ایک شخص حضرت داؤد طائی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں فلاں صوفی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ شراب پی کر مدہوش پڑا ہے۔ اس کی پگڑی اور جسم کے کپڑے غلاظت سے لتھڑے ہوئے ہیں اور کتے اس کے گرد جمع ہیں۔ داؤد طائی اس کی باتیں سن کر رنجیدہ ہوئے اور فرمایا کہ بھائی سچا دوست آج ہی کے دن کام کرتا ہے جا اور اس صوفی کو وہاں لے آ۔ اس نے بہت برا کام کیا ہے اور صوفیوں کے نام کو بگاڑا ہے۔ حضرت کا ارشاد سن کر وہ شخص مخمصے میں پڑ گیا اور پیچ و تاب کھانے لگا۔ اس کو غلاظت سے لتھڑے ہوئے صوفی کو ہاتھ لگانے سے کراہت آتی تھی لیکن حضرت داؤد طائی کا ارشاد بھی نہ ٹال سکتا تھا۔ آخر طوعاً و کرہاً جا کر اس مدہوش صوفی کو کندھے پر لاد لیا۔ جب بازار سے گزرا تو سارا شہر اس پرامڈ پڑا۔ لوگ طرح طرح کے طعنے دیتے تھے ۔ کوئی کہتا ذرا اس درویش کو دیکھو اس کے تقوی پارسائی اور دینداری کے کیا کہنے ۔ کوئی کہتا کہ آج کے صوفیوں کو دیکھو کہ شراب پئے ہوئے ایک مدہوش ہے اور دوسرا نیم بے ہوش تف ہے ان کی اوقات پر ۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ وہ شخص لوگوں کے طعنے سنتا تھا اور خون کے گھونٹ پیتا تھا ۔ خدا خدا کر کے اس صوفی کی قیام گاہ پر پہنچا اور خود لوگوں سے منہ چھپائے اپنے گھر گیا۔ آج اس کو جو خفت اٹھانی پڑی رات بھر اس کے تصور سے کروٹیں بدلتا رہا۔ دوسرے دن حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے ہنس کر فرمایا۔ گلی کوچہ میں بھائی کی آبروریزی نہ کر ۔ ورنہ زمانہ شہر میں تیری آبرو ریزی کرے گا۔