دس مرلے کا یہ گھر ، جس کے ایک طرف کمرے، آگے برآمدہ اور بڑا سا صحن تھا اور اس پر مکمل طور پر نصرت بیگم کی اجارہ داری تھی۔ اولاد پر تو رعب تھا ہی، اب دونوں بہوؤں کو بھی خوب ہی دبا کر رکھا ہوا تھا۔ مجال تھی جو ان کے کسی کام میں کوئی کوتاہی ہو ، وقت پر ناشتہ ، کھانا اور استری شدہ کپڑے ، ان کے اپنے اصول ، قاعدے اور قانون تھے جو آتے ہی دونوں بہوؤں کو از بر کروا دیے گئے تھے۔ لیکن ان سے چوک تو تب ہوئی جب تیسری بہو گھر آئی ۔ ان کی اکلوتی بہن کی نازوں پلی بیٹی ، جس کے ساتھ ٹرک بھر کر جہیز آیا تھا – دونوں نندوں کو سونے کے سیٹ ، نصرت بیگم کو جڑاؤ کنگن اوربھابیوں کو ہیروں کے ٹاپس روشان کو امریکہ کا ویزا ۔ حالانکہ روشان نے شروع میں بڑا ہنگامہ مچایا تھا کہ وہ اتنی صحت مند ، گول مٹول سی آئمہ سے قطعاً شادی نہیں کرے گا لیکن نصرت بیگم کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی تھی۔ امریکہ میں پلی بڑھی ہے خالص خوراکیں کھا کر جوان ہوئی ہے یہاں کی لڑکیوں جیسی مریل نہیں ہے – یہ صاف ثانیہ اور بھابھی کی ا سمارٹ نیس پر چوٹ کی گئی تھی۔ ماں وہ مجھ سے دو انچ لمبی بھی ہے ۔ لیکن بصیرت بیگم اس کا ایک بھی اعتراض خاطر میں نہ لائی تھیں – اور اب روشان اپنی بیوی کے آگے پیچھے یوں گھوم رہا تھا کہ سب گھر والے حیران تھے – چونچلے تھے کہ ختم ہونے کو ہی نہ آ رہے تھے- ثانیہ شادی والے گھر کا پھیلاوا سمیٹ سمیٹ کر تنگ آ چکی تھی۔ اس گھر میں تو لگتا ہے بس ایک میں ہی میزبان ہوں۔ باقی سب مہمان آئے ہوئے ہیں۔ صبح سے کام کر کر کے کمر اکڑ گئی – کبھی یہ تو کبھی وہ – فرمائشوں کی لمبی لسٹ ہر کوئی ماتھے پہ سجا کہ گھوم رہا ہے۔ ثانیہ نے با آواز بڑ بڑاتے ہوئے شزا کے منہ میں فیڈ ٹھونسا تھا۔ بھابھی ایک کپ چائے بنا دیں ۔” ٹک ٹک پہلے دروازہ بجا تھا اور پھر شانی کا چہرہ مع فرمائش نمودار ہوا۔ بڑی بھابھی سے کہہ دو۔” وہ تو دعا کی میڈیسن لینے گئی ہیں۔ فیور ہو رہا تھا اسے ۔ اچھا آ رہی ہوں ۔ “لبوں پر کئی جملے آتے آتے رک گئے ۔ اندر ہی اندرجلتے ہوئے اس نے کچن کا رخ کیا۔ لاؤنج میں ہنوز محفل جمی ہوئی تھی۔ اپنی دوعدد بہنیں تو نظر ہی نہیں آتیں اور اس نازنین کے ہاتھوں کی مہندی تو نہ جانے کب اترے گی۔ چائے کا پانی چوہلے پہ رکھا ہی تھا کہ روبی نے کچن میں جھانکا – میں چائے کا کہنے آئی تھی ساتھ نگٹس تل لینا اور آجاؤ تم بھی ، لاؤنج میں خوب محفل گرم ہے۔ وہ کہہ کرغائب ہوگئی۔ لوجی اب کہاں کا آرام – ” دو کی بجائے دس کپ بنا کر لاؤنج میں آئی۔ محفل خوب عروج پرتھی ہنی مون پہ جانے کا پروگرام فائنل ہو رہا تھا اور جب اس نے سنا کہ ناران کاغان جانے کا پروگرام بن رہا ہے اس کا تو دماغ ہی کھول اٹھا تھا۔ اپنے ادھورے تشنہ خواب خوب انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تھے۔ کچھ سنا آپ نے ناران کاغان کی سیر کے پروگرام بن رہے ہیں اور ہماری دفعہ تو آپ کی امی کو ہنی مون کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کیا آپ ان کے اکلوتے تھے جنہیں خوب پلو سے باندھ باندھ کر رکھا یہ ساری پابندیاں اصول قاعدے ہمارے لیے، باقی تو عیاشیاں کرتے پھر رہے ہیں۔” ثانیہ کا غصّہ کسی طور کم نہیں ہور ہا تھا۔ کتنی خواہش تھی اس کی پہاڑوں کی سیر برف باری کا موسم اور خوب صورت نظاروں کو قریب سے دیکھنے کی لیکن ساس نے کہہ دیا کہ وہ تو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دیں گی – اور اب بھانجی کو کھلی اجازت تھی – امریکن پلس جو تھی ، اب بہو جو جینز ٹاپ میں گھوم رہی ہے تو ابو کے خاندانی وقار پر کوئی حرف نہیں آ رہا اور میں نے جو چوڑی دار پاجامہ پہن لیا تھا تو کہہ دیا ہمارے گھرانوں میں عورتیں ایسا لباس نہیں پہنتیں ۔ ثانیہ کا ایک ایک ٹانکا ادھررہا تھا ، ساری پرانی باتیں یاد آ رہی تھیں –
اسے تو شادی کے ایک ہفتے بعد ہی سونے ، جاگنے کے اوقات رواج ، اصول قائد لکھا پڑھا دیے گئے تھے اور پھر اسے بھابھی کے نقش قدم پر چلنا تھا اور بھا بھی جو تھیں ۔ اللہ میاں کی گائے مجال ہے جو پیشانی پہ بل بھی پڑ جائے۔یا کسی کام میں پیچھے رہ جا ئیں ۔ سلمیٰ جیسی بہو تو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ کی کہ روحی کی شادی بھابھی کے بھائی سے ہوئی تھی تو وہ ایک دوسرے کا بھرم سنبھالے بیٹھی تھیں۔شادی کے ابتدائی دنوں میں وہ بڑی خوش ہوتی تھی کہ چلو ڈائینگ ٹیبل پر کھانا لگتا ہے۔دو تین ڈشس بنتی ہیں۔ میٹھے میں بھی ضرور ایک ڈش ہوتی ہے اور بعد میں جب یہ مشقت طلب کام خود کرنا پڑا تو اسے جی بھر کر کوفت ہوئی۔ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ ابھی گھر میں مہمان وغیرہ موجود ہیں یا پھر وہ نئی نئی دلہن ہے تو شاید اس کے اعزاز میں یہ سب اہتمام کیا جاتا ہے لیکن کھانے کی میز پر دو افراد کیوں نہ ہوں۔ ڈش میں چاول،ڈونگوں میں سالن سیلڈ ، رائتہ اور میٹھے کا ڈونگہ، کٹوریاں الگ ۔ اتنے برتن دیکھ کر اسے جو ابال اٹھتے وہ الگ کہانی تھی۔ نصرت بیگم کو صبح سات بجے ناشتہ چاہیے اور یہ ذمہ داری اس کی تھی۔ اس وجہ سے صبح دیر تک سونے کی عیاشی ختم – پھر بڑی نند نے پوچھ لیا۔سلائی آتی ہے۔ اس نے جھٹ نفی میں گردن ہلائی کہ یہ تو آ بیل مجھے مار والا معاملہ تھا۔ لیکن روحی تو کہہ رہی تھی تم نے کورس کر رکھا – پر بعد میں پر ٹیکس نہیں کی تو بھول گئی ۔” اس نے بمشکل جان چھڑائی لیکن نازی کو اپنی منوانے کی عادت تھی۔ تو اس میں کیا مشکل ہے۔ گڑیا اور کرن کے کپڑوں پر پریکٹس کر لینا۔ ” نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اگلے روز د و شاپر بھیبھجوا دیے – اب وہ بڑی خوش تھی کہ چلو چار دن آئمہ بھی میں عیش کر لے — پھر وہ دو پہر کا کھانا اور صبح کے بر تن اس کےذمے لگا ئیں گی مگر وہ تو اماں کی بھانجی تھی نا وہ بھی امریکن پلٹ۔ ہنی مون سے واپس آ کر بھی اس کے ہاتھوں کی مہندیگیلی ہے رہی – نہ اس سے میٹھا چٹوائی کی رسم ہوئی اور نہ اس نے کسی کام کو ہاتھ لگایا۔ اور نہ ہی اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی گئی۔ ساس نے مہمان مہمان کہہ کر اس کا بھرم بنائے رکھا۔ دونوں بہنیں اپنے سسرال سدھاریں تو کچھ روٹین سیٹ ہوئی تھی۔ اب سارا دن گھر کے کام وہ اور بھابھی مل کر نمٹا لیتی تھیں۔ لیکن اس نے ساس کو ہمیشہ بھی بھابھی کا طرف دار دیکھا تھا۔ ہر آئے گئے کے سامنے ان کی تعریفوں کے پل ہوتے ۔ خاندان میں کوئی تقریب ہو یا شادی ہر جگہ بھابھی کو ساتھ لے کر جاتیں۔ بھائی کے بچوں کے کپڑے برانڈ اوربوتیک سے لیے جاتے اور اسے عام سے بازار سے لا کر دے دیتیں کہ بھابھی کامیاں یونان میں سیٹ تھا اور زیادہ کماتا تھا۔ جب سے روشان امریکہ گیا تھا۔ گھر میں سب کے خرچے لگا دیے گئے تھے کہ گھر میں تینوں بھائیوں نے دینے ہیں۔ اب ساس کی نا انصافیاں کھلنے کی تھیں۔ شایان سب دیکھ رہا تھا مگر کیا کرتا وہ یونان سے ڈی پورٹ ہو کر آچکا تھا یہاں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل رہی تھی۔ اس نے شانی سے بات کی تو اس نے اپنے رونے شروع کر دیے تھے پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد یقین دلایا کہ وہ سیٹ ہوتے ہی اسے بلائے گا۔ لیکن لگتا تھا اس کا اگلے دس سال بھی سیٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وہ ابھی خود اپنے سسرکے زیر کفالت تھا۔ شایان نے ایک دوست سے پیسوں کا بندو بست کیا۔ کچھ ثانیہ کے گھر والوں نے ارینج کروا دیا تھا اور دبئی چلا گیا۔ بھائیوں اور ماں سے اس کا دل بہت بدظن ہوا یونان سے سات سال اس نے کما کر جو بھیجا تھا۔ وہ نصرت بیگم نے دونوں لڑکیوں کو ٹرک بھر کر جہیز دے دیا تھا یا پھر اپنے جوڑے، زیور اور کھانے پینے کی عیاشیوں میں اڑادیا تھا۔ شایان نے سوچ لیا تھا اب وہ گھر پیسے نہیں بھجوائے گا۔ اور جب اس نے گھر پیسے نہیں بھجوائے تھے تو اب ایک نیا محاز کھل گیا تھا۔ کام والی جانے خود چھوڑ گئی تھی یا نصرت بیگم نے ہی آنے سے منع کر دیا تھا۔ آئمہ کے گھرآنے والی پہلی خوشی سے سارا گھر خوش تھا جیسے اس گھر میں پہلا بچہ آنے والا ہو۔ اس کو تو ساس نے ہتھیلی کا چھالا بنا رکھا تھا۔ ہر کام کے لیے اب اسے ہی آواز لگتی تھی جب بھی کام کا ٹائم ہوتا بھابھی اپنا پھیلاوا پھیلا کر بیٹھ جاتی تھیں بھی الماری سیٹ کرنے لگ جاتیں یاں بچوں کو پڑھانے بیٹھ جاتیں یا محلے کے دورے پر نکل جائیں۔ ابھی بھی شام کے برتن دھو کر وہ کمرے میں جانے کا سوچ ہی رہی تھی جب آئمہ کی آمد ہوئی۔ بھابھی مجھےمینگو ملک شیک بنا دو۔ کھانا تو مجھے سے کھا یا ہی نہیں جارہا۔ عجیب سی طبیعت ہورہی ہے۔” فریج میںدودھ اور مینگو موجود ہیں اور بلینڈر وہاں رکھا ہے۔ وہ کہہ کر کچن سے نکل آئی تھی غصّے سے اس کا تیرہ سرخ ہورہا تھا چلو ساس کے اضافی کام تو وہ کر دیتی تھی اب کیا ہر کسی کی نوکر بن جائے وہ بھی گھر کی بہو ہے اس کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ پر کون سی ذمہ داریاں ؟؟ نصرت بیگم نے تو اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی ہی نہیں ۔ تو کیا وہ اتنی بیوقوف تھی۔ اسے خود یہ حیرت ہوئی اور اگلے ہی لمحے اس نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اپنے حق کے لیے انگلی ٹیڑھی کرنی پڑے گی۔ پھر اگلے روز وہ بھی آرام سے دیر تک سوئی تھی۔ اٹھ کر کچن میں جھانکا گھر کے سب افراد ناشتہ کر چکے تھے سوائے آئمہ کے وہ شاید اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ لیکن اس نے بھی اپنا اور شزا کا ناشتہ بنایا اور لے کر کمرے میں چلی آئی یہ برتنوں کے ڈھیر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے محض اپنے برتن دھوئے تھے۔ اور پھر تو گویا یہ سلسلہ ہی چل نکلا تھا۔ ایک ایک کر کے اس نے سارے کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا تھا – گھر میں کوئی بھی نہ بولا اس لیے کہ جب ماسی نکالی ہے نصرت بیگم نے تو پھر سب اپنا اپنا کم خود کریں – ثانیہ کے دن بھی پھرنے والے تھے کیونکہ اس کے شوہر نے دبئی میں قدم جمانے کے بعد اپنی فیملی کو دبئی بلوانے کا فیصلہ کر لیا – نصرت بیگم نے خوب واویلا مچایا پرانکی ایک نہ چلی – آئمہ کی زندگی کے بھی سنہرے دن اب نصرت بیگم کو بوجھ لگنے لگے – بڑی بھابھی اپنے موڈ کی تھیں ثانیہ کے جاتے ہی انہوں نے بھی اپنا کچن الگ کر لیا – یوں گھر کی ساری ذمہ داری اب نصرت بیگم کے سر آ گئی – آئمہ کوئی کم نہ کرتی تھی نہ اس کو عادت تھی – گھرہر وقت گندا رہنے لگا – نندوں کو بھی پروٹوکول ملنا بند ہو گیا آخر ان کی خدمت اب کون کرتا ثانیہ تو تھی نہیں – یوں جہاں ثانیہ کی زندگی میں دبئی آ کرسکون آیا وہیں نصرت بیگم الجھ گئیں – اب ان کو رہ رہ کر ثانیہ کی قدر آ رہی تھی کہ انہوں نے ثانیہ کی پرواہ نہ کی – ثانیہ کی شوھر نے ہی اپنی بہنوں کی بھی شادیاں کیں لیکن ثانیہ نے آج تک نہ جتلایا تھا – بیٹا بیروزگار کیا ہوا نصرت بیگم نے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں گویا وہ ہمیشہ سے مفت کی روٹیاں توڑتا آیا ہے – ثانیہ کی قدر نصرت بیگم کو بہت دیر سے آئی – ثانیہ نے گڑیا اور کرن کو اسکول ڈالا اور خود بھی ٹیچنگ کر لی – زندگی اور آسودہ ہو گئی – دونوں میں بیوی مل کر کمانے لگے – نصرت بیگم بس آہ بھرتی رہ گئیں کہ انہوں نے ہیرے کی قدر نہ کی –