Sunday, October 6, 2024

Saiban Chala Gaya

ان دنوں میں نویں اور بھائی مسعود دسویں کا طالب علم تھا، جب والد فیکٹری کی گاڑی میں کام کرتے ہوئے کسی مشین سے گھائل ہو کر جان بحق ہو گئے۔ سارے گاؤں میں کہرام مچ گیا کہ میاں صابر بیچارا اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ہماری دنیا اندھیر ہو گئی۔ گاؤں والوں نے چند دن ہماری مدد کی پھر سبھی اس واقعہ کو بھول بھال گئے ، لیکن کم سنوں کی زندگی کا کڑا سفر شروع ہو گیا۔

ماں باپ اولاد کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی فرقت بھی معصوموں کے لئے کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتی۔ ماں ٹھنڈی چھاؤں تو باپ ایک مضبوط سائبان، جس کے سائے تلے بچے بے فکری سے اپنا سہانا بچپن گزارتے ہیں۔ یہ سایہ نہ رہے تو یتیمی کی کڑی دھوپ اور زمانے کے ہاتھ ان کا بچپن چھین لیتے ہیں میر ابھائی مسعود بھی والد کی وفات کے بعد زمانے کی ٹھوکروں میں آ گیا۔ جب گھر میں فاقے پڑنے لگے تو ماں کی سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کریں۔ گھر میں ہم چار لڑکیاں اور بھائی ایک ہی تھا، جو ابھی صرف سولہ سال کا تھا۔ اس کی بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ امی کو بتائے بغیر ایک دن مزدوری کے لئے ایک راج کے پاس گیا، جو قریبی محلے میں رہتا تھا۔ اس نے کہا۔ تم ابھی بہت چھوٹے ہو، مزدوری نہیں کر سکتے۔ سارا دن سخت مشقت کرو گے تب بھی اتنے پیسے نہیں ملیں گے کہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کا پیٹ بھر سکے۔ صحت بھی خراب ہو جائے گی۔ بہتر ہے تم کسی طرح تعلیم جاری رکھو۔ میٹرک پاس کر لو گے تو کہیں نہ کہیں نوکری مل ہی جائے گی۔ اس کا لیکچر سن کر مسعود کا برا حال ہو گیا کیونکہ بھوک سے سر چکرا رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں راج کو کو سا اور چل دیا۔ راج کے پاس ایک عمر رسیدہ عورت آئی ہوئی تھی۔ اس کو اپنا گھر ٹھیک کروانا تھا۔ اس نے ان کی گفتگو سنی تو مسعود کے پیچھے آئی اور اسے آواز میں دینے لگی۔ پہلے تو بھائی سمجھا کہ وہ کسی اور کو بلارہی ہے ، جب دیکھا کہ اس کے سوا وہاں اور کوئی نہیں ہے تو ٹھہر گیا۔ تیری مجبوری میں نے سمجھ لی ہے۔ تو اچھا لڑکا دکھائی دیتا ہے۔ میرے گھر چل، میں تجھے کام دوں گی۔ یہ سن وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کے ساتھ ہو لیا۔ اس عورت کا نام بہار تھا، اس نے بہت شفقت سے باتیں کیں، کھانا کھلایا اور کچھ رقم بھی دی کہ گھر جاکر راشن لے لینا، پھر بولی۔ بیٹا ! اگر تم میرے پاس ملازم ہو جاؤ تو میں تم کو اچھی تنخواہ اور کھانا پینا دوں گی۔ گھریلو ملازمت کے سوا اس عمر میں تم کو اور کوئی نوکری نہیں مل سکتی۔ فکر نہ  کرو، میں تمہیں بیٹے کی طرح رکھوں گی، کیونکہ میرا کوئی بیٹا نہیں، بس دو لڑکیاں ہیں۔ اگر میری پیش کش منظور ہو تو کل آجانا۔ مسعود بھوک سے نڈھال تھا۔ کھانا کھا کر ہوش بحال ہوئے تو سوچا کہ جب تک رزق کا کوئی ذریعہ نہیں نکلتا، یہی ملازمت قبول کر لوں ۔ عورت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے گھر میں ذکر کیا کہ اسے ملازمت مل گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کسی عورت کے گھر نو کر ہونے جارہا ہے۔ امی نے کہا۔ بیٹا ! کہاں ملازمت ملی ہے اور کیا کام کرنا ہے؟ کہنے لگا۔ آج آ کر بتادوں گا، پہلے انٹر ویو تو دے آؤں۔

دوسرے دن وہ بہار کے گھر گیا۔ اس نے خوش اخلاقی سے بٹھایا اور کافی دیر تک حال احوال پوچھتی رہی۔ اسے اندازہ تو ہو چکا تھا کہ لڑکا شریف اور ضرورت مند ہے۔ مسعود اسے خالہ بہار کہتا تھا لیکن اس عورت نے اس کو سچ مچ اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ اسے نوکر نہیں سمجھتی تھی۔ مسعود اس کے گھر میں اس طرح آنے جانے لگا جیسے ان کے گھر کا ہی فرد ہو۔ وہ اپنی ہر بات اور ہر ضرورت خالہ سے کہتا اور وہ فورا پورا کر دیتی تھی۔ چند دن بعد اس یہ عقدہ کھلا کہ خالہ کی بڑی لڑکی نغمانہ شادی شدہ ہے۔ وہ کبھی ماں کے پاس رہتی، کبھی شوہر کے پاس۔ چھوٹی بیٹی کا نام خوباں تھا۔ دونوں ہی خوبصورت تھیں۔ بقول خالہ کے ان بچیوں کا باپ فوت ہو چکا تھا۔ نغمانہ کے سسرال کا مسعود کو پتا نہیں تھا لیکن وہ شام کو اکثر بن سنور کر اپنے خاوند کے پاس جاتی تھی۔ خالہ بہار مسعود سے کہتی کہ بیٹا تانگہ لے آ، تیری آپا کو میاں کے گھر جانا ہے۔ وہ تانگہ لے آتا۔ خالہ خود ہی تانگے والے سے بات چیت کر کے کرایہ طے کرتی، پھر بھائی سے کہتی۔ بیٹا مسعود جا، نغمانہ کو فلاں جگہ چھوڑ کر آ۔ وہ کئی بار اسے چھوڑنے گیا اور سخت پریشان ہو گیا، کیونکہ نغمانہ ہر بار مختلف جگہوں پر اترتی تھی۔ مسعود نے خالہ سے پوچھا۔ آپا کا اصل گھر کہاں ہے ؟ وہ بولی اس کا اصل گھر ، ہی تو نہیں ہے۔ اس کا میاں کبھی اپنے بھائی کے گھر ہوتا ہے اور کبھی کسی بہن کے گھر ، یہ بیچاری اسی لئے ادھر ادھر گھروں میں جاتی ہے۔ اس کا شوہر بیروزگار ہے۔ تو خالہ ، تم بیٹی کو اپنے گھر کیوں نہیں مستقل رکھ لیتی ہو ؟ شوہر کے پاس رہنے کی خاطر تمہاری بیٹی خاوند کے رشتہ داروں کے گھروں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ یہ تو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ مسعود میاں ! اس کا شوہر بڑا نک چڑھا ہے۔ اپنے رشتہ داروں کے گھر تو رہتا ہے لیکن گھر داماد بن کر رہنا پسند نہیں کرتا۔

خیر ، ان دنوں مسعود نا سمجھ تھا۔ ان باتوں کی گہرائی کو نہ سمجھ سکتا تھا۔ جب وہ باشعور ہو گیا تو خالہ نے اس کو کپڑے کی دکان پر ملازم کرا دیا۔ کہا کہ یہ دکاندار میرا واقف ہے۔ تمہارا کافی وقت میرے پاس گھریلو کاموں میں ضائع ہو گیا ہے اب تم اپنے لئے وقت نکالو۔ دکان سے چار بجے فارغ ہو کر میٹرک کے امتحان کی پرائیویٹ تیاری کرو۔ مسعود کو دکان سے اچھی تنخواہ ملنے لگی۔ وہ چار بجے فارغ ہوتا، سیدھا خالہ کے گھر چلا جاتا۔ کبھی کبھی دکان کا مالک اسے کچھ سامان بھی دے دیتا کہ خالہ کے گھر دے دینا۔ وہاں تھوڑی دیر پڑھتا۔ اسی اثنا میں سودا سلف لانا ہوتا، خالہ کے کچھ کام کرنے ہوتے تو کر دیتا اور رات کا کھانا کھا کر اپنے گھر آجاتا۔ امی کی مالی پریشانیاں کچھ حد تک دور ہو گئی تھیں۔ بیٹا ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا۔ گھر میں سکون آ گیا تھا۔ جب مسعود کی اچھی کار کردگی کی وجہ سے مالک نے اس کی تنخواہ بڑھادی تو خالہ نے اس سے فرمائشیں شروع کر دیں۔ وہ ان کی ہر فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا کیونکہ اس خاتون نے اس کی بہت مدد کی تھی، فاقوں سے بچایا تھا اور ملازمت بھی دلوائی تھی۔ وہ ان کو ماں کی جگہ سمجھتا تھا۔ برے دنوں میں خالہ نے ہی سہارا دیا تھا۔ مسعود آنکھ بند کر کے ان کا ہر حکم مانتا تھا۔ کبھی کبھی کپڑے کی دکان کا مالک، دکان بند کر کے رات کو خالہ کے ہاں آجاتا اور خالہ بھی دکان پر کپڑے وغیرہ دیکھنے جاتی۔ مسعود ان باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتا تھا، بلکہ جب وہ دکان پر آتی تو ان کی خاطر مدارات کرنے کی کوشش کرتا۔ دوسرے سیلز مین اس کی اس آؤ بھگت کو حیرت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایک دن اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک لڑکے نے کہا۔ تم جانتے ہو ، یہ عورت کون ہے ؟ اس پر وہ بہت ہنسا اور پھر چپ ہو گیا۔ خالہ نے اب اس کو چھوٹی لڑکی کا جھانسا دینا شروع کر دیا کہا کہ مسعود بیٹا تو کچھ بنالے، تو میں اس کی شادی تجھ سے کردوں گی۔ میں نے تجھے پہلے ہی اپنا بیٹا بنایا ہوا ہے ، تو پھر تیرا حق مجھ پر ہو گیا نا! بس اسی جھانسے نے میرے بھائی کو تباہ کیا کیونکہ وہ سچ مچ خوباں سے محبت کرنے لگا تھا۔ اب وہ ساری کمائی خالہ کے ہاتھ پر دھر نے لگا۔ اس کے باوجود اس عورت کی فرمائشیں بند نہ ہوئیں۔ مجبوراً اس نے دکان کے ملک سے رقم چرانی شروع کر دی۔ سیٹھ اس پر اعتماد کرتا تھا۔ وہ جب کبھی، کہیں باہر جاتا گلک بھائی کی تحویل میں دے جاتا اور وہ بہار کو خوش کرنے کے لئے رقم چوری کر کے جرابوں یا نیفے میں اڑس لیتا۔ خالہ رقم دیکھتی تو خوش ہو جاتی۔ اس کی خوشی سے مسعود کا دل بھی کھل اٹھتا اور وہ باغ باغ ہو جاتا۔ ایک بار ایک سیلز مین نے اسے رقم چراتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے سیٹھ سے شکایت کر دی۔ سیٹھ نے اسے گرفتار کروا کر جیل میں ڈلوادیا۔ اب بھی خالہ کا اثر ورسوخ کام آیا۔ اس کی ایک پولیس آفیسر سے جان پہچان تھی، وہ مسعود کو چھٹرا لائی۔

میرے بھائی کے دل پر اس کا رعب بیٹھ گیا۔ وہ تو اس کو معمولی عورت سمجھتا تھا، مگر وہ معمولی نہ تھی۔ اس کی جان پہچان بڑے بڑوں سے تھی۔ وہ اپنے واقفوں سے جو کام چاہتی، کروا لیتی ۔ اس کے ہاتھ بہت لمبے تھے۔ اس کے بعد تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ میرے بھائی نے ہم ماں بہنوں کا خیال ترک کر دیا اور خالہ کا ہو کر رہ گیا۔ میں نے ایف  اے کر کے ایک قریبی اسکول میں ملازمت کر لی ، امی جان لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔ یوں گھر کا خرچہ ہم خود گھسیٹنے لگے ، جبکہ مسعود اپنے خونی رشتوں سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ کبھی آ بھی جاتا تو بھولے بھٹکے۔ امی اس کو کچھ نہ کہ یوں کہ کہیں یہ بالکل ہی گھر والوں سے ناتا ختم نہ کر دے۔ ایک بار مسعود کو ٹھنڈ لگ گئی اور کھانسی سے برا حال ہو گیا تو بہار نے اسے تھوڑی سی دوا دی۔ اس کے بعد اکثر وہ اس کو یہ دوا دیتی۔ اس کو سرور آجاتا، یوں وہ رفتہ رفتہ وہ نشے کا عادی ہو گیا۔ اب وہ کہتا کہ خالہ ! خوباں کا رشتہ مجھ سے کب کرو گی ؟ تمہارے پاس کیا ہے ؟ کچھ زیادہ کماؤ ، ذاتی مکان بناؤ، پھر تم کو بیٹی دوں گی۔ یہ سن کر مسعود کا دل بیٹھ جاتا۔ اس پر بھی وہ اس عورت کی بہت خدمت کرتا ، اس کی ہر جائز و ناجائز بات مانتا، مگر جب شادی پر اصرار کرتا تو وہ ٹال جاتی۔ آخر اس نے بھی کچھ کر دکھانے کی ٹھان لی۔ جیل میں اس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی، وہ عادی چور تے ، قالب خان تھا۔ ایک دن اس نے قالب کا ٹھکانہ جا ڈھونڈا اور اپنی مجبوری بتائی تو اس نے مسعود کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اس کا ایک اور ساتھی تھا۔ اب یہ تینوں مل کر چوریاں کرتے اور مسعود اپنے حصے کا مال لا کر خالہ کے قدموں میں رکھ دیتا کہ اب تو خوش ہو گی اور خوباں کا رشتہ اس کو  دے گی، مگر اس عورت کی ہوس اس کی پٹاری بھرتی نہ تھی۔ وہ جس قدر پیسہ لا کر دیتا، یہ خاتون ہضم کر لیتی پھر وہی بات دہراتی کہ جب تک کچھ بنا نہ لو گے ، میں کیسے اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں تھمادوں۔ اب مسعود ان باتوں سے تنگ آ گیا تھا۔ اتفاق سے انہی دنوں ان کا ایک ساتھی پکڑا گیا۔ اس کی مخبری پر پولیس میرے بھائی اور اس کے ساتھی کو گرفتار کر کے لے گئی۔ وہ چھ ماہ جیل میں رہا۔ قالب کے ایک بڑے زمیندار سے مراسم تھے جس نے ان دونوں کی گلو خلاصی کرائی۔

جیل سے رہا ہوتے ہی وہ خالہ کے پاس گیا۔ بھائی نے سوچا تھا کہ دیکھتے ہی خالہ اسے گلے سے لگائے گی کہ میرے بیٹے ! تو اتنے دن کہاں اور کس حال میں رہا، مگر اس نے مسعود کو دیکھتے ہی منہ بنا لیا۔ خوباں کیسی ہے ؟ مسعود نے سوال کیا۔ اس کی شادی ہو گئی ہے۔ وہ اب اپنے گھر میں ہے ، اس کا نام مت لے۔ یہ سن کر مسعود پر بجلی گر پڑی۔ یہ کیا کہہ رہی ہو خالہ ! اتنے عرصے مجھے شادی کا جھانسا دے کر لوٹتی رہی ہو اور چند دن کی میری غیر حاضری میں تم نے اس کو کسی اور سے بیاہ دیا؟ تو کیا تجھ سے چور اچکے کے ساتھ بیاہ دیتی ؟ خالہ کے ایسا کہنے پر مسعود سر سے پاؤں تک غصے میں جھلس گیا اور دانت پیس کر بولا۔ مجھ کو چور ، اُچکا ، ڈاکو کس نے بنایا ؟ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کس نے پہنچایا ؟ تم نے خالہ ! میں اب تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ جاجا، بد معاش کہیں کا۔ یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا۔ میرے پاس اتنا اثر و رسوخ ہے کہ تجھ کو عمر بھر کے لئے جیل میں سزا دوں۔ تو باہر کی ہوا کھانے کو ترس جائے گا۔ بڑھیا کی ایسی نخوت بھری باتیں سن کر وہ غصے سے کھولتا ہوا باہر آگیا اور سیدھا قالب کے پاس پہنچا۔ اس نے مسعود کی حالت دیکھی تو پوچھا۔ خیر تو ہے، کیا ہوا ہے میرے یار کو؟ بھائی نے اس سے ہر بات کہہ دی۔ وہ بولا۔ غم نہ کر یار ، اس عورت سے ہم نمٹ لیں گے۔ تیرا دیا ہوا ایک ایک ٹکہ اس سے وصول نہ کیا تو قالب خان نام نہیں۔ اس نے ایک منصوبہ بنایا اور مسعود اپنے ساتھی کے ہمراہ بڑھیا کے یہاں نقب لگانے گیا، مگر بد بختی کہ وہ گھر چھوڑ کر جا چکی تھی۔ انہوں نے بعد میں اس کے دوسرے ٹھکانے کا پتا لگا لیا۔ خالہ بہار نے اپنی چھوٹی لڑکی کی شادی ایک امیر آدمی سے کر دی تھی اور خود بھی اس کے ساتھ کو ٹھی میں منتقل ہو گئی تھی۔ یہ لوگ وہاں بھی نقب لگانے پہنچ گئے۔ ان کا ارادہ صرف چوری کرنے کا تھا، کسی کی جان لینے کا نہیں، مگر بد قسمتی سے حالات ایسے ہو گئے کہ جب یہ چوری کی نیت سے خالہ بہار کے داماد کی کو ٹھی میں داخل ہوئے تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اکیلا ہی بندوق لے کر باہر نکل آیا۔ وہ اکیلا تھا اور یہ تین ، وہ ان کے تیسرے ساتھی کو نہ دیکھ سکا۔ مسعود اور قالب تو ہاتھ اوپر کر کے سامنے کھڑے تھے اور اس نے ان پر بندوق تان رکھی تھی، مگر ان کے تیسرے ساتھی نے پیچھے سے خوباں کے شوہر پر وار کر دیا۔ اس بیچارے کا منٹ میں کام تمام ہو گیا اور خوباں بیوہ ہو گئی۔ بیوگی کے بعد بھی اس پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب نغمانہ کی طرح اس کے ٹھکانے بھی بدلنے لگے ۔ فرق تو میری ماں کو پڑا تھا، جس کا جوان بیٹا، چودہ برس کے لئے آہنی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا یا پھر ہم بہنوں کو جن کی آنکھیں اپنے بھائی کی صورت دیکھنے کو ترستی تھیں۔ فرق پڑا تو اس مرحوم کو جسے ناحق خنجر لگا۔ اس کی ماں کی دنیا اندھیر ہو گئی ، جس کی جان بہار کی فریبی چالاکیوں کے سبب چلی گئی۔ خدا جانے وہ بد بخت بڑھیا کھوسٹ ہو کر مر گئی یا میرے بھائی جیسے کسی بے وقوف نوجوان کی زندگی برباد کرنے کو زندہ ہے۔ دعا کرتی ہوں سب کے والدین زندہ رہیں۔ کسی کا باپ نہ مرے ، ورنہ بچے یتیم ہو کر اسی طرح غیر محفوظ ہو جاتے ہیں جیسے میرا بھائی ہوا۔ وہ سائبان سے محروم ہو کر حالات کی دھوپ میں جل گیا۔

Latest Posts

Related POSTS