Saturday, December 14, 2024

Sabar Ki Sarzameen

ربیعہ نے شام کی چائے  کو چولہے پر چڑھایا تو گھڑی ساڑھے پانچ بجا رہی تھی۔ محمود اور مجیب بھی بس گھر پہنچنے والے تھے۔ دونوں بھائیوں کے آفس کی  چھٹی کی ٹائمنگ مختلف تھی، مگر گھر سے آفس کا فاصلہ یکساں تھا، اور وہ تقریباً ایک ہی وقت میں گھر آتے تھے۔ رقیہ بیگم برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ کر دانے کھا رہی تھیں اور نگاہیں دیوار گیر گھڑی کی جانب تھیں۔ جو بھی بیٹا پہلے آتا، ماں کے پاس رک کر سلام کرتا۔ ربیعہ، چائے بنا کر میرے کمرے میں لے آنا۔  اتنے میں محمود کپڑے بدل لے گا، مجیب بھی گھر آجائے گا۔ ہم ماں بیٹے اکٹھے چائے پیئیں گے۔ رقیہ بیگم نے بہو کو بلند آواز میں مخاطب کیا۔ کچن میں کھڑی ربیعہ کو ساس کا یہ فرمان ازبر ہو چکا تھا۔ جانے کیوں، روزانہ رقیہ بیگم یہ بات کرتی ہیں۔ چائے دم پر رکھ کر ربیعہ جلدی سے بیڈ روم میں جا کر سلام کرتی، پھر محمود کو سلام کر کے کپڑے تھما کر واپس کچن میں چلی جاتی۔ محمود کپڑے بدل کر ماں کے کمرے میں چلا جاتا۔ اتنے میں مجیب بھی گھر آجاتا۔ وہ کپڑے تبدیل کرنے کی زحمت کیے بغیر ماں کے پاس بیٹھ جاتا۔ ربیعہ تین کپ چائے سجا کر ساس، شوہر، اور دیور کی خدمت میں پیش کر دیتی۔ اس کا رخ پھر سے کچن کی جانب ہوتا۔ اب اسے رات کے کھانے کی تیاری کرنی تھی۔ شادی کے بعد سے اب تک اس کا یہی معمول تھا۔ اس کی شادی کو پانچ برس ہونے کو آئے تھے۔ ساس نے اس کے لیے گھر کے کاموں کی جو روٹین بنائی تھی، وہ بنا کسی چوں چرا کے اس روٹین پر کاربند تھی۔ اس کی روٹین تو اب تک نہ بدلی تھی، ہاں دو ماہ پہلے اس کے اکلوتے دیور مجیب کی شادی ہونے کے بعد گھر کی روٹین قدرے بدل گئی تھی۔مجیب ، ماں کو سلام کرنے کے بعد کپڑے بدلنے اپنے بیڈ روم کا رخ کرتا تو  دیر تک باہر نہیں نکلتا۔ پھر بھی، جب مجیب کا دروازہ بجا کر  ربیعہ اسے بلاتی۔ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ رقیہ بیگم نے ربیعہ کو آواز دی۔ نئے شادی شدہ جوڑے کا دروازہ بجانا ربیعہ کو معیوب لگتا تھا، لیکن ساس کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ تھی۔ جب وہ مجیب کے بیڈ روم کا دروازہ بجانے جاتی تو اندر سے اس کی آواز بلند ہو رہی ہوتی۔ ربیعہ جانتی تھی کہ مجیب کی گھر واپسی کے ساتھ ہی وہ شکوے اور شکایتوں کی پٹاری کھول دیتی ہیں۔اس کے کچھ شکوے جائز ہوتے تو کچھ باتوں کو وہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتی۔
☆☆☆

ربیعہ کی ساس، رقیہ بیگم خاصی تیکھے مزاج کی خاتون تھیں۔ اسی لیے ربیعہ نے گزشتہ برسوں میں ان کے ساتھ مشکل وقت گزارا تھا۔ ربیعہ ان کی ہر بات، خواہ اچھی ہو یا بری، برداشت کرتی۔ دکھ اسے تب ہوتا جب مجیب کی گھر واپسی کے ساتھ ہی رقیہ بیگم بہو کے خلاف بیٹے کے کان بھر دیتی تھیں۔دن میں ہوئی کسی معمولی سی بات کو وہ مبالغہ آمیزی کی حد تک بڑھا چڑھا کر محمود کو سناتی تھیں۔ جب محمود ماں کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آتا تو وہ بہت برہم ہوتا۔ ربیعہ کو تو اپنی صفائی پیش کرنے کا سلیقہ بھی نہ تھا، اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو جاتی تھیں۔اب رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ اپنی بد تمیزی پر اماں سے معذرت کر لیتا۔ وہ اکتا کر بیوی کو مخاطب کرتا۔ شوہر کے تیور دیکھ کر ربیعہ چپ چاپ اقرار میں گردن ہلا دیتی۔ کبھی اس کا دل کرتا کہ محمود کی بل دفتر واپسی پر وہ اماں سے پہلے شوہر کو دن میں پیش آئے واقعے کی درست جزئیات کے ساتھ تفصیل بتادے لیکن پھر مرحومہ ماں کی نصیحت یاد آتی۔دیکھو بیٹا ! جب شوہر دفتر سے تھکا ہارا گھر آئے تو اس کے سامنے ایک دم سے شکوے شکائیتوں کی پٹاری بھی مت کھولنا۔ صبح تیار ہو کر مرد اپنے کام پر جاتا ہے اور دن ڈھلے موٹر سائیکل پر گھر واپس لوٹتا ہے تو عورت کے لیے وہ محض منظر کی تبدیلی ہوتی ہے جب کہ مرد نے پورا دن گھر سے باہر گزارا ہوتا ہے۔ گزرے دن میں اس پر کیا بیتی ہوتی ہے، یہ صرف وہ ہی جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے دفتر میں کسی سے اس کی تکرار ہوئی ہو۔با س سے ڈانٹ پڑی ہو، گھر واپسی پر با یک پیچر ہوگئی ہو اور اسے بہت دور تک پیدل چلنا پڑا ہو۔ گھر بیٹھی عورت کو اس کی الجھنوں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ شوہر کے گھر لوٹتے ہیں وہ اپنی رام کہانی سنانے بیٹھ جائے تو شوہربھڑک بھی سکتا ہے ۔ربیعہ کی شفیق ماں نے اس کی شادی کے بعد دیگر بہت کی نصیحتوں کے ساتھ یہ نصیحت بھی کی تھی جو ربیعہ نے پلو سے باندھ لی۔ پھر ماں نے تو ابدی سفر کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ سبرال کی اونچ نیچ سے نمٹنے کے لیے ربیعہ کے پاس پلو سے بندھی ماں کی نصیحتیں ہی باقی رہ گئی تھیں۔ ربیعہ سوچتی اگر ماں زندہ ہوتی تو وہ ماں سے ضرور پوچھتی کہ اگر مرد کے سامنے شکوؤں کی پٹاری بیوی سے پہلے ماں کھول لے تو بیوی اس صورت چال میں کیا کرے۔ پھر ماں کی ایک اور نصیحت یاد آتی تو جیسے اپنے سوال کا خود بخود جواب مل جاتا۔عورت کے پاس صبر اور شکر دو ایسے ہتھیار ہیں جن کی بنا پر وہ صرف سرال کی اجنبی سرزمین پر اپنے قدم مضبوطی سے جما سکتی ہے اور اللہ کی مدد مدد شامل حال رہے تو عورت کی بے زبانی کے باوجود کوئی زبان ضرور ایسی ہوگی جو اس کے لیے توصیفی کلمات ادا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ماں نے یقین بھرے انداز میں پیش گوئی کی تھی۔ مرحومہ ماں کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کے باوجود ابھی تک ان کی پیش گوئی درست ثابت نہ ہوئی تھی۔دو ماہ پہلے ربیعہ کے اکلوتے دیور مجیب کی شادی ہوئی تھی۔ اپنی دیورانی نغمانہ کا طرز عمل دیکھ کر کبھی بھی ربیعہ کے دل میں قلق بتاتا کاش وہ بھی ماں کی ہوئی ہاں کی صیحتیں پس پشت ڈالتے ہوئی نغمانہ جیسا طرز عمل اپنا سکتی۔ نغمانہ نے ناز و انداز دکھا کر شوہر کو پوری طرح مٹھی میں کر رکھا تھا۔ دونوں بہوئیں رقیہ بیگم کی اپنی پسند کی تھیں لیکن نغمانہ اور مجیب کو دیکھ کر لگتاتھا جیسے ان کی پسند کی شادی ہو۔ مجیب نغمانہ کی ابرو کی جنبش بھی پہچان رہا تھا۔دفترسے آ کر اپنی ماں کو سلام کر کے سیدھا کمرے میں جاتا ، نغمانہ جھٹ پٹ اسے دن بھر کے واقعات کی تفصیل کہہ سنائی۔ رنگ آمیزی کرنے میں اس نے ساس کو بھی مات دی ہوئی تھی۔ اب ہوتا یوں کہ مجیب ماں کے پاس چائے پینے جاتا تو ماں کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ خود ماں سے وضاحت طلب کرنے بیٹھ جاتا۔اگر نغمانہ سے دودھ ابل ہی گیا تھا امی تو اس میں اسے اتنا برا بھلا کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے۔ وہ بہو ہے آپ کی کچھ تو لحاظ کر لیا کریں۔ آگے سے رقیہ بیگم آگ بگولا ہو کر بیٹے کو بھی بے نقط سنانا شروع کر دیتیں۔اور جورو کے غلام ! فورا ہی بیوی کی سکھائی پڑھائی میں آجاتا ہے۔ اپنی پھوہڑ بیوی کو کوئی نصیحت نہیں کرتا۔ موبائل کان سے لگائے کچن کے کام نمٹاتی ہے۔ کبھی دودھ اہل جاتا ہے ، کبھی ہانڈی کا مسالا لگ جاتا ہے۔ کان پر چلو مو بائل لگا ہوتا ہے، اس کی تو ناک بھی جلنے کی بو نہیں بتاتی ۔ میں نے سمجھانے کے واسطے کوئی نصیحت کر دی تو فٹ سے تیرے کان بھر دیے ۔ رقیہ بیگم بیٹے پر بگڑی تھیں۔ تمہیں رات کی روٹیاں تھوپنے (پکانے) کی ایسی کیا جلدی رہتی ہے۔ پتا بھی ہے وہ اکثر اپنی مہارانی کے ساتھ باہر دعوت اڑاتا ہے۔ اب کتنا رزق ضائع ہو گا مگر رزق ضائع ہونے کی اس گھر میں پروا کس کو ہے۔ ربیعہ آگے سے ساس کو یہ نہ جتا سکتی کہ ذ یابطیس کی مریضہ ہونے کی وجہ سے بھوک بھی ان سے برداشت نہیں ہوتی اور ان ہی کا فرمان ہے کہ رات آٹھ بجے کھانا دستر خوان پر چن دیا جائے اور سب گھر والے دستر خوان کے گرد آ کر بیٹھ جائیں۔ صبر شکر کے بعد بے زبانی بھی ربیعہ کا ہتھیار تھی جس کی بنا پر اکثر اسےگھنی میسنی کا بھی خطاب ملتا ۔
☆☆☆

آج ساس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے، نغمانہ نے مجیب کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اسے چائے کے لیے بلایا۔ تو اندر سے نغمانہ کی جھنجلائی ہوئی آواز سنائی دی۔بھابی ا ماں سے جا کر کہہ دیں مجیب کو چائے نہیں دینی۔ شام کے چھ بچے چائے پینے کی کیا ضرورت ہے؟ ساری بھوک مر جاتی ہے، پھر آٹھ بجے زبردستی بغیر بھوک کے کھانا بھی ٹھونسا پڑتا ہے۔ ربیعہ واپس پلٹنے ہی والی تھی کہ مجیب نے فوراً دروازہ کھولا۔رکیے بھابھی اماں سے کچھ مت کہیے، میں آرہا ہوں۔ اس نے بھاوج کو مخاطب کیا۔ہونہہ! اماں کے ڈر سے تو دم خشک ہو جاتا ہے۔  نغمانہ نے استہزائیہ انداز میں کہا – ربیعہ نے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا۔ ذرا دیر بعد، مجیب اماں کے کمرے میں چلا گیا۔ربیعہ نے وہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا۔ ذرا دیر بعد، مجیب اماں کے کمرے میں چلا گیا۔ بیوی پر غصہ اتارنے کے ازالے کے طور پر اب وہ ماں پر بھی بگڑ رہا تھا۔ اس گھر میں سکون کا ایک پل بھی میسر نہیں۔ پہلے بیوی کی چیخ پکار سنو، پھر آپ اس کے خلاف شکایتوں کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اس نے آپ کی شان میں کوئی ایسی گستاخی تو نہیں کی تھی، امی، جو آپ اتنی رنگ آمیزی کر کے سارا قصہ سنا رہی ہیں- مجیب ماں سےخفگی بھرے انداز میں مخاطب تھا۔ رقیہ بیگم تو بیٹے کے الزام پر آگ بگولا ہو گئیں۔ میں رنگ آمیزی کرتی ہوں ۔ تجھے شرم نہیں آئی ماں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے۔ بے حیا بے غیرت رقیہ بیگم کے غصے کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ وہ نغمانہ کو بھی بے نقط سنانے لگیں۔ نغمانہ کو کچھ مت کہیں امی ! مجھے جیسے آپ کی عادت کا اندازہ نہیں، پڑھائی کے بعد جتنا عرصہ میں نے نوکری کی تلاش میں گزارا، میرا بیش تر وقت گھر پر ہی گزرتا تھا اور آپ د ن بھر کے واقعات کی جو رپورٹنگ بھائی کے سامنے کرتی تھیں مجھے سب یاد ہے۔ بھا بھی بے چاری تو آپ کے سامنے منہ سے ایک لفظ نہ نکالتی تھیں۔ آپ ذرا سی بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر بھائی کے سامنے پیش کرتیں کہ میں خود آپ کا من گھڑت قصہ سن کر حیران رہ جاتا۔ جو کچھ آپ نے ربیعہ بھابھی کے ساتھ کیا وہ ہی نغمانہ کے ساتھ کر رہی ہیں لیکن میں محمود بھائی کی طرح کانوں کا کچا نہیں۔ بھائی تو بے چاری ربیعہ بھابھی کو فورا کٹہرے میں کھڑا کر دیتے تھے جب کہ میں نغمانہ کو ….مجیب بول رہا تھا اور رقیہ بیگم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ او ناہنجار! اپنی بیوی کا موازنہ میری ربیعہ سے مت کر۔ وہ میری اتنی فرماں بردار کہ میرے آگے کبھی ایک لفظ نہ بولی۔ ایسی بھلی . مانس کہ کبھی پلٹ کر جواب نہ دیا۔ تیری جورو کی طرح بے لگام زبان نہیں ہے اس کی۔ رقیہ بیگم کی پاٹ دار آواز گھر میں گونج رہی تھی۔ مجیب بھی خاموش نہ تھا، وہ بھی آگے سے کچھ نہ کچھ بول رہا تھا یقینا اپنے کمرے میں موجود نغمانہ بھی ساس کو کوس رہی تھی۔ پورے گھر میں صرف دو نفوس خاموش تھے ۔ محمود اور ربیعہ محمود کے چہرے پر تکان بھری مسکراہٹ پھیلی تھی۔ وہ ماضی میں ربیعہ سے ہونے والی نا انصافیوں اور اپنی ذ یادتیوں کو شمار کر رہا تھا۔ ربیعہ حسب معمول خاموشی سے گھر کے کام نمٹا رہی تھی۔ رات کو جب محمود کمرے میں آیا تو ربیعہ جائے نماز پر بیٹھی تھی، آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کیا ہوا ربیعہ کیوں رو رہی ہو؟ محمود حیران ہوا تھا۔ اس کے خیال میں تو آج ربیعہ کے لیے خوشی کا دن تھا۔ ساس نے سب کے سامنے اس کی اچھائیوں کا اعتراف کیا تھا۔ آج امی کی بہت یاد آ رہی ہے۔ ان ہی کے لیے دعائے مغفرت کر رہی تھی ۔ ربیعہ نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ پھر جائے نماز لپیٹنے کے ساتھ آنسو بھی پونچھے تھے۔ میں ماضی میں تمہارے ساتھ بہت نا انصافی کرتا رہا ربیعہ ! تمہارا مزاج اور عادتیں جانے، پرکھنے کے باوجود جانے کیوں اماں کی الزام تراشیوں پر آنکھیں بندکر کے یقین کرتا رہا۔ محمود شرمندہ تھا۔ شوہر کے چہرے پر پھیلی ندامت ربیعہ کو گوارا نہ تھی۔ وہ پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے شوہر کے پاس آ بیٹھی۔ماضی بھول جائیں محمود ! اب ہم باہمی اعتماد اور محبت کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کریں گے ۔ اس نے نرمی سے شوہر کو مخاطب کیا۔ محمود نے اپنی نیک طبیعت بیوی کو محبت سے مسکرا کر دیکھا۔ ربیعہ کو علم تھا کہ ماضی کی غلطیوں کے اقرار کے بعد وہ اب محبت کے اظہار کے لیے دل میں فقرے ترتیب دے رہا تھا۔ ربیعہ سر شارسی ہو کر مسکرادی تھی۔ دل میں دل میں مرحومہ ماں کو پھر یاد کیا ۔۔ ماں کی تربیت اور نصیحت رائگاں نہیں گئی تھی۔ صبر کا ہتھیار استعمال کر کے اس نے سسرال کی اجنبی سرزمین پر اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی ۔ وہ جانتی تھی که رقیہ بیگم پل میں تولہ، پل میں ماشہ والا مزاج رکھتی ہیں۔ وہ مستقبل میں کسی بھی بات پر نہ صرف اسے آڑے ہاتھوں لے سکتی ہیں بلکہ محمود کو اس کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش بھی کر سکتی ہیں لیکن وہ شوہر کی محبت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا اعتبار بھی جیت چکی تھی۔ ماں نے صبر کے بعد اگلی نصیحت شکر کی کی تھی اور ربیعہ کا رواں رواں اپنے رب کا شکر گزار تھا۔
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS