھی اور امی جان سلیقے سے خرچہ کرنا نہیں جانتی تھیں، اسی وجہ سے ہمارے گھر میں اکثر جھگڑار بنے لگا۔ بعض دفعہ فاقہ کرنا پڑتا، لیکن امی فاقہ نہیں سکتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں اگر آلو پکے ہوتے یا کوئی سبزی تو ہماری اماں پڑوسن سے اُدھار لے کر ایک تکہ لاکر خود کھا لیتی تھیں۔ ایسا بھی ہوتا کہ کسی دن فاقہ پڑ جاتا اور ہمارے گھر کچھ پکتا ہی نہ تھا۔ اس روز وہ کسی ہمسائے یا رشتہ دار کے گھر چلی جاتیں اور کھاپی کر آجاتیں ، تب میں سوچتی کیا مائیں ایسی ہوتی ہیں؟ ابوالبتہ احساس کرتے تھے۔ وہ ہمارا تھوڑا بہت کام بھی کر دیا کرتے تھے۔ جب میں نے آٹھویں کا امتحان پاس کر لیا تو ماں نے یہ کہہ کر اسکول سے اٹھا لیا کہ اب مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا حالانکہ اتنی سی عمر میں وہ مجھ سے ہی گھر کا سارا کام کرواتی تھیں۔ یہ بے فکری کے دن تو کھیل کود کے تھے مگر میری امی نے میری عمر کے ان سنہری دونوں کو گھر کے کاموں کی بھٹی میں جھونک کر میرے بچپن کو جھلسا کر رکھ دیا۔ میری ماں بے شک بہت خوبصورت تھیں۔ وہ شادی شدہ بالکل نہیں لگتی تھیں۔ ان کا جسم سڈول اور چہرہ تروتازہ تھا، ساتھ میں ان کو اپنی اچھی صورت کا بھی غرور تھا۔ وہ آئینہ سامنے دھرے فالتو عورتوں کی طرح ہمہ وقت بنائو سنگھار میں مشغول رہتیں۔ دراصل اپنے حسن کی شیدائی تھیں حالانکہ محلے کی سب لڑکیاں کہتی تھیں کہ مہوش تم اپنی ماں سے زیادہ خوبصورت ہو۔ کسی دن بال سنوار کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنا۔ امی کی ایک عادت جو مجھے پسند نہ تھی، وہ بہت گھومتی پھرتی تھیں۔ دُنیا جہان کی باتیں ان کو پتا تھیں، اگر خبر نہ تھی تو اپنے گھر کی اور ابو کی ، وہ تو صبح کے گئے شام کو گھر آتے تھے۔ یہ ان کاروز کا معمول تھا اور ماں ناشتہ کرتے ہی برقع سنبھال کر ہمسایوں کے گھر چلی جاتی۔ بہن بھائی اسکول روانہ ہو جاتے ، چھوٹی بہن سو جاتی تو میں گھر کے کام میں جت جاتی۔ دن یونہی گزرتے گئے اور میں سولہ برس کی ہو گئی۔ اب لڑکیاں پہلے سے بھی زیادہ میری تعریف کرتیں کہ تم چودھویں کا چاند ہو لیکن میں ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتی تھی۔ انہی میں ایک لڑکی ممتاز تھی، اس کو راز داں کہوں کہ غمگسار، میں اپنے دل کی ہر بات اس سے کہہ دیا کرتی تھی۔ وہ مجھے دلاسا دیتی۔ مہوش دُکھ مت کیا کر دیکھا تجھ کو تو کوئی شہزادہ بیاہ کر لے جائے گا۔ میں اس کی باتوں کو ہنسی میں اڑا دیا کرتی تھی۔ ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی، کپڑے دھو رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں سمجھی امی آئی ہیں، دروازہ کھولا تو سامنے ایک شخص کو کھڑا دیکھا۔ اس نے امی کا پوچھا۔ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ ابھی یہ فقرہ میری زبان سے نکلا ہی تھا کہ اسی وقت پڑوس سے امی آ گئیں۔ وہ اس نوجوان کو گھر کے اندر لے آئیں۔ مجھے کہا۔ منہ کیا دیکھ رہی ہے ، جا چائے بنا کر لا مہمان کے لئے۔ اس مہمان کو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ چائے بنا کر جب کمرے میں لائی تو امی کو عجیب خوشی کے عالم میں دیکھا۔ وہ کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں۔ میں ششدر رہ گئی کیونکہ امی کو میں نے کبھی یوں ہنس کریا قہقہہ لگا کر بات کرتے نہیں دیکھا تھا اور یہ آدمی نجانے کون تھا۔ وہ شخص کچھ دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ اماں یہ آدمی کون تھا؟ میں نے ماں سے سوال کیا۔ میرا رشتہ دار تھا، پر تجھے کیا۔ اس کے بارے چُپ رہنا ور نہ جان نکال دوں گی۔ رات بھر مجھ کو نیند نہ آئی، اسی خیال نے بے چین رکھا کہ آخر یہ آدمی تھا کون جو ماں سے ملنے آیا تھا۔ یو نہی کچھ دن گزرے کہ وہ پھر آیا۔ مجھے اس کا آنا ناگوار گزرا مگر کیا کہہ سکتی تھی۔ چائے بنا کر کمرے میں گئی تو ماں کو اس کے پہلو میں بیٹھا پایا۔ مجھے دیکھ کر وہ گھبرائیں اور اس آدمی نے جوامی کا ہاتھ پکڑے تھا، ان کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ میں نے بھی خود کو سنبھالا اور یوں ظاہر کیا کہ جیسے کچھ نہیں دیکھا۔ چائے دے کر باہر آگئی۔ اس روز میرا دل اس طرح دھڑکا تھا کہ لگتا تھا ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ میں سارا کام نمٹا کر نماز پڑھنے لگی، اس وقت ابو بھی نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ بہت زور سے کھلا اور میرے والد اندر آئے۔ ان کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہورہا تھا، وہ پھر اندر چلے گئے ، پھر کمرے سے لڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ابو امی سے کہہ رہے تھے کہ کون ہے جو میری غیر موجودگی میں میرے گھر آتا ہے۔ امی کہہ رہی تھیں کہ کوئی نہیں آتا۔ میری بات کا یقین نہیں ہے تو بے شک اپنی بیٹی مہوش سے پوچھ لو۔ انہوں نے مجھ سے نہیں پوچھا، اگر پوچھ بھی لیتے تو میں بھلا کیا جواب دیتی۔ دل تو کہ رہا تھا کہ اپنے والد کو سچ بتادوں۔ خیر ، والد یہ کہہ کر چلے گئے کہ مجھے پڑوسیوں نے بتایا ہے کہ کوئی تمہاری غیر موجودگی میں آتا ہے، میں پتا کر ہی لوں گا۔ اس واقعہ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے ، ایک روز جب میں سوئی ہوئی تھی، صحن سے چیخنے چلانے کی آواز میں آنے لگیں۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی، کیا منظر دیکھا کہ سہم کر رہ گئی۔ صحن میں آبو ، امی اور وہی شخص کھڑا تھا۔ ابو امی کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ یہ کیوں آیا ہے بتا؟ یہ شخص تیرا کون ہے۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ امی کو جانے کیا ہوا، کہنے لگیں۔ یہ میرا رشتہ دار ہے ، میں جارہی ہوں اس کے ساتھ اور تم مجھ کو ابھی اور اسی وقت طلاق دے دو۔ میں نہیں رہ سکتی اب اس غربت کے جہنم میں۔ بیوی کے منہ سے ایسی بات سُن کر ابو نے اسی وقت امی کو طلاق دے دی۔ وہ جانے لگیں تو میں دیوانہ وار ان کی طرف بھاگی اور ان سے لپٹ گئی۔ منتیں کرنے لگی ہم کو چھوڑ کر مت جائو مگر اس وقت شاید امی ہم سب کی بیری ہو گئی تھیں۔ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ اب ان کیڑوں مکوڑوں کو تم ہی سنبھالو ، میں جارہی ہوں۔ ماں چلی گئی۔ میں وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔ اس دن میں نے اپنی قسمت پر ہزاروں آنسو بہائے ، ابو تو کمرے میں چلے گئے۔ میرے چھوٹے بہن بھائی، جو دروازے میں کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے، میرے پاس آکر رونے لگے۔ وہ دن ہم بھائی بہنوں کے لئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ ہم سب بہن بھائیوںکے لیے وہ جیسی بھی تھیں ہماری ماں تھیں۔ ابو صبح کے گئے شام کو آتے ، اب اور زیادہ دیر سے آنے لگے۔ ان کو بیوی کی بے وفائی کا غم تھا یا پھر غصّہ ، میں نہیں جانتی، مگر یہ عجیب بات تھی، کہ ابو جب بھی گھر آتے، ہمیں روتے ہوئے دیکھتے تو بہت ڈانٹتے۔ میرے چھوٹے بہن بھائی سہم جاتے۔ میری سہیلی ممتاز بہت سمجھاتی کہ اگر تم ہمت ہار جائو گی تو چھوٹے بہن بھائیوں کا کیا ہو گا۔ رفتہ رفتہ میں نے خود کو سنبھالنا شروع کیا کہ واقعی اگر میں نے اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو ان کا کیا ہو گا۔ اماں کے جانے کے بعد تو اب میں ہی ان کی ماں کی جگہ تھی۔ میرے بہن بھائی بھی رورو کر چپ رہنے لگے تھے ، وہ سمجھ گئے تھے کہ ان کی ماں اب لوٹ کر نہیں آئے گی۔ ان کو میں کسی طریقے سے سنبھالے ہوئے تھی مگر میرے دل کا غبار تھا کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہی چلا جاتا تھا۔ اس کو کیسے نکالتی۔ اللہ نے مجھ پر رحم کیا کہ ممتاز کو میرے گھر بھیج دیا جو بُرے وقت میں ایک ہی مجھ کو تسلی دینے والی تھی۔ ایک روز ابو نے کہا۔ بیٹی تم اکیلے گھر اور بھائی بہنوں کو سنبھالتے تھک جاتی ہو ، اب میں تمہاری دوسری ماں کو گھر لانا چاہتا ہوں تا کہ تم لوگ اکیلے نہ رہو۔ میں نے کہا۔ ابو ہم اکیلے تو نہیں ، چار ہیں۔ آپ ہماری فکر نہ کریں، میں اپنی بہنوں اور بھائی کو سنبھالنے سے نہیں تھکتی۔ وہ بولے میں سارا دن گھر سے باہر رہتا ہوں لیکن تمہاری فکر مجھے پریشان رکھتی ہے۔ تم لڑکیاں بڑی ہو رہی ہو۔ آگے تمہارے بھی تو کچھ مسئلے مسائل حل کرنے ہوں گے۔ اگلے دن وہ ایک عورت کو اپنے ساتھ گھر لے آئے جس کے ساتھ ایک ماہ پہلے انہوں نے نکاح کر لیا تھا۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ، وہ عورت بالکل بھی خوبصورت نہیں تھی۔ جانے ابو نے کیا سوچ کر اس کو بیوی بنالیا تھا۔ جب میری بہن اور بھائی اسکول سے آئے وہ بھی اس عورت کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ ہماری سوتیلی ماں اچھی عورت نہ تھی، ہم پر ہر وقت طنز کے تیر چلاتی تھی۔ ہماری ماں کے چلے جانے کے طعنے بھی ہم کو دیتی۔ ابو نے ہم سے کہا کہ ان کو امی کہا کرو۔ ہمارا ہی نہ چاہتا، پھر بھی کہنا پڑا۔ جوں توں کر کے وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ میں بیس سال کی ہو گئی۔ اس دوران میرے دو سوتیلے بہن بھائی بھی پیدا ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس عورت کے دل میں ہمارے لئے زیادہ سختی آتی گئی۔ اسی اب وہ ہر وقت میرے سامنے ہمارے اوپر کئے جانے والے اخراجات کا رو نا روتی کیونکہ میں بڑی تھی، زیادہ مجھ کو سناتی۔ اپنے بچوں کو جی بھر کے کھلاتی اور ہم بھوکے رو جاتے۔ ایک روز صحن دھو رہی تھی کہ دستک ہوئی، میں ہی دروازے کے قریب تھی ، دروازہ کھول کر دیکھا سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا۔ میں اسے دیکھ کر گھر آگئی۔ اس نے میری سوتیلی ماں کا نام لیا اور بولا۔ خالہ سے ملنا ہے۔ سمجھ گئی کہ یہ ان کا بھانجا ہے۔ ماں کو بتایا۔ وہ اسے بلا کر اندر لے گئیں۔ اس کا نام راحیل تھا۔ کچھ دیر اپنی خالہ کے پاس بیٹھ کر وہ چلا گیا۔ اس کو دیکھنے سے خدا جانے کیوں مجھ کو ڈر سالگا۔ ایسے ہی تو وہ اجنبی بھی آتا تھا، جس کے ساتھ میری ماں چلی گئی تھی۔ کچھ دن بعد دوسری بار وہ آیا، اس نے میری طرف دیکھا، اس کی نگاہوں میں جانے کیا نظر آیا کہ فوراً اپنے کمرے میں بھاگ آئی۔ اب وہ پندرہ دنوں میں آنے لگا۔ اس کے آنے کے بعد سے ماں کارویہ میرے ساتھ اچھا ہو گیا۔ میں سمجھی کہ وہ میری شادی اپنے بھانجے سے کرنے کا سوچ رہی ہیں تبھی مہربان ہو گئی ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ان کی ایک چال ہے۔ وہ عورت جو قسمت نے میری ماں بنا کر اس گھر میں بھیج دی تھی وہی مجھ کو رسوا کرنے والی تھی۔ ایک روز وہ آیا تو ماں نے کہا کہ مہوش تم راحیل کے ساتھ جا کر گھر کا سودا سلف لے آئو۔ گھر میں راشن ختم ہو گیا ہے۔ اس کے والد کی راشن کی دکان ہے۔ ہم کو ادھار پر سود امل جائے گا، جب تمہارے ابو کو تنخواہ ملے گی تو ہم ان کو رقم ادا کر دیں گے۔ میں نے کہا۔ میرے جانے سے ابو ناراض ہوں گے ، آپ ہی چلی جائیں۔ کہنے لگیں۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تبھی تو کہہ رہی ہوں کہ تم چلی جائو۔ ابو تمہارے ناراض نہیں ہوں گے ، ان کے ناراض نہ ہونے کا میراذمہ ہے۔ میں راحیل کے ساتھ چلی گئی۔ اس کے پاس گاڑی تھی۔ وہ مجھے کسی ایسی جگہ لے گیا جس جگہ کو میں جانتی نہ تھی۔ حالانکہ میں نے اسے کہا بھی کہ تم کدھر جارہے ہو، بازار تو ادھر نہیں ہے۔ اس نے کہا میں تم کو ابا جان کے گودام لے جارہا ہوں ، راشن وہاں ہوتا ہے۔ ایک مقام پر وہ رکا تو وہاں مکان سے دو آدمی نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں گھبرا گئی پوچھا۔ یہ کون ہیں ، ان کو کیوں بٹھا لیا ؟ بولا یہ ہمارے گودام میں ملازم ہیں، یہ ساتھ جائیں گے ، ان کو بھی ادھر ہی جانا ہے ۔اب میرا ڈر کے مارے بُرا حال تھا۔ کیا کرتی ، گاڑی کو روکنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی ان آدمیوں نے میرے منہ پر رومال رکھ دیا اورمیں بے ہوش ہو گئی۔ ہوش آیا تو یہ ایک سلیقے سے سجا ہوا گھر تھا، جہاں دو جوان لڑکیاں اور ایک ادھیڑ عمر عورت موجود تھی لیکن کوئی مرد وہاں نہیں تھا اور راحیل کا تو دور دُور تک نام و نشان نہ تھا۔ وہ مجھے تسلی دینے لگیں۔ وہ محبت بھر اسلوک کر کے میرا خوف دور کر رہی تھیں۔ صبح سے شام اور پھر رات ہو گئی اور راحیل نہ آیا۔ دو تین دن اسی طرح روتے گزر گئے۔ بالآخر مجھ کو علم ہو گیا کہ سوتیلی ماں نے راحیل کے ذریعے مجھے اس جگہ فروخت کر دیا تھا کہ جہاں ہونے کا کوئی شریف لڑکی تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں اتنا روئی کہ آسمان بھی پھٹ جاتا تو اس کی اتنی آواز نہ ہوتی۔ کسی نے مجھ پر رحم نہ کھایا۔ صبح ہوئی تو سارا جہان ہی بدلا ہوا تھا۔ دن پر دن گزرتے رہے ، میری اُمید اور اس ٹوٹتی رہی اور پھر کچھ بھی نہ بچا۔ کوئی امید، کوئی آس بھی نہ بچی۔ اب تو برسوں گزر گئے ہیں، میں جوانی کی دہلیز بھی پھلانگ آئی ہوں ، نہیں معلوم میرے والد ، میری بہنوں اور بھائی پر کیا بیتی اور وہ اب کس حال میں ہیں۔ میں جس کرب سے گزرتی رہی ، میں ہی جانتی ہوں۔ جس دن پہلی بار مجھ کو میری عفت کی دولت سے محروم کیا گیا اس دن میں نے اپنی سگی ماں کو دل کی گہرائیوں سے بد د عادی کہ اے خدا وہ جو میری سگی ماں تھی اس کو بھی زندگی کی خوشیاں اور سکھ چین نصیب نہ ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ماں باپ گھنی چھائوں ہوتے ہیں مگر میری ماں تو گھنی چھائوں کی بجائے لو کا گرم تھپیڑا تھی جس کو صرف اپنی خوشیاں اور اپنی ذات پیاری تھی جس نے ہم کو زندگی کے کانٹوں بھرے رستے پر اکیلا چھوڑ دیا اور سوتیلی ماں ماں کے نام پر دھبہ تھی۔ خدا ایسی عورتوں کو ہدایت دے جو غربت سے گھبرا کر اچھے دنوں کی تلاش میں اپنی اولاد کو بھول جاتی ہیں حالانکہ غربت محنت سے دور ہو سکتی ہے مگر رسوائی کی سیاہی اگر کسی لڑکی کی عفت پر لگ جائے تو اس کے عمر بھر آنسو بہانے سے بھی دور نہیں ہو سکتی۔

Latest Posts

Related POSTS