Monday, January 13, 2025

Sacha Khawab

تین آدمی اکٹھے سفر کر رہے ۔ تھے۔ ان میں سے ایک مسلمان، ایک یہودی اور ایک عیسائی تھا۔ راستے میں ایک گاؤں میں انہوں نے قیام کیا۔ ایک نیک آدمی ان کے لیے شہد کے حلوے کی ایک قاب لے آیا۔ اتفاق سے یہودی اور عیسائی دونوں بد ہضمی میں مبتلا تھے اور ان کا جی کسی چیز کے کھانے کو نہ چاہتا تھا۔ ادھر مسلمان روزے سے تھا۔ اس لیے وہ بھی حلوہ نہ کھا سکتا تھا۔ جب شام ہوئی تو مسلمان کو تو سخت بھوک لگی لیکن اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اس وقت تو ہم سیر ہیں اس لیے اس حلوے کو کل کے لیے رکھ چھوڑیں۔ مسلمان نے کہا نہیں اسے تازہ تازہ کھا لینا چاہیے۔ آخر کل تک صبر کرنے میں کیا تک ہے۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم تیری نیت کو بھانپ گئے ہیں۔ تو چاہتا ہے کہ اکیلا ہی سارہ حلوہ ہڑپ کر جائے۔ مسلمان نے کہا کہ دوستو ہم تین آدمی ہیں۔ چونکہ ہم میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس حلوے کو آپس میں بانٹ لیں۔ پھر جس کا جی چاہے ابھی کھائے اور جس کا جی چاہے کل کے لیے رکھ چھوڑے۔ لیکن یہودی اور عیسائی اپنی ضد پر اڑے رہے۔ اب بیچارے مسلمان کے لیے خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

تینوں سو گئے اور صبح اٹھ کر ضروریات اور عبادت سے فارغ ہو کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ایک نے کہا کہ رات کو جس نے جو خواب دیکھا ہو وہ بلا کم و کاست بیان کر دے جس کا خواب سب سے اچھا ہو وہ سارا حلوہ کھالے۔ سب نے اس بات پر اتفاق کر لیا۔ سب سے پہلے یہودی نے کہا کہ رات کو میں نے خواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ کوہ طور کی طرف جارہے تھے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کوہ طور پر پہنچے تو ایک نور نے ہم کو ڈھانپ لیا۔ پھر اس نور میں سے ایک اور نور پھو ٹا جس کی چمک میں کوہ طور، حضرت موسیٰ اور میں تینوں گم ہو گئے۔ پھر نور حق نے اس میں پھونک ماری تو کوہِ طور کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ ایک ٹکڑا سمندر میں گرا اور اس کا تلخ زہر پانی میٹھا ہو گیا۔ دوسرا ٹکڑازمین پر گرا تو وہاں سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔ اس پانی کو حق تعالیٰ نے بیماریوں کے لیے شفا بنا دیا۔ پہاڑ کا تیسرا ٹکڑا کعبے کے قریب عرفات پر جا گرا۔ پھر جب مجھ کو ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ طور اپنی جگہ پر قائم تھا لیکن وہ حضرت موسیٰ کے پاؤں کے نیچے برف کی طرح پگھل رہا تھا اور اس کی بلندیاں پستیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ پھر میں نے ہزار ہا انبیاء اور فرشتے دیکھے جو طور کی طرف آرہے تھے۔ غرض یہودی بڑی دیر تک اسی قسم کی باتیں بنا تا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا تو عیسائی نے اپنا خواب بیان کرنا شروع کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے خواب میں حضرت مسیح کی زیارت کی۔ میں ان کے ساتھ چوتھے آسمان پر گیا اور وہاں ایسے ایسے عجائبات دیکھے کہ زبان ان کے بیان کرنے سے عاجز ہے۔ بس یوں سمجھو کہ اس دنیا کی چیزوں کو ان آسمانی اشیا سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ غرض اس نے بھی زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔

اب مسلمان کی باری آئی۔ اس نے کہا کہ میرے دوستو میں خواب میں اپنے آقا و مولا جناب محمد مصطفے ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ وہ سرداروں کے سردار ، دو جہان کے باد شاہ، ہادی اکرم، فخر کو نین آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تیرے ساتھیوں میں سے ایک طور پر گیا ہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھ عشق الہی میں مشغول ہو گیا ہے۔ دوسرے کو حضرت عیسی صاحبقران چوتھے آسمان پر لے گئے ہیں۔ یہاں اب تو اکیلا رہ گیا ہے اٹھ اور اس حلوے کو کھالے۔ ان دونوں کو تو بڑے مرتبے حاصل ہو گئے اور وہ فرشتوں میں جاملے ہیں تو یہاں عاجز و درماندہ ہو کر بیٹھا ہے اس حلوے کی قاب پر ہی قناعت کر۔ یہ سن کر یہودی اور عیسائی دونوں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: اے بیوقوف لالچی ! کیا تو سارا حلوا کھا گیا ہے؟ اس نے کہا: صاحبو! جب مجھ کو میرے آقا و مولا دونوں جہان کے بادشاہ کوئی حکم دیں تو میری کیا مجال کہ آپ کے حکم سے سرتابی کروں۔ اے یہودی! اگر تجھ کو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کوئی حکم دیں تو کیا تو اس کے ماننے سے انکار کر دے گا؟ اور اے عیسائی! تو حضرت عیسیٰ کا حکم ماننے سے سرتابی کر سکتا ہے ؟ اگر تم اپنے پیشواؤں کے کسی حکم کو نہیں ٹال سکتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے آقا و مولا فخر انبیاء کے حکم سے سرتابی کرتا۔ میں نے تو حضور کے حکم کی تعمیل میں وہ حلوا فوراً کھا لیا۔ یہ سن کر وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے کہ خدا کی قسم تیرا خواب سچا ہے۔ تو نے جو کچھ دیکھا ہے وہ ہمارے سو خوابوں سے بھی اچھا ہے۔ تیرا خواب عین بیداری ہے کیونکہ تو نے خواب میں اپنی مراد حاصل کرلی۔ تیرا یہ خواب تو انبیاء کے خواب کی مانند ہے جو کہ بے تعبیر سچا ہو گیا۔

Latest Posts

Related POSTS