جن دنوں حبیب فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے، قریب ہی ہمیں ایک چھوٹا سا مکان بھی ملا ہوا تھا۔ اس مکان میں دو کمرے، ایک برآمدہ، چار دیواری، اور ایک نلکا تھا۔ ہمارے چھ بچے تھے، اور وہ اس چھوٹے مکان میں سماتے نہیں تھے، لیکن اس مہنگائی کے دور میں یہ سر چھپانے کا ٹھکانہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ میرے شوہر محنتی اور ایماندار انسان تھے۔ فیکٹری کے مالک، ملازمین، اور مزدور سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔
جھگڑے کہاں نہیں ہوتے! ایک بار فیکٹری کے مزدور آپس میں کسی بات پر جھگڑ پڑے۔ اس جھگڑے میں ایک مزدور کو شدید چوٹ لگی، اور وہ جاں بحق ہو گیا۔ دراصل مقتول ایک لیڈر قسم کا آدمی تھا، جو مالک کی نظر میں کھٹکتا تھا۔ بہرحال، یہ تو اتفاق تھا کہ میرے شوہر وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھے۔ انہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جھگڑے کی اصل وجہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بات کا بتنگڑ بنایا۔ جب مقتول نے جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کی، تو فسادی گروپ کے ایک شخص نے سریے کا وار کرکے اسے شدید زخمی کر دیا۔ وار اتنا خطرناک تھا کہ سریہ مقتول کے دل میں پیوست ہو گیا، اور وہ بیچارہ جان سے گیا۔
معاملہ پولیس تک پہنچا۔ چونکہ میرے شوہر وہاں موجود تھے اور جھگڑے میں فریق یا شریک نہ تھے، اس لیے چند مزدوروں نے ان کا نام لیا کہ یہ دیانتدار آدمی ہیں، اور ان کی گواہی معتبر ہوگی۔ اب انصاف کا تمام دارومدار حبیب کی گواہی پر تھا۔
مقتول ریاض کی بوڑھی ماں ہمارے گھر آکر فریاد کرنے لگی کہ “حبیب بیٹے، تم گواہی دو تاکہ ہمیں انصاف ملے۔ باقی گواہ تو قابلِ بھروسا نہیں ہیں۔” میں نے شوہر سے کہا، “تم کیوں بلاوجہ اپنی گردن پھنسواتے ہو؟” وہ گومگو کی حالت میں تھے کیونکہ مقتول کے چھوٹے بچے تھے، جن کا کوئی سہارا نہیں رہا تھا۔ انصاف ملنے سے مقتول کی بیوہ کو کچھ مالی امداد مل سکتی تھی۔
دوسری طرف، فیکٹری کا مالک چاہتا تھا کہ میرے شوہر اس کی منشا کے مطابق گواہی دیں اور حقیقت کو چھپائیں۔ اس نے میرے شوہر کو پیشکش کی کہ وہ مقتول کی بیوہ کو 50 ہزار روپے دے دے گا، اور اگر میرے شوہر صلح کروا دیں، تو انہیں بھی کچھ رقم دی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ گواہی اس طرح دی جائے کہ ریاض خود جھگڑے میں پڑا، اور سریہ اتفاقیہ طور پر اسے لگ گیا۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔
میرے شوہر نے ریاض کی بیوہ اور ماں سے بات کی، لیکن انہوں نے صلح سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے انصاف زیادہ اہم ہے۔ میرے شوہر نے بالآخر سچ بولنے کا فیصلہ کیا اور مالک کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ وہ عدالت میں وہی بیان دینے پر اڑے رہے جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
اس کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا، اور ہمیں مکان بھی خالی کرنا پڑا۔ اگر بات یہیں ختم ہو جاتی، تو شاید ہم سہہ لیتے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ملازمت کی تلاش میں سرگرداں میرے شوہر کو ایک دن پولیس نے گرفتار کر لیا۔ الزام یہ تھا کہ ان کے پاس چرس برآمد ہوئی ہے۔ یہ بات ناقابل یقین تھی، کیونکہ وہ نیک چلن اور پانچ وقت کے نمازی تھے۔ نشے یا ایسی کسی چیز کا تصور بھی ان کے قریب نہ تھا۔اس ناانصافی نے ہماری زندگی کو ہلا کر رکھ دیا۔
سال بھر حبیب جیل میں رہے، کوئی ضمانت دینے والا نہ تھا۔ بالآخر انہیں سزا ہو گئی۔ اس کے بعد میں آٹھ بچوں کے ساتھ ایسی بے آسرا ہوئی کہ ان دنوں کے دکھ لکھنے کی تاب مجھ میں نہیں۔ بڑی بیٹی تیرہ چودہ برس کی تھی، باقی سب چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان کا پیٹ بھرنا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔
رہنے کے لیے حبیب کے ایک دوست نے اپنے کوارٹر میں ایک کمرہ ہمیں دے دیا تھا۔ وہ بے چارہ بھلا مانس تھا، خود اپنے ایک دوست کے پاس جا کر رہنے لگا۔ لیکن یہ عارضی ٹھکانہ تھا۔ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، سو میں گھر سے باہر نکل کر کام تلاش کرنے لگی۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد قریبی بنگلوں میں کام مل گیا۔ چھوٹے بچوں کو بڑی بیٹی ساحرہ کے حوالے کر کے میں صبح سویرے کام کے لیے نکل جاتی تھی۔
میری مسلسل غیر موجودگی نے ایک اور مصیبت ہم پر کھول دی۔ ماں باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کا بھٹک جانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ محلے کے ایک نوجوان، طارق، نے ہمارا گھر تاڑ لیا۔ وہ بچوں کے لیے بسکٹ اور ٹافیاں لاتا، ان سے باتیں کرتا اور ان کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر ان کے قریب ہوتا چلا گیا۔
جب میں شام کو تھکی ہاری گھر لوٹتی تو بچے طارق بھائی کی تعریفیں کرتے۔ دل میں کھٹکا ہونے لگا اور بے سکونی بڑھتی گئی۔ ساحرہ بھی طارق کی تعریف کرنے لگی تو میرے خدشات مزید بڑھ گئے۔ لیکن میں بیٹی کی نگرانی کر سکتی تھی اور نہ ہی اسے ساتھ لے جا سکتی تھی۔ نوکری بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی، کیونکہ چھوڑتی تو ہم سب کھاتے کیا؟
ساحرہ بھولی بھالی اور کم سن تھی، اسے اچھے برے کی تمیز نہ تھی۔ وہ پڑھائی کی طرف بھی زیادہ توجہ نہیں دیتی تھی۔ محلے میں رہنے والی ایک استانی نے کہا تھا کہ ساحرہ کو ان کے پاس بھیج دیا کروں، وہ اسے پڑھا دیا کریں گی، لیکن ساحرہ نے کبھی ان کے گھر کا رخ نہیں کیا۔ استانی جی ہماری حالت سے واقف تھیں، اس لیے زیادہ اصرار بھی نہ کیا۔
ساحرہ اپنی عمر سے دو سال بڑی نظر آتی تھی اور شکل و صورت اچھی نکلی تھی۔ جب کبھی سودا لینے جاتی، تو دکان پر موجود آوارہ لڑکے بیہودہ باتیں کرتے۔ دکان دار مجھے خبردار کرتا کہ لڑکی کو اکیلے نہ بھیجا کروں۔ یہ سن کر میرا دل ڈوب جاتا، لیکن کیا کرتی؟ مجبور تھی۔ بیٹی کو منع کرتی تو وہ بہانے سے خود چلی جاتی۔
دن گن گن کر گزار رہی تھی کہ کب حبیب کی سزا ختم ہو اور وہ گھر لوٹ آئیں، لیکن ہماری امید کی آخری کرن بھی بجھ گئی۔ جیل کی صعوبتوں نے انہیں شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنا دیا تھا، اور دورانِ سزا ان کا انتقال ہو گیا۔
میرے بچوں کے ذہن میں باپ کا بس ایک دھندلا سا تصور رہ گیا۔ اب ساحرہ ہی گھر کی کرتا دھرتا تھی۔ لیکن وہ بھی بے خوف ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دن محلے میں شور اٹھا، اور شام کو طارق کے والدین ہمارے گھر آ گئے۔انہوں نے مجھے خوب برا بھلا کہا کہ جوان لڑکی کو اکیلا چھوڑ کر خود سارا دن غائب رہتی ہو۔ اس طرح محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں، لیکن ہمیں تو ہے۔
طارق میری غیر موجودگی میں ساحرہ سے ملنے کے لیے گھر آنے لگا تھا۔ ایک دن محلے کے لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب مارا۔ اس کے بعد وہ مجھے گھر سے نکالنے کے درپے ہو گئے۔ میں ان کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور کہا کہ تم لوگوں کو صرف اپنی عزت کی فکر ہے، لیکن میری مصیبتوں کا علم نہیں۔ میں تو خود اپنی بیٹی کی فکر میں دن رات جیتی ہوں اور نہ مرتی ہوں۔کیا کروں؟ چھوٹے بہن بھائی کس کے حوالے کروں؟ اگر کام پر نہ جاؤں تو ہم کھائیں کہاں سے؟ کتنے دن فاقے کیے جا سکتے ہیں؟ کیا اپنے بچوں کے ہاتھ میں کشکول دے کر سڑک پر بیٹھ جاؤں؟ میری حالت دیکھ کر وہ خاموش ہو گئے۔
میری مجبوریاں واضح تھیں۔ میں بری عورت تو نہ تھی اور نہ ہی کوئی بہانہ کر رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھیں۔ آپ ہی اس کی نگرانی کریں اور اگر کسی شریف آدمی سے اس کا نکاح کروا دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔کسی نے جواب نہ دیا۔ وہ خاموشی سے چلے گئے۔ طارق کے والدین نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ ایسی حرکت کرتا پایا گیا تو اس کا انجام برا ہوگا۔ وہ وقتی طور پر نادم ہو گئے، مگر اب کسی اور کو تو کیا، مجھے بھی اس پر اعتبار نہ رہا۔ کچھ دن بعد ساحرہ نے پھر کسی نہ کسی بہانے گھر سے نکلنا شروع کر دیا۔ دکاندار شکایت کرتے کہ تمہاری بیٹی آج باہر نکلی تھی۔ میں اسے سمجھاتی کہ خود نہ جایا کرو، چھوٹے بھائیوں کو سودا لینے بھیجا کرو۔ وہ ہاں میں گردن ہلا دیتی لیکن کرتی وہی جو اس کے دل میں آتا۔
جہاں میں کام کرتی تھی، وہاں ایک خانساماں تھا۔ وہ بہت شریف آدمی تھا۔ میں نے ایک روز اپنی مصیبتوں کا ذکر اس سے کیا۔ اس نے کہا کہ میرا ایک بیٹا ہے، جو تھوڑا بہت کما لیتا ہے۔ غربت کی وجہ سے اس کا رشتہ نہیں ہو پا رہا۔ تم اس سے ملو۔ اگر تمہیں مناسب لگے تو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دو۔میں نے خانساماں کے بیٹے جنید سے ملاقات کی۔ وہ سیدھا سادہ، شریف نوجوان تھا۔ میں نے ہامی بھر لی۔ جب جنید کی ماں ساحرہ کو دیکھنے آئی، تو اس نے بھی اسے پسند کر لیا۔ میں نے ساحرہ سے کہا کہ میں تمہاری شادی کر رہی ہوں اور تمہارا شوہر ہمارے گھر میں ہی رہے گا، جب تک تمہارا بھائی بڑا نہیں ہو جاتا۔ وہ خاموش رہی اور کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کیا۔
میں نے شادی کی تاریخ طے کر دی اور خانساماں کے بیٹے کو گھر داماد بنانے پر رضامندی ظاہر کی۔ شادی سے دو دن قبل، جب وہ لوگ رسم کے لیے آنے والے تھے، میں نے بنگلے والی بیگمات سے آدھے دن کی چھٹی لی اور گھر پہنچی تو ساحرہ غائب تھی۔پریشان ہو کر میں نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا، مگر وہ نہ ملی۔ تب ایک سبزی فروش نے بتایا کہ وہ کچھ دنوں سے سامنے والے سبزی فروش کے پاس سبزی لینے آتی تھی، مگر آج وہ بھی غائب ہے۔نجانے کب اور کیسے اس نے سبزی فروش سے تعلق جوڑا، مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ غربت کے دیو نے میری بیٹی کو مجھ سے چھین لیا۔ لوگوں نے خوب باتیں بنائیں کہ بیٹی کو خود آزاد چھوڑا اور اب گلی گلی ڈھونڈ رہی ہو۔
میری ہمت جواب دے گئی۔ میں نے وہ کوارٹر حبیب کے دوست کو واپس کر دیا اور ایک کچی آبادی میں، جہاں نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی تھیں، جھگی ڈال لی۔ پہلے وہاں خود مزدوری کرتی رہی، پھر بیٹوں نے ساتھ دینا شروع کر دیا۔غرض، عذابوں کے ساتھ وقت گزرتا گیا۔ میرے بیٹے بڑے ہو گئے اور آج کما کر گھر کا سہارا بنے ہیں۔ ہمیں سر چھپانے کا ایک چھوٹا سا ٹھکانہ بھی میسر ہے، لیکن ساحرہ کی وجہ سے لگا داغ کبھی مٹ نہیں سکتا۔ یہ زخم ہمیشہ ہرا رہے گا۔میرے شوہر نے سچ بولا اور اس کی قیمت چکائی۔ یہ بھی سچ ہے کہ سچائی قربانی مانگتی ہے۔