میرے تایازاد ناصر کی دُلہن کو اس سے بہت پیار تھا۔ اس پیار کی بدولت ناصر کو کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ ایک معمولی، سفید پوش آدمی ہے جس کی آمدنی سے سہولت کے ساتھ عزت سے دو وقت کی روٹی اور کچھ بنیادی ضرورتیں ہی پوری ہوتی ہیں۔ ناصر کو بیوی کے پیار نے اعتماد دیا تھا۔ اس کو کبھی کسی کی امیری یا خو شحالی پر رشک بھی نہ آتا تھا بلکہ اس کی دانست میں لوگ اس کی پُر سکون زندگی پر رشک کرتے تھے۔ بلاشبہ روپے پیسے کی فراوانی نہ تھی مگر گھر میں خوشی اور سکون بہت تھا۔ بھائی ناصر کی بیوی راشدہ بھابی بہت سگھڑ اور خدمت گزار خاتون تھی۔ اس نے کبھی شوہر کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ شادی کے بعد چند برس اس جوڑے نے بہت طمانیت اور شانتی کے ساتھ گزارے۔ دونوں ایک وقت کی روکھی سوکھی کھا کر بھی خُدا کا شکر ادا کرتے تھے مگر جب یکے بعد دیگرے، تین بچے ہو گئے تو تنخواہ کم پڑنے لگی اور گزارہ مشکل ہو گیا۔ اب راشدہ منہ سے نہ کہتی مگر اس کی جھنجھلاہٹ سے پتا چلتا تھا کہ اس سے بچوں کی محرومیاں برداشت نہیں ہوتیں۔ بالآخر اس نے کہنا شروع کر دیا۔ ناصر خدارا یہ نوکری چھوڑ دو، جس میں قلیل سی روکھی سوکھی تنخواہ کے چندر و پلی سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس سے بہتر ہے کوئی دوسرا کام کرو۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں ابھی سے کچھ نہیں کیا تو کیا ان کو بھوکے اور جاہل رکھنے کا ارادہ ہے۔ ہر روز ایک ہی موضوع پر بات کرتے کرتے ناصر بیزار ہو گیا۔ راشدہ جو صبر و تحمل کا پیکر تھی ، اب مفلسی کے ہاتھوں ایسی ہراساں ہوئی کہ شوہر کو چین سے نہ بیٹھنے دے رہی تھی۔ وہ بچاری بھی مجبور تھی۔ بچے تو تین وقت کھانے کو مانگتے تھے۔ اب یہ عالم ہو گیا کہ ناصر سارا دن محنت کے بعد اوور ٹائم کرتا پھر بھی گزارہ نہ ہوتا، یہاں تک کہ تین ماہ کا کرایہ چڑھنے پر بے دخلی کا نوٹس آگیا اور ایک روزان کو مکان خالی کرنا پڑا۔ یہ بچارے مجبوراً اپنے بڑے بھائی حفیظ کے گھر بن بلائے مہمان بن کر آگئے۔ حفیظ بھائی کا گھر بھی ہمارے برابر میں ہی تھا۔ ان کی بیوی تیز مزاج تھیں۔ وہ ناصر بھائی کے بچوں کو آنکھیں دکھاتیں اور راشدہ بھابی پر چڑھ دوڑ تیں کہ تمہارے بچے ، میرے بچوں سے لڑیں گے تو ان کی بہت پٹائی لگائوں گی۔ ناصر بھائی یہ سب دیکھ کر بھی چپ رہنے پر مجبور تھے۔ راشدہ بھی جیٹھانی کی بدسلوکی پر صبر کے گھونٹ بھر لیتی آخر کب تک ؟ جب وہ بہت زیادتی کرنے لگی تو ناصر نے پردیس جانے کی ٹھانی۔ اس نے اپنے سب سے بڑے بھائی کو فون پر حالات بتائے اور کہا کہ مجھے بلوا سکتے ہو تو بلوالو۔ میں یہاں بہت تنگ ہوں۔ ان کا جواب آیا کیا تم نے کوئی کورس کیا ہوا ہے ؟ ہاں، ایف اے کے بعد شیف کا کورس کیا تھا اور اچھے ادارے سے کیا۔ سند بھی ہے میرے پاس۔ یہ تم نے بہت اچھا کیا کیونکہ یہاں میں ایک ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔ یہ سمجھ لو کہ منیجر ہوں۔ تم کو بزنس ویزا پر بلوایا جاسکتا ہے ۔ میں ہوٹل کے مالک سے بات کرتا ہوں جو میرا دوست اور ہم وطن ہے۔ ان دنوں یورپی ملکوں کی ویزا پالیسیاں ہم پاکستانیوں کے لئے اتنی سخت نہ تھیں۔ ناصر نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی بد قسمتی سے جتنی اچھی نوکری ملنی چاہئے تھی ، نہ مل سکی۔ اس نے ایگریکلچر میں ماسٹرز کیا تھا۔ روپیہ پاس ہوتا تو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جا سکتے تھے مگر اپنی فیلڈ میں جب وطن میں ہی ان کی اہلیت کے مطابق نوکری نہ ملی تو بیرون ملک کیونکر جاتے۔ شادی کے لئے والدین اصرار کرتے تھے ، لہذا معمولی سی نوکری جو مل گئی اسی پر اکتفاکر کے گھر بسالیا تھا۔ بھائی کے دوست کے توسط سے ویزامل گیا یہ سویڈن آگئے اور اسی ہوٹل میں معاون شیف ہو گئے، جہاں ان کے بڑے بھائی ملازمت کر رہے تھے۔ شیف کی اچھی تنخواہ تھی۔ خود بھائی کے پاس رہتے اور تنخواہ بیوی کو بھیجوانے لگے۔ فون ہمارے گھر تھا۔ جب ناصر کا فون آتا، ہم راشدہ کو بلوا لیتے ، ایک ماہ میں تین چار بار فون آجاتا مگر ہر بار راشدہ یہی کہتی کہ ادھر کا خیال مت کرنا، وہاں ہی دل لگا کر کام کرتے رہو ۔ ہماری فکر نہ کرو۔ میں اور بچے خوش ہیں۔ آپ بھی خوش رہا کریں جبکہ ناصر یہ الفاظ بیوی کے منہ سے سُننا چاہتا تھا۔ میرے جیون ساتھی تمہاری جدائی ہم کو بھی شاق گزرتی ہے۔ آپ کے بغیر وقت کٹتا نہیں، بچے بھی یاد کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ راشدہ نے ایک بار بھی نہ کہے۔ ہر بار بس آمدنی اور کمائی کی باتیں کہ اب آپ کے اکائونٹ میں کتنی رقم جمع ہو گئی ہے ، آپ کی نوکری پکی تو ہے نا ! وغیرہ۔ سویڈن ہرا بھرا بلکہ خوبصورت پھولوں سے بھرا پرا ایک بے حد خوبصورت ملک ہے مگر بے چارے ناصر کا دل تو اپنے اہل و عیال کے لئے اُداس رہتا تھا لہذا اس ملک کی خوبصورتی بھی اس کے دل کو راحت اور آنکھوں کو تراوٹ نہ بخشتی تھی۔ وہ حسین نظاروں اور یہاں رہنے والوں کے ہشاش بشاش چہرے دیکھتا تو اپنوں کی یاد سے اس کی آنکھیں لبریز ہو جاتیں۔ تمنا کرتا کاش میرے بچے بھی میرے پاس ہوتے۔ تھکن کے باوجود نیند نہ آتی تو خط لکھنے بیٹھ جاتا کہ پیاری راشدہ تم لوگوں کے بغیر اب تو میرے لئے ایک ایک پل کاٹنا بھی عذاب لگتا ہے۔ میں بہت زیادہ محنت کرتا ہوں۔ تم لوگوں کے سکھ کا خیال نہ ہوتا تو میں کبھی اتنی محنت نہ کرتا۔ ایک پل رکے بغیر تمہارے پاس پہنچ جاتا۔ تم کیا جانو تمہاری اور بچوں کی محبت اور جدائی مجھے کس کس طرح خون کے آنسور لاتی ہے۔ وہ یہ خط خود پڑھتا رہتا کیونکہ جانتا تھا اگر یہ نامہ راشدہ کو مل بھی گیا تو جواب میں صبر کی تلقین ہو گی اور یہ کہ اب تمہارے بینک میں کتنا بیلنس ہو گیا ہے ؟ کب اتنا روپیہ ہو جائے گا کہ ہم اپنا گھر خرید سکیں گے۔ تب وہ خط پھاڑ ڈالتا اور بچوں کے اسکیچ پنسل سے بنانے لگتا۔ ہر بار فون پر اس کی روکھی پھیکی تسلیاں یہی کہ لگن سے کام کریں اور اداس نہ ہوا کریں۔ بچے بہل گئے ہیں ہمارے پاس آپ کے بھیجے ہوئے پیسوں سے سب کچھ ہے، کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم بہت خوش و خرم ہیں۔ جب ہم خوش ہیں تو آپ کیوں اداس ہیں فون پر ہر ہفتے آپ سے بات تو ہو جاتی ہے۔ ہاں بچے کہتے ہیں کہ جب ابو اور زیادہ پیسے بھیجیں گے تو ہم گاڑی خرید لیں گے، اور بچوں کی طرح ہم بھی گاڑی پر اسکول جایا کریں گے۔ ناصر دراصل ایسے مردوں میں سے تھا جو اپنی فیملی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور بیوی بچوں سے بہت زیادہ لگائو رکھتے ہیں۔ زیادہ دن وہ ان کی دوری کو برداشت نہیں کر سکتے جبکہ اس کو گئے چار برس بیت چکے تھے۔ اس نے بیوی کو فون کیا۔ اگر تم سویڈن میرے پاس بچوں سمیت آنا چاہو تو میں ویزے کی کوشش کروں یا پھر تمہارے لئے اپنے ساتھ رہنے کی سہولت کی درخواست دوں ؟ کیا غضب کرتے ہو۔ ہم یہاں ٹھیک ہیں۔ انگریزوں کے ملک میں رہائش لے کر کیا کریں گے جبکہ یہاں بچے سکون سے پڑھ رہے ہیں۔ وہاں آپ جو کمائیں گے کنبے کے اخراجات پر خرچ ہو جائے گا۔ بچت کب ہو گی ؟ میں اپنا گھر اپنے وطن میں مکان خریدنے کا خواب کب پورا کر پائوں گی ؟ تھوڑے دن کی اور جدائی سہ لیں گے مگر گھر تو اپنا بن جائے گا۔ اپنوں کے درمیان رہنے کا مزہ اور ہے۔ بیوی نے اس کے احساسات اور تنہائی کے دُکھ کو نہ سمجھا۔ ناصر کا دل کام سے اچاٹ ہونے لگا۔ جی ہر دم ماندہ رہنے لگا۔ جیسے اس دل کی فریاد سُننے والا کوئی نہ ہو۔ ایک دن افسردگی سے نڈھال، چھٹی کے دن سمندر کے کنارے بیٹھا تھا کہ ایک غیر ملکی لڑکی اس کے پاس آگئی۔ اس نے ناصر کو بڑے پیار سے پوچھا۔ اچھے آدمی، تم کیوں رور ہے ہو ؟ تب ناصر کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھیں نیر بہا رہی ہیں۔ اس نے آجنبی غمگسار لڑکی کو بتایا کہ تنہائی کے درد سے میری آنکھیں چھلک آئی ہیں۔ وہ اجازت لے کر پاس بیٹھ گئی ، باتیں کرنے لگی اور ناصر کی تنہائی میں شریک ہو کر اس کا درد بانٹنے لگی۔ اس کے دل کا حال سُنا اور پھر اکثر چھٹی کے دن اس سے ملتی۔ دونوں سیر و تفریح کے بہانے اپنی اپنی تنہائی دور کر لیتے ۔ اب پھر سے ناصر کا دل کام میں لگ گیا۔ ایک اچھا ساتھی جو ملا تھکن اور کوفت بھی ختم ہو جاتی تھی۔ پہلے پہل اس نے ”میری“ کو وقتی ساتھی جان کر ساتھ لے لیا تھا۔ اب اس کی توجہ راشدہ کو فون کرنے کی طرف کم ہو گئی ۔فون کرتا، تھوڑی سی بات کرتا، بچوں کی خیریت معلوم کر کے فون بند کر دیتا۔ لمبی لمبی گفتگو نہ کرتا۔ راشدہ بھی کام کاج میں مصروف ہوتی۔ جلدی سے فون پر بات کر کے ہمارے گھر سے اپنے گھر چلی جاتی۔ وہ سوچتی تھی ابھی شوہر آنے کی جلدی نہ کرے، زیادہ سے زیادہ کما لے۔ یہی موقع ہے بعد میں آرام کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کریں گے۔ ناصر کو بھی ”میری“ سے ملنے کے بعد راشدہ کے پاس جانے کی اتنی جلدی نہ رہی تھی۔ اس کی اس سردمہری پر بھی راشدہ نہ چونکی۔ شاید وہ مرد کی فطرت سے ناواقف تھی۔ ناصر پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کر بیٹھی تھی جبکہ ”میری“ ایک غیر ملکی آجنبی لڑکی نے ناصر کا مسئلہ سمجھ لیا تھا۔ اس نے نہایت گرمجوشی سے دوستی کا ہاتھ اس کی طرف بڑھادیا۔ رفتہ رفتہ اس قدر نزدیک آگئی کہ جسم وروح کے سارے فاصلے مٹ گئے۔ ناصر کا افسردہ دل ایک نئی خوشی سے آشنا ہوا اور اس نے اس مقامی لڑکی کی طرف سے شادی کی پیش کش کو قبول کر لیا۔ راشده اگر اتنی سرد مہری نہ دکھاتی تو شاید ناصر نہ بھٹکتا مگر اس نے تو بھٹک کر بھی اپنی منزل پالی اور ”میری“ کو اپنی بیوی بنالیا۔ بچوں کے حوالے سے یہ سوچ کر خود کو تسلی دے دیتا تھا کہ ان کو اچھے مستقبل کے لئے رقم چاہئے جو بھیجتا رہوں گا اور وہ اچھی تعلیم حاصل کر لیں گے۔ راشدہ کو ناصر کی شادی کا اس وقت علم ہوا جب اس کا ایک دوست کچھ تحائف جو ناصر نے بچوں کے لئے بھیجے تھے، لے کر پاکستان آیا۔ اس نے راشدہ کو بتا دیا کہ تمہارے شوہر نے وہاں ایک مقامی لڑکی سے شادی کر لی ہے جو بہت خوبصورت ہے اور مال دار بھی ہے۔ یہ سُن کر راشدہ کو غش آگیا۔ پھر اس نے اس غم کو ایسا کلیجے سے لگایا کہ آہستہ آہستہ گھلنے لگی۔ بالآخر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ جب ناصر کو اطلاع ملی تو اس نے جلدی سے ٹکٹ کٹایا اور گھر لوٹا، تب اس کو پتا چلا کہ جیسے وہ راشدہ کی جدائی میں رنجیدہ رہتا تھا وہ بھی ایسے ہی اس کی جدائی میں تڑپتی تھی مگر شوہر کو نہ بتاتی تھی۔ اس کی ڈائری میں تحریریں آنسوئوں سے بھیگی ہوئی ملیں۔ ناصر کی جدائی نے اُسے بھی دیمک کی طرح چاٹ ڈالا تھا مگر بچوں کے مستقبل کی خاطر وہ یہ دُکھ اکیلے ہی سہتی رہی، کسی سے اظہار نہ کیا۔ کاش جدائی کے دن ختم ہوں اور میں اڑ کر تمہارے پاس پہنچوں۔ ڈائری میں ایسے جملے بھی درج تھے۔ ناصر سوچتا رہ گیا کہ اگر راشدہ یہ سب کچھ جو میرے لئے ڈائری میں لکھتی تھی مجھے لکھ کر بھیج دیا ہوتا تو میں ”میری“ سے کبھی شادی نہ کرتا۔ انسان کبھی کبھی ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے اور یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔