چالیس دن کی تھی جب میری زندگی کی عجب کہانی کی ابتدا ہوئی تھی۔ گھر میں جہاں خوب سے خوب تر خو شحالی کا پودا تن آور درخت بن رہا تھا، میرے وجود کی آمد کو خوش بختی خیال کیا جا رہا تھا۔ بے شک گھر میں خوشحالی تھی مگر میرے نصیب میں نہ تھی۔ گھر کے سبھی افراد خوش مزاج تھے، تاہم میرے ساتھ ان کا رویہ روز بروز عجیب ہوتا جا رہا تھا۔ میں ابھی بچی تھی ، کچھ سمجھ نہ پاتی۔ امی، ابو خریداری کو جاتے تو عمارہ اور سلمی کو ساتھ لے جاتے جبکہ مجھ کو چھوٹے بھائی فرحان کے ساتھ گھر چھوڑ جاتے ، میں سمجھتی کہ یہی میری ڈیوٹی ہے۔ اپنے والدین سے کوئی شکایت نہ کرتی، مجھے ناز برداریوں کی عادت ہی نہ ڈالی گئی تھی اس لئے کسی بات پر بھی ضد نہ کرتی تھی۔ ایک بار عید کی خریداری کو میرے تینوں بہن بھائی گئے مگر والدین مجھ کو ساتھ نہ لے کر گئے کہ گھر کے تمام کاموں کا بوجھ میرے کندھوں پر تھا۔ وہ سب اپنی اپنی پسند کی چیزیں لے کر خوش خوش گھر واپس آئے مگر میرے لئے کچھ نہیں تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے کو گلے لگا کر پوچھیں گے کہ تم کیوں رو رہی ہو ؟ مگر انہوں نے نہ پوچھا بلکہ امی بولیں ۔ رومی! تو یہاں کھڑی کیا کر رہی ہے ؟ ہم تھک کر آئے ہیں، ہمارے لئے چائے بنا کر لا۔ میں اب خاصی سیانی ہو چکی تھی۔ پہلی بار احساس ہوا کہ امی ابو مجھ سے اتنا پیار نہیں کرتے جتنا وہ اپنے دیگر تینوں بچوں سے کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ کہ میں اپنے باپ سے زیادہ ماں سے ڈرتی تھی کہ وہ مجھ کو کبھی کبھی بہت بری طرح ڈانٹ دیتی تھیں۔ سب سے بڑا ستم جو ہوا وہ یہ کہ مجھ کو اسکول نہ بھیجا گیا۔ شروع میں اتنا احساس نہ تھا۔ جوں جوں شعور کے زینے چڑھتی گئی، میرا سامنا تنہائی کے آسیب سے ہونے لگا تب پڑوسن خالہ مجھ کو پڑھانے آنے لگیں ، تو بھی تنہائی کا بھوت دور نہ ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ آسیب مجھ پر قبضہ جمانے لگا اور میری شخصیت ختم ہوتی گئی۔ اب مجھ سے جو کرنے کو کہا جاتا، بنا چوں چراں کرتی، کوئی سوال کئے بغیر، میں نے بولنا تک چھوڑ دیا۔ لگتا تھا آہستہ آہستہ زندگی سے دور ہو رہی ہوں۔ میری سنجیدگی، میری گھمبھیر خاموشی کا بھی کسی نے نوٹس نہ لیا۔ ماں باپ کے ہوتے ہوئے میں یتیموں جیسی ہو گئی تھی۔ والدین کی محبت کا مجھ کو کوئی تجربہ نہ تھا، تنہائی کی اس قدرعادی ہو گئی کہ گھر والے چلے جاتے تو بھی اپنے کام کاج میں مشغول رہتی۔ ایک روز جب گھر کے سب افراد کہیں گئے ہوئے تھے، میں اکیلی تھی، دروازے پر دستک ہوئی۔ پڑوس سے خالہ آئی تھیں، میں نے ان کو کمرے میں بٹھا دیا۔ بتایا کہ امی ابو اور تینوں بچے خریداری کو بازار گئے ہوئے ہیں۔ اور تم کو وہ گھر کے کام کاج کے لئے چھوڑ گئے ہیں ؟ کوئی بات نہیں خالہ ! میرے چھوٹے بہن بھائی باہر جانے سے خوش ہوتے ہیں۔ ان میں مجھ میں کوئی فرق تو نہیں ، وہ خوش ہیں تو میں خوش ہوں۔ تب خالہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ کیا کیا جائے ! تیرا باپ بھی تو نجانے کہاں چلا گیا ہے اور ماں تیری شادی کر کے دوسرے کی ہو گئی ہے، اس کو اس مرد کے بچے تو دکھتے ہیں پر تو نہیں۔ جانے تیری ماں کی ممتا کو کیا ہو گیا ہے۔ ان کی بات پر میں حیرت سے ان کے چہرے کو تکنے لگی۔ پوچھا۔ خالہ سچ بتائو، کیا ابو میرے حقیقی باپ نہیں ہیں ؟ جو کہنا تھا کہ دیا ہے بیٹی ! بار بار وہ بات نہ کہلوائو جو میں نہیں کہنا چاہتی۔ آپ نے بات منہ سے نکال ہی دی ہے تو اب پوری بات بتائیے۔ کیا امی بھی میری نہیں ہیں؟ یہ بھی مجھ سے ویسا پیار نہیں کرتیں جیسا میرے چھوٹے بھائی اور بہنوں سے کرتی ہیں۔ ہاں بیٹا ! بس ایسا ہی جانو ،ماں بھی مرگئی ہے تیری لیکن اب تو تم نے انہی کے پاس رہنا ہے۔ اب تیرا اس دنیا میں ہے کون ان کے سوا … ! خالہ کی باتیں میری سمجھ میں آ بھی رہی تھیں اور نہیں بھی۔ مجھ کو حیران اور پریشان دیکھ وہ بولیں۔ بیٹی ریحان صاحب کے اولاد نہ تھی اور وہ دوسری شادی کرنانہ چاہتے تھے ، اس وجہ سے تجھ کو اپنے مزارع سے لے لیا تھا، جب اولاد ہو گئی تو ان کو اپنے بچے پیارے لگنے لگے اور تجھ کو ایک جانب کر دیا۔ یہی سچ ہے۔ سارے محلے میں اک میں ہی اس راز کی گواہ ہوں، آج اس وجہ سے بتا دیا ہے کہ میں نے تو مر جانا ہے، تجھ کو اصل حقیقت کوئی بتائے یا نہ بتائے شاید میں بھی نہ بتاتی لیکن تیری حالت دیکھ کر دکھ ہوتا رہتا تھا اور تمہاری ماں کی تبدیلی پر حیرت۔ پہلے پہل تو انہوں نے تم کو ایسا پیار دیا دوسرے بچوں کے ہونے کے بعد تم انہیں بوجھ لگنے لگیں، اب تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تم تو بس ایک مزارع کی بیٹی ہو ، جو وڈیروں کی چاکری کے لئے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سنتے ہی مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اب مجھ کو امی ابو کے رویئے کی سمجھ آگئی ورنہ میرے ننھے سے دماغ میں یہ معاملہ ایک ڈور کی طرح الجھا ہوا تھا۔ اب ساری بات عیاں تھی۔ میں اتنا روئی کہ پہلے کبھی اتنا نہ روئی تھی۔ خالہ کو بھی دکھ ہوا کہ انہوں نے یہ سب مجھے کیوں بتا دیا۔ مجھے اب بھی یقین نہ آ رہا تھا کہ یہ سچ ہے کہ میں ان کی لے پالک ہوں۔ یہ میرے ماں باپ نہیں ہیں اور اصل ماں باپ کوئی اور ہیں۔ کیا میں اب اس دنیا میں لاوارث ، بے آسرا اور بے سہارا ہوں ؟ وہ گھر جس کو اپنا سمجھتی تھی، اب مجھ کو پرایا لگنے لگا۔ لمحوں میں ہی دل نے اس گھر سے شناسائی کے سارے رشتے توڑ دیئے تاہم ایک مد ہم سی امید اب بھی باقی تھی کہ شاید خالہ غلط کہہ رہی ہوں۔ جب کسی کو بھی پتا نہیں تو خالہ اس راز کو کیسے جانتی ہیں؟ میں نے پوچھ ہی لیا۔ خالہ یہ سب آپ کیسے جانتی ہیں ؟ جب تمہارے والدین نے یہ گھر خریدا تھا تو محلے میں بس یہی دو گھر تھے ، ایک تمہارے والد کا اور دوسرا میرا، باقی محلے کے مکانات بعد میں رفتہ رفتہ تعمیر اور آباد ہوئے تبھی تمہاری امی کا اور میرا زیادہ وقت ساتھ گزرا۔ ہم دونوں تقریباً سارا دن ہی ساتھ رہتی تھیں۔ خالہ یہ کہہ کر اٹھ گئیں – وہ تو اپنے گھر سکون سے چلی گئیں۔ میری زندگی کا چین تہس نہس کر گئیں۔ ان کے جانے کے بعد جوں جوں میں غور کرتی جاتی تھی، سب باتیں سمجھ میں آتی جاتی تھیں کہ مجھے اس گھر میں وہ مقام اور اہمیت کیوں نہیں ملتی جو میرے بھائی اور دونوں بہنوں کو حاصل ہے۔ ماں کیوں بات بے بات مجھ کو ڈانٹتی ہیں اور باپ گھر آتا تو میری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب ہر وقت یہی بات میرے ذہن میں گردش کرتی کہ میرے ماں باپ کون ہیں ؟ اب اس گھر اور گھر والوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ میں بالکل خاموش رہنے لگی۔ جو وہ کہتے ، کر دیتی۔ ان دنوں میری بے بسی دیکھنے کے لائق تھی۔ سوچتی کاش ! خالہ یہ سب مجھ کو نہ بتا تیں ۔ انسان اس وقت تک سکون میں رہتا ہے جب تک وہ با خبر نہیں ہوتا۔ آگہی، بے چینی کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ میری آگہی بھی میرے لئے عذاب بن گئی۔ میں ہر وقت ایک انجانی سی آگ میں جلتی رہتی تھی۔ میرا صبر شاید میرا وہ اعتماد تھا جو میں اپنے ماں باپ پر کرتی تھی۔ اعتماد ٹوٹ تو صبر کی دولت بھی مٹی میں مل گئی۔ دل کا پیالہ اب ہر وقت آنسوئوں سے لبریز رہتا تھا کہ ذراسی جنبش سے چھلک جاتا تھا اور آنکھیں اس پانی کو اپنے اندر روک نہیں سکتی تھیں۔ ان کی سنگ دلی بڑھتی رہی لیکن اب مجھ کو ان سے کوئی گلہ نہیں تھا کیونکہ میں ان کی کچھ نہیں لگتی تھی۔ پہلے تو میں ان کی بے رخی، ڈانٹ اور نا انصافیاں اس لئے برداشت کر لیتی تھی کہ سمجھتی وہ میرے والدین ہیں جو چاہیں میرے ساتھ کر سکتے ہیں ، یہ ان کا حق ہے اور فرمانبرداری میرا فرض ہے لیکن خالہ نے حقیقت بتا کر مجھ کو خالی ہاتھ کر دیا۔ کیا ظلم سہنا اور کچھ نہ کہنا، میری تقدیر ہے ؟ آخر کب تک! اب یہی سوال ہر وقت مجھ کو پریشان کرنے لگا۔ اک محبت ہی تو وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر دوسروں کے حقوق آپ اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ جب ان کو مجھ سے محبت نہ تھی تو ڈانٹنے ڈپٹنے اور حکم چلانے کا بھی حق نہیں تھا۔ میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک روزامی، سلمیٰ اور فرحان کے ساتھ کسی کے گھر سالگرہ میں گئی ہوئی تھیں جبکہ عمارہ گھر پر تھی۔ عمارہ نے کہا۔ آپا! میرے کپڑے دھو دو۔ باقی کام کرلوں ، پھر دھو دوں گی۔ میں نے جواب دیا۔ اسے میری یہ گستاخی نہ بھائی۔ اس نے دھمکایا کہ ابھی نہ دھوئے تو اچھا نہ ہو گا۔ میں نے پروا نہ کی اور اپنے کام میں مگن رہی۔ اچانک اس نے چلا کر مجھے بلایا۔ کیا بات ہے ، کیوں چلا رہی ہو ؟ کیا تم نے کل میرے کمرے کی صفائی کی تھی ؟ ہاں کی تھی۔ میری الماری میں روپے رکھے تھے ، وہ اب نہیں ہیں۔ الماری تو میں نے نہیں کھولی، اچھی طرح دیکھو، پڑے ہوں گے ، میں کیوں تمہارے روپے لوں گی ۔ تم ہی نے لئے ہیں۔ میں نے اچھی طرح دیکھا ہے وہاں روپے نہیں ہیں۔ اس کا لہجہ توہین آمیز تھا۔ وہ چلا کر بول رہی تھی تو میں نے بھی اس کو اسی طرح چلا کر جواب دیا تبھی وہ ششدررہ گئی۔ آپا رومی ! آج کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟ جو تمہیں ہو گیا ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ میں تو روز ہی ایسے بولتی ہوں۔ تو میں بھی روزاب تمہارے ساتھ ویساہی بولوں گی جیسا تم بولو گی۔ میں نے کہا۔ بات کو گھمائومت، میرے روپے واپس کر د ورنہ امی سے مار پڑ وائوں گی۔ یوں ہماری یہ لڑائی شدت پکڑ گئی۔ اس نے گلدان اٹھا کر مجھ پر پھینکا جو میری ٹانگ پر لگا تو میں نے پاس پڑا وزنی تالا اٹھا کر اس کو دے مارا۔ وہ اس کے ماتھے پر لگا اور خون بہنے لگا۔ خون بہتاد یکھ میں ڈر گئی۔ وہ تو بستر پر گر گئی۔ مجھے لگا کہ بے ہوش ہو گئی ہے۔ میں نے پکارا، اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ خون بدستور بہ رہا تھا۔ مجھے اپنا انجام برا نظر آنے لگا۔ میں دروازے کی طرف بھاگی اور گھر سے نکل کر سرپٹ دوڑنے لگی۔ مجھے معلوم نہ تھا، کس سمت بھاگ رہی ہوں۔ میری اب کوئی منزل نہ تھی۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ اس عمر میں بھاگتی ہوئی میں بہت عجیب لگ رہی تھی۔ لوگ حیرت سے مجھ کو سڑک پر بھاگتا ہوا دیکھ رہے تھے لیکن کسی نے روک کر یہ نہ پوچھا کہ میں کیوں بھاگ رہی ہوں۔ کافی دور تک بھاگتے بھاگتے جانے میں کس جگہ پہنچ گئی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور خوف ابھی تک مجھ پر سوار تھا۔ سچ ہے خوف انسان سے ایسے ایسے کام کروا دیتا ہے جن کو سر انجام دینے کے لئے عام حالات میں تو ہمت ساتھ نہیں دیتی۔ اسی مقام پر خوف، ہمت بن جاتا ہے۔ بالآخر پیروں نے جواب دے دیا اور میں ایک گلی میں بنے ہوئے مکان کے سائے میں کھڑی ہو گئی ، تبھی اس مکان سے ایک عورت باہر نکلی اور مجھے سہما کھڑا دیکھ کر رک گئی۔ قریب آکر بولی۔ لڑکی ! یہاں ایسے کیوں کھڑی ہو ، کس گھر جانا ہے؟ کسی کے گھر نہیں جانا ہے، میں ویسے ہی گھر سے نکلی تھی، دور آگئی تو راستہ بھول گئی۔ شام ہو رہی ہے، کیا سوچ کر ویسے ہی گھر سے نکلی تھیں اور اب راستہ بھول گئی ہو ؟ لڑکیوں کا اس طرح اجنبی جگہوں کی طرف نکل پڑنا،اچھا نہیں ہوتا بیٹی ، چلو آٹو میں تم کو چھوڑ آتی ہوں۔ کہاں تم نے جانا ہے ؟ کافی عرصے بعد کسی نے اتنے پیار سے بات کی تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بہن سے لڑائی ہو گئی، اس کے ماتھے سے خون نکل آیا تو میں ڈر سے گھر سے نکل گئی کہ امی ابو آئیں گے تو مجھے مار پڑ جائے گی۔ بہن بھائی کس گھر میں نہیں لڑتے ، یہ تو معمول کی بات ہے۔ اچھا آئو میرے گھر، پانی پی لو ، ذرا حوصلہ بنائو گی تو تم کو میں خود تمہارے گھر چھوڑ آئوں گی ۔ وہ بازو سے تھام کر مجھ کو اپنے گھر کے اندر لے آئی۔ کچھ دیر دلاسہ دیا، چائے اصرار کر کے پلائی، پھر بولی۔ دیکھو رات ہونے والی ہے ، مجھے سچ سچ بتادو کہ کیا معاملہ ہے، تمہارا گھر کہاں ہے؟ میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ یہ کہہ کر میں رونے لگی۔ بیٹی ! کوئی چھت تو ایسی ہو گی جس کی پناہ میں تم نے زندگی کا اتنا عرصہ گزارا ہے؟ میں نے ہر بات ان کو بیچ سچ بتا کر کہا کہ آپ مجھے رکھ لیں، میں اب لوٹ کر گھر نہ جائوں گی۔ اچھا! ٹھیک ہے تم یہاں رہو ، جب تک رہنا چاہتی ہو ۔ جب کہو گی تم کو تمہارے والدین کے پاس پہنچادوں گی۔ میں ان کے گھر رہنے لگی۔ انہوں نے اتنے پیار سے رکھا کہ جب کہتیں کہ اب اپنے گھر جانے کو راضی ہو جائو تو میں رونے لگتی۔ یہ دو میاں بیوی ہی تھے ، ایک ان کا بیٹا تھا جو کمانے کو سعودی عربیہ گیا ہوا تھا۔ اب میں ان سے اور وہ مجھے سے مانوس ہو گئے تھے۔ میں بچپن سے گھر کے کام کاج کی عادی تھی۔ آنٹی کے گھر کا سارا کام سنبھال لیا۔ ان کو بہت آرام ملا اور وہ مجھ سے پیار کرنے لگیں۔ شوہر سے کہا۔ بچی یہیں رہنا چاہتی ہے تو رہنے دیں، ہم کو کیا پریشانی دے رہی ہے ؟ الٹا آرام ہی دیتی ہے۔ میں یہاں بہت سکھی تھی، کوئی ڈر تھا اور نہ خوف، البتہ جب وہ اپنے بیٹے کے آنے کی بات کرتیں، میں ڈر جاتی کیونکہ پہلے لوگوں نے بھی اس وقت تک میرے ساتھ اچھا برتائو کیا تھا جب تک ان کی اپنی اولاد نہ آگئی۔ ان کے ہاں اپنے بچے ہو گئے تو انہوں نے مجھ سے آنکھیں پھیر لیں۔ آنٹی قدسیہ اپنے بیٹے کے لئے بہت اداس اور پریشان ہو تیں تو ان کی پریشانی دیکھ کر میرا دل چاہتا کہ کاش ! ان کا بیٹا آجائے لیکن خوف اپنی جگہ قائم تھا کہ کہیں وہ نفرت کرنے والا انسان نہ ہو ، کہیں وہ ہی مجھ کو گھر سے نہ نکال دے۔ اگر ایسا ہوا تو میں کہاں جائوں گی ؟ لیکن میرا خیال غلط تھا کہ نواز کی وجہ سے میرا پیار جو آنٹی اور انکل سے ملا تھا، چھن جائے گا۔ ایسانہ ہوا۔ نواز بھی اپنے والدین کی طرح ایک رحم دل اور اچھا انسان تھا۔ وہ میرا خیال رکھتا تھا اور دھیمے لہجے میں احتیاط سے بات کرتا تھا۔ یقیناً یہ اس کے والدین کی تربیت ہی تھی کہ اس میں اتنی حیا تھی۔ پتا نہیں کب نواز نے مجھے پسند کیا، جب آنٹی نے مجھ سے بات کی تو میں حیران رہ گئی۔ میں تو آنٹی کے بیٹے کو دل میں بسانے کی جسارت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے آنٹی نے بہت سمجھایا کہ اپنے والدین کا پتا بتاد و جنہوں نے تم کو پالا پوسا ، بڑا کیا ہے۔ آخر میں نے پتا بتا ہی دیا۔ دونوں میرے والدین سے ملے ، جو باتیں انہوں نے آپس میں کیں ، وہ تو میں نہ سن سکی، بہر حال وہ خوش لوٹے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اچھی نیت کا صلہ ہم کو دے دیا ہے، محال امر کو ممکن بنادیا ہے۔ ہم نے تمہارے والدین کو راضی کر لیا ہے ، وہ تمہاری شادی میں شرکت کریں گے۔ وہ واقعی تمہارے گھر سے چلے جانے پر بہت پریشان تھے۔ بڑی سادگی سے میری نواز کے ساتھ شادی ہوئی کیونکہ آنٹی اور انکل دھوم دھام کو پسند نہ کرتے تھے۔ امی ابو بھی آئے، انہوں نے مجھے گلے لگایا، میں نے ان کو اور انہوں نے مجھے معاف کر دیا۔ واقعی دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں، اور یہ دنیا ان ہی کے دم سے قائم ہے –