جانے کیوں مجھے شادیوں سے الجھن ہوتی ہے۔ کسی کی شادی ہو ، بلاوا آئے ، سب گھر والے جاتے ہیں، میں نہیں جاتی، کوئی بہانہ کر دیتی ہوں۔ لوگوں کے مجمع سے جی گھبراتا ہے۔ ایسی تقریبات سے دور بھاگتی ہوں۔ اس روز بھی کزن کی شادی تھی۔ ہمارے گھر والے وہاں گئے ہوئے تھے اور میں تنہا اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ دفعتا بارش شروع ہو گئی۔ صبح سے بادل چھائے ہوئے تھے۔ بارش کے آثار تو تھے لیکن یہ گمان نہ تھا کہ اتنی شدید بارش ہو جائے گی۔ میرے کمرے کی سامنے والی کھڑ کی آج بھی کھلی تھی ہمیشہ کی طرح۔ یہ میری غمگسار تھی۔ اس کو میں کبھی بند نہیں رکھتی۔ بند ہو تو بڑی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ پھوار مجھے اچھی لگ رہی تھی۔ پھر بارش نے زور پکڑ لیا اور میں کانپنے لگی کیونکہ ایسی ہی ایک برسات نے میری زندگی بدل ڈالی تھی جس کا انجام آج یہ ہوا کہ میری سہیلیاں سب اپنے اپنے گھروں کی ہو گئیں اور میں تنہائیوں کے دشت میں ماضی کی یادوں سے الجھنے کو رہ گئی۔ کزن کی شادی پر آج جانے کیوں مجھے وہ دن یاد آنے لگے ہیں۔ شاید یہ پچھتاوا تھا جس نے مجھے ماضی کے اندھیروں میں دھکیل دیا تھا۔ بہیں طویل سال گزرنے کے باوجود لگتا تھا جیسے یہ کل کی بات ہو۔ ایسے ہی ایک بھیگی شام شدید برسات میں ہم ساتھ تھے۔ میں نے مہر علی سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہر صورت ساتھ نبھائیں گے ۔ مرتے دم تک ایک دوسرے کا ہاتھ نہ چھوڑیں گے۔ نازش میری پیاری سہیلی تھی اور مہر علی اس کا بھائی تھا۔ ہمارا گھر آبادی سے کچھ دور تھا۔ میرے بابا بہت اچھے تھے۔ انہوں نے ہم بچوں پر بھی کسی قسم کی پابندی نہ لگائی۔ ماں بے حد سادہ طبیعت اور نیک خاتون تھیں۔ وہ میری سہیلی نازش کو بیٹی کی طرح پیار کرتی تھیں اور مہر علی کو بیٹا کہتی تھیں۔ ہم دونوں اکٹھے اسکول جاتے۔ چھٹی کے وقت اصرار کر کے اسے گھر لے آتی۔ جب تک اماں اس کو اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہ کھلا لیتیں، انہیں سکون نہ آتا۔ یو نہی وقت گزرتا رہا اور ہم اسکول سے کالج پہنچ گئے۔ کالج میں مجھے اور نازش کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کیونکہ ہماری خوبصوری اور دوستی وجہ شہرت تھی۔ سبھی جانتے تھے کہ ہم کتنی پکی سہیلیاں ہیں۔ ساتھ کھاتی پیتیں، شاپنگ کرتیں، ایک جیسے کپڑے بنا تیں۔ لوگ ہمیں سگی بہنیں سمجھتے تھے۔ نازش کے چار بھائی تھے۔ بچپن سے آنا جانا تھا۔ دونوں گھرانے ہم نوالہ ، ہم پیالہ تھے۔ میرے بھائیوں سے اس کے بھائیوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔ غرض کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ مکان دو تھے ، گھرانہ ایک لگتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ میں اور نازش تانگے پر کالج سے لوٹ رہی تھیں۔ اس روز بھی صبح سے آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم من موہنا ہورہا تھا۔ اچانک تیز بارش ہونے لگی۔ راستہ خراب ہو گیا اور دیکھتے دیکھتے جگہ جگہ پانی جمع ہو گیا۔ سڑک پر اتنی پھسلن تھی کہ قدم جما کر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں گھوڑے کا پائوں رپٹ گیا۔ جس سمت میں بیٹھی تھی ، تانگہ اسی طرف کو الٹ گیا جس کی وجہ سے نازش کو تو کم چوٹیں آئیں لیکن میں سخت مضروب ہو گئی۔ بازو میں بھی فریکچر ہو گیا۔ آنافاناگوگ اکٹھے ہو گئے۔ گھوڑے کو اٹھایا، تانگے میں سے ہم کو نکال کر فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ میں سڑک پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئی مگر نازش ہوش میں تھی۔ مدد کرنے والوں نے اس کو تسلی دی۔ ایڈرس پوچھا اور پھر گھر والوں کو اطلاع دی۔ شومئی قسمت اس وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا۔ نازش کے یہاں صرف اس کا بھائی مہر علی تھا۔ وہ بھاگم بھاگ اسپتال پہنچا۔ میری حالت دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا اور فرش پر گر گیا، تبھی ڈاکٹر نے اس کو فور اطبی امداد دی۔ میراعلاج کافی لمبا چلا۔ وہ روز اسپتال آتا، میری عیادت کرتا۔ جو کام ہوتا، وہ انجام دیتا۔ اسی دوران نازش نے بتایا۔ سائرہ، تمہیں پتا ہے کہ جب تم کو حادثے کے روز دیکھا تو تمہاری ایسی حالت تھی کہ بھائی ہے ہوش ہو گیا تھا۔ میں نے سہیلی کی بات سنی تو ہنس دی۔ کہا، بھئی یہ سب کچھ ایسے اچانک نہیں ہوتا، ضرور اس کے دل میں میرے لیے خیال بہت پہلے سے ہو گا، شاید بچپن سے … اظہار ضروری نہیں ہوتا مگر بعض دفعہ ایسے مواقع آ جاتے ہیں کہ دل کے معاملات کھل جاتے ہیں۔ آدمی بے بسی کی تصویر بنا رہ جاتا ہے۔ خیر ایسی باتیں کر کے ہم دونوں ہنستی رہیں اور بات کی گہرائی کو نازش نے محسوس نہ کیا جبکہ میرے دل کے پاتال میں یہ بات اترتی چلی گئی کہ کوئی ہے جس کو میرا اتنا احساس، اتنا خیال ہے۔ ہم نے جو باتیں آپس میں کیں ، جانے کس رنگ میں نازش نے مہر علی سے جا کہیں۔ اس نے مجھے پیغام بھیجا۔ سائرہ جو تم نے کہا ہے ، سر آنکھوں پر … ہمارا رشتہ پکا ہے۔ اب یہ حوادث زمانہ سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ بے شک سارا جہاں بدل جائے، ہم نہیں بدلیں گے۔ یہ وعدہ رہا، تم بدل نہ جانا۔ پتا نہیں یہ سچ تھا کہ اس نے مذاق کیا تھا مگر عجیب بات یہ تھی کہ جب اس نے یہ کہلوایا تب بھی بارش ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں موسلا دھار بارش میں جود عامانگی جائے ، وہ ضرور پوری ہوتی ہے تبھی دعا کی۔اے اللہ جیسے آسمان سے تیری رحمت تیزی سے برس رہی ہے ، اسی طرح تو میرے پاکیزہ جذبے کی حفاظت کرنا جس کو محبت کہتے ہیں۔ حادثے کے باعث میرے چہرے پر زخم کے نشان دائیں طرف گہرے تھے۔ بازو کا فریکچر تو ٹھیک ہو گیا لیکن مکھڑے پر زخم کے نشان باقی رہ گئے۔ میں نے مہر علی کی عیادت اور نازش کی پیاری بھری باتوں کا ایسا اثر لیا کہ مجھے خود پتا نہ چلا کب میں مہر علی کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔جب گھر آئی تو بہت بدلی ہوئی تھی۔ چہرے پر زخموں کے داغ رہ جانے کا دکھ تھا۔ مہر علی کی جانب دن رات دھیان رہتا کہ وہ میرا چہرہ دیکھ کر کیا سوچے گا کہ یہ اب پہلے جیسا بے داغ نہیں رہا تھا۔ کہیں ان داغوں کی وجہ سے وہ مجھ سے دور تونہ ہو جائے۔ اس فکر میں پریشان رہنے لگی۔ والد صاحب نے ایک سمجھدار اور اچھے ڈاکٹر سے میرا علاج کرایا جس کے لیے با قاعدگی سے ابو ہر ماہ مجھے لاہور لے جاتے۔ کبھی ایک ماہ میں دو بار بھی جانا ہوتا تھا۔ اس دوران مہر علی متواتر گھر آتار ہا۔ وہ میرے پاس نازش کے ہمراہ بیٹھا رہتا تھا۔ ہم اپنی پڑھائی کے بارے میں باتیں کرتے اور دنیا جہاں کی گپ شپ چلتی۔ لطیفے سنائے جاتے۔ وہ مجھے ہنسانے کی کوشش کرتا۔ مہر علی ذہین تھا اور خوبصورت بھی میں جب اس کے اجلے اجلے پھول کی طرح کھلے ہوئے چہرے کو دیکھتی تو مجھے شدت سے اپنے چہرے پر پڑے داغوں کا احساس ہوتا۔ تب راتوں کو اٹھ کر روتی۔ دعا کرتی۔اے اللہ ! میرے چہرے سے یہ داغ مٹا کر مجھے بے عیب کر دے۔ امتحان شروع ہو گئے۔ میں پرچے نہیں دینا چاہتی تھی۔ نازش نے کہا۔ جتنی بھی تیاری ہے، پرچے دو، فکر نہ کرو۔ اس کی ہمت دلانے پر پرچے تو دیئے مگر ٹھیک طرح نہ دے سکی۔ جب رزلٹ آیا تو وہ “اے”گریڈ میں تھی اور میں معمولی نمبروں سے پاس ہوئی تھی۔ بہر حال اس کی ہمت دلانے سے میر اسال ضائع ہونے سے بچ گیا۔ پر چوں کے دوران مہر علی نے آنا بند کر دیا تا کہ میں سکون سے پڑھ سکوں۔ مجھے بھی اس سے ملاقات کا موقع نہ ملا کہ اس سے حال دل کہہ سکتی۔ شاید لا شعوری طور پر میں نہیں چاہتی تھی کہ اس سے کوئی ایسی بات سنوں جس سے میری دل آزاری ہو جائے۔ حسرت رہی کہ وہ خود آکر مجھ سے کہے کہ تمہارے داغدار چہرے سے میری محبت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ میں پہلے کی طرح تم سے پیار کرتا ہوں۔ اپنے وعدے یاد ہیں، ان کو نبھائوں گا۔ غم نہ کرو، تمہارا تمام عمر ساتھ دوں گا۔ ایسے لفظ جو میں اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی، نہ سن سکی۔ انتظار میں میرے کان تھک گئے۔ نازش نے بہترین نمبر لیے تو کہا۔ چلو تم کو ٹریٹ دیتے ہیں۔ پہلے پارک میں سیر کریں گے ، پھر کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھائیں گے۔ میں تو پریشان ہو گئی۔ جانے مہر علی اب مجھ کو کس نظر سے دیکھے گا۔ امی نے کہا۔ چلی جائو تمہارے بچپن کی ساتھی ہے، کیوں انکار کر رہی ہو۔ اس کی خوشی میں شامل ہو جائو۔ پتا نہیں کس کی نظر لگی ہے۔ جب سے ایکسیڈنٹ ہوا ہے ، میری بیٹی بدل سی گئی ہے۔ یہ وہ سائرہ ہی نہیں رہی ہے۔ خیر نازش مجھے لینے آگئی۔ مہر علی گاڑی چلا رہا تھا۔ آگے نازش اس کے برابر بیٹھ گئی اور میں پچھلی نشست پر تھی۔ وہ بار بار آئینے میں میری جانب دیکھ رہا تھا اور میں دوپٹے کو اس انداز سے اپنے رخ پر جمار ہی تھی کہ چہرے کے داغ اسے کم سے کم نظر آئیں۔ بار بار نظر اٹھتی۔ وہ میری جانب دیکھ رہا ہوتا۔ ہم پارک پہنچ گئے ، وہاں سارے پارک کی سیر کی۔ درخت آموں سے لدے تھے۔ تازہ پھل لیے مگر میں نے ایک بھی آم نہ کھایا۔ مجھ کو لگتا تھا اگر اس کے سامنے بیٹھ کر کھایا تو میرے داغ کہیں اس کے دل پر نہ جم کر رہ جائیں۔ دل کا موسم عجیب تھا۔ سہما ہوا، گہری شام جیسا۔ اجلی صبح ایسا نہ تھا مگر نازش کہہ رہی تھی۔ دیکھو تو سائرہ… آج موسم کتنا حسین ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے ، بادل بھی آسمان پر براجمان ہیں۔ لگتا ہے ابھی بارش ہو جائے گی۔ اس نے صحیح کہا تھا۔ یک دم گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے میں اس موسم کے سحر میں کھو گئی۔ خوش تھی کہ میرا محبوب سامنے ہے اور موسم بھی اتنا رومان پرور ہے۔ دل جھوم رہا تھا۔ اپنے چہرے کے داغ بھول کر مہر علی کے حسین مکھڑے کی چاندنی میں کھو گئی۔ میں اتنی خوش تھی کہ مہر علی نے بھی جان لیا۔ اس نے کہا۔ سائرہ تم کو یہ موسم بہت اچھا لگا ہے؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ ہاں مہر علی اگر تمہار ا ساتھ یو نہی رہے تب ، ورنہ کوئی بھی موسم اچھا نہیں لگتا۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک انو کھا رنگ پھیل گیا۔ وہ مسکرا کر گاڑی کی طرف چلا گیا۔ ہم نے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ میری نگاہیں حجاب آلود تھیں، اس کی طرف اٹھتی نہ تھیں مگر وہ مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا۔ ابھی ہم کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک وہاں نازش کی ایک دوست اپنے والدین کے ہمراہ دکھائی دی۔ یہ بھی کھانا کھانے آئے تھے ۔ اخلاقاً نازش اٹھ کر ان کی طرف گئی دعا سلام کرنے اور تھوڑی سی بات چیت کے لیے۔ اس دوران میں اور مہر علی اکیلے رہ گئے تبھی ہمت کر کے میں نے کہا۔ مہر علی … بے شک میرا چہرہ داغدار ہو گیا ہے لیکن میری محبت بے داغ ہے۔ تم مجھے کب اپنانے آئو گے ؟ ایسا کہتے ہوئے دل دھڑکنے لگا۔ اس قدر زور سے کہ میں اپنے دل کی دھڑکن کو صاف سن سکتی تھی۔ یہ دھڑکن مجھ کو اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ مجھ پر کپکپی طاری تھی مگر ہمت نہ ہاری۔ میں نے اپنی الجھن صاف اس کو بتادی۔ مہر علی، میرے کان دوبارہ اس قول و قرار کو سننا چاہتے ہیں جو ایک بار پہلے تم نے کیا تھا۔ وہ عمر بھر نباہنے کا وعدہ دہرا دو تا کہ میرادل سکون میں آجائے۔ میں اب تمہارے بغیر جی نہ سکوں گی۔ کیا اب بھی تم میرا ساتھ دوگے ، میرے داغدار چہرے کے ساتھ … پتا نہیں اس وقت میری ظاہری حالت کیسی ہو رہی تھی کہ مہر علی پریشان ہو گیا۔ اس نے کہا۔ سائرہ… میں نے کبھی تمہارے بارے میں ایسا سوچا نہیں تھا، اب تمہاری حالت دیکھ کر مجھے سوچنا پڑے گا اور وہ وعدے تو بچپن کی باتیں تھیں۔ بہر حال جواب مثبت ہو گا، تم میرا انتظار کرنا۔ میں تمہارا انتظار کروں گی جب تک زندہ ہوں۔ بس اتنا ہی ہم کہہ پائے تھے کہ نازش لوٹ آئی۔ ہم گھر واپس آگئے۔ اس کے بعد میں اور زیادہ بے قرار ہو گئی۔ رات کی نیند ، دن کا سکون لٹ گیا۔ اٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ، ہر طرف مہر علی نظر آتا تھا۔ سوچتی تھی دنیا میں شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ کسی لڑکی نے پہل کی ہو اقرار محبت میں لیکن میرے ساتھ ایسا ہو چکا تھا کہ مجھ کو اپنا ہوش نہ رہا تھا۔ یہ بھی دھیان میں نہ رہا تھا کہ مجھے اپنی انا کے شیشے کو بھی ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے مگر دل پاگل اور پیار میں بے اختیار ہو جاتا ہے، یہ بھی مانی ہوئی بات ہے۔ کچھ دنوں میں میر ارشتہ آ گیا۔ سگے چچا نے ابو سے کہا۔ یہ میری بیٹی ہے۔ بے شک چہرے پر داغ پڑ گئے ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان چیزوں سے کوئی اپنی اولاد کو نہیں چھوڑ دیتا۔ ابو نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ میری شادی چچا کے بیٹے سعد سے ہو جائے۔ مجھے بلا کر سمجھایا۔ بیٹی اب تمہارا ذہن پڑھائی میں نہیں چلے گا۔ بہتر ہے کہ تم اس رشتے کو نہ ٹھکرائو ، یہ اپنے ہیں اسی لیے تم کو چاہتے ہیں اور ان کو تمہارے چہرے کے داغ بھی پیارے لگتے ہیں۔ جب میں نے یہ سنا۔ پریشان ہو گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے شادی سے صاف انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ آگے پڑھنا ہے اس لیے شادی نہیں کرنی۔ دل تو اس کی طرف تھا جس نے کہا تھا انتظار کرنا، مگر اس نے یہ میرادل رکھنے کو کہا تھا۔ جب میں نے اظہار کر دیا۔ اس کے بعد مہر علی نے ہمارے گھر آنا کم کر دیا اور دوسرے شہر کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیا۔ میں پریشان تھی۔ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ کیوں اتنی سرد مہری اختیار کرلی ہے۔ ایک روز نازش آئی تو میں نے پوچھا۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس نے بتایا کہ یہاں کے کالج کی پڑھائی اچھی نہیں ہے لہذاوہ لاہور جاکر پڑھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ گھر کا لاڈلا ہے، کوئی اس کی بات نہیں ٹالتا۔ جانے والا چلا گیا۔ مجھ کو بغیر جواب دیئے، بغیر ملے ، بغیر رابطہ کئے۔ وہ گھر فون کرتا تھا۔ میں وہاں بیٹھی ہوتی تو نازش میری بات کر دیتی تھی لیکن وہ واجبی کلام کرتا تھا، صرف خیریت کی حد تک۔ میں نے جو سوال اس سے کیا تھا، اس نے اس کا جواب نہ دیا۔ اس دوران میں نے ایم اے کیا اور پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے لگی۔ نازش کی شادی ہو گئی۔ ابو جان نے ہمت نہ ہاری۔ پلاسٹک سرجری کرائی اور میرے چہرے کے داغ دور ہو گئے۔ اس کے بعد میرے کئی اچھے گھرانوں سے رشتے آئے مگر ہر بار ٹال جاتی، کوئی بہانہ کر دیتی۔ اس عرصے میں بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں، گھر میں بھا بھیاں آگئیں، میں ان کے بچے ہو گئے۔ اب جب میں اسکول سے آتی ہوں تو ان کے ساتھ خوب کھیلتی ہوں۔ جب مہر علی کا خیال آجاتا ہے، نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نازش سے میری اتنی گہری دوستی تھی۔ وہ بھی میرے احساسات کو نہ سمجھ سکی۔ وہ میر کی رازداں تھی اور جانتی تھی کہ میں اس کے بھائی کو کتنا چاہتی ہوں۔ وہی اگر میری صحیح رہنمائی کرتی تو میرے خیالات اتنے نہ بھٹکتے۔ مہر علی بھی ایک اسرار تھا۔ آخر تک یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ وہ کیا چاہتا تھا اور کیا سوچتا تھا۔ سلام دعا کرتا تھا، خیریت پوچھتا تھا مگر کبھی رشتے کے لیے اظہار نہ کر سکا۔ برسوں گزر گئے ، میرے سر میں چاندی کے بال جھلملانے لگے مگر میں آج بھی اس کا انتظار کر رہی ہوں حالانکہ جانتی ہوں کہ وہ اب نہیں آئے گا مگر اس پاگل دل کو کون سمجھائے۔اس نے کہا تھا۔ کسی کے کہنے سے محبت نہیں ہو جاتی۔ یہ ایسا جذبہ ہے جو اچانک دل میں پیدا ہوتا ہے اور کسی کو کسی وقت بھی کسی کے لیے اپنی گرفت میں جکڑ لیتا ہے۔ میں اس جکڑ سے آزاد نہ ہو سکی، ابھی تک ماضی میں کیسے ہوئے اس کے وعدوں میں جکڑی ہوئی ہوں لیکن وہ خدا جانے کیا سوچتا ہو گا میرے بارے میں … دعا ہے جہاں رہے ، خوش رہے۔