Friday, February 14, 2025

Saaye Aur Sachaiyan

ہوش سنبھالا تو گھر میں عجیب ماحول دیکھا۔ والد صاحب کا رویہ بہت ترش تھا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں سے بھی ان کے تعلقات کشیدہ تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا کہ وہ اپنے بوڑھے والد کی بھی پروانہ کرتے بلکہ ان کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے۔ یہی حال امی کا تھا۔ وہ ضعیف سسر کو جان بوجھ کر تنگ کرتیں۔ تمام دن کھانا نہ دیتیں حتیٰ کہ شدید گرمی میں پنکھا بند کر دیا کرتیں۔ وہ ناتوانی کے سبب بار بار اٹھ کر پنکھا نہ چلا پاتے، تب میں ٹیبل پر چڑھ کر پنکھا آن کر دیتی تھی۔

ایک دفعہ امی نے کئی دنوں کے رکھے گندے گلاس میں پانی بھر کر دادا کو دے دیا۔ گلاس شربت والا تھا، اس میں چیونٹیاں پیندے میں لگی تھیں۔ دادا نے پانی پیا تو چیونٹیاں ان کے گلے میں لگ گئیں۔ تب وہ تکلیف سے کراہنے لگے۔ میری ماں دوپٹے کا پلو منہ پر رکھ کر خوب ہنسیں۔ میں، حالانکہ سات برس کی بچی تھی، پھر بھی مجھے ماں کی اس حرکت پر غصہ آیا اور دکھ سے آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ ایک ضعیف انسان سے کیسا انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ ناتوان مجبور تھی، ان کو کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ ستم یہ کہ میری والدہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے بہت فخر کے ساتھ اپنی سہیلیوں سے اس بات کا چرچا کیا کرتی تھیں۔ اور پھر یہ بات کرتے ہوئے ان کی ہنسی چھوٹ جاتی جیسے وہ کوئی لطیفہ سنا رہی ہوں۔

والد صاحب کوئی کام نہ کرتے تھے۔ چچا کمائی کر کے ان کو تنخواہ دے دیتے اور وہ بڑے بھائی کی حیثیت سے گھر چلاتے۔ والد کے نکمے پن اور مفت کے رعب جمانے سے تنگ آکر میرے دونوں چچا الگ ہو گئے۔ یوں میرے والد تنہا رہ گئے۔ تب ماں کو بھی تنگ دستی نے گھیرا۔ بولیں،  تم نے جو بھائیوں کی کمائی پر بڑی دھونس سے گھر میں اپنی چودھراہٹ قائم کیے رکھی، تو اب دیکھ لو نتیجہ! گھر میں دال روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اب خود کماؤ یا کہیں سے چوری کر کے لاؤ، مگر ہمارا پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے۔ اب بولو، کیا کریں گے؟

والد صاحب کا رویہ میرے ساتھ شروع سے عجیب سا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی زبان سے بیٹی نہیں پکارا۔ محبت اور شفقت تو دور کی بات، ہمیشہ بیزاری سے دیکھتے تھے جیسے ان کو گھر میں میرا وجود گوارہ نہ ہو۔

دادا، چچاؤں سے ضرور مجھے پیار ملا۔ ننھیال والے تو مجھ پر جان نچھاور کرتے تھے، مگر والد کی بے رخی میرے معصوم دل کو ٹھیس پہنچاتی تھی۔ پیار کی تلاش میں ننھیال کے دامن میں جا چھپی، مگر پھر یوں ہوا کہ ننھیال میں ایک روز ناگہانی ہو گئی۔ موت نے وہاں تباہی مچادی۔ میرا اکلوتا ماموں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی موٹر سائیکل کے حادثے میں موت کی آغوش میں چلا گیا۔نانا اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور وہ بھی بیٹے کے پیچھے شہرِ خموشاں میں جا بسے۔ وہ دو لڑکیوں اور بیوہ کو دنیا کے بے رحم تھپیڑوں کے حوالے کر گئے۔

نانا وراثت میں کافی زمین چھوڑ گئے تھے جو بیٹیوں اور بیوہ کی گزر بسر کے لیے کافی تھی۔ میری نانی سیدھی سادی پرانی وضع کی عورت تھیں، لیکن ان کے برعکس امی کافی ہوشیار اور چالاک تھیں۔ جب انہوں نے اپنی ماں اور دونوں چھوٹی بہنوں کو ابتلا کی گھڑیوں میں گھرا ہوا دیکھا، بھاگم بھاگ میکے پہنچیں اور ماں بہنوں کی دل جوئی میں لگ گئیں۔ والد صاحب بھی ان کے ساتھ شریک ہمدردی ہو گئے۔

دراصل یہ دونوں مالی حالات کی وجہ سے ان دنوں اشد پریشان و بدحال تھے۔ اب نانا کی وراثت پر ان کی آئندہ زندگی کا دارومدار تھا اور انہوں نے میری نانی اور خالاؤں کی زمین ہتھیانے کا پروگرام بنا لیا تاکہ ان کی اپنی گزر بسر کی مستقل سبیل نکلے۔ نانی کو مشورہ دیا کہ ہونی ہو چکی ہے۔ اب نہ تو تمہارا سہاگ رہا ہے اور نہ بیٹا۔ لڑکیاں تمہاری دونوں ناسمجھ ہیں، سو وہ تمہارا دست و بازو کب بن سکتی ہیں؟ الٹا لالچی لوگ تم کو گھیر لیں گے۔ بہتر ہے کہ زمین کا انتقال کروا لو۔

نانی بےچاری ان مسائل کو کیا جانتی تھیں۔ انہوں نے کہا، “بیٹا، اب تم ہی کچھ رہنمائی کرو۔ ہم عورتیں کہاں خوار ہوتی پھریں گی؟” کچھ دنوں بعد، میری بھولی بھالی نانی کو امی اور ابو نے بتایا کہ زمین کے انتقال کے سلسلے میں انہیں تحصیل دار کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہ دھوکہ تھا کیونکہ وراثت کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ تاہم ایک دن امی اور ابو، نانی کو کچہری لے گئے۔ وہاں عرضی نویس کے پاس بیع نامے پر ان سے انگوٹھا لگوا لیا۔ جب یہ بیع نامہ تصدیق کے لیے تحصیل دار کے روبرو پیش ہوا، تو نانی پر حقیقت کھلی کہ ان کی بیٹی اور داماد نے زمین فروخت کرنے کا سودا کر لیا ہے۔

انہوں نے واویلا مچایا، لیکن میری والدہ نے سب کے سامنے کہا کہ نانی کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور وہ اپنی ماں اور بہنوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ چھوٹی بہنوں کی شادی کے لیے روپیہ درکار ہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے نانی کا ساتھ دینا چاہا، مگر والد کے وکیل دوست نے امی اور ابو کی مدد کی اور نانی کی مخالفت کو دبانے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں، ماں اور باپ کی اپنی سگی ماں اور بہنوں کے خلاف سازش کامیاب ہو گئی، اور زمین کی فروخت سے ایک معقول رقم ہاتھ آ گئی۔

زمین فروخت ہوئی تو نانی مارے غم کے نیم جان ہو گئیں۔ انہیں اتنا ذہنی صدمہ ہوا کہ چپ لگ گئی۔ والدین نے تھوڑے دن نانی اور ان کی بیٹیوں کی کفالت کی، پھر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ نانی کا ذہنی توازن خراب نہ بھی تھا، تو اپنوں نے ان سے حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت چھین لی، اور ان کی گزر بسر ہمسایوں کی خیرات پر ہونے لگی۔

اب مجھے اپنے بوڑھے دادا کے ساتھ ساتھ اپنی پیاری نانی اور چھوٹی خالاؤں کی بھی بہت فکر تھی کیونکہ وہ مجھ سے اور میں ان سے بہت پیار کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں کوئی ساتھ نہیں دیتا، لیکن کبھی کبھی معاملہ برعکس ہو جاتا ہے۔ نانی کے خاندان کا ایک خوبصورت نوجوان، محی الدین، جو صوبیدار تھا، جب ان کے حالات سے واقف ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے کہا، “ہم چل کر اس مصیبت زدہ گھرانے کا حال معلوم کرتے ہیں۔”

محی الدین اور اس کی والدہ نے آ کر نانی اور ان کی بیٹیوں کی حالت دیکھی تو ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ محی الدین کی والدہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماموں زاد بہن اور ان کی بچیوں کو سہارا دیں گی۔ انہوں نے نانی سے ان کی منجھلی بیٹی خالہ تانیہ کا رشتہ مانگ لیا اور وعدہ کیا کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے میں بھی مدد کریں گی۔ یوں محی الدین نے خالہ تانیہ سے اور ان کے چچا زاد بھائی کمال نے خالہ نازیہ سے شادی کر لی۔

جن لوگوں نے میرے نانا کی زمین خریدی تھی، وہ گاؤں کے ہی رہنے والے تھے اور میرے والد سے ملی بھگت رکھتے تھے۔ یہ بڑے فراڈ قسم کے لوگ تھے۔ خالو محی الدین کے کزن، کمال صاحب، جو خالہ نازیہ کے شوہر تھے، کے بڑے بھائی ایک قابل وکیل تھے۔ انہوں نے خالو محی الدین کو بتایا کہ ان کی بیوی اور سالی کی زمین واگزار ہو سکتی ہے کیونکہ قانوناً والدین اپنی اولاد کی جائیداد فروخت نہیں کر سکتے۔

محی الدین خالو مقدمہ بازی کے حق میں نہیں تھے، لیکن خالو کمال کے اصرار پر وہ رضامند ہو گئے۔ مقدمہ دائر کیا گیا اور چھ برس کی طویل مقدمہ بازی کے بعد دونوں خالاؤں کے حصے کی زمین واگزار کر لی گئی۔

اب میں لڑکپن سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی، لہٰذا والدین کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ ایک دن میں اسکول سے گھر آئی تو دیکھا کہ کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ ماں نے کہا،  منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لو اور مہمانوں کے لیے چائے بنا لو۔  میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ یہ لوگ اپنے ساتھ مٹھائی لائے تھے۔ انہوں نے امی کو نیا جوڑا دیا اور مجھے سرخ دوپٹہ پہنا دیا۔ پتہ چلا کہ میری منگنی کی رسم ہو رہی ہے۔

میں حیران و پریشان تھی، کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مہمان تو رسم منگنی کر کے چلے گئے، لیکن میں سکتے میں بیٹھی رہ گئی۔ میرا ذہن شادی کے لیے تیار نہ تھا کیونکہ میری عمر صرف پندرہ یا سولہ برس تھی۔ میٹرک کے سالانہ امتحانات قریب تھے، اور پڑھائی کا دباؤ تھا۔

والدہ نے میری پریشانی دیکھ کر کہا،  رابعہ، پریشان مت ہو۔ ہم تیری ابھی شادی تھوڑا ہی کر رہے ہیں۔ تُو بے فکر ہو کر میٹرک کے امتحانات دے لے، پھر سوچیں گے۔  میں نے کہا،  مگر میں تو کالج میں پڑھنے کے خواب دیکھ رہی ہوں۔  کہنے لگیں،  تُو پڑھ لینا کالج۔ جب تُو بی اے کر لے گی، تب ہی تیری شادی کریں گے۔

مجھے کچھ ڈھارس ملی اور میں نے سکون سے امتحانات دیے۔ میٹرک کے نتائج آتے ہی وہ لوگ دوبارہ آئے اور شادی کا تقاضا کرنے لگے۔ ماں نے انہیں ٹال دیا اور مجھ سے کہا،  بیٹی، آج تجھے ایک راز بتانا چاہتی ہوں۔ میں تیرے والد کے سامنے بے بس ہوں کیونکہ میرے تین بچے ہیں جو تیرے اس والد سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری دوسری شادی ہے اور قدیر تیرے سوتیلے والد ہیں۔ اب تیری خاطر میں اپنا گھر نہیں اجاڑ سکتی کیونکہ انہوں نے تیرا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے کیا ہے، اور یہ رشتہ ظاہر ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔

ماں نے کہا،  اگر تُو کالج پڑھنا چاہتی ہے تو ایک معاہدے پر دستخط کر دے کہ چار سال کی مہلت ہوگی، اور اس کے بعد ہم تیری رخصتی کر دیں گے۔ یہ کاغذ ہم دولہا کے والدین کو دے دیں گے تاکہ وہ چار سال کے بعد ہی تیری رخصتی کے لیے آئیں۔ تب تک تُو آرام سے کالج کی تعلیم مکمل کر لے گی۔

یہ سن کر میں دگنے صدمے میں آ گئی۔ پہلی بار ماں نے انکشاف کیا تھا کہ میرے والد میرے حقیقی والد نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کبھی کسی نے یہ بات نہ بتائی تھی۔ سولہ برس کی عمر میں انسان خاصا سمجھدار ہوتا ہے۔ یہ انکشاف میرے دل میں شگاف ڈال گیا۔ میں اپنے کمرے میں جا کر خوب روئی۔ میری آنکھوں سے گویا دریا بہہ گیا۔ والدہ نے آ کر مجھے گلے لگایا اور سمجھایا، بیٹی، تیرے والد وفات پا گئے تھے تو میں مجبور تھی۔

Latest Posts

Related POSTS