ان دنوں ہم ایک بارانی علاقے میں رہا کرتے تھے جہاں والد صاحب کی تھوڑی سی زمین تھی۔ مگر خوشحالی کا دارو مدار بارش پر تھا۔ برسات ہوتی تو فصل اچھی ہو جاتی اور خشک سالی آ جاتی تو زمین غیر آباد ہو جاتی۔ ہم بہت زیادہ خوش حال نہ تھے مگر گائوں میں بابا کی عزت تھی اور سفید پوشی کا بھرم قائم تھا۔ میں ان کی پہلوٹی کی اولاد تھی، چار بہن بھائی اور تھے۔ سات برس کی عمر میں میرا نکاح ماموں زاد سے کر دیا گیا جس کا نام خانزادہ تھا مگر اسے خانو پکارتے تھے۔ وہ مجھ سے عمر میں اٹھارہ برس بڑا تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ میری رخصتی اس وقت ہو گی جب میں پندرہ سال کی ہو جائوں گی۔
دو سال بعد خانو نے تقاضا شروع کر دیا کہ میری منکوحہ کی رخصتی دو۔ بیٹے کے کہنے پر ماموں نے بھی میرے والدین سے کہا کہ شادو کی رخصتی دے دیں کیونکہ میری بیوی کو کام کاج کی تکلیف ہے۔ حالانکہ میری عمر ابھی رخصتی کی نہ تھی مگر گائوں والوں کی نظروں میں نو برس کی لڑکیوں کی شادی معمول کی بات تھی۔ بھائی دو تین برس اور صبر کرو، یہ گیارہ برس کی ہو جائے تو میں رخصتی دے دوں گی۔ ابھی شادو کمزور ہے۔ دو گھڑے پانی کا بوجھ تک سر پر نہیں اٹھا سکتی۔ ڈھور ڈنگروں کا چارہ اور آپ کے گھر کے کاموں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی۔
ماموں انکار سن کر چلے گئے۔ بیٹے کو سمجھایا۔ تیری پھوپی صحیح کہتی ہے لڑکی ابھی چھوٹی ہے۔ کچھ اور انتظار کر لینے میں بہتری ہے۔ نکاح کے وقت یہی طے ہوا تھا کہ شادو کی رخصتی اس وقت ہو گی جب وہ پندرہ سال کی ہو جائے گی اب ہم اس معاہدے کے پابند ہیں۔ ایک سال بمشکل گزرا کہ خانزادہ نے پھر اپنے والدین کو مجبور کیا کہ جا کر پھوپی سے کہو رخصتی دے دیں۔ اس بار والد نے درشتی سے منع کیا کہ جب تک میری بیٹی پندرہ برس کی نہیں ہوجاتی، آپ لوگ رخصتی کی بات کرنے میرے در پر مت آنا ورنہ یہ رشتہ ہی ختم کر دوں گا۔
ماموں کو رشتے کا پاس تھا سو وہ خاموشی سے چلے گئے۔ لیکن خانو کو اس انکار پر غصہ آیا، اس نے باپ سے کہا۔ آپ کیسے بڑے بھائی ہو کہ اپنی چھوٹی بہن سے بات نہیں منوا سکتے۔ میں نہیں منوا سکتا تو جا کر منوا لے۔ باپ نے خفا ہو کر بیٹے کو جواب دیا۔ اگر وہ تیری مان جاتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہے۔ شادو گھر آجائے گی تو تیری ماں کو سکھ ملے گا۔ وہ اس کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی۔ لیکن میں بہن اور بہنوئی سے اس معاملے میں جھگڑا نہیں کرنا چاہتا، اس طرح رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔
خانو ایک پرجوش نوجوان تھا۔ انکار کو توہین جانتا تھا۔ جب اپنی سی کرنا چاہتا تو پھر دوسرے کی مجبوریوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ وہ باپ کی کوششوں سے مایوس ہوا تو خود گھر چلا آیا اور اماں سے کہنے لگا۔ بوا جی… نکاح ہو گیا ہے شادو ہماری امانت ہے۔ اچھا ہے کہ وقت پر ہمارے حوالے کر دو۔ کیونکہ ماں بیمار رہتی ہے۔ وہ اکیلی گھر کا سارا کام کاج نہیں کر سکتی۔
بھتیجے کے سارے حیلے بہانے پھوپی نے رد کر دیے۔ اماں بولیں۔ تم لوگوں کی جو بھی مجبوریاں ہیں وہ اپنی جگہ لیکن میں بھی مجبور ہوں۔ میری بیٹی ابھی چھوٹی ہے۔ گھر کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں ہے، تم چلے جائو، ابھی یہاں سے اور یہ بات کرنے دوبارہ مت آنا۔ خانو چلا تو گیا مگر دل میں اس کے غصہ بھرا تھا۔ اب اسے کسی پل چین نہ تھا۔ ہر صورت مجھے اپنے گھر میں دیکھنا چاہتا تھا۔ چھ ماہ بمشکل خاموش رہ سکا، پھر اماں کے پاس آگیا اور کچھ زیادہ ہی پرجوش انداز میں تقاضا کیا کہ اماں بیمار ہے۔ اکیلی ڈھور ڈنگر کا بکھیڑا نہیں سنبھال سکتی۔ تمہیں احساس نہیں ہے ہماری تکلیف کا۔ اگر اس بار انکار کیا تو میں بارات لانے کی تکلیف بھی نہ کروں گا اور ویسے ہی تمہاری لڑکی کو گھر سے اٹھا کر لے جائوں گا۔
داماد کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میری ماں کو غصہ آ گیا۔ جا کم بخت جو جی میں آئے کر۔ میں اپنی بیٹی ہرگز رخصت نہ کروں گی، تجھ بے شرم کے ساتھ۔ بزرگوں کا ادب لحاظ بھی نہیں ہے۔ بس پھر کچھ اس طرح پھوپی اور بھتیجے کے درمیان گرما گرمی ہوئی کہ خانو نے غصے میں پاس پڑا بھاری لوٹا اماں کو دے مارا جو ان کے منہ پر لگا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے۔ اتفاق سے اسی وقت ابا گھر میں داخل ہوئے اور انہوں نے جو یہ منظر دیکھا تو آگ بگولا ہو گئے۔ بدبخت اپنی پھوپی کی یہ عزت کی ہے تونے، ہمیں مارتا بھی ہے، اور ہماری بیٹی بھی مانگتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ گندم کوٹنے والا موسل اٹھا کر اس کی جانب لپکے۔ خانو بھاگتا ہوا ہمارے گھر کی دہلیز پار کر گیا۔
اس واقعے سے دونوں گھرانوں میں رنجش انتہا کو پہنچ گئی۔ ابا نے کہہ دیا کہ خانو بدمعاش کو بیٹی ہرگز نہ دے گا۔ وہ بہت منہ زور اور بد لحاظ ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا کہ وہ بیٹی کا خلع لینے کے لیے وکیل کرنے شہر جائے گا۔ اس کے بعد سال بھر خاموشی رہی، شاید دونوں گھرانوں کے بزرگ اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے، اب کیا کرنا چاہیے۔ لاکھ خانو بے ادب سہی، اماں کو بھتیجے سے پیار تھا۔ اسی وقت داماد بنانے کا سوچ لیا تھا جب میری پیدائش ہوئی تھی۔ بھائی سے رشتہ توڑ لینا آسان بھی نہ تھا لیکن مستقبل کا اندیشہ ڈرا رہا تھا کہ ایسے داماد سے کیونکر گزارہ ہو گا جو ابھی سے اس قدر بدلحاظ تھا۔ اماں گومگو کی کیفیت میں تھیں مگر ابا کی سوچ واضح تھی۔ وہ ہرصورت خانو سے رشتہ ختم کرنے کے حق میں تھے۔ بالآخر چند رشتے داروں سے صلاح مشورے کے بعد وہ شہر وکیل کرنے چلے گئے اور خلع لینے کی تدبیر کرنے لگے۔
جب اس امر کی اطلاع خانو اور اس کے گھر والوں کو ملی تو وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس سے پہلے کہ بزرگ مسئلے کا کوئی پُر امن حل نکالتے۔ خانو نے پھر جلد بازی سے کام لیا اور معاملے کو کسی دوسرے طریقے سے حل کرنے کے لیے قدم اٹھا لیا۔
سردیوں کے دن تھے۔ رات گیارہ بجے کا وقت تھا۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابا باہر گئے۔ دیکھا دروازے پر جیپ کھڑی ہے اور کچھ پولیس والے انہیں لینے آئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا۔ بھئی کیا جرم ہے میرا جو رات گئے گرفتار کرنے آ گئے ہو۔ پولیس والے نے کہا۔ گرفتار کرنے نہیں آئے، بس بیان لینا ہے۔ تم ہی نہیں تمہارے اہل خانہ کو بھی بیان دینا ہو گا۔ پولیس افسر کے سامنے پیش ہوجائو گے تو معاملہ خراب نہ ہوگا ورنہ جانتے ہو کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔ تمہارا رشتے دار خانو چاہتا ہے کہ تم اس کی بیوی اس کے حوالے کردو جسے تم نے زبردستی اپنے گھر میں بٹھا رکھا ہے۔
صرف نکاح ہوا ہے، ابھی رخصتی باقی ہے۔ جو بھی ہے تمہارے داماد نے یہی بیان دیا ہے کہ تم نے زبردستی بیٹی کو اس کے گھر جانے سے روک رکھا ہے۔ لہٰذا تمہاری بیٹی کو بھی بیان دینا ہو گا اور پولیس افسر کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔ لیکن بیان کا یہ کون سا وقت ہے۔ عورتوں کو اس وقت تھانے لے جانا کیا یہ مناسب بات ہے۔ ہمارا افسر شریف آدمی ہے۔ رات کو بیان دے کر ابھی واپس آ جائو گے تو بہتر ہو گا۔ دن کے اجالے میں لوگ تھانے آتے جاتے ہیں، اس وقت خواتین کا پولیس افسر کے روبرو پیش ہونا میں نہیں سمجھتا کہ مناسب بات ہو گی۔ میں اسے نامناسب بات سمجھتا ہوں کہ رات کے وقت سردی میں میرے اہل خانہ کو تھانے بلوایا جائے۔ بھائی صفدر میں معمولی اہل کار ہوں اور حکم کے آگے مجبور ہوں۔ جانتا ہوں آپ شریف اور عزت دار آدمی ہیں۔ لیکن کیا کروں جیسا مجھے آرڈر ملا ہے کرنے پر مجبور ہوں۔ یہ سب آپ کے داماد کی کارستانی ہے جو علاقے کے ایک بااثر شخص کی پشت پناہی حاصل کر کے تھانے آبیٹھا ہے۔ جو کہنا ہے اس سے کہو، مجھے کیا کہتے ہو…تمہارا بھلا اسی میں ہے کہ ابھی کے ابھی چل کر بات کو سمیٹ دو ورنہ لمبی خواری ہو جائے گی۔
گائوں میں اگر کسی کے در پر پولیس کی گاڑی کھڑی ہو تو سبھی کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، بے شک رات کا وقت تھا لیکن پاس پڑوس کے گھروں میں بھنک پڑی تو دونوں طرف کے پڑوسی باہر نکل آئے۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ بیٹی کا خانزادے کے ساتھ نکاح کر کے صفدر نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ تاہم وہ میرے ابا کی اس وقت کوئی مدد نہ کر سکے کہ بقول پولیس والے کے، یہ قانونی معاملہ ہے۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تو ابھی کے ابھی واپس گھر آجائیں گے۔ تاہم قانون کا تقاضا پورا کرنا ہے، سو پولیس والے رات گئے ابا اور ہمیں جیپ میں بٹھا کر لے گئے۔
آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی بقیہ رات ہم لوگ سفر کرتے رہے اور صبح سویرے پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ جب مجھے پیش کیا گیا تو ابا نے بتایا کہ بڑے صاحب میری بچی کا نکاح کم سنی میں ہوا تھا اور ابھی یہ رخصتی کے لائق نہیں ہے، مگر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے رشتے دار لڑکی کی رخصتی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ میں نے بیٹی کو زبردستی اس کے شوہر کے گھر جانے سے نہیں روکا۔ بلکہ یہ پہلے سے میرے گھر میں ہے کیونکہ کم سنی کی وجہ سے رخصتی ابھی نہیں ہوئی ہے۔ یہ ابھی نو سال کی ہے۔
تم نے اتنی کم عمری میں اس کا نکاح کیوں کیا تھا؟ افسر نے سوال کیا۔ رشتے داری کے سبب… ہمارے گائوں میں یہی رواج ہے۔ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن قانون میں تو کم عمری میں لڑکی کا نکاح ممنوع ہے۔ کیا تم کو قانون کا نہیں پتا۔ جی نہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں صدیوں سے بچپن کی شادیوں کا رواج چلا آرہا ہے۔ تاہم میں نے رخصتی کی شرائط نکاح کے وقت معاہدے میں طے کر لی تھی کہ جب تک میری بیٹی پندرہ برس کی نہیں ہو جائے گی رخصتی نہیں ہوگی۔ افسر نے حکم دیا کہ بچی چہرے سے نقاب اٹھائے۔ میں نے نقاب اٹھایا۔ میں واقعی کم سن تھی۔ افسر مجھے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ نو برس کی عمر میں بے حد معصوم اور ملکوتی حسن کی مالک تھی۔ اس نے تھانے دار سے کہا۔ ان لوگوں کو اپنی تحویل میں رکھو۔ کھانا وغیرہ کھلائو اور نوبجے پیش کرنا۔ اس نے خانزادہ والوں کو بھی کہا کہ ابھی جائو بعد میں آنا۔
ابا حیران پریشان کہ یہ کیا چکر ہے۔ انہوں نے باہر آکر پولیس اہلکار سے دریافت کیا کہ یہ ’’نو بجے‘‘ والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ کیونکہ دن کے نو بجے، گزر چکے، کیا افسر کی مراد رات کے نو بجے سے ہے۔
ہاں۔ میرے بھائی… ظاہر ہے کہ دن کے نو بجے گزر چکے ہیں۔ صاحب کو فرصت رات کے نو بجے ہو گی تب ہی تفصیل سے بیان سنیں گے۔ اب تمہیں انتظار کرنا ہوگا۔ فکر مت کرو میں آپ لوگوں کو مناسب جگہ ٹھہرا دیتا ہوں۔ لیکن رات کے نو بجے صاحب کے سامنے خواتین کا پیش ہونا کیا نامناسب نہیں ہے؟
ارے بھئی، یہاں کچھ نامناسب نہیں ہے۔ ہمیں تو قانون کے تقاضے پورے کرنے سے مطلب ہے۔ گھبرائو نہیں تمہارے بچے ہمارے بچے ہیں۔ پولیس والے نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ یہ صاف بات تھی کہ کسی لڑکی کو کسی افسر کے سامنے پیش کرنے کا یہ وقت قطعی نامناسب تھا۔ ابا سخت مضطرب اور پریشان تھے۔ اماں بھی گھبرائی ہوئی تھیں۔ ان سے نہ رہا گیا اور پولیس والے سے کہا۔ بھیا آپ دوبارہ جا کر صاحب سے بات کریں۔ انہوں نے آج رات نو بجے کا کہا ہے یا کل صبح کے نو بجے سے ان کی مراد ہے۔
کیا آپ لوگوں نے نہیں سنا تھا کہ انہوں نے ’’آج نو بجے‘‘ کہا تھا… ’’کل صبح نو بجے‘‘ نہیں کہا تھا۔ کل تو ان کو اسلام آباد جانا ہے۔ مگر بھائی صاحب۔ یہ عورتوں کا معاملہ ہے۔ رات کو پیش ہونے کا وقت تو مناسب نہیں ہے۔ صاحب سے دوبارہ بات کریں۔ خواتین کا کیا مطلب ہے تمہاری بڈھی کے ساتھ ایک بچی ہی تو ہے۔ اہلکار کو غصہ آگیا۔ اور وہ جھنجھلا کر بولا۔ بہن جی… آپ نے کیا میری شامت بلوانی ہے۔ جب ایک بار ایک بات صاحب نے کہہ دی تو بس کہہ دی۔ یہاں چوبیس گھنٹے کام چلتا ہے، کیا دن کیا رات…
دن رات کا کوئی فرق نہیں۔ رات کو بھی افسر لوگ کام کرتے ہیں ضرورت پڑے تو۔ وہ ہماری مرضی کا ٹائم تو نہیں دے سکتے۔ آپ کو جلد خلاصی چاہیے تو رات دن کے چکر میں مت پڑیں، آپ کا کیس خراب نہیں ہے، آپ کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا۔ مگر خود اپنا کیس آپ خراب نہ کریں یہی بہتر ہے کہ چند گھنٹے صبر سے گزار لیں۔ آئیں میں آپ کو کوارٹر میں پہنچا دوں۔ آپ لوگ گائوں سے شہر سفر کر کے آئے ہیں۔ آرام ضروری ہے۔ دوپہر کو میں آئوں گا اور آپ کے کھانے کا بندوبست کر دوں گا۔ صاحب کا یہی حکم ہے کہ آپ کو کھانے وغیرہ کی تکلیف نہ ہو۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ صاحب نے آپ کا اتنا خیال کیا ہے۔
پولیس والا اپنی دانست میں غصے میں بھی نرمی سے بول رہا تھا، مگر ابا مطمئن نہ تھے اور اماں کی تو جان پر بنی تھی۔ والدہ نے والد کے کان میں کوئی سرگوشی کی تو ابا نے اہلکار سے کہا۔ میاں تمہارا کوارٹر کسی مناسب جگہ تو ہے نا۔
یار… تم عجیب آدمی ہو۔ ایک تو ملزم ہو اوپر سے بک بک لگا رکھی ہے۔ میرا بھی دماغ خراب کر رہے ہو۔ اور اپنا بھی کیس خراب کر رہے ہو۔ صاحب کو غصہ آ گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ چلو اب چل کر آرام کر لو۔ تھانے کی دیوار کے پرلی طرف میرا کوارٹر ہے۔ اور چند قدم پر کینٹین ہے۔ پہلے آرام کر لو گے تو میں ذرا دیر بعد آ کر تم لوگوں کو کھانےکے لیے لے جائوں گا۔
اب اس کی بات مانے بنا چارہ نہ تھا۔ ابا، اماں اور میں، ہم تینوں اس کے پیچھے چل دیے۔ وہ ہمیں ایک کوارٹر میں لے آیا جو تھانے کے بہت ہی قریب تھا۔ یہاں آرام کر لو اور پانی وغیرہ، غسل خانہ ہر شے موجود ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اور ہم کوارٹر کے اندر آ بیٹھے جہاں کمرے میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔
پانی کا گلاس، کولر سب موجود تھا۔ میں اور اماں ایک چارپائی پر اور ابا دوسری پر بیٹھ گئے۔ دو تین گھنٹے گزر گئے، اب تو میرے پیٹ میں بھوک سے مروڑ ہونے لگی۔ اللہ جانے یہ بندہ کب آئے گا۔ میں سوچ رہی تھی اتنے میں دستک ہوئی، وہ آ گیا تھا۔ اس نے آواز لگائی۔ صفدر صاحب آپ لوگ آجایئے، کھانا کھانے چلتے ہیں۔
جونہی ہم کوارٹر سے باہر آئے، وہ ہمیں لے کر ایک طرف چل دیا۔ ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا، شاید پولیس والوں کے لیے ہی تھا۔ یہاں سب پولیس اہلکار نظر آ رہے تھے۔ ایک طرف لگی میز کرسیوں پر اس نے ہمیں بٹھادیا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ یہاں کھانا کھانے کے بجائے کوارٹر میں کھانا لے جائیں۔ مگر اہلکار کی وجہ سے چپ تھے۔ کچھ دیر بعد کھانا میز پر لا کر بیرے نے دھر دیا۔ اسی وقت ساتھ والی کرسیوں پر دو پولیس والے آ بیٹھے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ خواتین کے روبرو ایسی بے باک گفتگو ناقابل برداشت تھی مگر ابا صبرکا گھونٹ بھرے بیٹھنے پر مجبور تھے۔ وہ کیا کر سکتے تھے۔
کھانا زہر مار ہو چکا تو ابا نے کہا۔ حوالدار صاحب آپ زنانہ پولیس میں سے کسی عورت کو بلوا لیں۔ میں اپنی اہلیہ اور بچی اس کے سپرد کر کے تھوڑی دیر کے واسطے شہر جاکر کسی واقف کار سے ملنا چاہتا ہوں۔
ہاں بھائی آپ ضرور جائیں۔ میں آپ کے اہل خانہ کا محافظ ہوں۔ آپ فکر نہ کریں کوئی خاتون پولیس اہلکار موجود ہے تو اس کو ان کے ساتھ کوارٹر میں بھیج دیتا ہوں۔ اگر کہو تو حوالات میں ہم خود ان کو زنانہ پولیس کے پاس بٹھا دیتے ہیں۔ میں انہیں حوالات میں نہ بٹھانا چاہتا تھا اسی وجہ سے کوارٹر میں بٹھایا، دراصل یہ کوارٹر ہمارے مہمانوں کے لیے مختص ہے۔ شام سے پہلے آ جانا نو بجے صاحب کے روبرو پیش ہونا ہے۔
والد صاحب ہمیں کوارٹر میں بٹھا کر چلے گئے اور ایک زنانہ پولیس اہلکار ہمارے پاس چھوڑ گئے۔ وہ اپنے ایک بچپن کے دوست کے پاس چلے گئے تھے جو پہلے گائوں میں رہتا تھا اور میٹرک پڑھنے کی خاطر شہر چلا گیا تھا اور اب کچہری میں کسی اچھی ملازمت پر تھا۔ والد نے اسے جا کر تمام احوال بتا دیا۔
اس شخص کو ہم چچا حافظ کہا کرتے تھے۔ یہ نیک شخص بہت اعلیٰ کردار کا مالک تھا اور جہاں کام کرتا تھا اس کی عزت تھی۔ ابا سے احوال سن کر حافظ صاحب فوراً ان کے ساتھ ہو لیے اور دونوں اکٹھے واپس آ گئے۔ حافظ صاحب نے آتے ہی تھانے دار سےجھگڑا شروع کر دیا کہ تم کس چیز کے محافظ ہو، تمہارے صاحب نے کچھ بھی کہا ہو، تمہیں کم از کم بات کو سمجھنا چاہیے تھا کہ رات نو بجے کا وقت کسی طرح بھی خواتین کے بیانات لکھوانے کے لیے مناسب نہیں ہے۔
پولیس والا اپنی مجبوریاں گنوانے لگا مگر حافظ صاحب کی برہمی میں کمی نہ آئی۔ ان کے بلند آواز سے بولنے پر دیگر لوگ جو تھانے میں موجود تھے ان کے ہم نوا ہو گئے۔ تھانیدار سمجھ گیا کہ معاملہ عوام کے بیچ آگیا ہے وہ خاموش ہو گیا اور حافظ صاحب نے اماں اور مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر والد صاحب سے کہا کہ صفدر تم بھی چلو۔ تھانیدار سے کہا۔ اپنے صاحب سے کہہ دینا کہ فلاں شخص ملزمان کو اپنے ہمراہ لے گیا ہے اور میں کل خود انہیں نو بجے صبح ان کے روبرو پیش کر دوں گا۔
لوگوں کے ہجوم نے تھانے دار کی سٹی گم کر دی تھی۔ وہ دیکھتا رہ گیا اور ہم چچا حافظ کے ساتھ ان کی گاڑی میں ان کے ایک صاحب حیثیت دوست کے ڈیرے پر آگئے۔ جہاں ہم زمیندار صاحب کے مہمان تھے۔ ان کی بیوی نے ہماری آئو بھگت کی اور اچھا کمرہ رہنے کو دیا۔
مجھے نہیں معلوم، ابا کے ہمراہ حافظ صاحب نے تھانے میں کیا کارروائی کی اور پولیس والوں سے کیسے اور کیا بات کی۔ بہرحال ہمیں دوبارہ نہیں جانا پڑا۔ میرے والدین اپنے باقی بچوں کو میری پھوپی کے حوالے کر آئے تھے۔ ابا بھی بعد میں آگئے اور ہمیں گھر لے گئے۔ حافظ صاحب نے وکیل کر دیا۔ مقدمہ چلا اور مجھے صرف ایک بار عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔ خانو سے خلاصی حاصل ہو گئی اور میری کم سنی کا ثبوت عدالت نے لے لیا اور نکاح فسخ ہو گیا۔
والد صاحب نے اس تجربے سے یہی سیکھا کہ لڑکیوں کا نکاح کم سنی میں ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ میری شادی انہوں نے اپنے بھائی کے بیٹے سے اس وقت کی جب میں اٹھارہ سال کی ہو گئی اور چھوٹی بہن کی شادی بھی اٹھارہ سال کی عمر میں پھوپی کے بیٹے سے ہوئی۔ حافظ صاحب نے ابا جان سے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ آئندہ بیٹیوں کا نکاح کم سنی میں نہیں کریں گے۔ تبھی انہوں نے ساتھ دینے کی ہامی بھری تھی۔ آج ہم خوش و خرم اپنے گھروں میں آباد ہیں اور چچا حافظ کو دعائیں دیتے ہیں جنہوں نے والد صاحب سے اپنی دوستی نباہ کر ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھ لیا تھا۔ (ط… فیصل آباد)