کبھی کبھی ہوتا ہے کہ راہ چلتے چلتے اچانک کچھ ایسا نظروں کے سامنے آجاتا ہے کہ انسان پل بھر میں سب بھول جاتا ہے کہ وہ کہاں ہے، کیوں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ کئی بار کوئی چھوٹی سی بے جان چیز بھی ہمارا راستہ روک لیتی ہے۔ ہمارا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ جیسے کہ عرصے کے بعد ملا کوئی پرانا ساتھی۔ بچپن میں کوئی ہوئی کھوئی انمول چیز ، یا پھر ماضی سے جڑی کوئی یاد- امشال سحر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ مری کے مال روڈ کے ایک طرف اس نو، دس سالہ لڑکے کے پاس کھڑی کہیں کھوئی گئی تھی۔ وہ بھول ہی گئی تھی کہ اس کے گھر والے سب گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں۔
وہ مری جیسی خوب صورت جگہ پہ تین دن گزار کر اب واپس جا رہے تھے۔ تو بڑی نند کے کہنے پہ وہ ان کی شال لینے کی خاطر ، مال روڈ سے نیچے کی طرف آئی تھی اور اب وہ شال پسند کر کے واپس گاڑی کی طرف جارہی تھی، جب سڑک کنارے کھڑے لڑکے کے اسٹال پر اس سفید موتیوں والی مالا نے اسے رکنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ وہ دور کھڑی ان سفید موتیوں کو دیکھ رہی تھی۔ جب وہ لڑکا بیزارسی شکل بنائے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ باجی تم کو کچھ لینا بھی ہے یا پھر صرف دیکھتی ہی رہو گی؟ وہ حال میں لوٹی تھی اور پھر فورا شہریار کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا ۔ وہ پیچھے دوکان میں ہی کھڑا تھا۔ جب وہ شال پسند کر کے نکلی تھی مگر اب نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے پاس نہ موبائل تھا اور نہ والٹ۔ دونوں وہ اپنے پرس میں چھوڑ آئی تھی جو گاڑی میں رکھا تھا۔ تب ہی اسے شہر یار نیچے کی جانب سے آتا نظر آیا۔ مگر چار قدم چل کر ادھر ہی رک گیا اور وہیں سے آوازیں دینے لگا کہ جلدی آؤ۔ دیر ہو رہی ہے۔ مگر وہ وہیں کھڑی رہی تو اسے ہی آنا پڑا۔ اب یہاں کیوں کھڑی ہو۔ ہم نے پہلے ہی اتنی دیر کر دی ہے۔ صبح صبح نکل جانا چاہیے تھا ۔ شیری مجھے یہ ملا لینی ہے۔ اور شہریار نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جو سڑک کنارے لگے اسٹال سے مالا لینے کی بات کر رہی تھی۔ تم پاگل تو نہیں ہو۔ کیا کرو گی یہ بے کار چیزیں ہیں ساری۔ شیری پلیز مجھے صرف یہ سفید موتیوں والی مالا لے دو۔ میرا والٹ گاڑی میں پڑا ہے۔ ورنہ میں اب تک لے چکی ہوتی ہے۔ پتا ہے امشال ! کبھی کبھی تم بالکل پاگلوں والی حرکت اور بات کرتی ہو۔ وہ جیسے ہار گیا اور والٹ نکالتے ہوئے اس لڑکے کو مالا اتارنے کو کہا۔ وہ کچھ دوسری مالا میں اتار اتار کر دکھا رہا تھا۔ جب وہ بولی۔ یہ سفید موتیوں والی دو۔ شہر یار نے جب قیمت پوچھی تو وہ چالاک سا لڑکا مالا ہاتھ میں لیے بولا صرف ہزار روپے۔ شہریار کا تو حیرت سے منہ کھل گیا۔ خان ! پاگل تو نہیں ہو۔ یہ کیا خود سمندر سے نکال کر مالا بنائی ہے۔ سو روپے بھی اس کے زیادہ ہیں۔ رکھو اپنے پاس ہی۔ مگر شیری مجھے ہر حال میں لینی ہے۔ تم دے دونا میں گاڑی میں جا کر دے دوں گی- لڑکے کو لگا کہ وہ ہر حال میں لے کر جائے گی۔ اور ایسا ہی ہوتا جو اس کے پاس پیسے ہوتے۔ مگر شہریار اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چل ہی پڑا۔ جب پیچھے سے وہ آوازیں دیتا رہا۔ اچھا پانچ سو دے دو۔ چلو دو سو میں لے لو۔ شیری نے رک کر صرف اتنا کہا۔ اب مفت میں بھی دو تب بھی ہم نہیں لیتے۔ وہ اس کے ساتھ بے حس سی پیچھے چلتی جارہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ کچھ بہت خاص پیچھے رہ گیا ہے۔ کچھ بہت انمول ، ہاتھ بھر کی دوری سے پھر اس کے ہاتھوں سے کھو گیا ہے۔ ارے یہ لڑکے بڑے تیز ہوتے ہیں۔ وہ بے کار چیز تم تو ہزار میں لے لیتں۔ جو میں نہ روکتا۔ پیسے بڑے مشکل سے کمائے جاتے ہیں۔ یوں بے کار خرچ نہیں کرتے ۔ اور امشال سحر کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔
☆☆☆
صرف سات برس پہلے۔ جب ایک شام خالہ نسرین اس کے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئی تھیں۔ اسے تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خالہ کوہی سنا ڈالے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی کیونکہ خالہ بھی اسے امی کی طرح پیار کرتی تھیں وہ خالہ سے تو کچھ نہ کہ سکی۔ مگر یہ ضرور سوچ لیا تھا کہ اب جب بھی گجرات کی اس حویلی جانا ہوا۔ جہاں پہ ساتھ کھیل کر وہ سب بڑے ہوئے تھے۔ تو وہ خالہ کے گھر جا کر اس بدذات علی کی عقل ضرور ٹھکانے لگائے گی۔ اس کی اتنی ہمت ہوگئی کہ اس نے شادی کا سوچا وہ بھی امثال سحر سے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر نانا کی حویلی چلی جائے اور اس کی خوب خبر لے مگر رات جب خالہ نسرین کی بات اس کے کانوں میں پڑی تو اس کا غصہ کم ہو گیا۔ خالہ امی سے کہہ رہی تھیں۔ یہ تو ہماری بچی کی مرضی پہ ہی بات آگے جانی ہے۔ تم بھائی صاحب سے پہلے اس سے پوچھنا۔ یہ تومیری آرزو تھی۔ میں نے سوچا کہ گھر کی بات ہے۔ میرے علی کو تو خبرہی نہیں ہے کہ میں اس لیے آئی ہوں۔ اگر امشال کی مرضی نہ ہوئی تو یہ بات ہم دونوں ادھر ہی دفن کر دیں گے۔ دروازے کے باہر کھڑی وہ سوچ رہی تھی کہ بات تو دفن ہو چکی ہے خالہ ! اب تو صرف مٹی ہی ڈالنا باقی ہے- ۔ اس نے پہلا کام گجرات سلمی کو کال کرنے کا کیا تھا اور ساری کتھا سنا ڈالی تھی۔ دوسرے ہی دن اس کی کزن اور دوست سلمی بھی چلی آئی۔ ممانی اور ماموں بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے امشال کا رشتہ مانگا تھا۔ امشال کی خوشی دیکھتے ہوئے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔ خالہ بھی اسے بچپن سے جانتی تھیں اور اس کا لہجہ بھی خوب سمجھتی ہیں۔ اس لیے چپ چاپ ایک طرف ہوگئیں۔ بیٹے کی خواہش پہ آئی تھیں۔ مگر یہاں آکر انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ بیٹے کی خواہش کو اپنی آرزو بنا ڈالا۔ مگر بیٹے کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی وہ وجہ جاننا چاہتی تھیں اور وجہ دوسرے روز ہی ان کو مل گئی۔ جب اپنے بھائی اور بھابھی کو اتنے پھل اور مٹھائی کے ساتھ آتے دیکھا۔ اسی شام رشتہ بھی پکا ہو گیا تھا۔ جب امی نے اس کے سامنے الی اور شیری کا نام رکھا اور بتایا۔ باجی کی بھی بڑی خواہش ہے اوراب تمہارے ماموں بھی اسی وجہ سے آئے ہیں۔ میرے لئے تو دونوں برابر ہیں۔ مگر میرے پاس بیٹی ایک ہی ہے۔ تو فیصلہ بھی تم پہ چھوڑا ہے۔ مجھے تو دونوں بچے عزیز ہیں پرکسی ایک کو تو نہ کرنی ہے۔ وہ تو فیصلہ بہت پہلے کر چکی تھی۔ کہاں شیری اور کہاں وہ علی۔ جس نے ابا کی دکان پر ہی بیٹھنا تھا۔ اور ساری زندگی وہیں پہ گزارنی تھی اس چھوٹے سے گھر میں اور کہاں شہری اتنی بڑی حویلی کا اکیلا مالک مگر پھر بھی کہتا تھا کہ شہر میں اپنے لیے خوب صورت سا گھر بناؤں گا۔ جس کے بڑے بڑے خواب تھے۔ جو خود اپنے زور بازو پہ کچھ کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے وہ دبئی گیا تھا۔ ان دونوں میں فیصلہ کرنا کچھ مشکل تھوڑی تھا۔ پھر اس نے کئی بار شیری کی آنکھوں میں اپنی تصویر دیکھی تھی۔ پھر کیا مقابلہ تھا شیری اور علی کا۔ جو اگر وہ سامنے بھی جاتی تو فورا نظریں کیا سر بھی جھکا لیتا تھا۔
☆☆☆
عجیب بات تھی۔ اس کے پاس سب کچھ تھا۔ بہت اچھا اور بہت بڑا خوب صورت گھر ۔ گاڑی پیسہ وہ سب کچھ جو اس کی آرزو تھی۔ مگر اب اس کی خواہشیں بڑی عجیب اور انوکھی ہو چکی تھیں۔ جو پیسے سے پوری نہیں ہو پارہی تھیں۔ اور شیری اس کی ایسی باتوں کوہنسی میں اڑا دیتا تھا۔ تم پاگل ہو۔ اس کے جانے میں صرف گیارہ روز باقی تھے۔ جب ایک دن امشال نے کہا۔ میرا جی چاہتا ہے ہم گجرات والی حویلی جائیں۔ باہر بڑے صحن میں بیٹھیں ۔ اور ہمارے سامنے اپنے باغ کے مالٹے پرات میں کاٹ کر رکھے ہوں۔ اور ہم سب کالانمک ڈال کر کھا رہے ہوں ۔ تب بھی وہ مسکرایا اور اسے پاگل کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ مگر اس بار وہ سوچ چکی تھی۔ کہ اس نے حویلی میں باہر صحن میں بیٹھ کر باغ کے مالٹے ضرور کھانے ہیں۔ اس لیے اس نے ماہ روش کو آگے کیا۔ پاپا ! مجھے دادو کے بڑے گھر جانا ہے۔ وہ فوراً مان گیا۔ یوں آج وہ گجرات کے سفر پہ تھے۔ ممانی بھی ساتھ آئی تھیں ان کو بھی حویلی عزیز تھی۔ مگر شہریار کی ضد کی وجہ سے حویلی کو چھوڑنا پڑا۔ کیونکہ ماموں کے بعد وہ سب اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ حویلی آئے تو حیرت ہوئی اسے علم نہ تھا کہ کچھ عرصے سے خالہ ادھر ہی رہ رہی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے گھر کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کروا رہے تھے۔ اسے دکھ ہوا کہ اتنا عرصہ بیت گیا۔ اس نے اس حویلی کا رخ ہی نہ کیا جبکہ نانا نانی کے بعد وہاں اس کی خالہ کا گھر بھی تھا مگر نہ جانے کیوں شہر یار سے شادی کے بعد اسے کچھ عرصے کے لیے سب کچھ ہی بھول گیا تھا۔ مگر آج جیسے حویلی میں قدم رکھا۔ تو بچپن کی ایک، ایک بات ایک ایک یاد ہاتھ تھامنے کو بے چین کھڑی تھی خالہ اتنے پیارے ملیں، کھانا بھی سب اس کی پسند کا بنایا۔ اسے حیرت ہوئی کہ خالہ کو اس کی پسند ابھی تک یاد تھی۔ رات کے لیے بھی خالہ اس کی اور شیری کی پسند سے بنانا چاہتی تھیں۔ ماہ روش کیا شوق سے کھاتی ہے؟ خالہ امی! اس کو تو رہنے ہی دیں۔ وہ باہر کے کھانے شوق سے کھاتی ہے یا پھر پیزا برگر کھا لیتی ہے۔ چلو کل باہر سے لے آئے گا علی۔ آج پھر گھر کا کھانا ہی کھانا پڑے گا اسے۔ اورعلی کے نام پر اسے یاد آیا کہ وہ ابھی تک نظر نہیں آیا۔ خالہ امی علی ہے کہاں؟ ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی اس سے۔ وہ بے چارہ بھی کیا کرے۔ ایسے ٹائم ہی نہیں ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو آدھی رات ہو جاتی ہے اسے گھر آتے آتے۔ صبح پہلے ٹائم اپنے ابا کے ساتھ دکان کو دیکھتا ہے، پھر اپنی بیکری کو دینا اور گھر بھی چکر لگانا پڑتا ہے کہ مزدور کام ٹھیک سے کر بھی رہے ہیں یا پھر نہیں۔ خیر میں نے فون کر دیا تھا کہہ رہا تھا کہ جلدی آجاؤں گا۔ خالہ امی اٹھ کر ممانی کی طرف چل دیں، اور وہ اٹھ کر باہر نکل آئی۔ جہاں پہ ماہ روش کھیل رہی تھی۔ ساتھ ہی پیپل کے بڑے سے درخت پہ وہ جھولا بھی موجود تھا۔ جو ہر وقت آباد رہا کرتا تھا۔ بچوں کا رش لگا رہتا تھا۔ ماہ روش جھولے پہ آؤ ناں۔ نہیں ماما، مجھے ایسے جھولے سے ڈر لگتا ہے۔ گر جاؤں گی اس نے ماہ روش کو کہا تھا۔ وہ اپنا بچپن تلاش کر رہی تھی ۔ مگر ماه روش نے انکار کر دیا تو یوں ہی جھولے کے پاس کافی دیر کھڑی رہی۔ شیری تو جب سے آیا تھا اپنے کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا۔ نہ جانے کیا کر رہا تھا۔ اسے بے خیالی سی تھی کہ سامنے سے آتے اس شخص کو دیکھ ہی نہ سکی۔ جب قریب آ کر اس نے سلام کیا تو جیسے ہوش میں آئی۔ سامنے کھڑا وہ شخص تو بالکل ہی بدل گیا تھا یہ تو اس علی سے بہت مختلف تھا۔ جس کو وہ جانتی تھی۔ کیسی ہو؟ شہر یار بھی آیا ہے؟ وہ پوچھ رہا تھا۔ جبکہ امشال ابھی تک حیران تھی۔ ہاں شیری آیا ہے ناں، اوپر اپنے کمرے میں ہے- اور تم کیسی ہو؟ وہ بھول ہی گئی تھی کہ وہ اس کا حال بھی پوچھ رہا تھا۔ ہاں میں بالکل ٹھیک تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو۔ مگر دوسرے ہی لمحے وہ نظریں جھکا کر یہ کہتا ہوا اندر کی طرف چل پڑا۔ میں شہر یار سے مل لوں۔ شاید سامنے کھیل رہی ماہ روش اسے نظر ہی نہیں آئی۔
☆☆☆
انکل کیا یہ اتنا بڑا باغ سچ مچ میں ہمارا ہے؟ ماہ روش نے کوئی تیسری بار یہی سوال پوچھا تھا۔ جبکہ باغ پہلے جیسا رہا بھی نہ تھا، بہت سارے درخت سوکھ گئے تھے۔ ہاں امرود اور مالٹے کے درخت موجود تھے۔ شیری مجھے حویلی میں بیٹھ کر اپنے باغ کے مالٹے بھی کھانے تھے۔ جب وہ باغ سے نکلنے لگے تھے۔ تب ہی اسے خیال آیا۔ تو بی بی کچھ ٹائم پہلے آنا تھا ناں۔ نظر نہیں آرہا ہے کہ مالٹے ختم ہو چکے ہیں۔ شہریار نے مسکرا کر کہا۔ امثال نے بے اختیار درختوں کی طرف دیکھا۔ جو سچ مچ خالی ہی تھے۔ کسی کسی پہ ایک دو مالٹے نظر آ رہے تھے۔ وہ سامنے دیکھو۔ چار مالٹے لگے ہیں۔ دور ہیں شاید اسی لیے بچوں سے بچ گئے۔ یا پھر ان پہ میرا نام لکھا تھا۔ پاگل ہو کیا؟ اتنی اونچی جگہ پہ لگے ہیں۔ پھر اوپر سے مالٹے کے کانٹے یہاں پہ لگتے ہیں تین روز درد نہیں جاتا۔ اس لیے مجھے معاف کرو۔ بازار سے آجائیں گے مالٹے تم حویلی میں بیٹھ کر کھا لینا۔ شہریار نے بات ہی ختم کر دی ۔ مجھے یہی کھانے ہیں تم ۔۔ ابھی بات اس کے منہ میں تھی۔ جب وہ ذرا غصے سے بولا تھا۔ حد ہوتی ہے امشال تم بچوں جیسی باتیں کیوں کرتی ہو۔ چپ چاپ گھر چلو امشال کی آنکھیں بھرآئیں۔ وہ ہمیشہ ایسا کیوں کرتا تھا؟ تم یہ میری چادر اور چشمہ پکڑو میں مالٹے اتار کر لاتا ہوں۔ جب وہ مڑنے لگی تو علی نے اپنی چادر اور چشمہ اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ اور پھر نہ اسے وہ مالٹے دور نظر آئے اور نہ کانٹوں کا درد محسوس ہوا۔ پانچ منٹ میں وہ چھ سبات مالٹے اتار کر نیچے اترا تو ہاتھوں اور چہرے پہ کافی جگہ کانٹے لگ چکے تھے۔ مگر پرسکون سا اس کے ہاتھوں سے چادر اور چشمہ لیتا ہوا آگے چل پڑا- وہ بے جان سے ہاتھوں میں مالٹے کا شاپر تھامے پیچھے تھی شہری تو پہلے ہی فون پہ بات کرتے ہوئے باغ سے نکل گیا تھا۔ وہ علی کے پیچھے پیچھے ماہ روش کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔ اور وہ ماہ روش سے چھوٹی چھوٹی باتیں کر رہا تھا۔ جبکہ جانے پہچانے راستے جیسے امثال کا دامن تھام کر اس کا حال پوچھ رہے تھے۔ تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں ، ماہ روش گڑیا ! وہ سامنے بڑا سا بیری کا درخت کا دیکھ رہی ہو؟ اس پہ پریاں رہتی ہیں۔ اور امشال سحر کا سانس رک گیا۔ پاؤں زمین نے پکڑ لیے۔ کیا سچ سچ کی پریاں رہتی ہیں انکل ؟ ہاں بالکل ہمیں ہماری نانی نے بتایا تھا۔ بے شک اپنی ماما سے پوچھ لو ۔ اب وہ امشال کی طرف دیکھ رہی تھی، جس نے صرف سر ہلا دیا۔ اور اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ پریوں کو جو بچی پسند آجاتی ہے۔ وہ اسے گفٹ میں سفید موتیوں کی مالا دیتی ہیں۔ وہاں اوپر رکھ دیتی ہیں۔ پھر وہ مالا اس بچی کو نظر آتی ہے۔ تو وہ اتارلیتی ہے مگر انکل بچی کیسے اتارے گئی۔ میں تو نہیں اتار سکتی ہوں۔ ہاں پھر کوئی شہزادہ آتا ہے اور وہ اوپر جا کر اتار لاتا ہے۔ پھر اس بچی کو دے دیتا ہے۔ ابھی پریاں تم کو دیکھ رہی ہیں۔ اگر تم ان کو پسند آئیں تو کیا پتا تم کو بھی دے دیں۔ ماہ روش مالا کے چکر میں بڑی خوب صورت مسکراہٹ سجائے درخت کو دیکھ رہی تھی۔ امشال سحر کے کانوں میں آوازیں آرہی تھیں کہیں دور سے۔ تم پاگل ہو۔ اس درخت پہ سایہ ہے۔ نہ بابا میں نے مرنا تھوڑی ہے جو موتوں کا ہار اتار لاؤں- نانی کی بڑبڑاہٹ جاری تھی۔ اس درخت پرکانٹے بھی بہت تھے۔ مشی تم دودھ کی بالٹی پڑو۔ میں اتار کر لاتا ہوں۔ اور دو منٹ بعد وہ سفید موتیوں کی مالا اس کے ہاتھوں میں تھی ، جس کو بل دے کر گلے ڈالا تو خود کو سچ مچ رانی سمجھا تھا۔ مگر رات کو ہی نانی اماں نے اس کے سونے کے بعد وہ مالا غائب کر دی۔ اور صبح کہا کہ پریاں لے گئیں۔ انکل ! اگر مجھے مالا نظر آئی تھے آپ میرے لیے اتار لاؤ گے ۔ ماہ روش پوچھ رہی تھی تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔ میں کوئی شہزادہ تو نہیں ہوں۔ ماہ روش کا چہرہ اتر گیا۔ وہ آگے آئی۔ پھر بولی۔ ماه روش ! میرے لیے بھی ایک شہزادے نے مالا اتاری تھی۔ میں مالا میں کھو گئی اور شہزادے کو پہچان ہی نہ سکی پھر مالا بھی مجھ سے کھوگئی اور شہزادہ بھی چپ چاپ کہیں چھپ گیا۔ اور آج اتنے برسوں کے بعد موتیوں کی مالا کے درخت کے نیچے وہ مجھے ملا۔ میرے ہاتھوں میں نہ مالا ہے اور نہ ہی شہزادے کو کچھ کہنے کاحق ۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہ رہا۔ ماہ روش! دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں۔ وہ پتا نہیں بے خیالی میں کیا کیا کہہ رہی تھی لیکن اس کے لب خاموش تھے وہ ان دونوں کے قریب چلی آئی تھی۔ چلو ماه روش ! گھر چلتے ہیں۔ اس درخت پہ سایہ ہے وہ ہم سے ہمارا کچھ نہ کچھ چھین لیتا ہے ۔ اتنا کہ کر وہ پھر خاموش ہو گئی لیکن پھر بھی اندر سر گوشی سی ابھری تھی۔ جیسے کہ میرا مان اور بھرم آج چھین لیا اس نے- وہ بیٹی کا ہاتھ تھامے چل پڑی اور وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔ اس کے قدموں میں مالٹوں والا شاپر پڑا تھا۔ تو یہ رہی حاصل اور لاحاصل کی کہانی۔ برسوں پہلے بھی وہ پاگل تھی۔ اور شیری کو کانٹے سے درد ہوتا تھا اور آج بھی وہ پاگل تھی اور شیری کو مالٹے کے کانٹے سے ڈر لگتا تھا۔ تب بھی اس نے مالا اتار کر دی تھی اور آج مالٹے بھی اس نے مڑ کر دیکھا وہ اب بھی وہیں کھڑا تھا اکیلا۔ وہ کافی دور نکل آئی تھی، واپسی ناممکن تھی۔ ہاں اس بار گجرات میں نانا ابو کی حویلی سے جاتے ہوئے اس کا ہم سفر پچھتاوا تھا عمر بھر کا پچھتاوا ۔
☆☆