’’ریلیکس! جذباتی مت بنو۔ میں یہ سوچ رہی ہوںکہ آخر اس روز شایان، صائم کے مکان سے باہر کیسے نکلا۔ بقول تمہارے تم سو رہی تھیں اور گیٹ لاک تھا۔‘‘ نمرہ بولی۔
’’شایان نے یقیناً ڈپلی کیٹ چابی بنوائی ہوگی۔ اس کا پلان تھا صائم کے سامنے مجھے بدکردار ثابت کرنا۔ وہ صائم کی غیر موجودگی میں گھر میں گھسا ہوگا۔‘‘
’’تم بتائو اب کیا کرنا ہے؟‘‘
’’تمہیں میرا یہ خط صائم تک پہنچانا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے زوبیہ نے ایک خط نکال کر نمرہ کی طرف بڑھایا۔
’’اوکے! میں تمہارا یہ کام آج ہی کردوں گی لیکن زوبیہ! تم نے سوچا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ آخر اب تم شایان کی قانونی بیوی ہو، صائم تمہیں طلاق دے چکے ہیں اور قانوناً وہ تمہارے کچھ نہیں لگتے؟‘‘
’’ہاں! میں نے اس بارے میں اچھی طرح سوچ لیا ہے۔ ابھی مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا۔‘‘
’’زوبیہ! میں تمہارے درد کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔ میں خود اس کرب سے گزری ہوں۔ بڑی مشکل سے میری ذہنی حالت بہتر ہوئی ہے۔ امی کے مشورے پر میں ٹیچنگ کیلئے گھر سے باہر نکلی۔ خود کو مصروف رکھ کر میں اپنے دکھ کو کم کرپائی ہوں۔ طلاق کے بعد میں نے کہیں آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔‘‘ نمرہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔’’اتنی بدنامی کے بعد میرے لئے کون رشتہ بھیجے گا۔ امی میرے غم میں بستر سے لگ گئی ہیں۔ اب تو لگتا ہے جیسے میری زندگی کا سفر تنہا ہی گزرے گا۔‘‘
’’اداس مت ہو۔ کیا اسجد نے تم سے رابطہ نہیں کیا؟ دعوے تو وہ بڑے بڑے کرتا تھا؟‘‘
’’زوبیہ! تم اسجد کا میرے سامنے نام مت لو۔ مجھے برباد کرکے وہ خود آسٹریلیا چلا گیا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اس نے مجھے جانے کے بعد ایک خط بھیج کر میرے زخموں پر نمک چھڑکا تھا۔ دیکھنا وہ کبھی خوش نہیں رہے گا۔‘‘
’’سوری نمرہ! میری باتوں نے تمہیں دکھی کردیا۔ میں تمہارے دکھ سے آشنا ہوں۔ تم مجھے دیکھ لو، مجھے بے سبب طلاق مل گئی اور شادی اسی شخص سے ہوگئی جو میری بربادی کا ذمہ دار تھا۔ مجھے شایان سے نفرت ہوگئی ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد مجھے تمہاری کال کا شدت سے انتظار رہے گا۔‘‘
’’اوکے! تم بے فکر ہوجائو، میں تمہارا کام کردوں گی۔ تم بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ لے کر آتی ہوں۔‘‘ نمرہ اٹھ کر اندر چلی گئی۔ زوبیہ نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کے دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔
٭…٭…٭
شام دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی، افق کے پار سورج ڈوب رہا تھا۔ نمرہ، صائم کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی۔ ’’فون پر آپ نے بتایا تھا کہ آپ کو کوئی ضروری کام ہے۔ فرمایئے! آپ کو مجھ سے کیا بات کرنا تھی؟‘‘ صائم نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
’’سوچ رہی ہوں کہ بات کیسے شروع کروں۔ یہ ایک عجیب سا معاملہ ہے اور اس معاملے میں ظلم بھی ہوا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب…! کیا میں نے کسی پر ظلم کیا ہے؟‘‘ صائم چونکا۔
’’آپ نے نہیں، کسی اور نے کیا ہے۔ مجھے یہ کوئی سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔ اگر آپ وہ خط زوبیہ کو نہیں لکھتے تو اسے کبھی وہ بات معلوم نہ ہوتی جو آپ اور زوبیہ کی طلاق کا سبب بنی۔‘‘
’’آپ کھل کر بات کریں۔‘‘ صائم بیزار لہجے میں بولا۔
’’آپ کا خط پڑھ کر زوبیہ کو معلوم ہوا کہ جس روز آپ نے زوبیہ کو طلاق دی، اس روز آپ نے شایان کو دروازے سے نکلتے دیکھا تھا جو اب زوبیہ کے موجودہ شوہر ہیں۔ زوبیہ…!‘‘
’’آپ کا مطلب ہے زوبیہ کو یہ بات معلوم نہیں تھی، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ صائم نے نمرہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’عام حالات میں ہر آدمی یہی سمجھے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر زوبیہ، شایان سے شادی کرنا چاہتی تھی تو اس کے راستے میں کیا رکاوٹ تھی۔ وہ پوری طرح خود مختار تھی، آسانی سے شایان سے شادی کرسکتی تھی۔ آپ ذرا اس پہلو پر غور کریں اور یہ خط پڑھ لیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نمرہ نے خط نکال کر صائم کے سامنے رکھ دیا۔
صائم فوراً خط اٹھا کر پڑھنے لگا۔
’’صائم! تمہارے خط کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ میں نے جس شخص سے دوسری شادی کی ہے، یہ وہی شخص ہے جسے تم نے گھر سے نکلتے دیکھا تھا اور مجھ پر بدچلنی کا الزام لگاتے ہوئے طلاق دی تھی۔ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ جو کچھ ہوا، وہ میری اور شایان کی ملی بھگت تھی لیکن تم نے غور نہیں کیا اگر یہ سب میری پلاننگ تھی تو مجھے اپنی صفائی دینے کی کیا ضرورت ہے؟ میں کیوں تمہارا خط پڑھ کر پریشان ہوگئی ہوں اور اگر میں شایان سے شادی کرنے کی خواہشمند ہوتی تو کیا چیز میرے راستے میں رکاوٹ تھی؟ کچھ بھی تو نہیں۔ خدارا اس پہلو پر غور کرو۔ ہم دونوں ایک گھنائونی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ مستقبل میں تم بے شک مجھ سے کوئی تعلق مت رکھنا لیکن غلط فہمی کی بنیاد پر میرے دامن پر لگے دھبے کو دور کرنے میں میرا ساتھ دو۔ میں وعدہ کرتی ہوں میں تم سے کوئی غرض نہیں رکھوں گی۔ میں تنہا شاید کچھ نہ کرسکوں ہاں! تم اور نمرہ میرا ساتھ دیں تو میں بہت کچھ کرسکوں گی۔ تم اپنا فیصلہ نمرہ کو بتا دینا۔ میں ایک بات ضرور کہوں گی کہ تم میرا ساتھ دو یا نہ دو، میں ایک دھوکے باز آدمی کے ساتھ ہرگز ہرگز زندگی نہیں گزار سکوں گی اور کچھ نہ کچھ کر بیٹھوں گی۔‘‘
خط پڑھ کر صائم گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ نمرہ خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آخر صائم نے سکوت توڑا۔ ’’اگر شایان نے ہمارا گھر برباد کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا تھا تو اسے واقعی سزا ملنی چاہئے۔ میں زوبیہ کا ساتھ دوں گا۔ امید ہے کہ دوست ہونے کے ناتے تم بھی اس کی مدد کرو گی۔‘‘
’’میں نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔‘‘ نمرہ مسکرائی۔
’’اب بتائو کیا کرنا ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں ہمیں سب سے پہلے کسی وکیل سے مشورہ کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں آپ دونوں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے والا شایان ہے۔ مگر اس بات کو ہم عدالت میں ثابت نہیں کرسکتے۔ شایان صاف مکر جائے گا اور کہہ دے گا کہ اسے زوبیہ نے بلایا تھا، اس صورت میں زوبیہ کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ پہلے ہی اس پر شایان کی بدولت بہتان لگ چکا ہے۔ ہمارا مقصد اس کی عزت بحال کرنا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں وکیل سے مشورہ کرلیتا ہوں۔ اتفاق سے میرا ایک دوست وکیل ہے۔ میں اس کو ساری صورتحال بتا دیتا ہوں۔‘‘
’’اوکے! اب میں چلتی ہوں۔ فون پر میرا آپ سے رابطہ رہے گا۔‘‘ نمرہ اٹھتے ہوئے بولی۔ اس کے جانے کے بعد صائم گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
پیر کے روز شام میں وہ اپنے وکیل دوست معیز کے پاس بیٹھا تھا۔ معیز نے تمام صورتحال جان کر صائم سے پوچھا۔ ’’تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’مشورہ…! بتائو اس معاملے میں، میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ صائم نے پوچھا۔
’’تمہارے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، یہ خالصتاً زوبیہ کا معاملہ ہے۔ جو کرنا ہے، زوبیہ نےکرنا ہے۔ اگر وہ شایان کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار نہیں ہے تو اس صورت میں پہلے وہ شایان سے بات کرے۔ اگر شایان اسے خود طلاق دے دیتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اس کا چانس کم ہے۔ بہرحال زوبیہ کو آزادی مل جائے گی اس کے بعد یہ تم دونوں کی مرضی ہے کہ دوبارہ شادی کرتے ہو یا نہیں!‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے لیکن شایان کی جس طرح کی فطرت ہے، مجھے نہیں لگتا کہ وہ زوبیہ کی جان آسانی سے چھوڑے گا۔ وہ غصے میں آکر کوئی خطرناک قدم اٹھا سکتا ہے۔‘‘ صائم نے فکرمند لہجے میں کہا۔
’’ہاں! یہ ممکن ہے لیکن اس طرح کے کاموں میں خطرات تو ہوتے ہیں۔ میں زوبیہ کی وکالت کرنے کو تیار ہوں۔ زوبیہ کو کچھ کاغذات پر سائن کرنے ہوں گے اس کے بعد ہی قانونی کارروائی شروع
ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے معیز! تم کاغذات دے دینا، میں زوبیہ کی دوست کے ذریعے یہ کام کروا لوں گا۔‘‘
’’صائم! بڑی گرمجوشی دکھا رہے ہو؟ زوبیہ کو دوبارہ ہماری بھابی بنانے کا ارادہ ہے؟‘‘ معیز نے زیرلب مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’مجھے زوبیہ کے خلاف کئے گئے اپنے فیصلے پر افسوس ہے۔ میں نے جو کچھ کیا، اس کا کفارہ اسی طرح ادا ہوسکتا ہے کہ میں زوبیہ کو اپنی زندگی میں دوبارہ شامل کرلوں، اگر وہ اس کیلئے تیار ہو۔ فی الحال میری یہی سوچ ہے، آگے اللہ کی مرضی! میں چلوں مجھے زوبیہ کی دوست سے بھی بات کرنی ہے۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
٭…٭…٭
شایان رات کے بارہ بجے گھر لوٹا اور آتے ہی چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف لپکا۔ اسے دیکھ کر شاہدہ بیگم نے پوچھا۔ ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘
وہ ان کی بات کا جواب دیئے بغیر کمرے میں چلا گیا اور بولا۔ ’’زوبیہ! اٹھو میرے لئے کھانا لے کر آئو۔‘‘
زوبیہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھی اور کسلمندی سے آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد لوٹی تو اس کے ہاتھ میں چاولوں سے بھری پلیٹ تھی۔ اس نے پلیٹ شایان کے سامنے رکھ دی۔ پلیٹ خالی ہوئی تو زوبیہ کچھ بولے بغیر پلیٹ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ جب وہ کمرے میں لوٹی تو شایان بستر پر تین موبائل رکھے، انہیں دیکھنے میں مصروف تھا۔
’’تمہارے پاس یہ موبائل کہاں سے آئے؟‘‘ زوبیہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’زیادہ آنکھیں دکھانے کی ضرورت نہیں، تمہیں اس سے مطلب…؟‘‘
’’تم نے چوری کئے ہیں یہ موبائل!‘‘
’’نہیں! دوست نے دیئے ہیں۔‘‘ شایان نظریں چراتے ہوئے بولا۔
’’شایان! جو حرکتیں تم باہر کرتے ہو، براہ مہربانی انہیں آفس میں مت کرنا۔ تمہاری وجہ سے میری عزت بھی خاک میں مل جائے گی۔‘‘
’’اوہ! تمہاری کون سی عزت ہے۔ تمہیں میرا شکرگزار ہونا چاہئے کہ میں نے تم سے شادی کرکے احسان کیا ہے۔ تمہارے امیر شوہر نے تم پر بدچلنی کا الزام لگا کر طلاق دی تھی۔‘‘ شایان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’میرے شوہر نے میرے ساتھ جو کچھ کیا تھا، وہ محض غلط فہمی کی بنیاد پر کیا تھا۔ تم نے مجھ سے شادی کرکے کون سا احسان کیا ہے۔ تم سے شادی کرنے سے پہلے مجھے تمہارے کیریکٹر کا اندازہ ہوجاتا تو میں یہ غلط قدم اٹھانے سے باز رہتی۔‘‘
زوبیہ کی بات مکمل ہوتے ہی شایان بپھرے ہوئے انداز میں اٹھا اور ایک تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیا۔ ’’خبردار! جو آئندہ میرے آگے زبان چلائی۔ مار مار کر حشر برا کردوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے زوبیہ کو زور سے دھکا دیا۔ زوبیہ کا سر دیوار سے ٹکرایا۔ وہ اپنی بدقسمتی پر آنسو بہانے لگی۔
اگلے دن اسے آفس میں فون پر نمرہ کی زبانی صائم اور وکیل کے درمیان ہونے والی گفتگو کا پتا چلا۔ آفس سے واپسی پر زوبیہ، نمرہ کے گھر چلی گئی اور وکیل کے بھجوائے ہوئے کاغذات پر دستخط کردیئے۔ نمرہ کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر اور صائم سے فون پر بات کرنے کے بعد زوبیہ اپنے گھر روانہ ہوگئی۔
جب وہ گھر پہنچی تو شایان گھر پر موجود نہیں تھا۔ کچن میں شاہدہ بیگم روٹیاں بنانے میں مصروف تھیں۔ زوبیہ نے ہاتھ، منہ دھو کر کپڑے تبدیل کئے اور کچن میں آکر برتن دھونے لگی۔
’’خیر تو ہے آج تم بہت چپ چپ لگ رہی ہو؟ کل رات شایان بھی تم پر چیخ رہا تھا۔ میری مانو اس کی باتوں کے جواب میں خاموش رہا کرو۔‘‘ شاہدہ بیگم نے مشورہ دیا۔
’’شایان کی کس کس بات پر میں خاموش رہوں۔ وہ خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ قرضہ اس نے لیا ہے، بھر میں رہی ہوں۔‘‘
’’ہاں! تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ بیوی کو ہر مشکل گھڑی میں شوہر کا ساتھ دینا چاہئے۔‘‘ شاہدہ بیگم نے اپنے لہجے کو نرم بنانے کی کوشش کی۔
’’آنٹی! میں آپ کو ایک بات بتانا چاہی ہوں۔ مجھے پتا چل گیا ہے جس شخص کی وجہ سے مجھے طلاق ہوئی تھی، وہ شایان ہے۔ شایان کو صائم نے اپنے گھر سے باہر نکلتے دیکھا تھا۔ میں اور شایان کچھ دن پہلے شاپنگ مال میں گئے تھے، وہاں صائم نے شایان کو میرے ساتھ دیکھ کر پہچان لیا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو اس کی غیر موجودگی میں گھر میں موجود تھا۔‘‘
’’تم شایان پر الزام لگا رہی ہو۔ میرے بیٹے کو کیا پڑی وہ دوسروں کے گھر میں گھستا پھرے۔ تمہاری باتوں سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ تم صائم سے ملتی ہو۔ تمہاری غیرت اور شرم مر چکی ہے۔ شایان کی بیوی ہوتے ہوئے تم اپنے سابقہ شوہر سے رابطے میں ہو۔ آنے دو شایان کو اسے تمہارے کرتوتوں کی خبر دیتی ہوں۔‘‘ شاہدہ بیگم غصے میں پھٹ پڑیں۔
’’آپ کے بیٹے سے میں خود بات کرلوںگی۔ اس نے مجھے پانے کیلئے جو حرکت کی ہے، اسے جاننے کے بعد میں اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔‘‘ زوبیہ نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے پلیٹ پٹخی۔
شاہدہ بیگم نے اس سے مزید کوئی بات نہیں کی۔ وہ فیصلہ کرچکی تھیں کہ شایان کے آتے ہی اسے تمام حقیقت بتا دیں گی۔
شایان رات ایک بجے گھر لوٹا۔ شاہدہ بیگم صحن میں چارپائی پر لیٹی اس کی منتظر تھیں۔ شایان جیسے ہی لاک کھول کر گھر میں داخل ہوا، شاہدہ بیگم نے اس سے کہا کہ وہ اندر ان کے کمرے میں چلے، انہیں اس سے ضروری بات کرنی ہے۔ شایان کا بالکل ان کی بات ماننے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بے حد تھکا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا شاہدہ بیگم کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر لیٹ کر بولا۔ ’’جلدی کہیں کیا بات ہے؟ مجھے سخت نیند آرہی ہے۔‘‘
’’میری بات سن کر تمہاری نیند اڑ جائے گی۔ تمہاری چڑیا اڑنے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔‘‘ شاہدہ بیگم نے کہا۔
’’آپ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں، صاف کہیں۔‘‘ شایان بیزاری سے بولا۔
’’شانی! تم نے زوبیہ کو پانے کیلئے جو کچھ کیا ہے، اس کے اور اس کے سابقہ شوہر کے درمیان جو غلط فہمی پیدا کی تھی، زوبیہ کو پتا چل گیا ہے۔ اب وہ تم سے طلاق لے کر دوبارہ صائم سے شادی کرنے کے چکر میں ہے۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ کیا زوبیہ نے اپنے منہ سے یہ الفاظ کہے ہیں یا سنی سنائی بات ہے؟‘‘ شایان غیر یقینی لہجے میں بولا۔
’’زوبیہ سے میری آج خود بات ہوئی ہے۔ جانے خود کو کیا سمجھتی ہے۔ اپنی خوبصورتی پر اسے بڑا گھمنڈ ہے۔ تم بھی بے وقوف ہو، تمہارے لئے لڑکیوں کی کمی تھی جو اس کے پیچھے پاگل ہورہے تھے۔ تمہارے کہنے پر میں وحیدہ کے پاس تمہارا رشتہ لے کر گئی تھی، اس کی خوشامد کی تھی۔ اس نے صاف انکار کردیا تھا کہ زوبیہ کی بات پکی ہوچکی ہے اور لڑکا اتنا اچھا ہے کہ میں انکار نہیں کرسکتی۔ بتائو اتنا کچھ کرنے کے بعد تمہیں حاصل کیا ہوا؟‘‘
’’مجھے میری محبت مل چکی ہے جسے میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ زوبیہ کبھی مجھ سے شادی نہیں کرتی میں نے حالات ایسے پیدا کردیئے کہ اسے اقرار کرتے ہی بنی۔ طلاق کے بعد وہ ہمارے گھر نہیں آتی، تب بھی مجھے پتا تھا اس نے کہاں پناہ لے رکھی ہے۔ میں آپ کو اس کے پاس لے جاتا۔ زوبیہ اب جو چاہے کوشش کرلے، میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔ صائم کو میں اپنی بیوی چھیننے نہیں دوں گا۔‘‘ وہ اٹل لہجے میں بولا۔
’’یہ تم سوچ رہے ہو۔ زوبیہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، وہ عدالت جائے گی۔‘‘
’’اس صورت میں، میں بھی زوبیہ سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ اگر زبردستی کی گئی تو میں صائم اور زوبیہ دونوں کو ختم کردوں گا۔‘‘
’’خبردار! جو تم نے کوئی ایسی حرکت کی۔ پہلے ہی تم کیا کم بدنام ہو جو اب قتل کی بات کررہے ہو؟ ایک عورت کے پیچھے تم پھانسی پر چڑھ جائو گے۔‘‘ شاہدہ بیگم نے سمجھایا۔
’’آپ جو چاہے کہیں، میں اپنی سوچ پر قائم ہوں۔ میں زوبیہ کو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتا، یہ میری ضد ہے۔‘‘ شایان سخت لہجے میں بولا۔
کمرے کے باہر کھڑی زوبیہ، شایان اور شاہدہ بیگم کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہی تھی۔ اسے
کی باتیں سن کر ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ صبح آفس پہنچتے ہی صائم سے رابطہ کرکے تمام صورتحال بتائے گی۔
لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں پہنچی اور بستر پر لیٹ کر صورتحال پر غور کرنے لگی۔ دس منٹ بعد شایان بھی کمرے میں آگیا۔ اس کے قدموں کی چاپ سن کر وہ سوتی بن گئی۔ شایان بیڈ پر لیٹ کر کافی دیر کچھ سوچتا رہا۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔
زوبیہ موقعے کے انتظار میں تھی۔ وہ آہستگی سے اٹھی، دبے پائوں الماری کے نزدیک پہنچ کر اس نے اپنا بیگ نکالا اور دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے آہستگی سے کمرے سے نکل کر صحن میں پہنچی۔ اس نے ایک نظر اندر کی طرف دوڑائی۔ لائونج میں شاہدہ بیگم بے خبر سو رہی تھیں۔ زوبیہ کے پاس وقت بہت کم تھا۔ اس نے بیرونی گیٹ احتیاط سے کھولا اور باہر نکل گئی۔
وہ رات زوبیہ نے نمرہ کے گھر پر گزاری۔ دوسرے دن صبح وہ نمرہ، صائم اور اپنے وکیل کے ساتھ کورٹ پہنچ گئی۔ اس کے وکیل معیز نے زوبیہ کو عدالت میں پیش کردیا اور مختصر طور پر حالات انہیں سنا دیئے۔ یہ اس لئے کیا گیا کہ شایان کی طرف سے صائم پر زوبیہ کے اغوا کا مقدمہ قائم نہ ہوجائے ساتھ ہی معیز نے زوبیہ کی طرف سے یہ درخواست بھی دی کہ ان کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی منظور کی جائے۔ عدالت نے اس کی بھی اجازت دے دی۔عدالت کی کارروائی سے فارغ ہوکر وہ لوگ نمرہ کے گھر پہنچے تو فوراً ہی پولیس نمرہ کے گھر پہنچ گئی۔ پولیس انسپکٹر نے اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ صائم کے خلاف پرچہ درج کرایا گیا ہے۔ اس نے ایک باعزت شہری کی بیوی کو اغوا کیا ہے۔
’’جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔ زوبیہ صاحبہ نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا ہے۔‘‘ معیز نے پولیس انسپکٹر کی بات سن کر کہا۔
’’آپ کچھ بھی کہیں، ہمارے پاس صائم کی گرفتاری کے وارنٹ موجود ہیں۔‘‘
’’اور ہمارے پاس ضمانت قبل از گرفتاری کے کاغذات موجود ہیں۔‘‘ معیز بولا۔ اس نے فوراً کاغذات پولیس انسپکٹر کے سامنے پیش کردیئے۔ عدالت کا حکم دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس چلا گیا۔
’’خدا کا شکر ہے میں گرفتاری سے بچ گیا۔‘‘ صائم کے منہ سے پولیس کے جاتے ہی بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔
’’شایان تمہارے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرا چکا ہے اور ہم نے زوبیہ کی طرف سے خلع کا مقدمہ دائر کرا دیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو عدالت کے ذریعے زوبیہ کو طلاق مل جائے گی۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران زوبیہ آپ کا نمرہ کے پاس رہنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ کسی فلاحی ادارے میں رہیں، وہاں آپ محفوظ رہیں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسا آپ مناسب سمجھیں۔‘‘ زوبیہ نے معیز کی بات سن کر کہا۔
’’صائم! تمہیں بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ویسے میں عدالت کی طرف سے شایان کو نوٹس بھجوا دوں گا کہ تمہیں اس کی طرف سے خطرہ ہے۔ اگر تمہیں یا زوبیہ کو کچھ ہوا تو نتیجے کا ذمہ دار شایان ہوگا۔ امید یہی ہے کہ وہ کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہے گا۔ معاملہ اب عدالت میں ہے پھر بھی تم لوگوں کو ہوشیار رہنا ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مقدمہ طول نہیں پکڑے گا اور جلد ختم ہوجائے گا۔ اب میں چلتا ہوں۔ زوبیہ! آپ جتنی جلد ممکن ہو، نمرہ کا گھر چھوڑ دیں۔‘‘ معیز اپنی بات مکمل کرکے جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔
کچھ دن بعد زوبیہ کے مقدمے کی کارروائی شروع ہوگئی۔ اسی دوران ایک دن نمرہ اور صائم نے ایک ریسٹورنٹ میں ملاقات کی۔ ’’آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میری آپ سے ملاقات کا مقصد کیا ہے۔ میں نے آپ کو یہاں کیوں بلایا ہے؟‘‘ نمرہ نے صائم کے چہرے کے تاثرات کو پڑھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! میں یہی سوچ رہا تھا۔ ویسے مجھے بھی تم سے ایک بات زوبیہ کے متعلق کرنا تھی۔ خیر پہلے تم بولو، تم کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘
نمرہ کچھ دیر خاموش رہی جیسے اپنی بات شروع کرنے کیلئے الفاظ تلاش کررہی ہو۔ پھر اس نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ ’’میں زوبیہ کی اب کوئی مدد نہیں کروں گی۔ میں نے اس سے لاتعلقی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے اس پر ہمیشہ اعتماد کیا، اسے بھروسے کے قابل سمجھا مگر مجھے کیا پتا تھا کہ وہ میری دوست نما دشمن ہے۔ اس کی بدولت میرا گھر برباد ہوا، میرے ابو میرے غم میں دنیا سے چلے گئے۔‘‘
’’ہاں! میں جانتا ہوں تمہاری دوستی یونیورسٹی کے دور میں جس لڑکے سے تھی، اس نے تمہاری تصاویر تمہارے شوہر کو پوسٹ کی تھیں جس پر اس نے غصے میں آکر تمہیں طلاق دے دی تھی۔ مجھے نمرہ نے یہ بات بتائی تھی۔‘‘ صائم نے کہا۔
’’میں ساری زندگی زوبیہ کو اپنی قابل اعتماد دوست سمجھ کر بھروسہ کرتی رہتی، اگر اس کی اصلیت مجھ پر نہ کھلتی۔ پرسوں شاپنگ کرتے ہوئے میری ملاقات میرے یونیورسٹی کے کلاس فیلو حاشر سے ہوگئی۔ حاشر نے مجھے کافی پینے کی آفر کی تھی، اس کے ساتھ شاپنگ مال میں موجود کیفے میں چلی گئی۔ وہاں باتوں کے دوران اس نے انکشاف کیا کہ زوبیہ نے اسجد کو میرے سسرال کا ایڈریس دیا تھا۔ زوبیہ دوست ہونے کے باوجود دل میں مجھ سے حسد کرتی تھی۔ اس نے اسجد کے جذباتی مزاج کو جانتے ہوئے اسے اکسایا تھا کہ وہ مجھے میری بے وفائی کی سزا دے۔ اسجد کی انتقامی فطرت کو وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ دوسروں کی باتوں میں آکر انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے اور ہوا بھی یہی! اسجد نے مجھے سزا دینے کا جو حربہ استعمال کیا، اس کا نتیجہ میری طلاق کی صورت میں ظاہر ہوا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ زوبیہ نے اسجد کی انتقامی کارروائی میں اس کا ساتھ دیا۔ اسے میرے خلاف اکسایا۔‘‘ اتنا کہہ کر نمرہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرنے لگی۔
’’نمرہ…! زوبیہ نے جو کرنا تھا، کرلیا۔ تمہاری باتیں سن کر مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ میں نے کل رات جو فیصلہ کیا ہے، وہ میرے حق میں بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ میں نے کچھ دیر پہلے تم سے کہا تھا کہ مجھے زوبیہ کے متعلق تم سے بات کرنا تھی، وہ بات یہ ہے کہ میں زوبیہ کو دوبارہ اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا۔ نمرہ! میں تم سے شادی کا خواہشمند ہوں اور اس سلسلے میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ اگر تم اپنی زندگی کا باقی سفر میرے ہمراہ طے کرو۔‘‘ صائم کی بات مکمل ہوتے ہی گہرا سکوت چھا گیا۔
نمرہ حیرت زدہ تھی۔ صائم جیسا وجیہ اور دولت مند آدمی اسے شادی کی آفر کررہا تھا۔ یہ سب کچھ اسے کسی خواب کی مانند لگ رہا تھا۔ اس کے جی میں آئی کہ فوراً ہاں کہہ دے۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔ ’’صائم! مجھے کچھ مہلت دیں۔ میں دو تین دن بعد آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کروں گی۔ مجھے اس معاملے میں امی کی رائے جاننا ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے مگر مجھے تمہارا جواب ہاں میں چاہئے۔‘‘ صائم کی بات سن کر نمرہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
٭…٭…٭
شایان غصے میں بیٹھا پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ زوبیہ کی جدائی نے اسے بے چین کردیا تھا۔ کیس آخری مرحلے میں تھا ۔ اگر وہ زوبیہ کو طلاق نہیں دیتا تب بھی اسے عدالت کی طرف سے طلاق مل جاتی۔ اس کے بعد سب کچھ شایان کی توقع کے مطابق ہوتا۔ زوبیہ ایک بار پھر صائم کی بیوی بن جاتی اور یہ بات شایان کا ذہن قبول نہیں کررہا تھا۔ وہ کسی صورت زوبیہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے دوستوں نے اس معاملے میں جو رائے زنی کی تھی، اسے سن کر وہ غصے سے کانپ اٹھا تھا۔ اس نے صائم کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ صائم کے معمولات جاننے کے بعد اسے اپنے منصوبے پر عمل کرنا تھا۔ اگلے دن سے اس نے صائم پر نظر رکھنا شروع کردی تھی۔ وہ صائم کو عبرت کا نشان بنانا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
سورج اپنی کرنیں سمیٹ کر مغرب کی جانب چھپنے کی تیاری میں تھا۔ ڈھلتے سورج کی سرخی
طرف چھائی ہوئی تھی۔ بڑا دلفریب منظر تھا۔ صائم، نمرہ کے ساتھ ساحل سمندر پر موجود تھا۔ نمرہ کی جانب سے مثبت جواب ملنے کے بعد وہ بہت خوش تھا۔ صائم نے ڈوبتے سورج کے منظر کو کیمرے میں قید کرکے نمرہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ ’’تم رو رہی ہو، کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘ صائم نے متفکر لہجے میں پوچھا۔
’’اپنی قسمت پر رو رہی ہوں۔ خوشی میرے نزدیک آکر روٹھ جاتی ہے۔ مجھے انجانے اندیشوں نے گھیر لیا ہے۔ میری بدقسمتی آپ کو مجھ سے چھین نہ لے۔‘‘
’’نمرہ…! تم خواہ مخواہ ڈپریشن کا شکار ہورہی ہو۔ تمہاری امی سے میری بات ہوگئی ہے۔ آنے والے جمعے کے دن ہمارا نکاح ہوجائے گا۔ ہم ایک نئی زندگی کی شروعات کریں گے جس میں غم کا نام و نشان نہیں ہوگا۔‘‘
’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر جانے کیا بات ہے مجھے…!‘‘
صائم نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’یہ سب تمہارا وہم ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دنیا میں غموں کی بہتات ہے مگر چار قدم کے فاصلے پر خوشیوں کا میلہ بھی ہے۔ کچھ غم اوپر والا دیتا ہے، کچھ ہم۔ سوگ کی دیوار تان کر خود کو قید کرلینا مسئلے کا حل نہیں۔ ہم دونوں ہی حالات کی گردش کا شکار رہے ہیں۔ تمہاری آزمائشوں کے دن ختم ہونے کو آگئے ہیں۔ آئندہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں۔ نمرہ! اب میں بہت پریکٹیکل ہوگیا ہوں۔ پہلے کی طرح خواہشوں اور خوابوں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں نے تم سے شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اللہ نے چاہا تو میں اپنے اس فیصلے پر کبھی شرمندہ نہیں ہوں گا۔‘‘
’’میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ بحیثیت بیوی مجھ سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟‘‘
نمرہ کے اس سوال کو سن کر صائم فوراً بولا۔ ’’مجھے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے سکون! اگر مجھے تمہاری طرف سے راحت اور سکون ملا تو میں اپنی بساط کے مطابق تمہیں تمام آسائشیں فراہم کروں گا۔‘‘
’’میں آپ کی اس خواہش کو ممکن بنانے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘ نمرہ نے جواب دیا۔ صائم نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
٭…٭…٭
زوبیہ نے حیرت سے شایان کی طرف سے ملنے والے خط کو دیکھا اور سوچنے لگی کہ آخر شایان کو ایسی کون سی بات کہنا تھی جو اس نے خط کا سہارا لیا ہے۔ بے چینی کے عالم میں اس نے لفافے سے خط نکالا اور اسے پڑھنے لگی۔ خط پڑھنے کے بعد اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شایان نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے۔ شایان نے انکشاف کیا تھا کہ نمرہ اور صائم کی چند دنوں بعد شادی ہونے والی ہے۔ یہ بات زوبیہ کیلئے ناقابل یقین تھی۔ نمرہ، صائم سے شادی کرے، یہ بات زوبیہ کے ذہن کو الجھا رہی تھی۔ اس کا ذہن تین روز پہلے صائم سے ہونے والی گفتگو کی طرف چلا گیا جب اس نے صائم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اسے عدالت کی طرف سے شایان سے طلاق مل گئی ہے تو صائم نے اس خبر پر خود کو ہر تاثر سے عاری رکھا تھا۔ زوبیہ سمجھ رہی تھی کہ صائم اس خبر کو سننے کے بعد اس سے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے کوئی بات کرے گا مگر صائم کا انداز جان چھڑانے جیساتھا۔ اب شایان کا خط ملنے کے بعد اسے صائم کے بدلتے ہوئے رویئے کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔ اس وقت اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ بھری دنیا میں تنہا رہ گئی ہے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے شایان کی صورت گھوم رہی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’تمہیں مجھ سے طلاق لے کر کیا حاصل ہوا؟ تم ایک بار پھر سائبان سے محروم ہوگئی ہو۔ اب ساری زندگی خیراتی ادارے میں گزار دینا۔‘‘
’’ہرگز نہیں! میں نمرہ کو اس کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔ شایان! تم دیکھ لینا۔‘‘ زوبیہ زیرلب کہتی ہوئی صائم کا نمبر ملانے لگی۔
٭…٭…٭
شایان اپنے دوستوں بلال اور تیمور کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔ ’’شانی یار! بھول جا اس بے وفا کو۔ جب وہ تیرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی تو اسے خود سے باندھ کر رکھنے کا فائدہ؟‘‘ بلال نے چائے کا کپ خالی کرتے ہوئے کہا۔
’’کیسے بھول جائے یہ ۔ہر روز لوگوں کا سامنا کرنا، ان کے طنزیہ جملوں کو سہنا بڑا مشکل ہے۔ قسم سے میں اگر شانی کی جگہ ہوتا تو زوبیہ کے سابقہ شوہر کو جان سے مار دیتا یا لوگوں کی دلوں کو زخمی کرنے والی باتوں سے بچنے کیلئے خودکشی کرلیتا،‘‘ تیمور نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیشہ اول فول بکنا اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لینا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہمت والوں کا کام ہے۔‘‘
’’تم لوگ اس موضوع کے علاوہ کوئی بات نہیں کرسکتے؟ زوبیہ نے میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ جس شخص کی خاطر وہ میری زندگی سے نکلی ہے، وہ شخص بھی اس کا نہیں رہا۔‘‘ شایان نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یہ تو اچھی بات ہے خاص طور پر تمہارے حق میں، پھر تمہاری اداسی کس وجہ سے ہے؟‘‘ تیمور بولا۔
’’میرا سکون غارت کرنے والا صائم ہے۔ اس کے اکسانے پر زوبیہ میرے خلاف ہوئی اور میرا گھر برباد ہوا۔ اس نے مجھ سے اپنے گھر کے برباد ہونے کا بدلہ لے لیا۔ اب میں اسے بتائوں گا کہ اس نے مجھ سے دشمنی مول لے کر اچھا نہیں کیا۔‘‘ شایان نے یہ کہتے ہوئے اپنا کپ زور سے ٹیبل پر پٹخا اور وہاں سے چل دیا۔
’’شانی…! سن تو۔‘‘ بلال نے آواز لگائی۔
’’رہنے دو، بڑی غیرت جاگ رہی ہے اس کی۔ میں اس کی جگہ ہوتا تو باتیں بنانے کے بجائے کچھ کر گزرتا۔‘‘ تیمور طنزیہ ہنسی ہنسا۔
اسی وقت شایان کی موٹرسائیکل اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔ وہ رات شایان نے بے مقصد سڑکوں پر گھومتے ہوئے گزاری۔ صبح فجر سے پہلے وہ گھر پہنچا تو تھکن اس پر پوری طرح سوار تھی۔ وہ فوراً بستر پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اسے اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ ڈپریشن اس پر پوری طرح سوار تھا۔ اس کی حالت ذہنی مریض کی سی ہوکر رہ گئی تھی۔ بستر پر لیٹنے کے باوجود اسے نیند نہیں آرہی تھی۔
دوسرے دن، رات کو وہ صائم کے گھر جا پہنچا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے بیل بجائی۔ کچھ ہی دیر بعد اندر سے قدموں کی مدھم چاپ سنائی دی اور پھر جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔ صائم کو دیکھ کر شایان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’تم اور یہاں…!‘‘ صائم نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔
’’میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ مجھے یوں تمہیں دھمکانا نہیں چاہئے تھا۔ میں جو سوچ رہا تھا، تم ویسے ہرگز نہیں تھے۔ میں تمہارا قصوروار ہوں۔ مجھے…!‘‘
’’تم اپنی حرکت پر شرمندہ ہو، میرے لئے اتنا بہت ہے۔ تمہارے اور زوبیہ کے درمیان علیحدگی کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ زوبیہ نے اپنی مرضی سے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اب تم جائو۔‘‘ صائم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
اسی لمحے شایان کا ہاتھ پینٹ کی جیب میں گیا۔ اس نے جیب سے ریوالور نکال کر صائم پر تان لیا۔ صائم بدحواس کھڑا تھا۔ موت کو اتنا قریب محسوس کرتے ہی صائم کے وجود میں سردی کی تیز لہر دوڑ گئی۔ ٹریگر دبتے ہی گولی صائم کے بازو کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ شایان ریوالور پر اپنی گرفت مضبوط کرتا ہوا دوبارہ فائر کیلئے تیار تھاکہ اس کے عقب سے فائر کی آواز گونجی۔ گولی اس کے پیر میں لگی۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا گر گیا۔ گلی میں موجود گارڈ نے اسے نشانے پر لے کر فائر کردیا تھا۔ ’’خبردار! جو تم نے چالاکی دکھانے کی کوشش کی۔ تم میری رائفل کی زد میں ہو۔‘‘ گارڈ چلایا۔
شایان نے بے چارگی کے عالم میں صائم کو دیکھا جو زمین سے اس کا پستول اٹھا رہا تھا۔ اس لمحے وہ خود کو بے بس محسوس کررہا تھا۔ آس پاس کے گھروں سے لوگ نکل کر صائم کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ شایان کے فرار کے تمام راستے بند ہوچکے تھے۔
٭…٭…٭
نمرہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے
لفافے کو یوں گھو رہی تھی جیسے سوچ رہی ہو کہ وہ اس کے اندر موجود خط کو پڑھے یا نہ پڑھے۔ خط زوبیہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کوریئر سروس والا نمرہ کو یہ خط دے گیا تھا۔ آخر نمرہ نے لفافہ چاک کرکے خط پڑھنا شروع کیا۔ خط میں زوبیہ نے نمرہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ’’تم حیران ہو رہی ہوگی کہ میں نے تم سے بات کرنے کے لئے خط کا سہارا کیوںلیا۔ بات ہی کچھ ایسی ہے جو میں تم سے فون پر نہیں کرسکتی تھی۔ یہی بات تم سے فون پر کہنے کی میں خود میں ہمت نہیں پا رہی تھی۔ کچھ دن پہلے جب میں نے تمہیں فون کیا تھا تو تم نے مجھے سخت لہجے میں تنبیہ کی تھی کہ میں آئندہ تمہیں فون نہ کروں۔ تمہارا غصہ بجا تھا۔ میں نے دوست ہونے کے ناتے تمہیں دھوکا دیا تھا۔ میری حقیقت تم پر کھل گئی ہے اور حقیقت جاننے کے بعد تمہارے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچی ہے، اس کا ردعمل کسی نہ کسی صورت ظاہر ہونا تھا جو میری اور تمہاری دوستی کے اختتام پر ہوا۔ مجھے تم سے قطعاً توقع نہیں تھی کہ تم مجھ سے اپنی بربادی کا بدلہ صائم سے شادی کرکے لو گی۔ تم بہت گہری نکلیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ صائم تم سے شادی کررہا ہے۔ میں نے اسے فون کیا تو نہ صرف یہ کہ اس نے اس خبر کی تصدیق کی بلکہ مجھے مشورہ دیا کہ میں اسے بھول جائوں۔ یقین جانو میں صائم کے بدلتے ہوئے رویئے کو دیکھ کر حیران ہوں۔ تم نے چند ملاقاتوں میں اس پر ایسا کیا جادو کیا ہے کہ وہ مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر تم سے شادی کیلئے مرا جارہا ہے۔ تم دونوں نے اپنی زندگی کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے میرے جذبات کو جو ٹھیس پہنچی ہے، اس سے تم بخوبی واقف ہو۔ میں صائم کی طرف سے شادی کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ اس کے بغیر میں زندگی کا بقیہ سفر کیسے طے کروں گی، یہ تصور میرے اعصاب کو توڑے دیتا ہے۔ میں سخت پریشان ہوں، کسی کو اپنا دکھ نہیں بتا سکتی۔ میں اپنے گھر کا خواب دیکھ رہی تھی، فلاحی ادارے سے جلد ازجلد نکل جانے کا خواب! مگر یہ خواب ٹوٹ گیا۔ میں یہاں مزید رہوں گی تو نفسیاتی مریضہ بن جائوں گی۔ میں وہیں کی وہیں رہی اور تم نے ایک جست میں سب کچھ پا لیا۔ یہ احساس مجھے مارے ڈال رہا ہے۔ پہلے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں خودکشی کرلوں مگر میں خود میں اتنی ہمت نہیں پاتی اس لئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے خود کو ہر قسم کے حالات سے سمجھوتے کیلئے تیار کرلیا ہے۔ نمرہ…! ہمارے درمیان جو کچھ ہوا، اس کو بھلا کر میں تمہیں زندگی کے نئے سفر کی مبارکباد دیتی ہوں۔ تم ہمیشہ خوش رہو اور ایک خوشگوار زندگی گزارو۔ تمہاری دوست زوبیہ!‘‘
خط پڑھ کر نمرہ نے ایک طویل سانس لی اور اسے لفافے میں ڈال کر ایک طرف رکھ دیا۔ وہ جیسے ہی اٹھنے لگی، اس پر ایک دم نقاہت سوار ہونے لگی، حلق سوکھنے کے ساتھ ہی پیٹ میں درد اور سر چکرانے لگا۔ خود کو سنبھالتے ہوئے اس نے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی تو چند قدم چل کر وہ دبیز قالین پر گر گئی۔ اس نے منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کی۔ نمرہ کی سانس بری طرح پھول رہی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے پھیپھڑے زندگی کا بار اٹھاتے ہوئے خرابی کا شکار ہوگئے ہوں۔ تکلیف کے باوجود اس نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بیڈ کی طرف بڑھایا۔ بڑی مشکل سے فون اٹھانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ صائم کا نمبر ملانے لگی۔ اس لمحے نمرہ کے ذہن پر غنودگی چھانے لگی۔
٭…٭…٭
ایس ایچ او حفیظ کے کمرے میں نمرہ قتل کیس کی تفتیش جاری تھی۔ ایس ایچ او حفیظ کی میز کے سامنے کرسی پر زوبیہ اور صائم بیٹھے ہوئے تھے۔ زوبیہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتا رہی تھی کہ اس نے نمرہ کو قتل کیا ہے۔ وجہ صائم کا نمرہ سے شادی کا ارادہ کرنا تھا۔ اس بات کو زوبیہ کا ذہن کسی طرح قبول نہیں کررہا تھا۔ ’’سر! آپ میرے جذبات کو سمجھ نہیں سکتے۔ نمرہ سے میری کبھی ذہنی وابستگی نہیں رہی۔ مجھے اس سے جذباتی لگائو نہیں تھا مگر وہ مجھے دل کی گہرائیوں سے چاہتی تھی، اپنی پاکٹ منی سے وہ میرے لئے تحفے خرید کر لاتی تھی۔ وہ کبھی صائم سے شادی کیلئے تیار نہ ہوتی اگر اتفاقاً اس کی ملاقات ہمارے یونیورسٹی کے دوست حاشر سے نہ ہوئی ہوتی۔ حاشر نے اس پر اصلیت کھولی تھی، وہ میری طرف سے بدظن ہوگئی تھی۔‘‘ اتنا کہہ کر زوبیہ خاموش ہوگئی۔
’’تم کون سا اس کی حقیقی دوست تھیں جو تمہیں اس کے جذبات کی پروا تھی۔ تم تو آستین کا سانپ تھیں۔‘‘ ایس ایچ او نے طنز کیا۔
زوبیہ نے ایک آہ بھرتے ہوئے اپنے لب کھولے۔ ’’صائم، نمرہ کے بجائے کسی اور لڑکی سے شادی کرتا تو شاید میں اتنا ہرٹ نہ ہوتی مگر نمرہ سے شادی! یہ بات میری برداشت سے باہر تھی۔ ایک بار پھر میں خود کو اسی ڈپریشن میں گھرا محسوس کررہی تھی جو اپنے والدین کی وفات کے بعد مجھ پر طاری ہوا تھا۔ میں اچھی خاصی ذہنی مریضہ بن گئی تھی۔ مجھے نمرہ کو سبق سکھانا تھا۔ میں نے ایک مہلک ترین زہر خریدا اور اپنے پلان پر عمل کرتے ہوئے نمرہ کو خط لکھنے کے بعد خط کے صفحات کو زہر میں بھگو دیا۔ مجھے اس بات کا سوفیصد یقین تھا کہ نمرہ مجھ سے گفتگو کرنا پسند کرے یا نہ کرے، میرے بھیجے ہوئے خط کو ضرور پڑھے گی۔ میں اس کی عادت سے بخوبی واقف تھی کہ وہ کوئی کتاب پڑھتے ہوئے باربار اپنی انگلی اور انگوٹھے کو زبان پر لگا کر گیلا کرتی ہے پھر صفحہ پلٹتی ہے۔ اس طرح مہلک زہر اس کے جسم میں داخل ہوجائے گا اور وہ بچ نہیں سکے گی اور وہی ہوا جس کی مجھے توقع تھی۔ نمرہ فوراً مر گئی۔‘‘ بیان مکمل کرتے ہی زوبیہ کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
’’ایس ایچ او صاحب! میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے نمرہ کی موت غیر طبعی لگ رہی ہے۔ نمرہ نے مرنے سے قبل مجھے کال کی تھی جو میں نے ریسیو کی تھی۔ وہ مجھ سے بات کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ میں فوراً اس کے گھر پہنچا تھا مگر وہ میرے پہنچنے سے قبل مرچکی تھی۔ میں لاش اسپتال لے کر گیا اور ڈاکٹر سے اس کی موت کی وجہ جاننا چاہی۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ نمرہ کی موت زہر کی وجہ سے واقع ہوئی ہے تب میں نے تھانے میں رپورٹ درج کروائی۔‘‘ صائم نے کہا۔
’’شکر ہے کہ آپ کے بروقت اقدام سے ہم اس کیس کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر لاش کو خاموشی سے دفن کردیا جاتا تو اس قتل پر پردہ پڑ جاتا۔ ویسے بھی مرحومہ کے عزیزوں میں کوئی ایسا نہیںہے جسے اس کی موت کی وجہ جاننے میں دلچسپی ہوتی۔ شک کے الزام میں ہم نے زوبیہ کو گرفتار کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے بالآخر یہ زبان کھولنے پر مجبور ہوگئی۔‘‘ ایس ایچ او نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے قہرآلود نظر زوبیہ پر ڈالی۔
’’زوبیہ! مجھے تم سے اس قدر سفاکی کی توقع نہیں تھی۔ یہ سب کرکے تمہیں کیا حاصل ہوا؟ تم نے اپنے لئے پھانسی کا پھندا تیار کرلیا ہے۔‘‘
’’صائم! خاموش ہوجائو۔ تم مجھ سے ہمدردی کررہے ہو یا مجھ پر طنز کررہے ہو؟‘‘ زوبیہ ہذیانی انداز میں چلائی۔
اسی وقت پاس کھڑی لیڈی پولیس اسے پکڑ کر اندر کی جانب لے گئی۔
’’اب آپ جاسکتے ہیں۔ اس کیس میں آپ کی مدد کی ضرورت ہوئی تو ہم پھر آپ کو زحمت دیں گے۔‘‘ ایس ایچ او کی بات سن کر صائم اٹھا اور بیرونی دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔ اسے اپنے قدم اٹھانا مشکل لگ رہا تھا۔ دل پر ایک بوجھ تھا۔ وہ خود کو نمرہ کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ دو دوستوں کے درمیان جنگ میں ہار اس کا مقدر بنی تھی۔
(ختم شد)