شائستہ بیگم کا ہاتھ تیزی سے چل رہا تھا خستہ خستہ پراٹھے اترتے جا رہے تھے، اور پاس بیٹھے ان کے تینوں بیٹھے ہاتھ صاف کیے جا رہے تھے- توے پر سے ایک کے بعد ایک پراٹھا آ رہا تھا- اوپر سے فاخر حاشر اور نادر کے پاس پڑی ہانڈی میں سے ایک کے بعد ایک پکوڑا غائب ہوتا جا رہا تھا -اچانک خیال انے پر مڑ کر ہانڈی دیکھتے ہوئے مجبور ہوئی تھی- شرم نہیں ائی ماں کے لیے خالی کڑھی چھوڑتے ہوئے – مجھے ایک بھی پکوڑا نہیں ملا – اور مما جی کہہ کر تینوں بولے کڑی پکوڑا اور پراٹھے اپ کے ہاتھ کے ہوں تو چھوڑتا کون ہے- ارے نہیں یار، میری مما تو کچھ بھی پکائیں کمال کر دیتی ہیں فاخر مکھن لگا رہا تھا- شائستہ بیگم کا موڈ بحال ہوا یہ حقیقت تھی کہ ان کے میکے سے لے کر سسرال تک ان کے طریقے اور کھانے پکانے کا سبھی معترف تھے- مما جی نانو کی مس کال آگئی ہے- ہاتھ فون اٹھاتا ہوا نادر ماں کی طرف لپکا -انہوں نے نمبر ملا کر ہینڈ فری لگا لی یہ روزانہ کا مشغلہ تھا- اس وقت فون کرنا ،اج اتوار کی وجہ سے وہ لیٹ ہوئی تھی ،تو اماں نے مس کال دے دی تھی- لو جی اماں کیا ہو گیا ہے اپ جیسی نرم مزاج ساس تو میں نے دیکھی نہیں- اج میں بچوں کو لے کر اپ کی طرف ا رہی تھی، اور اپ کی بہو نے گھر چھوڑنے کی تیاری بھی کر لی ،چلو اچھا جانے دیں میں آ رہی ہوں اپ کی طرف -خیال رکھیے، بہو بیٹے کو سنا کر بھیجنا کہ بیٹیوں کی وجہ سے کھانا مل جاتا ہے ورنہ تم لوگ تو بھوکا مار دو- شائستہ بیگم کا مصالحہ راؤنڈ شروع ہو چکا تھا وہ ڈکٹیشن دے رہی تھی -ان کی اماں کے ساتھ ساتھ پاس بیٹھے تینوں بیٹے بھی یہی سن رہے تھے اور سر بھی دھن رہے تھے – بچپن سے لے کر اج تک انہوں نے یہی دیکھا تھا اب تو خیر دو کی جاب بھی ہو گئی تھی- اور جوانی پار کیے بھی اب کافی وقت گزر چکا تھا – جبکہ نادر یونیورسٹی میں تھا -جوانی میں بیوہ ہو کر جس طرح مردانہ وار حالات کا مقابلہ کر کے انہوں نے بچوں کو قابل بنایا تھا – وہ قابل تعریف تھا- اس بات کو سراہنے والوں کی کمی بھی نہ تھی – لیکن اس مشقت سے ان کے اندر جو کمی پیدا ہو گئی تھی وہ اس سے بے خبر تھی- یا پھر بے خبر رہنا چاہتی تھی – جیسے ہی یہ حکم ملا کہ ہم نانو کی طرف جا رہے ہیں گاڑی باہر نکالو تو وو تینوں راضی بھر چل دئیے – بچپن سے ماں کے اچانک پروگرام بنتے دیکھتے آ رہے تھے اور ایسے میں نانو کے گھر جا کر وہ بہت انجوائے بھی کرتے تھے – نصرت بیگم تینوں بیٹیوں اور دو بیٹوں کے حصار میں نڈھال سی لیٹی ہوئی تھی تیسرا بیٹا اپنی نئی نویری دلہن کو میکے چھوڑنے گیا ہوا تھا -دونوں بہوئیں کچن میں جتی ہوئی تھیں -جبکہ ان کے بچے پھوپھیوں کے بے دام غلام بنے خدمت کر رہے تھے اور پھوپھیوں کے بچے ماؤں اور ماموں کی گفتگو سننے میں مصروف تھے- ارے بس احمد، میں بھی اگر تمہاری بیویوں جیسی ہوتی تو کہاں کچھ بچنا تھا. نہ بیٹے لائق ہوتے نہ گھر بار کا کچھ بچتا یہ تو مجھے پتہ ہے کہ عاشر کے پاپا کے بعد کیسے زندگی گزاری ہے- وہ ترب کا پتہ پھینک کر رونے میں مصروف ہوئیں، باقی دونوں بہنوں نے اور ماں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا- نتیجتا بھائی دائیں بائیں بیٹھ کر دلاسے دینے لگے تیسرا آ کر پیچھے کھڑا ہوا -اور گردن میں بازو ڈال لیا – اسجد تم تو سسرال گئے ہوئے تھے ایک دم سے استفسار ہوا – وہ باجی مجھے اماں نے بتا دیا تھا اپ لوگ آ رہے ہیں- تو میں ندا کو دروازے سے ہی اندر کر کے واپس لوٹ آیا- ڈائنیں ہیں پوری، اپنے علاوہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی – اپنے بھائیوں کا بھی نہیں سوچا، کیا پتہ اسجد اور ندا کو ہمارے والے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر دیکھا وہی چالیں شروع ہو گئیں ماں بیٹیوں کی ، وہ دیورانی جیٹھانی کچن میں کھانا بناتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھول رہی تھی- بھابی سچ میں, میں تو اماں پر حیران ہوں- اچھی بھلی ہوتی ہیں کھاتی پیتی خوش باش تندرست- جیسے ہی بیٹیاں آتی ہیں کمزور اور نڈھال سی ہو جاتی ہیں- مجھے تو 15 سال ہو گئے ان کے یہی ڈرامے دیکھتے ہوئے- ویسے بھی تم نے سنا ہوگا انسان جیسا سنتا اور سوچتا ہو ویسا ہی محسوس کرنے لگتا ہے- اماں بھی بیٹیوں کے انے پر ان کے منہ سے یہی کچھ سن کر خود کو کمزور محسوس کرنے لگتی ہیں- اچھا بھابی ویسے اماں ہیں تو بہت اچھی، لیکن باجی شائستہ ان کی نیگٹیویٹی پالش کرتی رہتی ہیں اور ایسا پھر وہ بیہیو کر جاتی ہیں کہ انہیں بہو کا خیال ہی نہیں رہتا -اپ نے کبھی نوٹ کیا جب دو دن بھی باجی کا فون نہ ائے، تو وہ کتنا خوش ہوتی ہیں ہمارے ساتھ – ہاں یہ تو ہے یہی ہماری نند ہے جس نے ہماری زندگی الٹ پلٹ کر دی ہے- نہ ان کو اپنی عاقبت کی فکر ہے نہ ماں کی- ان کا بڑھاپہ اور اخرت دونوں داؤ پر لگائے ہوئے ہیں- بڑھاپے میں انسان تو بچہ بن جاتا ہے قصور ان کا ہے جو جوان ہے- اور اپنے بھائیوں کو سکھاتی رہتی ہیں- سچی بھابھی ہماری نندوں کی خوش قسمتی میں تو کوئی شک نہیں بھائی بھی اتنا پیار کرتے ہیں- اسجد کو دیکھو سسرال کی پہلی دعوت ہی چھوڑ آیا ہے- مگر پھر بھی کسی کو قدر نہیں – ان کو بھی ندا کے خلاف بھڑکا رہی ہیں- حنا کچن کی کھڑکی میں سے ڈرائنگ روم میں تانکا جھانکی کر رہی تھی سب سے زیادہ شائستہ باجی ہی اسجد کو لپٹا لپٹا کر رو رہی ہیں – اپنے بیوہ ہونے کو ڈھال بنا رکھا ہے اس عورت نے، جب دیکھو اسی بات کو کیش کرا کر ہمارے گھر کا سکون برباد کر دیتی ہے- شوہر کے مرنے کے بعد اپنے گھر کی بھی حکمران ہے ،اور دوسروں کے گھروں پر بھی حکومت کرتی ہے- جی بھابھی، ان کو حکمرانی کی ایسی لت لگی ہے کہ ہر جگہ عقل کل بنی رہتی ہیں، اس سے تو بہتر ہے کہ شادی ہی کر لیتی- بڑی خالہ مما چلو چلیں ہم اج کے بعد کبھی نانو کے گھر نہیں ائیں گے – جویریہ ایسے چیخ چیخ کر رو رہی تھی کہ اب جان نکلی کہ تب، بیٹا ہوا کیا ہے؟ سب لوگ جاننے کے لیے تڑپ رہے تھے، گھنٹہ بھر سے بڑی ممانی اور چھوٹی ممانی کچن میں… وہ ہچکیوں سے رو رہی تھیں، اب تو ان دونوں کی حالت خراب ہو گئی، سب سے پہلے تو وہ نندوں کے سامنے ہی گڑگڑائیں- کہیں انہیں گھروں سے باہر نہ نکلوا دیں – شوہروں اور ساس کو تو بعد میں بھی منایا جا سکتا تھا-
فاخر بیٹا تم سے ایک بات کرنی تھی- جی ماما آپ ہزار باتیں کریں- ابھی مہینے پہلے ہی تو اس کی شادی ہوئی تھی جویریہ کے ساتھ اور وہ بھی ماں کی پسند سے-بیٹا جویریہ کا ہاتھ بڑا کھلا ہے تو اس کو ذرا اونچ نیچ بتا دینا ابھی کل ہی اٹھ ہزار کا سوٹ ایک بار پہن کر کام والی کو اٹھا کر دے دیا ہے- مما نو مور پالیٹکس, وہ ایک دم سے کھڑا ہو گیا ساری زندگی اپ لوگوں کے ساتھ گیم کھیلتی رہی ہیں ,ہم اپ کی خاطر ممانیوں کی جاسوسیاں کرتے رہے اور اب اپ نے گھر میں بھی وہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے- ہماری ماں دوسروں کے گھروں میں اجارہ داری قائم رکھنے والی ہے ہمیں کہاں رہنے دیں گی اور وہی اپ نے شروع کر دیا آج کے بعد اپ جویریہ کی کوئی بات نہیں کریں گی بس چینج کریں خود کو ماما پلیز- وہ دھاڑ دھاڑ کر پاؤں مارتا ہوا باہر نکل گیا اور وہ نڈھال ہو کر صوفے پر گر گئی تھی- شائستہ کو میکے سے سسرال تک ہمیشہ سے سراہا گیا تھا- شادی سے پہلے والدین ان کی سمجھ بوجھ کے معترف تھے –شادی کے بعد شوہر نے بھی خوب تعریف کی ،کیونکہ طریقہ اور سلیقہ اور گھریلو شعور شائستہ پر ختم تھا -ان پر اللہ کا کوئی خاص کرم تھا جو ہر جگہ ان کو پذیرائی ملتی تھی- شادی کے اٹھ سال بعد بیوہ ہو جانا بلا شبہ بہت بڑا سانحہ تھا- مگر اس کے بعد جس طرح انہوں نے بیٹوں کو پروان چڑھایا اور گھر سنبھالا تھا اس پر ان کی پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ تعریف کی گئی- جس سے ان میں عجیب رعونت کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ پیدا ہو گیا کہیں یہ مقام یہ تاریخ مجھ سے چھن نہ جائے- اس بات کے احساس نے انہیں ہر فیصلے میں مکمل ازادی اور اس کے ساتھ یہ حکمرانی کہ میں عقل کل ہوں اس کا احساس حد سے زیادہ بڑھا دیا تھا – ماں بھائیوں اور بہنوں کو اپنوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر زیر بار رکھا تھا کہ مجھے باپ کے گھر سے بہت محبت ہے -اس لیے مشورے دیتی ہوں- حالانکہ وہ فیصلے سنایا کرتی تھی- اپنے گھر کے علاوہ بھابیوں کے گھر میں حکم چلانے کا نشہ ایسا تھا کہ انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ بیٹے کے پاس بیٹھے ہوئے،وہ فون پر ڈکٹیشن دیتی- بھابھیاں اکٹھی باتیں کرتی تو وہ کسی نہ کسی بیٹے کو باتیں سننے بھیج دیتی اب پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی فصل کو تباہ کر لیا ہے – وہ خداداد صلاحیتوں کی مالک تھی اپنی قابلیت کو منفی انداز میں استعمال نہ کرتی تو بیٹوں سمیت بھائیوں اور بہوؤں کے لیے بھی قابل تعریف نمونہ ہوتی- مگر یہ کیا ہو گیا اب اس کے اپنے بچے وہ سبق بھی پڑھا گئے تھے جو انہوں نے پڑھایا ہی نہیں تھا- وہ باب بھی یاد کر گئے تھے جو انہوں نے کبھی کھولا ہی نہیں تھا- وہ بت بنی بیٹھی تھی آنسو سفید دوپٹے میں گم ہو رہے تھے- تمہیں کیسے بتاؤں جویریہ مجھے تم تینوں سے بھی زیادہ پیاری ہے- میں نے تو بات برائے بات کی تھی، مگر مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میں اپنے گھر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ان کی عائلی زندگی بھول کر بھی ڈسکس نہیں کر سکتی کوئی مشورہ نہیں دے سکتی- نہ اچھا نہ برا- جرم بڑا تھا، تو سزا بھی بڑی ہی ہونی تھی- پھر سے اعتماد بنانے میں وقت لگتا ہے-