Wednesday, October 16, 2024

Sacha Khawab

میرے لئے تین رشتے آئے ہوئے تھے اور انتخاب مجھ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ بتا نہیں سکتی، ان دنوں کتنی پریشان تھی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ دل کی سُنوں یا والدین کی مانوں۔ رشتے تو اصل میں دو ہی والدین کی نظر میں تھے تیسرے رشتے کو میرے بے شمار آنسوئوں کی برسات کے باعث زیر غور لانا پڑا تھا۔ پہلا رشتہ اپنے گھر کا تھا، یعنی چچازاد ارشد کا۔ بچپن میں ہی ارشد کے والد وفات پاگئے تھے، تبھی اس کی ماں کی دوسری شادی کر دی گئی اور یہ بیچارہ یتیم لڑکار شتے داروں کے در پر دھکے کھا کر پلا تھا۔ اس نے اپنی محنت سے تعلیم حاصل کی۔ کوئی سفارش نہ تھی اس لئے اچھی نوکری نہ مل سکی۔ ایک مقامی کمپنی میں ملازم تھا۔ آمدنی قلیل تھی۔ شکل و صورت اچھی تھی، ذہین اور شریف تھا۔ اس کے سوا اس میں اور خوبی نہ تھی۔ بچپن میں یتیم ہو جانے کے باعث خاندان بھر میں کسی کے دل میں اُس کے لئے جگہ نہ تھی، بس پھوپھو کا رونا دھونا اور ابا جان کے آگے دوپٹہ پھیلا کر التجا کرنا کہ یتیم ہے ، مرحوم بھائی کی نشانی ہے تم اس کو گلے سے لگا لو۔ تم نہ خیال کرو گے تو اور کون اس کو عزت دے گا۔ اس غربت میں کون داماد بنائے گا۔ اباجان نے پھوپھو کا دل رکھنے کو اس رشتے کو ملحوظ خاطر رکھ لیا، ورنہ سبھی جانتے تھے کہ ارشد کا ایک فیصد بھی چانس نہیں ہے۔ دراصل پہلا نمبر تو مجیب کا تھا۔ یہ ایک نہایت کامیاب اور دولت مند تاجر تھا۔ بیرون ملک بہت بڑا کاروبار تھا۔ ایک ماہ کے دوران دو بار باہر کے ملکوں آنا جانا رہتا تھا۔ مجیب خوبصورت تھا، بہت سی اور خوبیاں بھی اس میں تھیں۔ والد صاحب کے بزنس پارٹنر کے توسط سے اس کا تعارف ہوا تھا۔ ہمارے گھر والے سبھی اس کی دولت اور خوبصورتی پر بچھ گئے تھے۔ چاہتے تھے کہ یہی باحیثیت اور بار سوخ شخص اس گھر کا داماد بنے۔ میرے تمام گھر والوں، بہن بھائیوں کا ووٹ اسی کی طرف تھا اور سب سے ان چاہا رشتہ اُس نوجوان کا تھا جس کا نام مدثر تھا، جو میرا پسندیدہ شخص تھا۔ میں اسے ساری دنیا سے زیادہ چاہتی تھی، میں ہر صورت اس کو پانا چاہتی تھی اور اور اس کی ہو جانا چاہتی تھی۔ مجھ کو ایسا لگتا تھا کہ اگر ہم دونوں اس دُنیا میں ایک نہ ہو سکے تو میں مر جائوں گی۔ تبھی رورو کر پاگل ہو رہی تھی۔ کھانا پینا، ہنسنا بولنا چھوڑ دیا تھا۔ اتنی نحیف ہو گئی کہ مدت کی بیمار لگنے لگی۔ میری حالت دیکھتے ہوئے والدہ نے ابا جان کو سمجھایا تو انہوں نے اس رشتے کو بھی دوسرے رشتوں کے ساتھ زیر غور رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی ورنہ وہ مدثر کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔

جب کئی رشتے میں نے مدثر کی خاطر ٹھکرا دیے اور رشتے آنا بند ہو گئے تو ابا نہ دھمکی دے کہ اگر فلزا نے شادی کے لئے ہاں نہ کی ، تو وہ خود کشی کر لیں گے اور مجھے بھی گولی مار دیں گے۔ فلزا کو ان تینوں رشتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب پندرہ دن میں کر کے مجھے بتانا ہو گا۔ انتخاب تو میں کر چکی تھی، مدثر بھی راضی تھا مگر وہ اب بھی شرط سے ہچکچا رہا تھا کہ پہلے اُس کے والدین ہمارے گھر آکر رشتہ طلب کریں۔ محض لڑکے یا اُس کے کسی اور رشتے دار کے رشتہ طلب کرنے پر ابا جان اپنی لڑکی کا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے تھے اور مدثر کا مسئلہ یہ تھا کہ اُس کا نکاح اس کی چچازاد سے بچپن میں طے ہو چکا تھا اور وہ مجھ کو اپنی یہ مجبوری کالج کے زمانے سے ہی بتا چکا تھا، پھر بھی میرے دل نے اسی کو قبول کیا اور اپنا سب کچھ مانا کیونکہ میں فرسٹ ایئر سے ہی اُسے اپنے من میں بسا چکی تھی۔ وہ گائوں کا رہنے والا تھا اور شہر میں پڑھنے آیا ہوا تھا۔ اُس کا قیام یہاں اپنے ایک دوست کے پاس تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ آٹھویں کا طالبعلم تھا، جب اُس کا نکاح اس کی چچازاد سے کر دیا گیا تھا۔ وہ اُس سے اب شادی نہ کرے گا اور جب اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا ، تب رخصتی کرا کر لانے کی بجائے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے گا۔ بہر حال کہتے ہیں ناں کہ محبت اندھی ہوتی ہے پس مجھ کو بھی یہ رکاوٹیں محبت کے سمندر میں تنکے کے برابر لگتی تھیں۔ پروانہ تھی کہ اُس سے شادی ہو گئی تو آگے کیا انجام ہو گا۔ بس یہی جنون تھا کہ کسی طرح اس کی دلہن بن جائوں۔ جب والد نے خود کشی کی دھمکی دی تو میں ڈر گئی۔ اپنے مرنے کا اتنا غم نہ تھا، ابو کی زندگی پیاری تھی ، اس لئے میں نے کہہ دیا کہ ایک ہفتے سوچنے کا موقع دیں۔ میں جلد ہی تینوں رشتوں پر سوچ بچار کے بعد کسی ایک کا انتخاب کر کے اپنی مرضی سے آگاہ کر دوں گی۔ انتخاب کیا کرنا تھا، یہ تو ماں باپ کو بہلانے والی بات تھی۔ اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ میں مدثر کو چاہتی تھی اور گھر والے مجیب کا رشتہ قبول کرنا چاہتے تھے۔ کئی دنوں سے یہی چل رہا تھا۔ جب میں مدثر کا نام لیتی تو سبھی سمجھانے بیٹھ جاتے یا مین میخ نکالتے کہ دیکھ لینا، اس کا تمہارا نباہ نہیں ہو سکے گا۔ دُور کے ڈھول سہانے ، وہ دیہاتی پس منظر سے ہے۔ وہ ہمارے ہم پلہ کہاں ہے اور سونے پر سہاگہ کہ اُس کا اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح ہو چکا ہے۔ اب نہیں تو بعد میں اپنی منکوحہ کو تمہاری سوتن بنائے گا۔ یہ دیہاتی رشتہ داری اور برادری سسٹم میں جکڑے ہوتے ہیں۔ بچپن کے نکاح نہیں چھوڑا کرتے۔ خاندان بھر کی مخالفت مول لے کر نہ تم خوش رہ سکو گی اور نہ وہ۔ اگر ایسا ہی پیار سچا ہے تو ابھی کیوں نہیں اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر بات صاف کر لیتا۔ سچی محبت تو قربانی مانگتی ہے تم سوتن پر جانے کو تیار ہو اور وہ تمہاری خاطر اسے طلاق نہیں دے رہا۔ نادان اسی سے جان لو بعد کی زندگی کیسی بٹی ہوئی ہوگی۔

ادھر مدثر کا کہنا تھا۔ ہر طرح کی قسم لے لو، میں فلزا سے شادی کے بعد اپنی چچازاد کو طلاق دے دوں گا۔ ابھی اس لئے نہیں دے سکتا کہ والدین اور چاچا میں زمین کا جھگڑا چھڑ جائے گا تو میری یہاں شادی کھٹائی میں پڑ جائے گی۔ ساری برادری ایسی دشواریاں کھڑی کر دے گی کہ میری شادی ناممکن ہو جائے گی۔ ابھی خاموشی سے شادی کرنے کے بعد جب فلزا کو دلہن بنا کر لے جائوں گا تو چاچا اور چچی خود بخود طلاق کا مطالبہ کر دیں گے، تبھی میرے لئے بچپن کے اس نکاح سے گلو خلاصی آسان ہو جائے گی۔ جب مدثر یہ سب باتیں کر کے میرے گھر والوں کو قائل کر لیتے تو آخر میں امی سینہ کوٹ کر کہتیں ۔ ہائے ہائے یہ کیسی سنگدل لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ اپنی جیسی ایک عورت پر ظلم ڈھاتے ہوئے اس کا کلیجہ نہیں کانپتا۔ اس غریب کی ہائے پڑے گی تو یہ بھی کہاں سکھی رہ پائے گی۔ کسی کی سیج پر پائوں رکھنا کوئی آسان بات تھوڑی ہے۔ تب میں ساری باتیں سن کر پوری جان سے لرز جاتی اور کچھ نہ سوجھتا تو رونے بیٹھ جاتی۔ چھ دن گزر گئے ، ابا جان کو ساتویں دن فیصلے سے آگاہ کرنا تھا۔ گویا یہ کہنا تھا کہ اچھا بابا جس سے شادی کر دو۔ مدثر میں تو آپ لوگوں کو سو عیب ہی نظر آتے ہیں۔ کل کلاں آپ لوگوں کے قیاس سچے ثابت ہو گئے تو مجھے پھر کب اپنے گھر آنے دو گے۔ پتا تو تھا کہ ارشد کو یہ لوگ اس قابل نہ جانتے تھے کہ داماد بنے ، اُس کے حق میں فیصلہ کرنے سے بھی نراس ہوئی جارہی تھی۔ ادھر پھپھو تھیں کہ حسرت سے ٹکر ٹکر میری جانب دیکھے جاتی تھیں کہ جونہی میرے لبوں سے ارشد کا نام نکلے ، وہ بڑھ کر مجھے اپنے سینے میں بھینچ لیں۔ اُن کی حالت دیکھ دیکھ کر اور رحم آتا تھا۔ اس رات میں خوب جی بھر کر روئی اور روتے روتے سو گئی۔ خواب میں دیکھتی ہوں کہ ایک دو منزلہ مکان کی پہلی منزل پر مجیب کھڑا مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے ، پھر ایک دم اس کی شکل بھیانک ہو جاتی ہے۔ وہ بلا بن کر میری طرف جھپٹتا ہے۔ میں بچ کر بھاگتی ہوں۔ اتنے میں دیکھتی ہوں کہ ایسے ہی وہاں مدثر کھڑا ہے۔ میں اس سے کہتی ہوں کہ مجھے بچالو ، نہیں تو یہ بلا مجھے اٹھا لے جائے گی۔ وہ کہتا ہے ، میں تم کو ضرور بچالیتا لیکن میرا وقت پورا ہو چکا ہے اور مجھ کو جلدی جانا ہے۔ وہ دیکھو، میری سواری آگئی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سفید سا گولہ آسمان سے اترتا ہے، جیسے چاند ہو اور مدثر اس میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر یہ خوبصورت گول کی گیند آسمان میں گم ہو جاتی ہے ، تب سامنے ارشد کی شکل نظر آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں پھولوں کا ہار ہے اور وہ آگے بڑھ کر ہار میرے گلے میں ڈال دیتا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے۔ اب تم کو میرے ساتھ ہی چلنا ہے ، اسی میں بھلائی ہے، تبھی میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ جب میں بیدار ہوئی تو فجر کی اذان میرے کانوں میں پڑی۔ عجیب سا خواب تھا، تمام جسم پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ میں بالکل بے جان سی بستر پر پڑی تھی۔ ایسا لگتا تھا اتنے دنوں کی پریشانی کا حل خُدا نے خود ہی بتا دیا تھا۔

میں نے فجر کی نماز پڑھی اور دُعا کی کہ اے اللہ میرا یہ خواب سچا ہے اور تیری طرف سے صحیح فیصلے کی رہنمائی کے لئے ہے تو مجھے حوصلہ اور صبر دے کہ میں مدثر کو بھول جائوں اور تیری رضا پر راضی ہو جائوں کہ تیری رضا میں راضی ہونے سے ہی انسان کو اپنی مرادیں اور منزل مل جاتی ہیں۔ مجھ کو اب سکون چاہئے اور کچھ نہیں۔ سکون پالینا ہی میری منزل ہے۔ میں نے رورو کر یہی دعا کی اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔ ایک گھنٹہ اسی عالم میں پڑی رہی۔ رفتہ رفتہ مجھ کو محسوس ہوا کہ میری سوچنے سمجھنے کی قوت واپس آگئی ہے اور مجھ کو سکون آتا جارہا ہے۔ اتنے میں پھپھو میرے لئے ناشتہ لے آئیں۔ بولیں ، بیٹی غمزدہ نہ ہو ، جو تو فیصلہ کرے گی ہم کو منظور ہو گا۔ ہم بس تجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر تم کو ارشد پسند نہیں تو کوئی بات نہیں، مگر میں دیکھ رہی ہوں تم کئی دنوں سے مرجھائی مرجھائی رہنے لگی ہو۔ اپنے دل کی بات مجھ سے کہہ دو۔ میں تمہارے والد کو سمجھا دوں گی۔ میں نے بے اختیار پھوپھو کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا کہ ان ہاتھوں سے وہ میرے لئے ناشتہ بنا کر لائی تھیں اور مجھے پریشان دیکھ کر تسلی دے رہی تھیں۔ میں نے کہا۔ ہاں پھوپھو ! میں آپ کو اپنے دل کی بات کہتی ہوں۔ آپ ابا جان سے کہہ دیجئے کہ مجھے پہلے دونوں رشتے پسند نہیں ہیں۔ مجھے ارشد اور آپ پسند ہیں۔ بس یہی میری مرضی ہے اور یہی میرا عندیہ ہے۔ میرے فیصلے پر سبھی گھر والے حیران رہ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ مدثر کے مقابلے میں اب بھی اگر میں کسی کا انتخاب کروں گی تو وہ مجیب ہو گا۔ پھوپھو سے امی ابو نے یہ کہہ رکھا تھا کہ تین رشتے ہیں۔ ان میں جس کا انتخاب ہماری فلزا کرے گی، ہم اُس کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھیں گے اور اُس پر اپنی مرضی کو زبردستی مسلط نہ کریں گے۔ یہ انہوں نے اس لئے کہا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اماں کے تو پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے اور میری حالت ایسی تھی جیسے میں زندوں میں اور نہ مردوں میں۔ دلہن بنا دو کہ کفن پہناو… ایک ہی بات تھی۔ خوشی کا احساس ہوتا نہ غم کا۔ اماں اور ابا ہاتھ مل کر کہہ رہے تھے۔ اپنے نصیب کو لات ماری ہے اس نے ، دولت مند کو ٹھکرا کر معمولی ملازم کو چنا ہے۔ ہماری بیٹی بھی کیا عقل مند ہے۔ بیوہ پھوپھی کے گھر کیا سکھ پائے گی، اپنا ہی کلیجہ کھائے گی اور نصیبوں کو روئے گی۔ چلو یہ بھی ٹھیک ہے کہ مدثر سے پیچھا چھوٹا ، ورنہ تو سوتن کو بھی برداشت کرتی۔ اس کی شادی اُس کی مرضی۔ ہم نے تو مرضی پوچھ کر دین کا رکن پورا کر دیا کیونکہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے بیٹی کی رضا پوچھنی چاہئے۔ کیسی شادی ہوئی، اس وقت تو یوں لگتا تھا جیسے میت اُٹھ رہی ہو۔ سبھی خاموش خاموش ، گھر میں رونق اور نہ گھر والوں میں کوئی جوش و خروش میں بھی مردہ سی تھی لیکن کیا بتائوں اس فیصلے میں کتنی بھلائی پوشیدہ تھی۔ آج میں ارشد سے شادی کر کے بے انتہا خوش اور سکھی ہوں۔ وہ ترقی کر کے ایک بڑے آفیسر بن گئے ہیں، نیک چلن ہیں اور پھوپھو بھی ایک ماں کی طرح میرا خیال رکھتی ہیں۔ انہوں نے مجھے زندگی کی ہر خوشی دی ہے ، محبت بھی دی اور مجھے بھی اب اُن سے ہی محبت ہے۔ اُن کے بغیر میں ایک پل نہیں رہ سکتی۔ ہمارے پیارے پیارے چار بچے ہیں۔ ہمارا آنگن خوشیوں سے بھرا ہوا ہے ، جبکہ مدثر میری شادی کے بعد ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اُن کی زندگی کے بس چند دن ہی باقی رہ گئے تھے اور مجیب کا بعد میں پتا چلا کہ دو شادیاں پہلے سے کی ہوئی تھیں۔ دونوں بیویوں کو الگ الگ شہروں میں رکھا ہوا تھا۔ ایک سے دو بچے بھی تھے اور خود کافی عیاش آدمی تھا۔ بھلا ایسے آدمی یا اس کی دولت نے کیا سکھ دینا تھا، جو کو ٹھے اور بالاخانوں کا رسیا تھا۔ بعد میں یہ بھی پتا چلا کہ ایک شادی غیر ملکی لڑکی سے بھی کی تھی مگر اُس لڑکی نے طلاق لے لی۔ سچ ہے کہ خوشیاں دولت سے نہیں بلکہ نصیب سے ملتی ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS