Friday, February 14, 2025

Sabir Ki Raah

جام پور میں ہمارے چچا رہتے تھے۔ وہاں سے کئی بار بلاوا آیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے، آپ لوگ گوہر کی شادی پر ضرور آنا۔ چچا کی بیٹی گوہر سے میری بڑی دوستی تھی۔ ملتان سے جام پور جانا ابا کے لیے مشکل تھا کیونکہ انہیں مل سے چھٹی نہ ملتی تھی۔ بہرحال، امی اور میرے اصرار پر انہوں نے بھائی فاخر کے ہمراہ ہمیں شادی میں شرکت کے لیے جام پور اور چچا کے گھر بھیج دیا۔ہم عین شادی کے دن پہنچے تھے۔ رات کو بارات آنی تھی۔ ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا، پھر نہا دھو کر لباس وغیرہ تبدیل کیا اور شادی میں شرکت کے لیے تیار ہو گئے۔ چونکہ بارات دور کے ایک گاؤں سے آنی تھی، لہٰذا گوہر کو بھی سر شام دلہن بنا دیا گیا تھا۔دولہا والے شام چھ بجے بارات لے کر آگئے۔ ان کے آتے ہی شادی کی رسومات شروع ہو گئیں۔ جب دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو وہ خوش خوش رخصت ہوئی، مگر اس کی سہیلی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تبھی میں نے اس لڑکی کے بارے میں صنوبر سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ صنوبر نے بتایا،  یہ ہمارے محلے کی لڑکی ہے، اس کو شادی کے سال بعد طلاق ہو گئی تھی۔ اپنی گزری ہوئی خوشیوں کو یاد کر کے روپڑی ہے شاید۔  امی کو یہ سن کر بڑا دکھ ہوا۔ بھائی فاخر بھی قریب موجود تھے۔ انہوں نے بھی صنوبر کی بات سن لی اور نور کے دکھ کو دل سے محسوس کیا۔نور ایک بے حد خوبصورت لڑکی تھی۔ ایسا حسن کم ہی دیکھا تھا۔ فاخر بھائی کو یہ لڑکی اچھی لگی۔ اگلے روز انہوں نے امی سے کہا،  آپ میرے لیے لڑکی تلاش کر رہی ہیں، اگر نور کو بہو بنا لیں تو نیکی ہو گی۔ طلاق یافتہ ہے تو کیا ہوا، اس کو دوبارہ گھر بسانے کا حق تو ملنا چاہیے۔  نور کو طلاق مل گئی۔ وہ بہت روئی۔ ماں سے کہا کہ میں جانباز کی قید سے تو آزاد ہو گئی ہوں مگر ایک اور پابندی کی اسیر ہوں۔ اوپر سے تم نے میرے امید سے ہونے کی خبر بھی چھپائی۔ اب ساس سسر کو بھی علم نہیں ہے کہ میں ان کے بیٹے کی اولاد کو جنم دینے والی ہوں۔ ماں، اب بتاؤ میرے ہونے والے بچے کا کیا بنے گا؟ بہتر ہے کہ اب بھی جانباز اور اس کے والدین کو خبر کر دو۔ ماں نے کہا کہ ابھی تمہارا کچھ نہیں بگڑا۔ کیوں نہ اسے اس دنیا میں آنے ہی نہ دیا جائے۔ ویسے بھی عمر بھر ایک قاتل کا بچہ ہی کہلائے گا۔ بھلا ایک قاتل کی اولاد کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے؟ یہ تو عمر بھر تمہارے لیے بھی کلنک کا ٹیکہ بنا رہے گا۔نور اس بات پر راضی نہ ہوئی۔ اس نے کہا کہ بے شک مجھے طلاق مل گئی ہے، لیکن میں اپنے بچے کو زندگی دوں گی اور اسے دنیا میں آنے سے پہلے ختم کرنے کی کوئی تدبیر نہ کروں گی۔ اس ظلم پر خدا بھی مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ غرض، اس نیک سوچ کی لڑکی نے ماں کی بات نہ مانی اور چھ ماہ بعد بیٹے کو جنم دیا۔ اسے یقین تھا کہ اگر جانباز کی زندگی ہوئی، وہ اس خبر پر خوش ضرور ہوگا۔ اس نے سسرال میں اور جانباز کو بھی جیل میں اطلاع دی کہ اس کے بیٹے نے جنم لیا ہے۔ جانباز جیل میں اس خبر سے خوش ہوا اور اس نے خدا سے دعا کی کہ اس بچے کی خاطر وہ اسے صحیح سلامت جیل سے نکال لے۔ لیکن یہ قدرت کو منظور نہ تھا۔ جانباز کو سزا ہو کر رہی۔اس بچے کی خاطر وہ دعا کرتا رہا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جانباز کو سزا ہو گئی اور بچہ اپنے نانا کے گھر پرورش پانے لگا۔ چونکہ اس کی ماں نے اس خبر کو سب سے چھپائے رکھا تھا، اس وجہ سے محلے کے لوگ بھی نور کی طلاق کے بارے میں غلط انداز سے سوچنے لگے۔ کچھ بدفطرت لوگوں نے تو یہ باتیں اُڑا دیں کہ شوہر نے اسے اسی سبب طلاق دی کہ نور کے کسی سے مراسم تھے۔ اس نے قتل بھی اسی رقابت میں کیا۔نور کے ساس سسر نے بھی اس بچے کو پوتا ماننے سے انکار کر دیا، جبکہ یہ باتیں سراسر غلط تھیں۔

جانباز تو نور کو بہت چاہتا تھا اور اس نے طلاق بھی اس لیے دی تاکہ وہ آزادی سے جیسے چاہے زندگی بسر کر سکے۔ اسے بیوی کے کردار پر کوئی شک نہ تھا کیونکہ نور ایسی لڑکی تھی ہی نہیں۔اس بچے کا طعنہ ایک بار نور کے باپ کو محلے کے ایک آوارہ نوجوان نے دیا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے سامنے پڑی اینٹ اٹھا کر اس آوارہ نوجوان کو دے ماری جو اس کے سر پر لگی۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہیں تڑپ کر مر گیا۔ ایک سانحہ پہلے جانباز کے غصے کی وجہ سے ہو چکا تھا، ایک اور ہو گیا۔ نور کا باپ جیل پہنچ گیا۔ اس پر بھی قتل کا کیس بن گیا۔ دونوں بدقسمت مرد جیل کی نذر ہو گئے تھے۔نور اور اس کی ماں بے آسرا ہو چکی تھیں۔ محلے کی عورتیں طعنہ زنی کرتیں کہ پہلے شوہر کو جیل کرایا اور پھر باپ بھی اس کے کارن جیل گیا ہے، جسے پھانسی ہو جائے گی۔ خدا ایسی بدبخت بیٹی کسی کو نہ دے۔ ان باتوں کا نور کے دل پر بہت اثر ہوتا تھا۔ وہ پہلے ہی کون سی سکھی تھی۔ ماں بھی اسے برا بھلا کہنے لگی تو وہ اپنی زندگی سے تنگ آ گئی۔ایک دن جب اس کے بیٹے نے دودھ کے لیے رونا چلانا شروع کیا تو نور کی ماں نے بیٹی اور نواسے کو کوسنا شروع کر دیا کہ انہوں نے یہاں گھر میں بھینس نہیں باندھ رکھی جو یہ لاڈلا ہر وقت دودھ کے کٹورے چڑھائے۔ یہ بات سن کر نور اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ بیٹے کو اٹھا کر گھر سے نکل گئی اور تو کچھ نہ سوجھا، ریلوے اسٹیشن جا کر ایک ٹرین میں بیٹھ گئی جو شہر جا رہی تھی۔ راستے میں روتے پا کر ایک خدا ترس عورت نے اس کا ٹکٹ بنوایا اور پھر اسے اپنے ساتھ لے آئی۔یہ عورت ملتان سے کراچی اپنے بھائی کے گھر جا رہی تھی جو کراچی میں اچھی پوسٹ پر تھا۔ اس کے بھائی کا نام اکرم اور بہن کا زاہدہ تھا۔ نور کی داستان سن کر ان لوگوں نے اسے پناہ دے دی کیونکہ اکرم کی زمین بھی مظفر گڑھ کے پاس تھی اور نور نے جب ماں باپ کا نام بتایا تو اکرم نے کہا کہ میں تمہارے والد کو جانتا ہوں۔ اکرم کی بیوی کو ایک ملازمہ کی ضرورت تھی اور یہ جوڑا بے اولاد بھی تھا۔ نور کے بچے کو ان لوگوں نے گود لے لیا اور وہ ان کے گھر کا کام کرنے لگی۔ وہ یہاں بہت خوش و خرم تھی۔ ان لوگوں کے حسن سلوک سے گویا پچھلے غم بھول گئی تھی۔جب اکرم صاحب اپنی زمینوں کی خبرگیری کرنے مظفر گڑھ گئے تو نور کے والد کے گھر بھی گئے۔ انہوں نے نور کی ماں کو تسلی دی اور بتایا کہ تمہاری بیٹی اور نواسا ہمارے گھر میں ہیں۔ نور کی ماں، بیٹی اور نواسے کی گمشدگی سے کافی پریشان تھی۔ اکرم صاحب انہیں بھی کراچی لے آئے اور ماں بھی نور کے ساتھ انہی کے گھر میں رہنے لگی۔چار برس بعد اکرم صاحب کو انہوں نے کہا کہ ہم واپس اپنے گھر جانا چاہتے ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں کہ گھر کا کیا حال ہے۔ اکرم صاحب انہیں ملتان لے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے رشتہ داروں کے کہنے پر جام پور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تو اکرم صاحب نے انہیں مجبور نہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نور کے والد کی پھانسی پر عملدرآمد ہونا تھا۔ اسی سبب دونوں واپس کراچی نہ گئیں۔اس سانحے کے بعد سے نور کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت روتی رہتی ہے کہ کسی کی خوشی ہو کہ غم، اسے بس رونے کا بہانہ چاہیے۔ گوہر سے اس کا دل لگا رہتا تھا، تبھی اس کی رخصتی پر اسے رونا آ گیا۔چاچی کے منہ سے یہ تمام قصہ سن کر نور کے لئے فاخر بھائی کے دل میں اور زیادہ ہمدردی پیدا ہو گئی۔ ہم بھی بھائی کی ضد سے مجبور ہو گئے اور یوں نور میری بھابھی بن کر ہمارے گھر آ گئی۔

جب ہم بھابھی کو ملتان سے لاہور لا رہے تھے، تب ان کی والدہ نے کہا کہ اس کا بیٹا مجھ سے بچھڑ گیا ہے اور میں اکیلی ہوں تو نواسہ میرے پاس رہے گا۔ ہم نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔ فاخر بھائی کو بھی نور کے بچے سے کوئی مطلب نہ تھا۔ انہیں نور چاہیے تھی، سو مل گئی۔ میں خوش تھی کہ میرے بھائی کی فیاضی سے ایک افسردہ لڑکی کو خوشیاں ملیں اور وہ آباد ہو گئی اور ہمارے درمیان خوش و خرم رہنے لگی۔ ہم بھی ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے تھے۔فاخر بھائی اور نور کی شادی کے چار برس بعد اس کی ماں فوت ہو گئی۔ بھابھی کے ہمراہ ہم بھی جام پور گئے۔ واپسی میں وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے آئیں۔ مجھے اور امی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ بظاہر تو بھائی جان کو بھی اعتراض نہ تھا کہ بچہ اکیلا رہ گیا تھا، ماں کے پاس نہ رہتا تو کہاں رہتا۔ بچے کو اسکول میں داخل کروایا گیا۔ بھابھی اس پر بہت توجہ دیتیں اور بیٹے کا بہت خیال رکھتیں کہ اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بناؤں گی۔ ہر ماں کی یہی فطری خواہش ہوتی ہے، سو بھائی کی بھی تھی۔میرے بھائی نے نیکی کی تھی اور نور کو بیوی بنایا تھا، تو انہیں اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہ تھا بلکہ وہ خوش تھے۔ انہیں بیوی سے کسی قسم کی شکایت نہ تھی، تاہم کچھ عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کبیدہ خاطر سے رہنے لگے ہیں۔ نور اور ان کے بیچ فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔ بیوی تو انہیں اچھی لگتی تھی لیکن گاؤں سے جب ایک اجڈ گنوار سا بچہ ان کے بیڈروم میں آ گیا تو انہیں کوفت ہونے لگی۔ وہ یوں محسوس کرتے کہ ان کی بیوی ایک بے وقوف اور بدتمیز بچہ اٹھا لائی ہے، جس کی انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی دلداری کرنا پڑتی ہے۔جب فرقان اپنی ماں سے ضد کرتا، فرمائشیں کرتا اور ضد پر اڑ جاتا تو بھائی کو الجھن ہونے لگتی۔ ان کا جی چاہتا کہ لڑکے کو تھپڑ لگا دیں مگر وہ فوراً اٹھ کر کمرے سے نکل جاتے۔ رفتہ رفتہ بھائی اور بھابھی میں دوریاں بڑھنے لگیں کیونکہ فرقان روز رات کو ضد کر کے ماں کے پاس سو جاتا تھا۔ جب بھائی فاخر کی گھٹن زیادہ بڑھ گئی تو ذہنی کھنچاؤ نے انہیں چڑچڑا اور بد مزاج بنا دیا۔ وہ بات بات پر بچے کو روکنے اور ٹوکنے لگے۔ اس وجہ سے نور ان سے کھینچنے لگی۔ دونوں میں ان بن رہنے لگی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ بھائی فرقان کو تھپڑ رسید کر دیتے۔ تب نور کا کلیجہ ہل جاتا اور وہ بھی بچے کے ساتھ رونے لگتی تھی۔میری بھابھی حد درجہ بے سکون ہو گئی تھیں۔ شوہر سے کہتی تھیں کہ تم میرے بچے کو برداشت نہ کر سکتے تھے تو کیوں کی تھی مجھ سے شادی؟ ہمدردی کی تھی اور اب نباہ نہیں پا رہے۔ تم ہی بتاؤ کہ اس کو برداشت نہ کرو گے تو پھر ہم کیسے ساتھ رہ پائیں گے؟ فرقان کا ہمارے سوا ہے کون؟ اسے اب عمر بھر یہاں ہی رہنا ہے۔ یہ نہ رہے گا تو میں بھی یہاں نہ رہوں گی۔اب معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھنے لگا تھا۔ بھائی کہتی کہ فاخر تم میرے بچے سے نفرت کرتے ہو۔ بار بار یہی بات ان کے لبوں پر آ جاتی۔ بالآخر ایک دن بھائی نے بھی کہہ دیا کہ ہاں میں اس سے نفرت کرتا ہوں، نہیں کر سکتا اسے برداشت، بے شک تم اسے اس کے ددھیال میں دے آؤ۔ پتا نہیں کیوں اس کے ددھیال والے اسے قبول نہیں کرتے، کہیں ان کا کہنا سچ ہی نہ ہو۔میں تو بھائی کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر سنّاٹے میں آ گئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ ایسے الفاظ منہ سے نکال سکتے ہیں۔ بس وہ دن آخری ہوا۔ نور بھابھی کا یہ طعنہ دل میں پیوست ہو گیا۔ اس روز وہ بغیر کسی سے کچھ کہے فرقان کو لے کر گھر سے چلی گئیں۔ اس دن سخت گرمی تھی۔ کھانا کھا کر سب سو رہے تھے۔ بھائی آفس میں تھے جب دبے قدموں بھابھی نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ برسوں گزر گئے، آج تک بھائی اور ہم انہیں نہیں ڈھونڈ سکے۔ اب بھائی پچھتاتے ہیں کہ کاش! میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ کاش میں نے بچے سے حسد کرنے کے بجائے اسے باپ کا پیار دیا ہوتا۔ پیار نہ دے سکتا تھا تو برداشت ہی کر لیا ہوتا لیکن انسان بھی عجیب مخلوق ہے، خود کو بھی سمجھ نہیں پاتا۔ نیکی کرنے کے لیے بھی بڑا حوصلہ چاہیے۔ اگر بھائی نے حوصلے سے کام لیا ہوتا تو نور کیوں پھر سے در بدر ہوتی!

Latest Posts

Related POSTS