ہم پشاور کے نزدیک ایک گائوں میں رہا کرتے تھے۔ والد صاحب کی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان تھی اور وہ چپلی کباب بنا کر اپنے کنبے کا پیٹ پال رہے تھے۔ اس طرح غربت میں بھی دو وقت کی روٹی میسر تھی اور ہم سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہم تین بہنیں تھیں۔ میں سب سے چھوٹی تھی لہذا اپنے بھائی شعیب کے ساتھ بکریوں کا ریوڑ چرانے جایا کرتی تھی۔ بڑا بھائی ایوب اسکول جاتا تھا۔ اسے پڑھائی میں دلچسپی تھی ۔ ان دنوں میٹرک کا طالب علم تھا مگر شعیب بھائی کو تعلیم سے دلچسپی نہ تھی۔ پانچویں تک اس نے میرے ساتھ پڑھا، پھر جب میں نے اسکول چھوڑا تو اس نے بھی چھوڑ دیا۔ میرا یہ بھائی لاابالی اور شروع سے اپنی آرزووں کا غلام تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو زیادہ خود سر ہو گیا ۔ نتائج کی پروا کیے بغیر وہ کام کر دیا کرتا، اس وجہ سے معمولی باتوں پر اس کا محلے کے لڑکوں سے جھگـڑا ہو جاتا ۔ محلے دار والد صاحب کی عزت کرتے تھے ۔ ان کے کہنے سننے پر درگزر کر جاتے اور شعیب کو معافی مل جاتی تھی۔ ہماری بکریوں کا ریوڑ خاصا بڑا تھا۔ اکثر میرا چھوٹا بھائی بی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز بهائی بکریاں چرانے گیا۔ اماں نے مجھے کچھ پہاڑی جڑی بوٹیاں لانے کو کہا تو میں ٹوکری لے کر اس کے ساتھ ہو لی ہم جب گھاٹی کی چرا گاہ کے پاس گئے تو وہاں بھائی کو دوست مل گئے ، وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ تھے یوں سب ساتھ اپنے اپنے ریوڑ لے کر بکریاں چرانے لگے۔ جب شام ہوئی اور ہم نے اپنی بکریاں اکٹھی کر نے گئی تو ان میں ایک زیادہ تھی شاید کسی اور کی بکری ہمارے ریوڑ میں شامل ہو گئی تھی ۔ شعیب بھائی نے یہ بات کسی کو نہ بتائی بلکہ وہ بکری شہر لے جا کر بیچ دی۔ اس راز میں اس کا ایک دوست بھی شامل تھا جو اپنا ریوڑ چرا رہا تھا۔ دونوں نے یہ کام مل کر کیا اور جو رقم حاصل ہوئی ، آپس میں بانٹ لی – اب شعیب روز اکیلے ریوڑ لے کر جانے لگا۔ دو روز بعد اس نے کسی دوسرے ریوڑ سے دو بکریاں بانک لیں اور انہیں بیچ کر پیسے آپس میں بانٹ لیے۔اس چوری کا انہیں ایسا مزہ لگا کہ اب اس نے اپنے دوستوں کےساتھ باقاعدہ پروگرام بنایا کہ زمیندار کی بھیڑیں اور بکریاں چرائیں گے کیوں کہ اس کا ریوڑ تو بہت بڑا ہے، ان کو پتا نہ چلے گا۔ ایک رات یہ تین دوست مل کر اس کے باڑے میںپہنچے۔ دو نے پہرہ دیا اور تیسرے نے بھیڑیں بانکیں تاکہ باڑے سے نکال کر باہر لے جائیں۔ محافظ وہاں قریب سو رہا تھا۔ اس کی لڑکی بھی دوسری چارپائی پر سو رہی تھی۔ اتفاق کہ لڑکی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے شور مچا دیا مگر یہ لوگ نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ محافظ کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے زمیندار کے نوکروں کو ساتھ لیا اور واردات کو آنے والوں کے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے ہمارے گھر تک بھی پہنچ گئے ۔ انہوں نے تینوں لڑکوں کو پکڑ لیا اور خوب مارا بھائی کے دونوں ساتھیوں نے تو محافظ کے پیر پکڑ کر معافی مانگ لی اور اپنی جان چھڑا لی مگر بھائی انکاری ہی رہا کہ وہ باڑے کی طرف چوری کی غرض سے گیا ہی نہیں تھا۔ مار توخوب پڑی تھی کہ بدن زخموں سے چور تھا۔ بہرحال والد کے ہاتھ جوڑنے پر وہ شعیب کو زخمی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے اور تنبیہ کر گئے کہ اگر آئندہ تم نے یہ حرکت کی تو زمیندار کے حوالے کر دیں گے۔ بهائی شعیب کے دل میں اس لڑکی کی طرف سے کینہ پلنے لگا، جس نے شور مچا کر ان کو مصیبت میں ڈالا تھا۔ اس نے عہد کر لیا کہ اس لڑکی سے ضرور بدلہ لے گا۔
ایک روز وہ گائوں کے کنویں پر گیا ۔ وہاں وہ لڑکی پانی بھر رہی تھی۔ شام کا وقت تھا دور دور تک کوئی نظر نہ آیا تو شعیب نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا اور لڑکی کو اپنی پگڑی سے باندھ کر اٹھانے لگا اور کس کر اُس کے دوپٹے سے اس کا منہ بھی باندھ دیا۔ وہ بارہ برس کی معصوم سی لڑکی تھی۔ اُس نے ہاتھ جوڑے تو اس کو ترس آگیا اور اسے نقصان پہنچائے بغیر پہاڑی کی اوٹ سے لا کر واپس کنویں پر چھوڑ دیا۔ لڑکی نے گهر جاکر ماں سے شکایت کی ۔ اس کی ماں میری والدہ کے پاس فریاد لے کر آئی۔ ماں باپ شعیب کی حرکتوں سے تنگ تھے، انہوں نے اسےگھر سے نکال دیا ۔ وہ ادھر ادھر مارا مارا پھرنے لگا، تبھی اس نے اپنا ٹھکانہ قبرستان میں بنا لیا۔ یہاں اس کے دو چار اس جیسے دوست آجاتے ۔ یہ دن کو جوا کھیلتے اور رات قبرستان میں مسجد کے پاس سو جاتا۔ جب کھانے کو پیسے نہ ہوں اور کام کرنے کی عادت بھی نہ ہو تو آدمی کیا کرے ۔ شعیب کو نئی ترکیب سوجھی ، وہ قبرستان کا رکھوالا بن گیا۔ لوگوں سے پیسے لے کر ان کے مرحوم رشتہ داروں کی قبریں ٹھیک کر دیتا اور جب گائوں میں کوئی میت ہو جاتی تو لوگ قبر کے لئے اس سے رابطہ کرتے۔ تب یہ کچھ رقم لے کر قبر کے لئے جگہ دے دیتا۔ والد اور بڑے بھائی نے اسے واپس لانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے انکار کر دیا ۔ ایک دن وہ گائوں سے قبرستان کی طرف لوٹ رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ قبرستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔ سوچا کہ یہ آگ کسی دشمر نے لگائی ہو گی قریب پہنچا تو آگ یک لخت غائب ہو گئی۔ شعیب حیران ہواکہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اس روز پہلی بار اسے تلاوت قرآن پاک کا خیال آیا ۔ وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا اور زندگی میں کبھی نہیں ڈرا تھا مگر وہ تمام شب اس نے ڈرتے ہوئے جاگ کر گزار دی۔ نصف شب کے بعد آنکھ لگی تو خواب میں محافظ کی اسی لڑکی کو دیکھا۔ وہ خواب میں اس سے کہہ رہی تھی کہ تمہاری یہ نیکی تمہارے کام آئی ہے۔دوسرے روز صبح اس نے اس قبر کو جاکر دیکھا جہاں اسے آگے جلتی دکھائی دی تھی، وہ گائوں کے ایک ایسے شخص کی قبر تھی جو سود کا کاروبار کرتا تھا اور ضرورت مندوں کو سود پر قرضہ دیا کرتا تھا۔شعیب کے دل میں بڑی دہشت آئی اس کے بعد اس نے قبرستان میں رہنا چھوڑ دیا۔ وہ گھر آ گیا اور اس واقعے کا ذکر والدہ سے کر کے کہا کہ اب مجھے گائوں میں رہنے اور گھاٹیوں کی طرف جانے سے خوف آتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ہم گائوں چھوڑ کر شہر جا بسیں۔ ایسا فوری طور پر ممکن نہ تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی ایسے اسباب بن گئے۔ بڑے بھائی نے ایف اے کر لیا تو اسے والد کے دوست کے توسط سے ایک مل میں ملازمت مل گئی۔ ایوب بھائی کو وہاں رہنے کو کوارٹر بھی مل گیا تو بهائی نے مجبور کیا کہ ہم سب وہاں ہی رہائش پذیر ہو جاتے ہیں ، جہاں یہ شوگر مل واقع تهى والد صاحب بھی غربت کے دیو سے لڑتے لڑتے تھک چکے تھے۔ گائوں کے ڈھابے پر چپلی کباب کی فروخت سے اتنی آمدنی نہیں ہو رہی تھی کہ کچھ رقم پس انداز کر سکتے اور ایوب بھائی کو بھی اکیلے اتنی دور بھیجنا نہ چاہتے تھے۔ جب کوارٹر ملنے کی خوشخبری سنی تو نقل مکانی پر آمادہ ہو گئے۔ غربت کی زندگی واقعی بڑا عذاب ہوتی تھی۔ ہم مدتوں یہ عذاب برداشت کرتے رہے تھے۔ میں امی اور بہنیں روکھی سوکھی کھاتے اور اچھے دنوں کی امید میں جی رہے تھے۔ بڑے بھائی کی تو نوکری لگ گئی مگر چھوٹا آواره گرد ہوچکا تھا۔ تبھی والد نے سوچا شاید گائوں چھوڑ دینے سے یہ اپنے جواری اور نکمے دوستوں سے دور ہو جائے تو سدھر جائے گا اور وہاں مل میں ہی کسی کام سے لگ جائے گا تو اس کی زندگی کو بھی سیدھا رستہ مل جائے گا ۔ چاہے انسان شہر بدل لے یا گائوں، آوارہ مزاج لوگوں کو ہر جگہ دوست بھی اپنے جیسے ہی مل جاتے ہیں۔ یہاں بھی جو صحبت شعیب کو میسر آئی ، وہ غنڈوں اور چور، جواریوں کی ہی تھی۔ ان کے ساتھ رہ کر وہ نشہ بھی کرنے لگا۔ اس کے ساتھ فلمیں دیکھنا سونے پر سہاگہ ہوا۔ ان غلط قسم کے مشاغل کے لئے جب جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہوتی تو اپنے نئے دوستوں کے ساتھ ،جو چوریاں کرتے تھے، ان کی حرکتوں میں شامل ہو گیا اور چھوٹی موٹی چوریاں کرنے لگا۔جو رقم باتھ آتی وہ نشے ، جوئے یا سینما میں اڑا دیتا۔ اس کے دل میں برائی کا کوئی احساس تھا اور نہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے دکھوں کا۔ اس کے نزدیک زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا۔ اگر تھا تو بس چھین جھپٹ کر کھانا اور نشے میں ڈوب جانا۔ ماں روتی، بڑا بھائی سمجھاتا تو بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکل جاتا پھر ہفتوں گم رہتا یہاں تک کہ گھر والے اس کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے تھے۔ والد وفات پا گئے تو ایوب بھائی اکیلے ہی غربت کے محاذ پر لڑنے کے لئے رہ گئے۔ وہ ان دنوں گنے کی مل میں کام کر رہے تھے۔ شعیب کبھی کبھی وہاں بھی بڑے بھائی سے پیسے مانگنے چلا جاتا تھا۔ ایک روز وہ ایوب بھائی کے پاس گیا۔ وہ کام میں مصروف تھے۔ شعیب سے کہا کہ تم کچھ دیر مل میں بیٹھ کر میرا انتظار کرو شعیب جہاں بھائی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا، سامنے گودام تھا۔ اسے کچھ ایسی اشیاء نظر آئیں جن کو فروخت کر کے خاصی رقم حاصل ہو سکتی تھی۔ اس کے دل میں لالچ آیا کہ کیوں نہ ہاتھ کی صفائی دکھائی جائے مگر اس وقت وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس نے واپس آکر دوستوں سے ذکر کیا اور انہوں نے مل کے گودام میں چوری کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ دو روز بعد جب چھٹی کی وجہ سے مل بند تھی، پوری منصوبہ بندی سے انہوں نے مل میں ڈاکہ ڈالا مگر چوکیدار کی ہوشیاری سے پکڑے گئے۔ فوراً وہاں موجود دیگر محافظوں نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ یہ تینوں دوست حوالات لے جائے گئے ۔ چوری کا سامان انہوں نے دیوار سے ادھر پھینک دیا تها، جہاں ان کے دو اور ساتھی موجود تھے ۔ انہوں نے وہ سامان لے جاکر کہیں چھپا دیا ۔ اب پولیس بھائی اور اس کے ساتھ پکڑے جانے والے ساتھیوں تشدد کر رہی تھی کہ کسی طرح یہ سامان کا اتا پتا بتا دیں لیکن سزا سے پر بچنے کی خاطر یہ چوری قبول نہیں کر رہے تھے۔ تبھی شعیب کے دو ساتھیوں کو علیحدہ لے جایا گیا اور پولیس نے اکیلے میرے بھائی سے پوچھ گچه شروع کر دی۔ بھائی بہت سخت جان انسان تھے ۔ سارا ظلم اور مار پیٹ برداشت کر لی مگر اقرار نہ کیا ، تبھی پولیس اہلکار ایوب بھائی کے ساتھ میری والدہ اور ہم لڑکیوں کو تھانے لے آئی۔
میرا بڑا بھائی تو بے چارہ بے گناہ تھا اور شعیب تھا کہ سامان کے بارے بتانے سے گریزاں تھا۔ تب سب انسپکٹر نے بھائی کو ڈرایا کہ اگر تم نے اپنے دیگر ساتھیوں اور سامان کے بارے ہم کو نہ بتایا تو ہم تمہارے گھر کی خواتین کو اذیت دیں گے۔ شعیب پھر بھی نہ بولا تو انسپکٹر نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کی ماں بہنوں کو اس کے سامنے بے لباس کر دو، جب کہ ہم برقعہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ جب سپاہیوں نے ہمارے برقعوں کی جانب ہاتھ بڑھائے اور نقاب الٹ دیئے تو شعیب کا چہرہ زرد ہو گیا اور وہ تھرتھر کانپنے لگا۔ پولیس والے ہمارے ساتھ سختی سے پیش آنے لگے تو بھائی سے برداشت نہ ہوا اور بولا ۔ ان کو چھوڑ دو۔ میری ماں بہنوں کے سر سے اگر دوپٹہ بھی سرک گیا تو میں تمہارا خون کر دوں گا۔ سپاہیوں کے ہاتھ رک گئے وہ بولے کہ ہماری ان خواتین سے کچھ دشمنی نہیں ہے۔ ہم بھی ماں اور بہنوں والے ہیں مگر تم ہم کو ایسا ظلم کرنے پر مجبور کر رہے ہو۔ سیدھی طرح سب کچھ بتا دو تاکہ ہم ان خواتین کو عزت کے ساتھ گھر بھیج دیں۔ تبھی شعیب بھائی نے نہ صرف جرم کا اقرار کر لیا بلکہ اپنے گروہ کے باقی مانده ساتھیوں کے نام بھی بتا دیئے ۔ جو سزا میرے بھائی کے نصیب میں تھی، انہوں نے کاٹی لیکن اس کے بعد سے آج تک، وہ گھر نہیں لوٹا اور نہ اس نے ہم کو اپنی شکل دکھائی۔ وہ کہتا تھا کہ میں اپنے ضمیر سے شرمندہ ہوں۔ ماں بہنوں کو اب اپنی منحوس صورت نہیں دکھا سکتا ۔ اس نے چوری سے بھی توبہ کر لی ۔ علاقے کے امام مسجد کے پاس گیا اور کہا کہ سر چھپانے اور پیٹ پالنے کے لئے ٹھکانہ اور وابستہ کوئی کام بتایئے ۔ انہوں نے مسجد میں جھاڑو لگانے اور صفائی کا کام دے دیا اور وہاں احاطے میں بنی کوٹھی میں رہنے کو جگہ بھی دے دی۔ جو تبرک وغیرہ لوگوں کے گھر سے آتا یا نذر نیاز کا کھانا، دوسرے غریب لوگوں کے ساتھ شعیب بھی کھا کر پیٹ بھر لیتا۔ خدا نے اسے مسجد سے سیدھی اور سچی راہ دکھائی ، تبھی اس نے پانچ وقت کی نماز کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ چوری اور برے کاموں سے توبہ کر لی۔ وہ ایک شریف خاندان کا لڑکا تھا ، اس کے خون میں شرافت تھی، ضمیر زنده تها، تبھی اللہ تعالیٰ نے اس بھیانک واقعہ کی وجہ سے اس کو سیدھی اور سچی راہ دکھا دی تھی۔ وہ نمازی اور پرہیز گار تو ہو گیا مگر افسوس پھر کبھی گھر نہ لوٹا اور نہ ہمیں اپنا منہ دکھایا۔ وہ امام صاحب سے کہتا کہ مجھے آج بھی اپنے وجود سے نفرت محسوس ہوتی ہے کہ میرے برے اعمال کی وجہ سے ماں جیسی بستی اور میری پاک باز بہنوں کو حوالات تک لایا گیا۔ اب میں کس منہ سے گھر جائوں…؟