Friday, March 21, 2025

Sachi Lagun

رجب کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا، جو مشرقی تہذیب کا نمونہ تھا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو خود کو ایک ایسے گھر میں پایا جہاں باپ کی شفقت تو تھی ، لیکن ماں کی ممتا نہ تھی۔ کیونکہ ماں سوتیلی تھی تبھی وہ دبا دبا سا رہتا تھا۔ دن گزرتے رہے۔ اللہ تعالی نے اس کو ایک چھوٹی سی بہن عطا کر دی، وہ بہت خوش ہو گیا، لیکن جلد ہی اس کی یہ خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ سوتیلی ماں اس کو چھوٹی بہن کے نزدیک نہیں آنے دیتی تھی۔ اسکول سے آتے ہی اسے گھر کے کاموں میں لگا دیتی۔ اسے دادا دادی کے گھر جانے کا بھی وقت نہ ملتا تھا اور جب جاتا تو اداس واپس آتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ دوسرے بچوں کے جیسا پیار نہیں کرتے تھے اور اس بات کو وہ بے حد محسوس کرتا تھا۔ اور بھی کوئی رشتہ دار ایسا نہیں تھا، جہاں سے اسے پیار ملتا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ گھر میں دو اور بہن بھائیوں کا اضافہ ہو گیا۔ رفته رفتہ وہ بڑے ہو گئے۔ انہیں آپس میں کھیلتے دیکھ کر اسے یک گونہ خوشی ملتی۔ بس یہی ایک خوشی تھی، جو اس کی زندگی میں باقی رہ گئی تھی۔ جب سوتیلی ماں اپنے بچوں کو پیار کرتی تو رجب سوچتا کہ میری ماں کون ہے اور کہاں ہے ؟ اس نے کئی بار اپنے باپ سے پوچھا مگر اس شخص نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ میٹرک کے بعد رجب کالج میں داخلہ لینے کی سوچ رہا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اب وہ بھری دنیا میں اکیلا تھا۔ اپنی ماں کے بارے جاننے کی شدید آرزو اسے تڑپاتی رہتی تھی۔

ایک دن اس نے اپنی دادی کے پاس جا کر پوچھا۔ دادی بتا دیجئے نا، میری ماں کون تھی اور کہاں ہے ؟ اب تو میں بڑا ہو گیا ہوں مجھے اپنی حقیقی ماں کے بارے جاننا چاہیے۔ بیٹا ! تمہارے باپ نے ایک ایرانی عورت سے شادی کی تھی۔ وہ ایران نوکری کے سلسلے میں گیا تھا۔ چند برس، تمہاری ماں کے ساتھ گزارے، پھر ان میں نجانے کس بات پر اختلاف ہوا کہ تمہارے بابا تمہیں لے کر پاکستان آ گئے اور دوبارہ اس بیوی کے پاس نہ گئے۔ کبھی اس نے ہم سے اس بارے کوئی بات نہ کی۔ ہم بہت پوچھتے تھے ، مگر وہ نہیں بتاتا تھا۔ بالآخر ہم نے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ دادی کی ادھوری بات نے رجب کو بے چین کر دیا۔ اس نے سوچا کہ ضرور کوئی راز کی بات ہے، جو یہ لوگ مجھے نہیں بتاتے۔ وہ ہر وقت سوچوں میں گم رہنے لگا کہ میری ماں کیسی ہو گی ؟ کہاں پتا کروں ؟ انہی تفکرات میں گھر کر اس نے پڑھائی چھوڑ دی۔ وہ گھر والوں کے رویوں سے بھی دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔ کون ہے میرا اس گھر میں ؟ کوئی بھی نہیں۔ سوتیلی ماں تو چاہتی یہی تھی کہ وہ اس کی نظروں سے دور ہو جائے۔ یہ سوچ کر وہ نوکری کی تلاش میں کراچی چلا گیا۔ یہ ایک بڑا شہر تھا، جہاں اسے قدم قدم پر دھکے کھانے پڑے لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ آہستہ آہستہ اس نے محنت مزدوری سے کچھ رقم اکٹھی کر لی۔ سوچا کہ ایران جا کر ماں کو تلاش کروں گا۔ کیا خبر ، خدا ملا دے ، لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر لاہور آ گیا۔ یہاں بھی سکون نہ ملا۔ ماں کی یاد ہر وقت دل میں رہتی۔ یہاں اسے ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اب وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرنے لگا۔ دو سال میں اس نے خاصی رقم جمع کر لی۔ فیکٹری میں اسے ایک ایسا شخص ملا، جس کا بڑا بھائی فارسی کا استاد تھا۔ رجب نے اس سے استدعا کی کہ وہ فارسی پڑھنا چاہتا ہے۔ یوں اس آدمی کے توسط سے اس کی رسائی فارسی کے استاد تک ہو گئی۔ اس نے چھ ماہ شام کو ٹیوشن لی اور کچھ نہ کچھ فارسی کی سدھ بدھ حاصل کر لی۔ روپیہ پاس ہو تو آدمی کی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ بہر حال، کسی طور اس نے ایران کا ویزا حاصل کر لیا۔ اس مرحلے پر بھی فارسی کے استاد نے اس کی مدد کی۔ ایران جانے سے پہلے وہ دادا کے پاس آیا تا کہ ماں کا کچھ اتا پتا معلوم کر سکے ، لیکن ناکامی ہی ہوئی۔ پھر وہ دن بھی آ گیا، جب اسے روانہ ہونا تھا۔ دو دن بعد وہ ایران کے شہر ، تہران میں موجود تھا۔

انسانوں کے اس بھرے سمندر میں ماں کو کہاں تلاش کرتا۔ جو فارسی وہ سیکھ کر آیا تھا، وہ کتابی تھی اور عام بول چال کی زبان اور طرح کی تھی۔ تب اس نے سوچا کہ پہلے یہاں کی عام بول چال سیکھ لوں پھر شاید کام بن جائے۔ یہاں موجود چند پاکستانیوں نے اس کی کافی مدد کی اور ایک فیکٹری میں اچھی نوکری دلوا دی۔ اب وہ کافی حد تک فارسی زبان سیکھ گیا تھا۔ گزارے لائق بول اور سمجھ سکتا تھا۔ سال بھر یہاں رہنے کے بعد وہ بہت اچھی طرح اس ملک کی زبان سیکھ چکا تھا، اس بنا پر اسے ایک اور اچھی نوکری مل گئی۔ تنخواہ بھی زیادہ تھی، لیکن رہائش نہ ملی۔ اب اس کو اپنے لئے رہائش تلاش کرنا تھی جس فیکٹری میں کام ملا تھا، انہوں نے دو سال کا معاہدہ کر کے اس کا ورک پرمٹ بنادیا۔ اس طرح ایران میں اس کی حیثیت قانونی ہو گئی۔ رجب نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو بتارکھا تھا کہ مجھے رہائش کے لئے کرایے پر کمرہ در کار ہے۔ ایک واقف کار نے بتایا کہ الگ مکان تو نہیں ملے گا البتہ میری جاننے والی ایک خاتون سے بات ہوئی ہے۔ وہ اپنے گھر کے اوپر بنا ہوا ایک کمرہ کرایے پر دینے کی خواہش مند ہے ، گرائونڈ فلور پر وہ خود رہتی ہے۔ رجب اس شخص کے ساتھ رہائش دیکھنے چلا گیا۔ مالکہ نے پہلا سوال یہی کیا کہ تمہارا کس ملک سے تعلق ہے ؟ پاکستان سے۔ رجب نے بتایا۔ یہ سن کر وہ ذرا دیر کو سوچ میں پڑگئی، پھر بولی۔ کل اپنا سامان لے کر آ جانا۔ کرایہ مناسب تھا، چنانچہ وہ اگلے دن ہی سامان کے ساتھ ایرانی عورت کے مکان پر پہنچ گیا۔ کمرہ چھت پر تھا، جس کو صاف ستھرہ کر کے قالین بچھا دیا گیا تھا۔ مالکہ کی ایک بیٹی تھی۔ شام کو وہ اپنی بیٹی کو لے کر رجب کے کمرے میں آئی اور بولی۔ یہ میری بیٹی فریدے ہے۔ تم پاکستان میں کہاں کے رہنے والے ہو ؟ رجب نے تفصیل سے اپنے علاقے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔ میں یہاں ایک مقامی فیکٹری میں کام کرتا ہوں۔ تب اس عورت نے بتایا کہ میری شادی ایک پاکستانی سے ہوئی تھی۔ ہمارا ایک بیٹا ہوا، جس کا نام شبیر علی رکھا گیا۔ ہماری زندگی بہت پر سکون تھی ، میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھی، خدا کا بہت فضل تھا۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ ان دنوں میرا بیٹا تین برس کا تھا جب میرا شوہر اس کو دادا دادی سے ملانے پاکستان لے گئے، لیکن پھر واپس نہ آئے کیونکہ ان کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ یہاں میرے پاس رہیں۔ ادھر میرے والدین نے مجھے پاکستان جانے سے منع کر دیا۔ میں نے سوچا آخر کوئی تو صورت نکلے گی۔ یا تو میرا شوہر واپس آجائے گا یا میرے والدین ہی مان جائیں گے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ان دنوں میں امید سے تھی۔ شوہر کے لوٹ آنے کے انتظار میں تھی۔ بیٹی پیدا ہو گئی مگر وہ نہ لوٹے۔ میں بہت روئی ، بہت روئی، کیونکہ کوئی شخص طلاق نامہ ، میرے والدین کے گھر دے گیا تھا۔ مجھے شوہر کا پتا معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان میں ہیں یا کسی اور ملک چلے گئے ہیں۔ ان کا اصل ایڈریس بھی میرے پاس نہیں تھا۔ شوہر تو چلا ہی گیا، میرا بیٹا بھی ساتھ چلا گیا۔ مجھے ایک ساتھ دوزخم سہنے پڑے۔ ادھر میرے والدین کسی صورت صلح جوئی کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے تو طلاق نامہ ہاتھ میں پکڑ کر شکر کیا کہ از خود ناتا ختم ہو گیا۔ وہ بھی یہی چاہتے تھے۔ وہ اس شادی پر راضی نہ تھے۔ میری بیٹی اس وقت دو تین ماہ کی تھی۔ میں نے اسے خدا کا انعام سمجھ کر صبر و شکر کر لیا مگر میرے دل میں ہر وقت بیٹے کی یاد رہتی تھی۔ جب آغا صاحب نے بتایا کہ ایک پاکستانی نوجوان کو کمرے کی ضرورت ہے تو میں نے اسی لیے تمہیں رکھ لیا۔ شاید تمہاری مدد سے میرا بیٹا مجھے مل جائے۔ یہ کہہ کر خانم کافی دیر تک روتی رہی۔ رجب کو بھی دکھ ہوا۔ اس نے خاتون کو تسلی دی اور کہا۔ فکر نہ کریں۔ مجھ کو ہی اپنا بیٹا سمجھ لیں۔ میں ان شاء اللہ ہر طرح سے آپ کے بیٹے کو تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔ شاید اس
نیکی کے عیوض مجھ کو میری کھوئی ہوئی ماں مل جائے، جس کی تلاش میں میں یہاں آیا ہوں۔

کام کے دوران بھی وہ یہی سوچتا رہا کہ اس عورت کا بیٹا نہیں مل رہا اور میری ماں نہیں مل پارہی۔ ہو سکتا ہے یہی میری ماں ہو، لیکن اس کے بیٹے کا نام شبیر تھا اور میرا نام رجب ہے۔ میں کیسے ان کا بیٹا ہو سکتا ہوں ؟ مالکن نے یہ تو بتایا کہ ان کے شوہر کا تعلق لاہور سے تھا مگر اپنے شوہر کا نام نہیں بتایا جب کہ میرے والد تو گوجرانوالہ کے تھے ، گھر بھی اسی شہر میں تھا۔ یہ ساری متضاد باتیں تھیں ، اسی وجہ سے اس کے ذہن میں سوال اٹھ رہے تھے۔ پہلی ملاقات میں خاتون نے تو اپنی مختصر کہانی سنادی تھی لیکن ، رجب اپنے بارے میں زیادہ کچھ بتانے کی جرات نہ کر سکا۔ دو چار دنوں بعد جب دوبارہ اس کا خانم سے سامنا ہوا تو اس نے چائے کا کہا اور اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ تب رجب نے اس کے شوہر کا پتا مانگا۔ وہ بولی۔ جو پتا میرے پاس تھا، اس پر تو میں نے کافی خط لکھے لیکن وہ واپس آ جاتے تھے۔ یہاں میرے شوہر جس کمپنی میں کام کرتے تھے ، ان کے پاس وہی پتا تھا۔ اس پر رجب خاموش رہ گیا۔ وقت گزرنے لگا۔ خانم ، رجب کا خیال رکھتی اور کھانے پینے کو بھی پوچھتی رہتی تھی۔ وہ کبھی انکار کر دیتا کبھی اس کے اصرار پر ان کے گھر سے کھانا کھا لیتا۔ اس طرح خانم نے اس کو ہی اپنا بیٹا بنا لیا، کیونکہ وہ بھی اس عورت کا خیال رکھتا تھا اور چھٹی والے دن ان کے کچھ کام کر دیا کرتا تھا۔ یہاں تو صرف کام تھا یا پھر تنہائی۔ رجب کو اپنی زندگی خزاں جیسی لگتی تھی۔ دل کی کلی ہمہ وقت مرجھائی رہتی تھی۔ دفعتا اس کی زندگی میں بہار کا جھونکا آگیا۔ خانم کی رشتے میں وہ بھانجی لگتی تھی اور نام عندلیب تھا۔ وہ حسن کا شاہکار تھی۔ یورپ میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ کئی سال بعد یہ لوگ ایران آئے تھے۔ اس وقت تک رجب، خانم کے گھر کا ایک فرد بن گیا تھا۔ تبھی مہمانوں نے بھی اسے اہمیت دی تھی۔ عندلیب کے آنے سے اسے دلی خوشی ملی اور جینے کا احساس بھی ہوا۔ وہ لوگ چھٹیاں گزارنے آئے تھے۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں تو عندلیب اپنے والدین کے ہمراہ واپس چلی گئی۔ اس کے جانے سے رجب اور زیادہ اداس رہنے لگا۔ اسے لگتا تھا کہ کوئی بہت قیمتی چیز پائی اور کھو دی۔

دو سال ایران میں بیت چکے تھے۔ اب اس کو گھر کی یاد ستانے لگی تھی۔ اس نے چھٹی لی اور گھر آ گیا۔ پاکستان آ کر اس نے سب سے پہلے اس ایڈریس پر پتا کیا جو خانم نے دیا تھا۔ وہاں تو کسی کا نام و نشان نہ تھا۔ اب دل ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ خانم کی شفقت یاد آتی تھی۔ گھر میں بہن بھائی تھے اور دادا ان کے ساتھ رہتا تھا۔ رجب کبھی کبھار دادا کو کچھ رقم بھیجوا دیتا تھا تا کہ وہ اس کے سوتیلے بہن بھائیوں کو اس کی طرف سے کچھ لے کر دے دیا کریں۔ ایک دن باتوں باتوں میں اس نے دادا سے التجا کی کہ اگر آپ کو میری ایرانی ماں کا پتا معلوم ہے تو خدا کے واسطے مجھے بتادیں ان کو پوتے کی حالت پر رحم آ گیا، کہا۔ ہاں، پتا ہے میرے پاس۔ گرچہ تمہارے والد نے منع کیا تھا کہ تم کو نہ بتایا جائے کہیں تم ہم لوگوں کو چھوڑ کر نہ چلے جائو لیکن اب جب کہ تم رہتے ہیں وہیں ہو تو میں تم کو پتا بتا دیتا ہوں۔ وہ رجب کو اپنے کمرے میں لے گئے اور ایک پرانے صندوق کا تالا کھول کر کچھ کاغذات نکالے۔ رجب کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ بے چینی سے ہاتھ ملنے لگا۔ دادا نے چند فوٹو اس کے سامنے رکھ دیئے۔ فوٹو دیکھ کر اس کی آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا، کیونکہ یہ فوٹو اس نے خانم کے پاس دیکھے تھے۔ تو کیا خانم میری سگی ماں ہے اور فریدے میری سگی بہن ؟ تبھی میں ان لوگوں میں رہ کر اپنے آپ کو غیر نہ سمجھتا تھا۔ اس رات خوشی سے وہ سو نہ سکا اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوا۔ دوسرے روز اس نے ایران فون کیا۔ پتا چلا کہ ماں سخت بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ وہ بے چین ہو گیا اور دادا سے تصویریں لے کر تہران روانہ ہو گیا۔ سفر کٹ ہی نہ رہا تھا۔ جب وہ ایئرپورٹ پر اترا، تو اسے یوں محسوس ہوا، جیسے سارا شہر بانہیں کھولے اس کا منتظر ہو۔ وہ جلدی سے گھر پہنچا۔ فریدے موجود تھی ، وہ رونے لگی۔ رجب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ میری بہن ! مت رو، میں آ گیا ہوں۔ دونوں اسی وقت اسپتال پہنچ گئے۔ ماں کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ آہستہ آہستہ ان کا سر سہلاتا رہا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جب خانم کو ہوش آیا تو رجب کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس نے پہلا سوال کیا۔ کیا میرا بیٹا مل گیا ہے ؟ ہاں ماں ، تمہارا بیٹا مل گیا ہے۔ اچھا! جب تم پاکستان جارہے تھے ، تب پتا نہیں کیوں، میرا دل گواہی دیتا تھا کہ میرا بیٹا مل جائے گا۔ بیٹے کے مل جانے کے خوش خبری سن کر خانم کی طبیعت سنبھل گئی۔ تب رجب نے وہ تصویر میں جو دادا سے لے کر آیا تھا، اسے دے دیں اور کہنے لگا۔ یہ میرے بچپن کی تصویریں ہیں۔ آپ نے مجھے گود میں اٹھارکھا ہے۔ دادا جان نے یہ سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ میں آپ کا بیٹا ہوں اور میرے بابا جان کا انتقال ہو چکا ہے۔ دادا کے پاس میری سوتیلی ماں اور میرے بہن بھائی رہتے ہیں غرض اس نے تمام ماجرہ کہہ سنایا۔ اس خوشی میں خانم نے بہت بڑی پارٹی دی۔ ان ہی دنوں عندلیب ایران آئی ہوئی تھی۔ خانم نے بہن سے بات چیت کر کے رجب سے اس کی منگنی کر دی۔ اب رجب کی زندگی پر سکون ہو گئی۔ عندلیب نے اسے حیات کی ہر خوشی دی۔ اس نے فیکٹری کی ملازمت چھوڑ کر اپنا بزنس کیا، جس کے لئے خانم نے اسے رقم فراہم کی تھی۔ دو سال بعد ان کے ہاں بیٹا ہوا۔ انہیں دنوں ایران کے حالات خراب ہو گئے تو عندلیب، رجب اور اپنے بیٹے کے ساتھ جرمنی چلی گئی، جہاں اس کے والدین رہتے تھے ، جبکہ خانم اور فریدے ایران میں رہ گئے۔ یوں یہ فیملی تین ملکوں میں بٹ گئی، پاکستان، ایران اور جرمنی۔ میں سوچتی ہوں کہ کبھی انسان کی لگن اتنی سچی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ان کے دلوں سے درد جدائی کو از خود دور کر دیتا ہے اور جو بات ناممکن لگتی ہے وہ ممکن ہو جاتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS