Friday, October 11, 2024

Saheli Ka Raaz

ہمارے برابر والے گھر میں خالدہ آنٹی رہتی تھیں۔ امی کے ساتھ ان کی پرانی دوستی تھی۔ عرشیہ ان کی بیٹی تھی۔ میری اس کے ساتھ دوستی تھی۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ہمارے گھرانوں کا ساتھ بہت پرانا تھا اس لئے میں اس کے بھائیوں سے پردہ نہیں کرتی تھی۔ وہ اچھی فطرت کے تھے ، مجھے اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھتے تھے۔ عرشی کی چونکہ میرے ساتھ بے تکلفی تھی، وہ مجھے اپنے دل کی ہر بات بتادیا کرتی تھی۔ ایک روز اس نے بتایا کہ میری امی بھائی اشعر کے لئے تمہارا رشتہ لینا چاہتی ہیں، میں تو اس بات سے بہت خوش ہوں، لیکن تمہاری مرضی بھی ضروری ہے۔ بولو، تمہاری کیا مرضی ہے تاکہ ہم تمہاری امی سے رشتے کی بات کریں۔ اشعر بہت نیک لڑکا تھا۔ وہ کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ اس میں وہ سارے گن تھے جو کسی شریف لڑکے میں ہونے چاہئیں، تبھی میں نے عرشی کو اپنی رضا سے آگاہ کر دیا۔ آنٹی خالدہ شروع سے ہی مجھے پسند تھیں۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں ، تاہم ایسا کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ مجھ کو اپنی بہو بنانے کے بارے میں سوچیں گی۔ میں تو اشعر کو بھائی جان کہتی اور سمجھتی تھی۔ خیر ، یہ سب نصیب کی باتیں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے ہیں تو سوچیں بھی بدل جاتی ہیں۔ میری اشعر سے منگنی پر عرشی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ کہتی تھی کہ تم نہیں جانتیں، میری دلی مراد پوری ہوئی ہے۔ میں تو ہمیشہ کے لئے تمہیں اپنے گھر میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری کوئی بہن نہیں تھی۔ تم میری دوست تھیں لیکن اب میں تم کو بہن ہی سمجھوں گی۔ میں سمجھتی تھی کہ عرشی ہمیشہ اس طرح مجھ سے محبت کرتی رہے گی، لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ انسان جو آج ہے وہ کل نہیں رہتا۔ پہلے ہم دونوں ایک جان دو قالب تھے، کیا پتا تھا کہ نبیل نام کا ایک منحوس لڑکا ہمیں ایک دوسرے سے بد گمان کر دے گا۔ نبیل ہمارے ہی محلے میں رہتا تھا۔ وہ ایک بد قماش اور بری فطرت کا نوجوان تھا۔ محلے میں اس کی شہرت بھی ٹھیک نہ تھی۔ اس کے اندر کی بد صورتی، کبھی کبھی اس کے چہرے پر خباثت بن کر جھلکنے لگتی تھی پھر بھی جانے کیسے اور کب عرشی اس کی طرف مائل ہو گئی اور اس شاطر نے میری معصوم سہیلی کو اپنے فریب کے جھوٹے جال میں پھنسا لیا۔ ہم نے میٹرک کر کے کالج میں داخلہ لے لیا لیکن میری منگنی ہو گئی تو والدین نے مجھے گھر بٹھالیا۔ اب میں گھر سے باہر نہ جاتی تھی، سو وہ اکیلی کالج جایا کرتی۔ اسی دوران اس کی جان پہچان نبیل سے ہو گئی۔ جب اس نے بتایا کہ وہ نبیل سے ملتی ہے اور اس کو پسند کرنے لگی ہے تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ اس نے بد نام زمانہ اور بد معاش قسم کے آوارہ نبیل سے محبت کا تعلق جوڑ لیا تھا۔ وہ مجھے ہر بات بتاتی تھی کہ مجھ پر اعتبار کرتی تھی۔ جب اس کے ساتھ باہر ملاقات کر کے آتی تو تمام احوال مجھ کو بتاتی۔ شروع میں ، میں چپ رہی کہ شاید اسے عقل آجائے ، تاہم جب اس کا ربط ضبط نبیل سے بڑھا تو میں نے اسے منع کیا کہ وہ اپنے قدموں کو تھام لے اور اس آوارہ سے ناتا ختم کر دے ورنہ ضرور نقصان اٹھائے گی لیکن وہ بھلا کب ماننے والی تھی۔ نبیل نے تو اس پر جادو کر دیا تھا اور اب اس کا عشق سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ کبھی جب میں اس کو منت سماجت کر کے منع کرتی کہ وہ اس نوجوان کے ساتھ باہر ملنے سے باز آجائے تو وہ کہتی۔ ندرت پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے، میر ادل بھی کہتا ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے، میں خود کوروکنا چاہتی ہوں مگر روک نہیں پاتی ، قدم خود بخود اس کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟
وہ روز شام کو میرے گھر آتی اور میں اس کو روز ہی سمجھاتی کہ اس لڑکے سے ملنا چھوڑ دے اور کنارہ کش ہو جائے۔ وہ کبھی چپ سنتی رہتی، کبھی بر امان جاتی۔ کہتی کہ وہ بد نام ہے تو کیا ہوا، دل کا برا نہیں ہے۔ تب میں سوچتی کہ واقعی صحیح کہتے ہیں کہ محبت کی پٹی آنکھوں پر بندھ جائے تو انسان کو پھر اسی ایک شخص کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔میں کبھی نبیل سے نہیں ملی تھی۔ بس ایک آدھ بار اسکول جاتے اسے دور سے ضرور دیکھا تھا۔ لوگوں کی زبانی اس کی آوارگی کے قصے سنے تھے کہ وہ محلے کی ہر لڑکی پر میلی نگاہ رکھتا ہے۔ ایک دن میں نے عرشی کے دل میں نبیل کی نفرت ڈالنے کے لئے اس سے کہا کہ کل میں امی کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی تو نبیل کو کسی لڑکی کے ساتھ بازار میں شاپنگ کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نے میری بات کا یقین نہ کرتے ہوئے کہا۔ اچھا! مجھے اس سے پوچھ لینے دو، پھر بات کروں گی۔ اس کے کڑے تیور دیکھ مجھے ملال ہوا کہ خواہ مخواہ اس ضدی لڑکی سے جھوٹ بولا۔ مجھے اس سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا۔ اگر اس نے نبیل سے پوچھ لیا اور میر انام لے دیا تو کیا ہو گا۔ میں نے عرشی کو اس امر سے باز رکھنا چاہا کہ وہ نبیل سے کچھ نہ پوچھے مگر وہ کہاں ماننے والی تھی، بھناتی ہوئی چلی گئی۔ دو دن بعد اس نے چھت سے مجھے آواز دی، اس وقت گھر میں صرف آنٹی خالدہ تھیں۔ دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ میں چھت پر گئی تو وہ کہنے لگی۔ میں نے نبیل سے پوچھا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اس دن گھر پر ہی تھا، کہیں نہیں گیا۔ بے شک آکر میرے گھر والوں سے پوچھ لو۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری سہیلی جھوٹ بول رہی ہے۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم نے واقعی جھوٹ بولا ہے۔ تم میرے پیار سے جلتی ہو ، ابھی تمہارا یہ حال ہے، جب میری بھابی بن جاؤ گی تو نجانے میرا کیا حشر کرو گی۔ میں نے اسے سمجھانا چاہا کہ میں تمہاری دشمن نہیں ہوں۔اس نے میری باتوں کو بہت ناگواری سے سنا، اسے میرے جھوٹ بولنے کا بھی غصہ تھا۔ وہ جھلاتی ہوئی چھت سے نیچے اتر گئی اور میری جانب مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ میں جان چکی تھی کہ جس گھر بیاہ کر جارہی ہوں، اب اس گھر کی عزت داؤ پر لگی ہے اور راز کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی ہے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو۔ میں ہر صورت اپنے ہونے والے سسرال کی عزت بچانا چاہتی تھی۔ ہر وقت دعا کرتی تھی کہ یا اللہ عرشی کو سیدھا رستہ دکھا دے، وہ اپنے ارمانوں کا محل اپنے ماں باپ کی قبر پر نہ بنائے۔ کبھی سوچتی کہ اس کی ہر بات آنٹی خالدہ کو بتادوں لیکن ایسی بات کوئی بھی لڑکی اپنی ہونے والی ساس سے کیسے کہہ سکتی ہے۔ مجھے دوستی کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ میں یہ بھی نہ چاہتی تھی کہ عرشی کی محبت اس کے بھائیوں کے دل سے ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے۔ محلے والے چہ میگوئیاں کرتے۔ کہتے کہ چار بھائی مل کر بھی ایک بہن کو نہیں سنبھال سکتے۔ اس خوف سے میں چپ تھی۔ ہر وقت خدا سے دعا کرتی تھی کہ نادان عرشی کوئی غلط قدم نہ اٹھالے، کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ ان کی اور ہماری چھتیں ملی ہوئی تھیں۔ اس روز فجر کی نماز کے بعد سب کو ناشتہ دے کر میں چھت پر گئی تو وہاں عرشی کو دیکھا۔ پوچھا کہ تم آج کالج نہیں گئیں؟ بولی۔ نہیں آج چھٹی کر لی ہے۔ سوچا کہ تم سے باتیں کروں گی۔ کیا بات ہے آج تم کچھ پریشان لگ رہی ہو۔ کہنے لگی۔ ہاں پریشان تو ہوں۔ نبیل کہتا ہے کہ میرے ساتھ نکل چلو، میں اور انتظار نہیں کر سکتا اور تمہارے ماں باپ تمہارا رشتہ مجھے نہیں دینے والے، لہذا اپنی مرضی سے شادی کر لینے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، میں کیا کروں، اس کو کیسے سمجھاؤں ؟ وہ سمجھتا ہی نہیں ہے۔ ویسے وہ کہتا تو ٹھیک ہے کہ میرے والدین اس کو میرا رشتہ دیں گے بھی نہیں، سارا محلہ اس سے نفرت کرتا ہے، سب اس کو برا کہتے ہیں حالانکہ وہ بالکل بھی برا نہیں ہے۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ ایک روز اس کے ساتھ چپکے سے چلی جاؤں اور کورٹ میرج کر لوں ، پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ عرشی ایسا تو سوچنا بھی نہیں، تم پر محبت کرنے والے والدین کا بھی تو کچھ حق ہے ، کیا تم ان کی محبت کا یہی صلہ دو گی کہ ان کو ہمیشہ کے لئے ذلت کی بھٹی میں ڈال کر چلی جاؤ گی ؟ آخر میں کیا جواب دوں اسے ؟ تم اس سے کہو کہ میرے سالانہ امتحان ہونے والے ہیں، امتحان کے بعد بات کریں گے۔ اس طرح اس کو کچھ سوچنے کا موقع مل جائے گا اور تمہیں بھی۔ وہ کہنے لگی۔ تم نے اچھا مشورہ دیا ہے ، پہلے امتحان تو دے لوں، بعد میں جو ہو گا دیکھیں گے۔ اس نے محنت سے تیاری کی اور پرچے دیئے۔ جو نہی امتحان ختم ہوا، وہ میرے پاس آئی اور بولی۔ ہم نے کی تیاری کرلی ہے ، ہم شادی کرنے جارہے ہیں۔ شادی اور اس بد نام زمانہ سے ! خدا کے لئے ہوش میں آؤ، ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ مڑ کر جو دیکھا اس کا بھائی ہمارے پیچھے کھڑا تھا۔ اطہر نے ساری باتیں سن لی تھیں۔ دراصل ہمارے گھر وہ اسے ہی بلانے آیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ایک قیامت بچ گئی۔ وہ عرشی کو بالوں سے گھسیٹتا ہوا گھر لے گیا۔ اسے چار چوٹ کی مار پڑی اور کالج جانا بھی بند ہوا۔ پندرہ دن وہ نہ آئی، میں نے اس کی شکل نہ دیکھی کہ وہ اب چھت پر بھی نہیں آتی تھی، پھر امی نے بتایا کہ عرشی کی منگنی اس کے پھوپھی زاد فاضل سے ہو گئی ہے اور ایک ماہ کے اندراندر شادی ہو رہی ہے۔ مجھے تھوڑا سا سکون ملا، تھوڑا دکھ بھی ہوا کہ اب بیچاری کیسے یہ صدمہ سہے گی۔ جب نکاح کا وقت آیا، عرشی نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ بھائیوں نے مار پیٹ کر دستخط کر والیے۔ رخصتی ایک ماہ بعد ہونا تھی۔ ایک روز مجھے تیز بخار ہو گیا۔ آنٹی خالدہ پوچھنے آئیں۔ میں نے عرشی کا پوچھا تو بولیں کہ بہت اداس رہتی ہے ، آج تمہارے پاس بھیجوں گی ، ذرا اس کو سمجھا دینا، تم سے مل کر اس کا جی بھی بہل جائے گا۔ جی ضرور بھیجے گا اسے۔ شام کو وہ آگئی ، میری مزاج پرسی کی۔ کہنے لگی۔ تمہیں تو تیز بخار ہے ، آج میں تمہارے پاس ٹھہر جاتی ہوں۔ کیا اجازت مل جائے گی ؟ وہ دوبارہ گھر گئی ماں سے اجازت لینے ، بہر حال کسی طور انہوں نے رات کو میرے پاس ٹھہرنے کی اجازت دے دی اور وہ آگئی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ گھر سے بھاگنے کی پوری تیاری کر کے آئی ہے۔ گھر جا کر اس نے ایک بریف کیس میں زیور اور نقد رقم رکھ کر اسے اپنی چھت سے ہماری چھت پر ڈال دیا اور رات کو ہماری چھت سے میرے کمرے میں لا کر رکھ دیا۔ میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ بولی کہ خطوط ہیں نبیل کے ، اور کچھ اس کے دیئے ہوئے تحفے ہیں۔ اب میر انکاح ہو چکا ہے، ان چیزوں کو کہاں سنبھالوں گی ، آج موقع ہے ان کو یہاں بیٹھ کر ضائع کر دوں گی۔ میں خاموش ہورہی۔ اس نے مجھے دوا پلادی اور میں تھوڑی دیر بعد اس سے باتیں کرتے کرتے سو گئی۔ رات کے کسی پہر وہ بریف کیس لے کر ہمارے گھر سے نکل پڑی ، لیکن صبح دس بجے واپس آگئی، تب میری جان میں جان آئی۔ میں نے کہا کہ کہاں گئی تھیں، مجھے بتا کر کیوں نہیں گئیں۔ بولی۔ گھر نہیں گئی تھی مگر خیر گزری کہ کسی کو میرے جانے اور واپس آنے کا پتا نہیں چلا۔ کہاں تھیں رات بھر تم ؟ بتاتی ہوں، پھر جب اس نے اپنے رات غائب ہو جانے کے بارے میں بتایا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس نے کہا کہ نبیل نے ایک ملازمہ کے ذریعہ رابطہ کر کے مجھے ائیر پورٹ آنے کا کہا تھا۔ رات بارہ بجے کی فلائٹ سے ہم نے یہ شہر چھوڑ کر چلے جانا تھا۔ میں ایک ٹیکسی میں ایئر پورٹ پہنچ گئی۔ کافی دیر انتظار کیا لیکن وہ نہیں آیا۔ میں نے ٹیکسی والے کو روکے رکھا تھا کہ جب تک کوئی مجھے لینے نہ آجائے ، تم رُکے رہو۔ جب رات گزر گئی اور نبیل نہیں پہنچا تو ٹیکسی والے نے کہا۔ بہن کسی نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ہے ، آپ واپس گھر چلی جاؤ، میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن اب میں خوف کے مارے رات کے وقت اس کے ساتھ کہیں جانا نہ چاہتی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ صبح تک انتظار کر سکتے ہو تو  رکے رہو ۔ جب سویرا ہو جائے گا پھر مجھے میرے گھر چھوڑ دینا۔ آفرین ہے اس شریف آدمی پر ، وہ صبح تک میری خاطر ٹھہرارہا اور صبح نو بجے مجھے یہاں واپس چھوڑ گیا۔ مجھے پتا تھا کہ میرے بھائی صبح آٹھ بجے گھر سے چلے جاتے ہیں اس لیئے میں نو بجے ایئر پورٹ سے چلی۔ خدا کا شکر کہ کسی نے مجھے نہیں دیکھا۔ جو نہی ٹیکسی سے اتری، تمہارے گھر میں گھس گئی۔صحن میں کوئی نہ تھا تو تمہارے کمرے میں آگئی۔ اف میرے خدا! اس کی روداد کس قدر خوفناک تھی۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ امی جان آگئیں۔ بولیں۔ دس بجنے کو ہیں اور تم لوگ ابھی تک کمرے سے نہیں نکلیں ، ناشتہ بھی نہیں کیا ہے ، چلو ناشتہ کر لو۔ میں نے کہا۔ امی جان میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، آپ ملازمہ سے کہئے کہ ہمارا ناشتہ یہیں لے آئے۔ اس واقعے کے بعد عرشی کا دماغ خود بخود ٹھکانے پر آ گیا۔ میں جو اتنے عرصے سے اس کو سمجھاتی رہی، وہ نہ سمجھی لیکن اس ایک رات کی ٹھوکر سے اس کو زمانے کی سمجھ آگئی کہ بے یار و مددگار ہو جانے سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ اس کی قسمت  کہ ٹیکسی والا اچھا انسان ملا، ور نہ رسوائی اور بربادی ہی اس کا مقدر تھی۔ بہر حال اس راز کو میں نے اپنے سینے میں دفن کر لیا کہ وہ بھی تو اب راہ راست پر آچکی تھی اور میں جلد ہی اس کی بھابی بننے جارہی تھی۔ جب اس کی رخصتی کا وقت آیا، وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ جو غم دل میں دبالیا تھا، اس وقت ظاہر ہو گیا۔ میں نے اس کو کہا۔ نادان تمہارا نکاح ہو چکا تھا، اگر نبیل اس دن ایئر پورٹ پر آ بھی جاتا تو نکاح پر نکاح کیسے ہو سکتا تھا؟ تم لوگ پکڑے جاتے تو جیل ہو جاتی اور پھر باقی کیا رہ جاتا۔ بہر حال وہ رخصت ہو گئی ، تاہم مجھے دھڑ کا تھا کہ سسرال جا کر جانے کیا تماشا کرے، لیکن ولیمے والے دن وہ نارمل دکھائی دی۔ شادی کے تقریباً بیس روز بعد وہ مجھ سے ملنے ہمارے گھر آئی تو بہت خوش تھی۔ مجھے بھی خوشی ہوئی کہ چلو بات بن گئی۔ میں نے خوشی کی وجہ پوچھی کیونکہ نکاح والے دن بھی اس سے زبر دستی دستخط کرائے گئے تھے۔ کہنے لگی۔ ندرت جب میں رخصت ہو کر جارہی تھی تو بہت اداس تھی۔ فاضل کو شک گزرا کہ مجھے مجبور کر کے شادی کے بندھن میں باندھا گیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر تم میرے ساتھ شادی پر خوش نہیں ہو تو سچ سچ بتادو، میں ویساہی فیصلہ کروں گا جیسا تم چاہو گی کیونکہ ہر انسان کو اپنی خوشی سے جینے کا حق ہے اور ہمارے دین میں لڑکی کی شادی میں زبر دستی جائز نہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو میرے دل میں ان کے لئے عزت اور احترام کے جذبات پیدا ہو گئے۔ سوچا کہ ایک وہ انسان تھا جس نے قسمیں دے کر مجھے ایئر پورٹ بلا یا اور نہ آیا، رابطہ کیا تو جواب تک دینا گوارا نہ کیا، ایک یہ شخص ہے جو میرے لئے پریشان ہے اور مجھے خوشی سے جینے کا حق دینے کی بات کر رہا ہے۔ تب میں نے ان سے کہا کہ ہاں، میں تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی مگر میرے والدین نے زبر دستی آپ سے میری شادی کر دی ہے۔ میں پہلے آپ کے خیالات اور مزاج سے بھی واقف نہیں تھی لیکن اب میں آپ کو دل سے قبول کرنا چاہتی ہوں۔ انسان اجنبی ہو تو اس کے ساتھ شادی کا بندھن باندھنے پر پہلے پہل دل آمادہ نہیں ہوتا۔ دو چار ملاقاتوں میں اس کے عیب و ثواب کھلتے ہیں تو خود بخود دل میں اس کی جگہ بھی بن جاتی ہے۔ وہ میرے جواب سے مطمئن ہو گئے اور میں نے بھی تمہاری بہت ساری باتوں کو یاد کر کے دل کو سمجھا لیا کہ ایک بے وفا کی خاطر اپنے والدین کا تماشا نہیں بنانا، بس اسی میں اللہ نے میرے لئے بہتری رکھ دی ہو گی۔ میں خوش ہوں، مجھے سکون آگیا ہے۔ فاضل بہت اچھے انسان ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں، ان کے گھر کے ہر فرد سے مجھے پیار اور عزت ملی ہے۔ اب سوچتی ہوں کہ بھاڑ میں جائے ایسی محبت جس میں عزت نہ ہو۔ یہ کہہ کر وہ ہنس دی۔ وہ واقعی خوش تھی۔ سو میں اُسے خوش دیکھ کر خوش ہو گئی۔ آج اس واقعہ کو کافی سال بیت گئے ہیں۔ عرشی تین بچوں کی ماں ہے اور میرے بھی چار بچے ہیں۔ ابھی تک ہم میں پہلے جیسی دوستی ہے، سگی بہنوں جیسا پیار ہے۔ میں شکر کرتی ہوں کہ وہ میری نند ہے اور وہ شکر کرتی ہے کہ میں اس کی بھابی ہوں۔ اس کار از میرے سینے میں محفوظ ہے۔ ان شاء اللہ ! یہ راز میں بھی طشت از بام نہ کروں گی۔

Latest Posts

Related POSTS