Friday, October 11, 2024

Saas Ka Insaf

فہد اس شخص کا نام تھا، جس سے میری سہیلی کی شادی ہوئی۔ فہد کی ماں نے ماہرہ کو ایک رشتہ دار کی شادی میں دیکھا تھا۔ میری سہیلی کی عادت تھی کہ وہ بزرگوں سے نہایت ادب سے پیش آتی تھی، ان کی خدمت کرتے نہیں تھکتی تھی۔ اسی عادت کے باعث وہ آنٹی کی نظروں میں آگئی۔ تقریب میں اس نے آنٹی کا خیال رکھا تھا۔ تبھی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس لڑکی کو اپنی بہو بنا کر رہوں گی۔ شادی کی تقریب کے بعد جب آنٹی گھر لوٹیں تو بیٹے کے سامنے ماہرہ کی بے حد تعریف کی اور اُسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا لیکن نئے زمانے کے نوجوان نے ماں سے کہا۔ امی جان ! جس لڑکی سے بھی آپ میری شادی کریں، میں پہلے اس سے ملوں گا۔ اگر وہ میرے دل کو بھائی تب ہی اس سے شادی کروں گا ورنہ نہیں۔ میرے دیکھے بھالے بغیر میری شادی مت طے کیجئے گا ورنہ آپ کو پچھتانا پڑے گا۔ ماں نے ان باتوں کو ایک ناسمجھ نوجوان کی نامعقول خواہش قرار دیا اور کہا۔ بیٹے کون ماں باپ ایسے ہوں گے جو اس بات کی اجازت دیں گے کہ ان کی بیٹی شادی سے قبل کسی آدمی سے ملے۔ فرض کرو کہ وہ نوجوان لڑکی کو پسند نہ کرے تو اس لڑکی پر کیا گزرے گی۔ تمہیں میری پسند پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ غرض ماں نے ایسے دلائل دیئے کہ فہد چپ ہو گیا مگر دل سے وہ اپنی خواہش سے دستبردارنہ ہوا۔ اس کے من میں یہ خلش رہی کہ لڑکی کو ایک نظر دیکھے بغیر ، بیوی کے روپ میں کیونکر قبول کرے گا؟ فہد کی ماں اسے جلد از جلد بیاہنا چاہتی تھیں، تبھی بغیر وقت ضائع کئے وہ اس کا رشتہ طلب کرنے خالہ جی کے گھر گئیں۔ خالہ نے بھی اچھا رویہ اختیار کیا کیونکہ آج کل میں گھر بیٹھے لڑکیوں کے اچھے رشتے ملنا بہت مشکل ہیں۔ خالہ جی نے بھی فہد کو اسی شادی کی تقریب میں دیکھ لیا تھا۔ لڑکا اُن کو پسند آیا تھا، لہذا انہوں نے آنٹی کی خواہش کو ٹھکرایا نہیں لیکن فہد کو جب معلوم ہوا کہ ماں رشتہ طے کر آئی ہے تو وہ شور مچانے لگا، مگر آنٹی نے چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ کر ڈالا۔ آنٹی نے شادی کے لئے بھی اتنا کم عرصہ رکھا کہ وہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ فہد اس دوران بھی ماں سے یہی اصرار کرتا رہا کہ ابھی بھی وقت ہے ، لڑکی سے مجھے دو گھڑی کو ملوا د و۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ اگر مجھ کو لڑکی پسند نہ آئی تو دیکھ لینا، میں اسے چھوڑ کر اپنی پسند سے شادی کر لوں گا۔ ارے احمق ! میرا تجربہ ، تجھ ناقص عقل والے سے زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تو نے پسند سے شادی کی ، تو ضرور دو دنوں میں ہی معاملہ چوپٹ ہو جائے گا پھر تو ہی ہاتھ ملے گا کہ ماں صحیح کہتی تھی۔ آخر کار ماں جیت گئی اور بیٹا ہار گیا۔

ماہرہ میری بچپن کی سہیلی تھی۔ میں خوب جانتی تھی کہ وہ نہ صرف گنوں میں پوری تھی بلکہ خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرتی میں بھی لاکھوں میں ایک تھی۔ آنٹی نے بیٹے سے یقین کے ساتھ کہا کہ دیکھ لینا، بہو تم کو ضرور پسند آئے گی۔ پسند نہ آئے تو پھر بات کرنا۔ اس یقین بھرے لہجے پر فہد چُپ ہو گیا۔ اب دولہا بنے بنا چارہ نہ تھا۔ ماں تاریخ بھی رکھ آئی تھی۔ جب ماہرہ بہو بن کر اس کے گھر آئی تو فہد کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ وہ دُلہن کے ہر روپ کا دیوانہ ہو گیا، ماہرہ کو سو فیصد نمبر ملے۔ وہ نہ صرف صورت شکل کے لحاظ سے نمبر ون تھی بلکہ عادات کے لحاظ سے بھی بے حد اچھی اور شائستہ لڑکی تھی۔ اس نے سسرال میں قدم رکھتے ہی ہر کسی کے دل میں گھر کر لیا۔ شادی کے ابتدائی دن تو ایسے گزرے کہ جیسے بہار کا جھونکا۔ پتا بھی نہ چلا وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ شادی کے سال بعد پہلا بیٹا اشعر گود میں آگیا۔ گھر میں رونق بڑھی اور خوشیاں بکھر گئیں۔ دادی واری صدقے ہونے لگی اور فہد تو بیٹے پر جان فدا کرتا تھا۔ بیوی بھی پہلے سے بڑھ کر پیاری ہو گئی۔ فہد کا اپنا بزنس تھا۔ خوب کما رہا تھا۔ گھر میں خوشحالی تھی۔ اس نے کافی ملازم رکھے ہوئے تھے۔ ایک دو بار ماہرہ بھی فہد کے آفس جا چکی تھی، جہاں اس کے پر سنل سیکرٹری کے طور پر ایک سمجھ دار برد بار قسم کے حضرت براجمان ہوتے تھے۔ غرض میاں صاحب کے آفس کا ماحول ایسا نہ تھا کہ وہ پریشان ہوتی۔ دراصل ایک گھریلو ملازم کو فہد سے کچھ رنجش تھی، سو اس نے ماہرہ کے دل میں شوہر بارے کچھ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہوا یوں کہ وہ اپنے گھر میں خوش اور مطمئن زندگی گزار رہی تھی کہ ایک دن آفس سے کسی نے اسے فون کیا اور کہا۔ میڈم ! میں یہاں ملازم ہوں۔ آفس کے باہر سے فون کر رہا ہوں کیونکہ بروقت آگاہ کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔ آپ کسی دن صاحب کے آفس کا ضرور چکر لگایئے۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور آپ کو نقصان ہو۔ یہ عجیب و غریب قسم کا فون کس نے کیا تھا؟ نام تک نہ بتایا۔ ماہرہ نے کوئی اہمیت نہ دی لیکن جب تین بار یہی فون آیا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ممکن ہے فہد کے آفس میں کوئی اچھا آدمی ہو، کوئی خیر خواہ ہو جو ہم کو کسی نقصان سے بچانا چاہتا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی کاروباری مخالف پریشان کرنے کو فون کرتا ہو۔ یوں ایک روز وہ بغیر اطلاع شوہر کے آفس چلی گئی۔ بہانہ کیا کہ طبیعت خراب تھی، آپ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ آپ کے پاس ٹائم نہیں ہے تو اپنی گاڑی اورڈرائیور دے دیجئے۔ فہد نے خوش اخلاقی سے حسب معمول بیوی کی آئو بھگت کی، اہمیت دی۔ محسوس نہیں ہونے دیا کہ اس کا یوں چلے آنا، کس قدر بارِ خاطر ہوا ہے۔

ماہرہ نے بغور ہر شے کا مشاہدہ کیا تو ایک بات نے اُسے چونکا دیا۔ اس بار آفس میں ایک نئی لڑکی کا اضافہ ہو چکا تھا اور یہ اس کے خاوند کی پرسنل سیکرٹری تھی۔ اُسے سب سے زیادہ تعجب اس لڑکی کم عمری پر ہوا اور جلد ہی اس نے لڑکی کے چہرے کے تاثرات سے محسوس کر لیا کہ اس کو ماہرہ کے آنے سے دلی تکلیف ہوئی ہے۔ تاہم ماہرہ خاموش رہی اور کسی قسم کے رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ لڑکی گرچہ خوبصورت اور کچھ اضافی خوبیوں کی مالک ہے مگر بہت حساس اور جذباتی بھی ہے تبھی تو اس کے دل کی کیفیت چہرے سے عیاں تھی اور چہرہ تو دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس نے گھر آکر اس بارے سوچا، لیکن کسی منفی خیال یا شک و شبہ کو دل میں جگہ دے کر خود کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس معاملہ کو در گزر کر دینے میں ہی عافیت جانی۔ کیا جانتی تھی کہ فہد تو پہلی ہی نظر میں ماریہ کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ اس لڑکی میں نوخیزی کے ساتھ ، بلا کی کشش تھی۔ سابقہ سیکرٹری صاحب بیماری کی وجہ سے چلے گئے تھے، سو فہد نے ماریہ کو ہی اپنی پرسنل سیکرٹری بنالیا۔ گرچہ اُسے ابھی آفس کے کام کی سمجھ نہ تھی لیکن کیا فرق پڑتا تھا۔ دل کے سودے تو ہوتے ہی عجیب و غریب ہیں۔ ماہرہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کبھی وہ لمحہ بھی آجائے گا کہ یہ دھان پان سی انجان لڑکی ، اس کی زندگی میں بھونچال لانے کا سبب بن جائے گی۔ تھوڑے دن گزرے کہ فہد صاحب دیر سے گھر آنے لگے اور بیوی کے اِس سوال سے خفا ہونے لگے کہ آج آپ اتنی دیر سے کیوں آئے؟ ماہرہ مجھ سے ایسے سوال مت کیا کرو۔ الجھن ہوتی ہے، بزنس کرتا ہوں تو دیر سویر ہو جاتی ہے۔ اتنا شفیق، اس قدر مہربان، پیار کرنے والا شوہر ، اب اچانک اس طرح سے پیش آنے لگا تھا۔ وہ حیران تھی آخر ماجرہ کیا ہے۔ وہ مثبت سوچ کی حامل لڑکی تھی تبھی حقیقت کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔ اسے منفی رنگ سے دیکھنا نہ چار ہی تھی، لیکن کوئی جب کھلم کھلا اپنی شریک حیات سے بے اعتنائی برتنے لگے تو بے وقوف بیوی کے بھی ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ فہد کی مسلسل سرد مہری سے ماہرہ کا ماتھا ٹھنک گیا۔ اس نے شوہر سے سیدھے سبھائو ہی ماریہ کے بارے سوال کر دیا۔ فہد بھی دنوں سے اسی بات کا منتظر تھا۔ اُسے کس کا ڈر تھا، صاف صاف ماہرہ کو بغیر لگی لپٹی بتادیا کہ وہ اپنی سیکریٹری ماریہ سے دوسری شادی کر رہا ہے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ تمہیں رہنا ہے تو رہو، میں تمہارے حقوق میں کمی نہیں کروں گا ۔ اگر نہیں رہ سکتیں تو بے شک آزاد ہو، جہاں چاہو جاسکتی ہو۔ یہ باتیں ماہرہ کے دل پر تیر کی طرح لگیں۔ تاہم وہ تحمل سے سنتی رہی۔ روئی اور نہ پیٹی ، نہ چیخی چلائی بس ٹکر ٹکر شوہر کی صورت کو دیکھتی رہی۔ صبح ہوئی تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ساس نے پوچھا۔ بہو کیا بات ہے ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ کیوں آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔ اپنے بیٹے سے پوچھئے ، وہ اور شادی کر رہے ہیں۔ اس نے بھی بنا لگی لپٹی بتا دیا۔ ماں نے بیٹے کی خبر لی مگر وہ اپنی بات پر اڑ گیا۔ اس پر آنٹی بھڑک اُٹھیں، کہا۔ فہد کچھ تو خُدا کا خوف کرو۔ ایسا تو کبھی ہماری پچھلی سات پشتوں میں نہیں ہوا۔ آخر ماہرہ میں کیا کمی ہے ؟ اس کا قصور تو بتائو۔

آماں دوسری شادی گناہ نہیں ہے، ہمارے یہاں تو چار جائز ہیں۔ میں دوسری کر کے کون سا انوکھا کام کر رہا ہوں۔ آپ سے میں نے کہا تھا کہ میری شادی جس لڑکی سے طے کریں پہلے مجھ سے ملوا دینا ورنہ میں دوسری شادی ضرور کرلوں گا۔ اب مجھے ایک ایسی لڑکی مل گئی ہے جو ہر لحاظ سے مجھ کو پسند ہے۔ آپ کی پسند کی لڑکی اس گھر میں بہو بن کر آسکتی ہے تو میری کیوں نہیں ؟ آنٹی ، ماہرہ سے پیار کرتی تھیں وہ بیٹے کی لن ترانیاں سُن کر رونے لگیں۔ بیوی بھی رو رہی تھی مگر ان دونوں عورتوں کے آنسوئوں کا فہد پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے کہا۔ ماں میں چوری چھپے تو شادی نہیں کر رہا۔ اس کا بیٹا اشعر پریشان تھا۔ وہ پوچھ رہا تھا۔ امی ابو اور دادی جان آپ سب کیوں لڑ رہے ہیں۔ کچھ مجھے بھی بتائیے۔ کچھ نہیں بیٹا! تم اوپر اپنے کمرے جاؤ۔ ماہرہ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور لے گئی، تبھی فہد نے ماں کی منت کی کہ غصہ نہ کرو۔ دیکھو میں ماہرہ اور بچے کی سرپرستی سے تو ہاتھ نہیں اٹھا رہا۔ ان کے حقوق پورے ان کو ملیں گے۔ اللہ کا شکر ہے اتنا کما لیتا ہوں کہ دوگھروں کا خرچہ آسانی سے اٹھا سکتا ہوں۔ تبھی آنٹی نے آنسو پونچھ کر بات ختم کی کہ بیٹے تم خود مختار ہو ۔ میرا کام تو تم کو غلطی سے روکنا ہے۔ تم کو ماہرہ سے اچھی بیوی نہیں ملے گی۔ نئی لڑکی چار دن کی چاندنی کی طرح ہو گی۔ یہ بات یادرکھنا کہ سکون بڑی چیز ہوتا ہے اور سکون دو سے نہیں ایک ہی بیوی سے ملتا ہے۔ ایک بات اور سُن لو ! میری بہو ماہرہ ہی ہے ، میں کسی دوسری کو اس کی جگہ نہیں دے سکتی۔ یہ کوٹھی میرے نام ہے۔ تمہارے والد نے تمام جائیداد، روپیہ پیسہ، گاڑی، بزنس سب میرے نام پر رکھا، میں سب اپنی بہو ماہرہ کے نام کر رہی ہوں۔ تم شوق سے دوسری شادی کا ارمان پورا کرو۔ جا کر ماریہ کو بتادو کہ ماں نے تمام جائیداد بڑی بہو کے نام کر دی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ تم سے محبت کرتی ہے تو بے شک تم اس سے شادی کر لو۔ اُسے لے کر الگ گھر میں رہنا، میرے گھر مت آنا۔ آنٹی نے اپنا سخت فیصلہ سنادیا۔ فہد جانتا تھا ماں ایسے ہی خالی خولی دھمکیاں نہیں دیتی، جو کہتی ہے کرتی بھی ہے۔ میں چلا جاتا ہوں۔ آپ کی مرضی ، جو چاہیں، جس کو دیں۔ آپ کی ملکیت ہے ، میں خود کما کھالوں گا۔ ٹھیک ہے تو جائو۔ خُدا جانے تمہاری عقل کہاں چلی گئی ہے ، جو بیوی بچے کو بھی چھوڑے جارہے ہو۔ کل تک ماہرہ خود کو ایک خوش قسمت عورت سمجھتی تھی لیکن اب یہ نقب کہاں سے لگ گئی ؟ وہ سوچنے لگی۔ شادی کے بعد تو کبھی فہد نے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ ماہرہ کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ اُسے پسند نہیں کرتا پھر اچانک یہ بات کیوں اسے یاد آگئی ؟ سچ ہے مرد کا اعتبار نہیں۔ کبھی بھی کوئی بھی عورت اُسے بھا سکتی ہے اور اس کے دل کو لبھا سکتی ہے۔ وہ اپنی بے قصور بیوی پر سوکن لاسکتا ہے۔ اس کے بعد جب فہد ایک ماہ بعد گھر آیا تو ماریہ سے شادی کر چکا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ ماریہ اس کی بیوی ہے اور ماہرہ کو اسے قبول کرنا ہی ہو گا، سو کر لیا گیا قبول، مگر ساس نے سب اثاثہ اور جائیداد کی مالکن ماہر ہ کو ہی بنائے رکھا۔

Latest Posts

Related POSTS