میلوں کا اور سرکسوں کا زمانہ ہی اچھا ہوتا ہے، کیا کہتی ہو۔ اماں نے بیسن کی روٹی بیل کرتوے پر ڈالتے ہوئے کہا، پیٹ بھر کر کھاتے تو ہیں ان دنوں میں۔ سمعیہ بے دھیانی سے اس کی بات سن رہی تھی۔ اس کی پوری توجہ توے پر پڑی روٹی پر تھی جس میں پیاز ہری مرچیں ثابت دھنیا کٹی ہوئی سرخ مرچیں اپنی بہار دکھاتی نظر آ رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر اس کو بھوک کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ وہ چھٹی کا دن تھا ، اس نے جی جان سے اس چھوٹے سے کمرے کی صفائی کی تھی کپڑے دھوئے تھے اور نہائی تھی، جب وہ کاموں سے فارغ ہوئی تو بہت دن کی چلچلاتی دھوپ گرمی اور حبس کے بعد اچانک آسمان بادلوں سے ڈھک گیا تھا اور پل کے پل میں مہینہ برسنے لگا تھا۔ اگرچہ یہ موسم اس قسم کی مخدوش عمارتوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا جس میں وہ رہتی تھیں مگر موسم کی تبدیلی نے اس کا موڈ بہت خوشگوار کر دیا تھا۔ اس پر اماں کو بھی بیسنی روٹیوں اور پودینے کی چٹنی کا خیال آگیا تھا اور اب توے پر پکتی روٹی کی خوشبو نے سمیعہ کے سارے حواسوں پر غلبہ پالیا تھا۔ خلیفہ کہتا تھا پترلاجونتی! افنکار کبھی بھوکا نہیں مرتا- اماں کہہ رہی تھی۔ فنکار ہر دور میں بھوکا مرتا رہا مگر اب یہ دور ہے ایک مضبوط میڈیا کا- سمیعہ کو بے دھیانی میں سنے خلیفہ بشیر کے فری قول کے جواب میں دور حاضر کے کسی دانشور کا قول یاد آگیا۔ وہ کہتا تھا۔ فنکار کے لیے کام کی کمی نہیں بس اپنا اسینڈر (سٹینڈرڈ) نہ اونچا کرے آدمی۔ اماں نے روٹی پر چٹنی رکھ کر پلیٹ اسے پکڑتے ہوئے کہا۔ پیٹ کی بھوک ، ہر فن پر ، ہر اسٹینڈرڈ پر بھاری۔ سمیعہ نے بے تابی سے گرم روٹی کا لقمہ توڑتے ہوئے اپنے تئیں ایک سنہری بات سوچی۔ ابھی بھی میری مانگ ہے استاد کا فو کہہ رہا تھا- بڑے فنکار آئے بڑی دھومیں مچائیں پر نہ ہوا کوئی تیرے جیسا تو تو شہزادی ہے۔ سدا بہار نوٹنکی کی شهزادی- سنجیدہ تھیٹر کی دنیا میں آئے روز نت نئی جہت کا آغاز ہوتا رہتا ہے۔ تھیٹر سے وابستہ لوگ اپنے اپنے میدان کے ماہر اور مشاق ، مختلف تھیٹر گروپس اور آرٹ اکیڈمیز نے اپنی شناخت اور پہچان کے لیے ایسے ٹائیٹل نیم ، تخلیق کیے ہیں جن کو سن کر ہی کلاسیکیت کا احساس ہوتا ہے- اجوکا، این سی اے نوٹنکی، چترکار، ڈنکا آرٹس ایسے نام جیسے ماضی سے پیوستگی کا احساس دیتے ہیں۔ چند دن پہلے ہی سمیعہ نے ایک اردو روزنامے میں تھیٹر پر لکھا گیا ایک کالم پڑھا تھا۔ این سی اے نوٹنکی اسے یہ نام پڑھ کر اماں اور خلیفہ بشیر کا خیال آیا تھا۔ کیا اماں اور اس کے جیسے دوسرے لوگ تاریخ کی باقیات کہلائے جانے والے ہیں۔ اس نے سوچا تھا۔ اوہ ! اماں نے دوسری روٹی اس کی پلیٹ میں رکھی تو وہ چونک گئی ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی سوچوں کی دنیا کے پاتال میں اتر جاؤں مجھے اوپر ہی سے واپس آجانا چاہیے تاکہ میں اس موسم اور اس مزے دار کھانے سے لطف اندوز ہو سکوں ۔ اس نے سوچا۔ اماں سرکس کی کوئین نہ ہوتی تو مہینے کی آخری تاریخوں میں اس عیاشی کا متحمل کوئی کیسے ہو سکتا تھا- کھانا کھانے کے بعد اس نے چپکے سے خود سے کہا- پیٹ کی بھوک کے آگے سارے معیار ہیچ۔ اس نے اس دن کی دوسری سنہری بات سوچی۔
***
مینڈک کی آنکھیں معمول سے بڑی ہوئی چاہئیں کیونکہ سارے تاثرات روشنیوں کے ذریعے آنکھوں ہی سے دیے جاتے ہیں ۔ زور و شور سے جاری کام کے دوران سمیعہ اس طرح کے لقمے اکثر دینے کی عادی تھی۔ کبھی کبھار سعد کو الجھن ہوتی یہ ایسی بات وقت پر کیوں نہیں کرتی۔ وہ سوچتا مگر اپنی الجھن ظاہر کیے بغیر وہ اس کی بات پر من و عن عمل ضرور کرتا کیونکہ وہ سمیعہ کے اندر بھی ایک ایسی ہنر کار کو دریافت کر چکا تھا جو ماہرفن تھی مگر خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کچھ جانتی تھی اور کیا کچھ کر سکتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد نوشیرواں نے Princess and the frog شہزادی اور مینڈک کا منصوبہ مکمل طور پر سعد کے حوالے کر دیا تھا اور اپنی دوسری ٹیم کو کسی اور پراجیکٹ پر لگا دیا تھا۔ اس چیز نے بہت سے ساتھیوں کے موڈ خراب کیے تھے مگر خود سعد کو بھی اپنا نام بنانے کا اس سے سنہری موقع کوئی دوسرا نظر نہیں آرہا تھا۔ تم غلط گھوڑے پر شرط لگا رہے ہو۔ انجیلانے اپنے دل کی تلخی کا اظہار اس کے سامنے دو تین بار کیا تھا۔ میں یا نوشیرواں ؟ سعد نے اسے غور سے دیکھا تھا۔ شاید تم دونوں۔ اس نے اپنی شعلہ بار نظریں ادھر ادھر گھماتے ہوئے کہا تھا۔ آخر میں جاکر یہ تجربہ جہنم ثابت ہو گا۔ ہونے دو سعد نے بے نیازی سے کہا۔ تباہی کا خوف تجربے کرنے سے روک دے تو انسان کی ترقی کا عمل رک جائے بالکل۔ غلط گھوڑے کا انتخاب، انجیلا نے کہنا چاہا۔ “It can come out as a dark horse too” سعد نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرواتے ہوئے کہا۔ سعد نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرواتے ہوئے کہا۔ ٹھنڈی ہو جاؤ انجیلا فنکار کا فن ظاہر ہونے ہو۔ دیکھیں گے ۔ اس نے شانوں تک جھولتے بال جھٹکے اور اٹھ کر چلی گئی۔ سعد جانتا تھا کہ اس کے ساتھی اس سے ناراض تھے اگر پانچ سال کام کرنے کے بعد جو اس نے ایک ٹیم ممبر کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جو خالص اس کے اپنے نام کے کھاتے میں جائے۔ اس نے سمیعہ رحیم کے اندر چھے جوہر کو تلاش کر لیا تھا اور وہ اسے اتنی خاموشی سے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا تھا کہ کسی کو کیا خود سمیعہ رحیم کو بھی علم نہ ہو کہ اصل کام وہ کر رہی تھی۔ ابھی تک اس نے جو اندازہ لگایا تھا۔ اس کے مطابق سمیعہ وسیع ہال کی ایک میز پر بیٹھ کر کنسٹرکشن میٹریل کی کتربیونت کر کے پتلیاں بنانے سے اٹھ کر پتلی تماشے کی مکمل تخلیقات کا کام کر رہی تھی۔ اسے غالبا ڈرامے کی تخلیق کے دوسرے شعبوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا شوق تھا اور وہ اس میں کھو گئی تھی۔ پتلیاں بنانے اردو مکالمے لکھنے ادائیگی حرکات اور رنگوں روشنیوں کے استعمال ہر ہر مرحلے میں اس نے اپنی رائے دی تھی اور اس کی رائے مستند معلوم ہوتی تھی۔ یار! تم نے پہلے کہیں کسی تھیٹر میں یا پپٹ ورکشاپ میں کام کیا ہے ضرور ۔ کبھی کبھی کام کے دوران سعد چونک کر کہتا۔ کہیں بھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ وہ سادگی سے جواب دیتی۔ مجھے تو صرف پتلیوں کے بالوں، آنکھوں’ چہروں’ ہاتھوں اور جسم کی کٹائی سلائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ پھر تم باقی شعبوں کے بارے میں کیسے رائے دے لیتی ہو ؟ سعد حیرانی سے پوچھتا۔ میری اتنی اوقات نہیں مگر میں خیالوں میں اور تصورات میں اپنی بنائی پتلیوں کو مکالموں کے مطابق حرکت کرتے دیکھتی ہوں۔ سپاٹ لائٹ کے نیچے اور پیچھے کیسے انہیں زیادہ سے زیادہ حقیقی رکھنا ہے۔ مکالموں کی ادائیگی کے دوران ان کے منہ کے زاویے کیسے ہونے چاہیں میں اس پر بھی اکثر سوچتی ہوں۔ میں یہاں یونہی آگئی تھی جیسے انسان اپنی قسمت کی گھڑی کی ٹک ٹک سنتا بھٹکتا پھرتا ہے ، میری گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز نوشیرواں کو دیکھ کر تیز ہو گئی اور میں نے سوچا کہ یہاں کام کرنے کے پیسے شاید زیادہ ملتے ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے یہاں سے بھی یونہی لوٹا دیا جائے گا ، مگر نوشیرواں نے مجھے ضرورت مند قرار دے کر مجھ پر احسان کر دیا۔ مجھے خود معلوم نہیں تھا کہ اس سادہ دکھنے والی پرسکون عمارت کے اندر مجھے فن کا ایک پورا جہان دیکھنے کو ملے گا۔ بس پھر یہاں آکر اس ہال میں بیٹھ کر پتلیوں کا میٹریل کاٹتے بناتے مجھے اس فن سے پیار ہو گیا۔ میرے پاس کوئی ڈگری کوئی سند اس فن سے متعلق نہیں ہے مگر اس پیار نے ہی مجھے سوچوں سوچوں میں ہر چیز سکھا دی۔ سکھا دی یا اس پر کمانڈ دے دی۔ سعد مسکرایا مگر اگلے ہی لمحے اس کو احساس ہوا کہ اسے سمیعہ کو یہ احساس نہیں دلانا کہ اس کے کام اور رائے میں مہارت ہے۔ وہ اس پروجیکٹ میں شامل کیے جانے کو سعد کا احسان مانتی تھی اسے ایسا ہی مانتے رہنے دینا چاہیے۔
***
مجھے کمپیوٹر چلانا آتا ہوتا تو میں بھی پہلے گرافکس کے ذریعے اپنے خیالات کو پیش کرتی۔ سمیعہ نے کام کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ تیری تو ڈرائنگ ہی بہت اچھی ہے ، تجھے کیا ضرورت ہے کمپیوٹر کی۔ ہے نا اماں ! تو ان باتوں کو نہیں سمجھے گی ۔ سمعیہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ آج کل کام کرنے کے انداز بدل گئے ہیں ۔ اب نہیں کوئی ڈرائنگ شیٹس اور ہینڈ ڈرائنگز کے چکر میں پڑتا ۔ اس نےٹرف بالز اور گالف بالز کو علیحدہ علیحدہ پیکنگ بیگز میں ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ کراس لنک اور پوری تهین فوم کے کچھ ٹکرے اس روز اپنے ساتھ گھر لے آئی تھی۔ وہ چند ہتھ پتلیاں بنانا چاہ رہی تھی۔ تیری تو قینچی ہی صحیح نہیں ، اس سے کیا کٹے گی یہ شیٹ صحیح۔ اماں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئےاس کے ہاتھ پر نظر ٹکائی۔ کیوں کیا ہوا اس کو ؟ سمیعہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے سنپس (Snips) کو ہونقوں کی طرح دیکھا۔ شیٹ تیری موٹی ہے ، قینچی تیری چھوٹی ہے۔ اماں نے ٹھٹھا لگاتے ہوئے کہا۔ لا ادھر دے میں کاٹ کے دکھاؤں پتلی اماں نے ہاتھ بڑھایا۔ اس نے اپنی سلائی مشین سے نان اسٹک قینچی نکالی اور سمیعہ کے سامنے رکھی ڈرائنگ شیٹ کو پکڑ کر نظروں کے سامنے رکھا۔ آدھے گھنٹے کے کام کے بعد اس ہاتھ پتلی کے ٹکڑے کٹے پڑے تھے جسے سمیعہ نے شہزادی اور مینڈک کی کہانی میں اضافی کردار کے طور پر سعد کے کہنے پر ڈالا تھا۔ تمھیں یہ کام کیسے سمجھ میں آیا اماں ؟ کچھ دیر گم صم پتلی کے کٹے ٹکڑوں کو دیکھتے رہنے کے بعد سمیعہ نے پوچھا۔ یہ تو اول جلول کام ہے ہم نے پتلیاں بنائی ہیں اصلی والی’ ہماری لوک کہانیوں پر پتلی تماشے کیے ہیں بی بی ڈھولک کی تھاپ پر گا گا کر لوک داستانیں بنائی ہیں لوگوں کو ہماری پتلیاں بڈاوے نہیں لگتی ہیں وہ اچھل کود کرتیں اپنی اپنی باری پر شعر سناتی تھیں لوگوں کو ہم نے تو پتلیوں کے ساتھ کورو پانڈو کے منظر بھی دکھائے لوگوں کو۔ وہ کیسے؟ سمیعہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ خلیفے بشیر نے اسٹریٹ تھیٹر پر بڑا کام کیا بے چارے نے اماں کا من پسند موضوع شروع ہو گیا یہ لاہور شہر تو چھوٹا تھا اس وقت ۔ یہ جو بیدیاں کی طرف سڑک جاتی ہے اور رائے ونڈ اور جلو موڑ کی طرف سب پنڈ تھے گاؤں۔ اماں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فورا اپنے جملے میں لگا پنجابی کا ٹانکہ درست کیا۔ ہم ہر جگہ جاتے تھے اپنی پتلیاں لے کر ہم نے ہیر رانجھا بھی کیا اور سوہنی مہینوال بھی- یہ بڈاوے بی بی کچھ بھی نہیں تھیٹر کی پتلیوں کے سامنے یہ جو سامان ہزاروں میں آتا ہے ان کو بنانے کا ۔ اس نے ویلڈ ورڈ جیل کا ڈ با ہلاتے ہوئے کہا۔ ہم نے تو شاہ کار پتلیاں بنایں کیل ڈبے جوڑ کر، سائن اور شیفون، کرنکل کے کپڑے جوڑ کر ان کی پوشاکیں بنا کر، پر اصل کی ماند لگتی تھیں، دنیا ٹوٹ ٹوٹ پڑتی تھی ان تماشوں کو دیکھنے کے لیے۔ آج کا زمانہ بڑا فرق ہے اماں! مقابلہ ہے بڑا سخت ٹرینڈ بدل گئے ہیں اماں! آئے روز نت نئی چیزیں نکل رہی ہیں نئے نئے اسٹائل، فلسفے خلیفے کا زمانہ تم ہو گیا۔ اب تو اس کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں۔ سالوں بعد جھلائی ہوئی سمیعہ کے لبوں پر وہ بات آ ہی گئی جو دہ اماں سے بھی نہیں کہنا چاہتی تھی۔ سچا استاد تھا خلیفہ اس کا من سچا تھا اس لیے اس کا فن بھی سچا تھا ، اس نے دنیا کو فن سے آشنا کروایا اس وقت جب دنیا کو فن سے کچھ واقفیت نہیں تھی۔ اماں نے اس کی بات پر شدید رد عمل ظاہر کیا وہ سخت غصے میں آگئی تھی۔ وہ تو ٹھیک ہے اماں ! مگر اب کی دنیا اور اس وقت کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ اب نہیں جانتا خلیفہ بشیر کو کوئی۔ سمیعہ نے اسے حقیقت سے روشناس کرانا چاہا۔ ہاں۔ ٹھیک ہے۔ کچھ دیر بے یقینی سے اس کی دیکھتے رہنے کے بعد اماں نے شکست خوردہ آواز میں کہا ٹھیک کہتی ہے تو خلیفے کا زمانہ گیا اب جھوٹ کا زمانہ ہے ، نقل کا زمانہ ہے اب بچے فنکار کی ناقدری کا زمانہ ہے ، اب وہ اچھا فنکار ہے جس کے تعلقات ہیں، شوشا ہے، جو انگریزی بول لیتا ہے اور ڈی مینڈ(ڈیمانڈ) پہچان لیتا ہے ہاں آج کا فنکار بہت آگے ہے آج کا زمانہ بدل گیا ہے۔ وہ گویا خود کلامی میں مصروف تھی۔ وہ خود کو باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ وقت بدل گیا تھا۔ سمیعہ کو اس کی بے بسی پر عجیب سی تکلیف ہوئی- جب خلیفے کا وقت عروج پر تھا اماں ! اس وقت بھی سنجیدہ ٹھیٹر موجود تھا، کمال احمد رضوی ، نعیم طاہر کا تھیٹر تفریح کے ذرائع محدود تھے نا اس لیے لوگ بھاگ بھاگ کر خلیفے کی استادیوں کی طرف رخ کرتے تھے۔ وہ اماں کو بتانا چاہتی تھی، مگر اس نے نہیں کہا۔ لیکن یہ کمال فن ہے اماں ! پھر اس نے کٹھ پتلی کے لیے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو اٹھایا۔” مجھے معلوم نہیں تھا یہ کام تجھے آتا ہے میں نے تو خود فٹ بال سینے کے بچے کھچے میٹریل پر کام کر کے یہ فن سیکھ لیا پر تو تو مجھے سے کہیں آگے ہے اماں، تجھے ہر کام میں مہارت ہے”تو سچی فنکار ہے بالکل سچی۔ زندگی میں پہلی بارسمیعہ کو ادراک ہوا تھا کہ اس کی وہ ماں جس کے فن اور شوق کا وہ دل ہی دل میں مذاق اڑایا کرتی تھی درحقیقت کس قدر ناقدری کا شکار تھی۔
***
زبر دست پتلی تماشا پیٹ شو کے زیر اہتمام شہزادی اور مینڈک کے پہلے دن کے بعد ایک انگریزی اخبار کے آرٹ اینڈ کلچر کے صفحے پر اس کے بارے میں لیڈ آرٹیکل شائع ہوا تھا۔ یہ کھیل پیٹ آرٹ فیسٹول ویک میں پیش کیا گیا تھا اور اس کی ایک ایک تکنیکی پہلوپر تفصیل سے بات کی گئی تھی- فیسٹول ویک کے اختتام پر اس کھیل کو اس سلسلے کا بہترین کھیل قرار دیا گیا تھا۔ نوشیرواں اور اس کی ٹیم کو خاص اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اپنے اس کھیل پر بات کرتے ہوئے نوشیرواں نے سعد عثمان کی فنی صلاحیتوں کا خصوصی ذکر کیا تھا ، وہ ایک با صلاحیت پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آیا تھا- نوشیرواں نے اس کی تعریفوں کے خوب پل باندھے کیونکہ وہ اپنے ورکشاپ کی پروجیکشن پر بہت خوش تھا۔ ہال میں بیٹھے سعد عثمان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ وہ جس سیڑھی پر قدم جما جما کر اوپر جانے کی کوشش کر رہا تھا وہ سیڑھی اس سارے ہنگامے سے دور اسی شہر کے ایک تنگ اور گنجان محلے کے ایک تاریک اور چھوٹے سے مکان کے ساون کی مسلسل جھڑی سے بچ جانے کی دعائیں مانگ رہی تھی-
***
تمہارے اندر پیدائشی صلاحیتیں ہیں بی بی ! سعد نے سمیعہ کو ایک روز بتایا تھا وہ ان اضافی کرداروں کو یاد کر رہا تھا جو سمیعہ کے ذہن کی تخلیق تھے اور جنہوں نے کھیل کی خوب صورتی میں اضافہ کیا تھا۔ پتا نہیں شاید ہوں۔ سمیعہ کا انداز اسی طرح سادہ تھا جیسے ہمیشہ ہو تا تھا۔ مجھے فن ورثے میں ملا ہے۔ اس کا دل کہہ رہا تھا مگروہ اس ورثے کا ذکر نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کی اس جدید معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں تو میں سوچ رہا ہوں کہ ہم برادر گریم کی مزید اسٹوریز پر کام کریں بہت مزا آئے گا میں نوشیرواں سے بات کرنے والا ہوں اس سلسلے میں۔ اس نے شہزادی اور مینڈک کے لیے بنائی جانے والی کٹھ پتلیوں کو سنوار کر اسٹور کے لیے محفوظ کرتی سمیعہ کی طرف دیکھا، کیا تم اس سلسلے پر کام کرنے کے لیے تیار ہو؟ کون میں؟ سمیعہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ، اس کے ہاتھ میں وہ بلا تھا جو اضافی کردار تھا اور جس کے مختلف حصے اماں نے کاٹے تھے۔ یہ بہت حقیقی لگتا ہے۔ سعد نے بلے کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ تم ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال قسم کے ڈرامے کیوں نہیں کرتے ؟ سمیعہ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ چھوڑو ، اس کا زمانہ نہیں رہا اب جہاں animated films چھا رہی ہیں اور موضوعات ڈھونڈ ڈھونڈھ کر کھیل بنائے جا رہے ہیں وہاں ان پٹی ہوئی داستانوں پر کون کام کرتا ہے۔ سعد نے ناگواری سے کہا۔ ہاں۔ شاید ایسا ہی ہے ۔ سمیعہ نے آخری کردار کے بال اور اونی جسم کو برش سے درست کر کے گتے کے ڈبے میں بیک کرتے ہوئے کہا۔ “شاید نہیں یقینا ایسا ہی ہے۔ سعد نے اسے سمجھانے کے سے انداز میں کہا۔ “تم بتاؤ پھر کرو گی کام کچھ نئے پروجیکٹس پر ۔ مجھے اتنا تکنیکی کام آتا ہی نہیں۔ سمیعہ کی بے نیازی اور سادگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ پچھلے کھیل میں تو میں اپنے شوق میں ہی شامل ہو گئی تھی ورنہ مجھے تو نہیں پتا کہ تم لوگ کن کن پہلوؤں پر کام کرتے ہو۔ بہت ہی بے وقوف اور سادہ ہے سعد نے دل میں اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ نہیں آتا تو سیکھ لوگی۔ کام تو کرو۔ اس نے اپنی بات پر اصرار کیا۔ کیا کام کروں گی میں ، میں تو صرف کٹھ پتلیاں ہی بنا سکتی ہوں۔ وہ جیسے بتاؤ گے اور جو مجھے بنانے کو کہو گے، بنا دوں گی۔ تم نے جو شہزادی کے ڈائیلا گزادا کیے تھے۔ وہ بھولا تو نہیں کوئی۔ سعد نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔ ساتھ ساتھ اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ سمیعہ کو اس کے کام کی اہمیت کا احساس نہ ہو۔ وہ تو بس اتفاق سے ہو گیا، ورنہ میری آواز کی کوالٹی اچھی نہیں ہے۔ سمیعہ نے اس سادگی سے جواب دیا تھا۔ میری عمر میراثیوں کے ٹپے سنتے گزری ہے میری آواز کہاں سے اچھی ہو گئی تھی۔ اس نے دل میں سوچا تھا۔ میری خواہش ہے کہ تم کام سیکھو۔ سعد نے بے بسی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ میں کام سیکھ کر کیا کروں گی۔ سمیعہ کے پاس ایک بے بس سی مسکراہٹ تھی مجھے کام سیکھ لینے سے کوئی ترقی تو ملے گی نہیں ، میں ضرورت مندوں کی کٹیگری میں کام کر رہی ہوں یہاں نوشیرواں کو اندازہ ہے کہ کم از کم کٹھ پتلی بنانے میں مجھے مہارت ہے مگر میرے کام پر اس لیے بات نہیں کی جاتی کہ اس کی اہمیت نہیں ہے میں جس بھاؤ کام کرنے میں مسکینی کے ساتھ خوش ہوں اس کے دام اور وقت بڑھانے کی انہیں کیا ضرورت ہے۔ اس لیے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کام کیوں سیکھوں – کیا تمہیں اوراوپر جانے کا ناموری کا شوق نہیں ؟” سعد نے اسے لالچ دینے کی کوشش کی۔ شوق کسے نہیں ہوتا – اس نے لب بھینچے مگر مجھے علم ہے کہ مجھے یہاں ایسا کرنے نہیں دیا جائے گا۔ میں اس ملک کے ایسے فنکاروں کی تاریخ سے واقف ہوں ماہر تھے مگر گمنام رہے ۔ اس لیے کہ انہیں شہرت کی سیڑھی پر قدم رکھنے ہی نہیں دیا گیا۔” مایوسی کا شکار ہو تم ۔ سعد نے تاسف سے کہا “مایوسی کا شکار نہیں محقیقت آشنا۔” ” جو بھی ہے۔ سعد بچوں کی طرح ضد کرنے لگا “میرا خیال تھا کہ تم میری بات مان لو گی ۔” تم واحد شخص ہو جو آدمیوں کے اس سیٹ اپ میں انسان د کھتے ہو۔” وہ ہولے سے مسکرائی۔ “تم مجھے سے بات کر لیتے ہو ، مجھے کام میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہو ۔ مجھے کام سمجھاتے ہو۔ تم کامیاب رہو گے۔” “تو پھر میرے ساتھ کام کرونا۔ سعد نے ایک بار پھر کوشش کی۔ ٹھیک ہے ۔ ” وہ مسکرائی اور سعد کے سر سے جیسے منوں بوجھ اتر گیا ہو۔ گاڈ فادر ڈیتھ (خدائی خدمت گار کی موت) بریمین کے موسیقار بادام کا درخت ستاروں کی دولت ایک کے بعد ایک سعد نے پتلی تماشا پپٹ ورکشاپ کے نام کے تحت کئی کھیل بنائے۔ وہ اپنے ان شوز کو لے کر اندرون ملک کئی بڑے شہروں میں گیا اور اس نے اپنی ایک الگ شناخت بنالی تھی۔ اس سارے کام میں سمعیہ نے اس کے ساتھ جان توڑ محنت کی تھی مگر سعد نے اسے ایک بار بھی احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کامیابی میں اس کا کتنا ہاتھ تھا۔ جب پہلی بار وہ بیرون ملک گیا اس نے پتلی تماشا پپٹ ورکشاپ سے اپنا تعلق مستقل ختم کر دیا۔ اب وہ اس میدان میں اپنے نام سے قدم جمانا چاہتا تھا اپنی علیحدہ ورکشاپ اپنا علیحدہ گروپ اپنی الگ شناخت۔ وہ ان لوگوں اور معاونین کو وقت کی دھول میں اٹا چھوڑ کر آگے نکلنا چاہتا تھا-
***
میں نہایت افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں سمعیہ که پتلی تماشا میں یہ تمہارا آخری دن ہے- سمیعہ نے نوشیرواں کے اسٹنٹ وقار احمد کی بات کو تحمل سے سنا اور حلق سے نیچے اتار لیا۔ پرانے ساتھیوں کے ایک ایک کر کے چلے جانے کی وجہ سے گروپ کو نئے پروجیکٹس پر کام کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ اس لیے ہم اپنا اسٹاف بھی کم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، تمہارے ساتھ اچھا وقت گزرا۔ یہ الفاظ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کہے گئے تھے ۔ سمیعہ نے کچھ کہے بغیر اپنے واجبات وصول کر کے دستخط کیے اور آہستہ قدموں سے چلتی اس عمارت سے باہر نکل آئی جہاں وہ پچھلے دو برسوں سے بغیر ناغہ کیے روزانہ کام پر آتی تھی۔ عمارت کی خنک فضا سے باہر چلچلاتی دھوپ تھی اور صاف نیلا آسمان۔ اس کو نہ تو تجربے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا نہ ہی دو ماہ کی وہ تنخواہ جو گارنٹی کے طور پر رکھی گئی تھی۔ پھر سے دریا کا سامنا۔ اس نے سوچا تھا اور پھر وہ بس اسٹاپ کی طرف چل دی تھی۔
***
فنکار کی قدر شناسی ہو گئی۔ اماں نے اس کی بات سننے کے بعد تلخ لہجے میں کہا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے نا، انداز بدل گئے ہیں۔ امی نے سمیعہ کی بات دہرائی۔ یہ آج کی بات نہیں ہے بی بی اور ہر زمانے کا قصہ ہے بے انصافی میں ابنآدم کا کوئی ثانی نہیں اور یہ وہ فیشن ہے جو کبھی نہیں بدلتا ۔ ” اماں بول رہی تھی اور سمیعہ خاموش تھی۔ اس کا دل دکھا ہوا تھا اور اس کا ذہن تلخ ہو رہا تھا۔ اس نے اماں کے موبائل فون سے سعد کو کئی بار فون کرنے کی کوشش کی تھی مگر نمبر بدل چکا تھا۔ سعد نے نمبر نہیں بدلا تھا۔ سمیعہ کو اپنی تقدیر بدلتی آ رہی تھی۔ وہ ایک فن کدے سے باہر نکال دی گئی تھی۔ اس کے کام کی کچھ قدر نہیں تھی اور اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا کہ وہ اس میدان میں کام کر سکتی تھی۔ پتلی تماشا یہ ٹاور کشاپ کی آفیشلی ویب سائٹ پر اس کے کارناموں اور تاریخ کا تو ذکر تھا مگران لوگوں کا ذکر کیوں کر ہو گا جو ہنرمند تھے مگر ڈگریوں سے محروم تھے۔ اس کی آنکھوں میں پانی تھا اور سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا۔ کون سا در کھلا اماں! مجھے یاد ہے میں نے کون سے در پر دستک نہیں دی تھی۔ اسے دو سال پہلے کے منظر یاد آئے۔ چپ کر سمیعہ! میں تجھے رونے نہیں دوں گی ۔” زندگی میں پہلی بار اماں نے اس التفات کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے لہجے میں غصہ تھا اور سخت ناراضی۔ کوئی د ر نہیں کھلتا تو ہم اپنا د ربنائیں گے ایسا در جو ہم جیسوں کے لیے کھلا رہے گا ۔” وہ شاید شدید صدمے میں تھی اسی لیے بہکی بہکی باتیں کرنے لگی تھی زمانہ کیا سمجھتا ہے وہ نت نئے فیشن سامنے لاتا ہے تو کیا پرانے فیشن ختم ہو جاتے اصل میں زمانہ پرانے فیشنوں کو ہی نئے طریقے سے زندہ کرتا ہے” سمیعہ کو لگا اماں کی نظریں دور کہیں خلاؤں میں کچھ منظر دیکھ رہی تھیں اس کے چہرے پر عزم تھا اورجوش بھی- اس رات اماں نے ایک پرانے اٹیچی کیس کا زنگ آلود تالا کھول کر اس کے اندر رکھی ہفت اقلیم کی دولت سمیعہ کے حوالے کی تھی۔ سمیحہ کا زہن کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ وہ کبھی اماں کے چہرے کو اور کبھی اس شکستہ حال اٹیچی کیس کو دیکھ رہی تھی جسے آج تک اس نے درخوراعتنا نہ سمجھا تھا جس کو کھول کر اس کے اندر رکھی چیزوں کو دیکھنے کی اس نے بھی خواہش نہیں کی تھی۔ اٹیچی کیس سے نظریں ہہٹا کر اب وہ اماں کے چہرے کو تکے جا رہی تھی ہمیشہ کی طرح دنداسے سے رنگے ہونٹ بلیچنگ کریم سے سنہرے کیے بالوں کے لچھے کانوں کے پانچ چھیدوں میں سستے نگوں والے ٹاپس چمکاتی اماں ، سدا کی ڈرامے باز نوٹنکی کی شہزادی لاجونتی کسی نے اسے یہ خطاب کیوں دیا تھا سمیعہ کو اس روز سمجھ میں آیا تھا۔
***
سعد عثمان کی ورکشاپ نے اس سال کے چند بہترین کھیل پیش کیے تھے اور اس کے پرانے تخلیق کار ساتھی ایک ایک کر کے دوبارہ سے اس کے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ پتلی تماشا پپٹ ورکشاپ ، آہستہ آہستہ اپنی اہمیت اور نام کھو رہی تھی اور پھر ایک روز ان لوگوں نے سنا کہ نوشیرواں اپنی ورکشاپ اونے پونے داموں بیچ کر خود بیرون ملک جا بسا تھا۔ بغیر کسی Bid کے اس نے سارے ایکوپمنٹس اور باقی سامان بیچ دیا۔ پتا ہوتا تو کچھ کام کی چیزیں ہمیں بھی سستے داموں مل جائیں۔ ایک میٹنگ میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے عبید اللہ نے کہا تھا۔ وہ چیزیں تو اسکریپ بن چکی ہوں گی۔ سعد کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی ان کو خریدنے والا بھی کوئی اسکریپ ڈیلر ہی ہو گا۔ اس سے خرید کر مہنگے داموں بیچے گا۔ نوشیرواں کو اتنا مایوس نہیں ہو جانا چاہیے تھا۔ آخر اس کا نام ملک میں پپٹ تھیٹرز کے بانیوں میں اتا تھا، اس کو ٹیلنٹ ڈھونڈنا چاہیے تھا۔ کسی نے تبصرہ کیا تھا۔ عزم اور جنون، سعد عثمان نے انتہائی مدبرانہ انداز میں رائے دی تھی دونوں کی کمی تھی نوشیرواں کے ہاں اس کی ورکشاپ اس لیے چلی کہ اس وقت مقابلے پر کوئی نہ تھا ، ٹیلنٹڈ لوگوں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی ، نوشیرواں کو یہ غرور تھا کہ شاید یہ اس کا ہی کوئی کمال تھا، مگر ایسا نہیں تھا جوں ہی مقابلے پر آنے والے لوگوں کا سامنا ہوا وہ ہمت ہار گیا محنت اور لگن سے کام بنتے ہیں یہ نہ ہو تو ہمیشہ کام بگڑتے ہیں؟ جب ٹیلنٹڈ لوگ ساتھ چھوڑ گئے تو اس کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ بجائے نیا ٹیلنٹ ڈھونڈنے کے اس نے منہ چھپا لینے میں ہی عافیت جانی۔ سعد عثمانی پتلی تماشا پپٹ ورکشاپ کے شروع کے سالوں سے ہی اس سے وابستہ تھا۔ اس نے بیشتر کام وہاں سے سیکھا تھا اور بہت سے تجربے بھی وہیں کیے تھے مگر آزادانہ کام کرنے کی خواہش اسے نوشیرواں کی حاکمانہ طبیعت سے دور کرتی رہی تھی۔ شہزادی اور مینڈک اس کے لیے آزادانہ ترقی کا زینہ ثابت ہوا تھا اور اب وہ اپنی ایک مقبول عام در کشاپ کا مالک تھا۔ ترقی کے اس سفر میں وہ اس شخصیت کو قطعی بھول چکا تھا جو نہ ہوتی تو وہ خود بھی نوشیرواں کی ورکشاپ کی طرح بھولا ہوا قصہ بن چکا ہوتا۔ وہ اس شخصیت کو بھول چکا تھا مگر وہ اسے بھی نہیں بھلا پائی تھی۔
***
جس ماحول اور جن باتوں سے سمیعہ سدا سے خائف تھی اس روز اماں کی انگلی پکڑ کر وہ خود اپنے قدموں پر چلتی اس میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے لیے یہ ایک مختلف دنیا تھی۔ یہاں کے باسی پیٹ پالنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے تھے اس نے یہاں کئی بظاہر معقول نظر آنے والے لوگوں کو خواجہ سرا بنتے دیکھا تھا اور سنجیدہ ذہن لوگوں کو بھی میراثیوں کی سی حرکتیں کرتے دیکھا تھا۔ فنکار کو Pun (لفظوں کے معنی استعمال) پر مہارت حاصل ہونی چاہیے سمعیہ پتر Pun کو بڑے دانشور فنکار اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں ، ہم اس پر مہارت حاصل کرلیں تو اسے جگت بازی کا نام دے دیتے ہیں ۔ یہ جو بڑا فنکار ہے سچا اور سوہنا اپنا ضیاء محی الدین اس سے سوہنا Pun کا ماہر کون ہو گا ، پھر وہ ہے پڑھا لکھا۔ ہم ہیں جاہل اس کا pun فی البدیہ ٹکڑا، همارا pun جگت بازی بس یہ ہی فرق ہے سنجیدہ تھیٹراور شوقیہ تھیٹر میں۔ اس نئی دنیا کا ایک بڑا نام اسے ایک دن سمجھا رہا تھا۔ وہ اس طرح کی اور معلومات سے بھی روشناس ہوئی مگر اس دنیا میں اس کا دل نہیں لگا۔ وہ خود کو ہے جگہ محسوس کرتی تھی۔ یہ اس کی دنیا نہیں تھی۔ تم نے ٹھیک کہا تھا اماں کوئی در نہیں کھلتا تو ہم اپنا در بنانے کی کوشش کریں گے ، جو ہم جیسیوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ ایک روز اس نے اماں کو بتایا تھا۔
***
روایتی تھیٹر کا نئے انداز سے جنم- سعد عثمان نے ریسٹورنٹ میں اپنی مخصوص ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد عاد تا شیشے کی دیوار کے پاس نظر اتی نظرعمارتوں پر ڈالی اور بری طرح چونک گیا۔ پتلی تماشا پیٹ ورکشاپ کی عمارت بھی ان ہی میں سے ایک تھی، جو پچھلے ایک عرصے سے بند اور ویران پڑی تھی اس کی دیواروں کا روغن خراب ہو رہا تھا اور ڈسپلے بورڈ غائب تھا، مگر اس روز اس کی آنکھیں ایک نیا منظر دیکھ رہی تھی۔ سموک گرین رنگ کے نہایت خوب صورت نیون بورڈ پر اس عمارت کا تعارف لکھا تھا جس کی ظاہری حالت گنتی کے دنوں میں بدل گئی تھی وہ صرف تین ہفتے کے وقفے کے بعد اس ریسٹورنٹ میں آیا تھا۔ Revival of traditional theater in new style بورڈ کی چمکتی اسکرین پر لکھے یہ الفاظ دور سے پڑھے جا سکتے تھے۔ “Rebirth of khalifa Bashir the legend-” لیجنڈ خلیفہ بشیر کا نیا جنم ان الفاظ کے نیچے جلی حروف میں ایک اور جملہ لکھا تھا اور ساتھ میں کسی شخص کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی۔ اپنا آرڈر کینسل کروا کر وہ ریستوران سے باہر نکل آیا اور پیدل چلتا ریستوران کے عقب میں واقع ان عمارتوں کے قریب پہنچ گیا۔ پتلی تماشا پپٹ ورکشاپ کی جگہ اسی قسم کا کوئی نیا سیٹ اپ اپنے اندر سموئے وہ عمارت ایک نئی دھج سے کھڑی تھی۔ اس ہفتے کے شوگیٹ کیپر کے پاس اپنا شناختی کارڈ جمع کروا کر اندر داخل ہوتے ہی اس کی ایک نظر انفارمیشن بورڈ پر پڑی۔ لکن میٹی۔ خلیفہ بشیر کا تاریخی کھیل نئے انداز میں۔ بچہ جمورا۔ ستر کی دہائی کا مشہور عالم اسٹریٹ پلے فن کدہ کی جانب سے نو ٹنکی کی شہزادی لاجونتی- سوہنی مہینوال۔ کٹھ پتلی تماشا کی دنیا میں انقلاب لانے والا ایک بے مثال پتلی تماشا۔ شہزادی اور مینڈک برادر گریم کہانیوں کا شہرہ آفاق کھیل ایک نئے انداز میں ۔ میں اس ورکشاپ کے مالک کا نام جان سکتا ہوں ہے اس نے ریسپشن پر بیٹھے لڑکے سے پوچھا۔ یہ سب کام لاجونتی انٹر پرائزز کی جانب سے ہو رہا ہے۔ وہ کون ہیں ؟ سعد کے لہجے میں تجسس تھا- س وقت تو وہ آپ سے نہیں مل سکتیں ۔ آپ ٹائم لے کر آئے گا۔ ریپشنسٹ نے بے نیازی سے کہا اور ورکشاپ کا کارڈ تھما دیا۔ جو کوئی بھی ہے ، یہ چیلجنگ رول، واپسی پر سعد کے دل و دماغ اسے باور کروارہے تھے۔
***
ایک ایک کر کے سعد نے اس ورکشاپ کے سارے کھیل دیکھے ، جو مختلف ہالز میں پیش کیے جا رہے تھے ۔ تمام کھیلوں میں کام کرنے والے چہرے نئے مگر کام منجھا ہوا تھا۔ خصوصاً بچہ جمورا میں لیڈ رول لاجونتی کا وہ تقریبا سینتالیس اڑتالیس سال کی عورت تھی اور شکل کی کچھ خاص اچھی نہ تھی مگر اس کا کام بہت خوب صورت تھا۔ صحیح معنوں میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ جس کسی کا بھی آئیڈیا تھا کامیاب تھا، قدیم اور جدید انداز کا یہ امتزاج تنقید نگاروں، دیکھنے والوں اور آرٹ پروموٹرز کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ لاجونتی انٹرپرائز کی مالک سے ٹائم لیے بغیر ملاقات ممکن نہ ہو پا رہی تھی اور وہ ادھر ادھر سے اس کے بارے میں کچھ خاص معلومات بھی اکٹھی نہ کر پایا تھا۔ مگر اسے اس سارے کام میں ایک مانوس سی جھلک نظر آرہی تھی۔ اس نے اس ورکشاپ کے کھیلیوں کی ڈی وی ڈیز بھی منگوا کر دیکھی تھیں ۔ اس کام میں ایک عجیب سی بے ساختگی تھی فنکاروں کے کام میں زرخیزی تھی ، زبان اور لہجہ عوامی بھی تھا اور ثقافتی بھی۔ سوہنی مہینوال ایک ایسا کٹھ پتلی ڈرامہ تھا جس میں فوک کلچر کا رنگ نمایاں تھا ، میلوں ٹھیلوں والے کٹھ پتلی تماشوں کا سارنگ ، مگر اس کے مکالمے اور ادائیگی انتہائی شائستہ تھی۔ بچہ جمھورا ۔ سرکس میں کام کرنے والی ایک ایسی فنکار کی کہانی تھی جو ڈگڈگی کی آواز پر سرکس کے لیے کوئی بھی کرتب دکھانے پر تیار ہو جاتی تھی۔ اس ک الب ولجه طنزیہ مگر بہت مضبوط تھا۔ حقیقت میں اس نئی ورکشاپ نے پہلے سے کام کرنے والوں کی میزیں الٹانے کا کام شروع کر دیا تھا۔
***
مینڈک اور شہزادی کے بنیادی خیال کو ہم نے تھوڑا سا بدل دیا ہے ۔ خلیفہ بشیر آرٹ ورکشاپ کی روح رواں نئے آنے والے کھیل پر تعارف پیش کر رہی ہیں۔ حاضرین میں موجود سعد عثمان کا دل اس شخصیت کو دیکھ کر کئی دھڑکنیں مس کر چکا تھا۔ اس بار شہزادی مینڈک کو چوم کر شہزادہ نہیں بنائے گی بلکہ مینڈک شہزادی کو چوم کر مینڈ کی میں تبدیل کر دے گا۔ وہ بتا رہیں تھیں ۔ تبدیلی ہر جگہ پر ہے۔ سعد عثمان کے کانوں سے اپنی ہی کہی ہوئی آواز کی بازگشت ٹکرا رہی تھی۔ وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگی ضروری ہے مگر ماضی کے رنگ و آہنگ سے ناتا توڑ لینا ایک بڑی حماقت ہے۔ ہماری کامیابی کا راز ہی اس بات میں ہے کہ ہم نے جدید و قدیم کا رابطہ دوبارہ جوڑا اور توازن برقرار رکھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ آپ کو یہ اچھوتا خیال کیسے آیا؟ کوئی پوچھ رہا تھا- یہ خیال میرا نہیں میری ماں کا ہے ، میری ماں جو فن کی دنیا کا ایک بچھڑا اور گم نام ستارہ تھی جس نے گم نامی اور فاقہ کشی سے سمجھوتا کر لیا مگر روایات سے منہ موڑنے پر رضامند نہ ہو سکی۔ یہ ان ہی کا خیال تھا اور یہ سب ان ہی کی شخصیت کی برکت ہے۔ میری ماں جسے وقت نے دوبارہ سینٹر اسٹیج پرلا کھڑا کیا اور جسے آپ سب نوٹنکی کی شہزادی لاجونتی کے نام سے بچہ جمورا میں دیکھ رہے ہیں۔ خلیفہ بشیر کی یہ ہونہار مگر خود دار شاگرد خود کو ماضی کے کھنڈرات میں دفن ہوتا دیکھتی رہی مگر اس نے خلیفہ بشیر کے تھیٹر کی روایات سے انحراف کرنا گوارا نہیں کیا۔ یہ چھوٹے موٹے تھیٹر رولز ، سرکس فن اور گھر میں اچار چٹنیاں بنا کر بیچتی گزارا کرتی رہی مگر کوئی در ایسا نہ کھٹکھٹا پائی جس کے اندر داخل ہو کر اسے خلیفہ بشیر کی روح کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ وقت نے جب اس کے ساتھ اس کی فن کے عشق میں مبتلا بیٹی پر بھی سب دروازے بند کر دیے تو پھر اس نے اس بیٹی کی شادی کے لیے سینت سینت کر رکھی رقم خرچ کر کے اپنا در بنانے کی ٹھان لی۔ ایک ایسا د ر جو اس کے اور اس کی بیٹی کے جیسے لوگوں کے لیے ہمیشہ رہے گا ۔ لاجونتی انٹر پرائزز لاجونتی اور اس کے ساتھی فنکاروں کے عمر بھر کے بچائے سرمائے سے لانچ ہوا ہے ، اس کی مالی مشکلات کو کچھ پرانی روایات کے دلدادہ فن شناسوں نے بانٹا اور مل جل کر اس نے ورکشاپ کا ڈھانچا کھڑا کر دیا جو عوام کے لیے عوامی ہے اور عوامی ہی رہے گا۔” خلیفہ بشیر آرٹ ورکشاپ کی روح رواں سمیعہ رحیم پراعتماد آواز میں بول رہی تھی اور سعد سلمان اس کے خدو خال میں وہ لڑکی تلاش کر رہا تھا جو اپنے ٹیلنٹ سے نا آشنا بے نیاز تھوڑے پر راضی برضا ر ہنے والی تھی۔ اسے اس بے نیازی اور ڈاؤن ٹو ارتھ صورت حال سے کس نے نکالا ؟ وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔ کوڑا کرکٹ سے فٹ بال سینے کے دھاگوں اور کپڑوں کی کرنوں کو جمع کر کے ہی تو ہم اب تک رزق کماتے آئے ہیں۔ اسے سمیعہ کی بات یاد آئی۔ ہم خود اس نے سمیعہ سے سوال کیا تھا۔ ہم میں اور میری ماں۔ سمیعہ نے بتایا تھا۔ اوہ اس نے دل میں جھر جھری لی تھی۔ یہ کسی کوڑا چننے والی عورت کی بیٹی ہے ؟ اس نے سوچا تھا۔ جب ہی اتنی غیر متاثر کن شخصیت کی مالک ہے۔ اسے کراہت سی آئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن میں نے سمیعہ کے پس منظر کا ایک گھٹیا سا خاکہ فرض کر لیا تھا۔ ساتھ ہی اسے یہ سوچ کر بھی اطمینان سا ہوا تھا کہ وہ سمیعہ کے ٹیلنٹ کا بڑی آسانی سے استحصال کر سکتا تھا۔ اسے کبھی احساس بھی نہیں ہو گا اور وہ خود کو ضرورت مندوں کی کیٹگری میں کام کرنے والی لڑکی جان کر جو کہا جائے گا کرتی جائے گی۔ اور اب۔ سعد نے اپنے سامنے کا منظر دیکھا۔ سمیعہ کی کوڑا چننے والی ماں پنک سوٹ پہنے بالوں کو براؤن شیڈ میں رنگے ، نفیس جیولری پہنے بیٹھی کہیں سے بھی کوڑا چنے والی عورت نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر البتہ ایک عجیب سی کرختگی تھی اور اس کے چہرے کے تاثرات کہیں اس کے ماضی کے فنکارانہ کیریر کی جھلک دکھلا رہے تھے۔ نوٹنگی کی شہزادی لاجونتی۔ سعد نے کئی بار سنا یہ ٹائٹل ذہن میں ہرایا اور لاجونتی کے پیچھے دیوار پر نظر ڈالی۔ جہاں لاجونتی انٹر پرائزر کی تعارفی تشہیر کی فلم چل رہی تھی۔ سفید تہمند اور سفید کرتا پہنے سر پر سفید کپڑا باندھے چارپائی پر بیٹھا خلیفہ بشیر جس کی آرٹ اکیڈمی کے شاہکار کئی فنکار لاجونتی اسکرین تک انٹر پرائزز کے پیش کردہ کھیلوں میں کام کر رہے تھے۔ “Khalifa Bashir the legend” اسکرین بار بار جلی حروف میں یہ الفاظ دکھا رہی تھی ماضی کی راکھ میں دفن اس شخص کو کس نے راکھ کھرچ کر با ہر نکالا۔” وہ سوچ رہا تھا اور پھر اس نے سمیعہ رحیم کو دیکھا جدید تراش خراش کا انتہائی اچھا سلا ہوا سوٹ پہنے اپنے لمبے سیدھے بال کھولے کسی بھی میک اپ سے بے نیاز یہ مکمل اعتماد سے بولتی یہ وہ لڑکی تو نہ تھی جس سے سعد عثمان واقف تھا۔ اس کی مسکینی اور احساس کمتری سے کس نے باہر نکالا ؟؟ اس نے خود سے دوسرا سوال کیا۔ سچے فنکار کو جس روز خود آگاہی کی دولت مل جاتی ہے اس روز وہ زندہ اور تگڑا فنکار بن جاتا ہے۔ مائیک پر موجود کوئی شخص بول رہا تھا۔ بشیر آرٹ ورکشاپ ان لوگوں کا گھر ہے اور یہاں سے اٹھنے والی آواز ان لوگوں کی آواز ہے جنہیں بڑی بڑی آرٹ اکیڈمیوں میں بیٹھے سوٹڈ بوٹڈ انگریزی دان ان کے اندر کے فنکاروں کو پہچان نہیں پاتے، مگر در حقیقت یہ ہی اصلی فنکار ہیں، جن کے دل اور کام ان مسائل سے نبرد آزما ہوتے تانبا بن چکے ہوتے ہیں جن کو یہ بڑے نام اسکرین پر اور اسٹیج پر ہائی لائٹ کرتے ہیں ۔ ان فنکاروں کی فنکاری میں سچائی اور بےساختہ پن اس لیے نظر آتا ہے کہ وہ ان ہی مسائل سے گزر رہے ہوتے ہیں، اسی لیے ان کا فن حقیقت سے قریب اور ان کے منہ سے ادا ہونے والے مکالمے قدرتی لگتے ہیں ۔ لاجونتی انٹر پرائزز ان بڑے ناموں اور اونچی ورکشاپس اور آرٹ اکیڈمیز کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے, ہم سا ہو تو سامنے آئے اب اس بڑی اسکرین پر شہزادی اور مینڈک کا تھیم سونگ دکھایا جا رہا تھا۔ خلیفہ بشیر کے مزاج اور جدید رحجانات کا امتزاج , ہال میں بیٹھے سامعین توصیفی جملے کہہ رہے تھے اور سعد عثمان پر نوشیرواں جیسی دھند چھا رہی تھی۔