Sunday, April 20, 2025

Saiban Mil Gaya

ملک اللہ یار نے جب اپنی بہو فاخرہ شمن کو اچانک چھ برس بعد صحیح سلامت دیکھا تو ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ وہ اس مسلمہ حقیقت کو بھول بیٹھے تھے کہ اچھائی یا برائی کسی کی میراث نہیں ہوتی، اصل جوہر تو سوچ کی وسعت ہوتی ہے۔ جس لڑکی کو انہوں نے اپنے مرتبے کے غرور میں کمتر سمجھ کر ٹھکرایا تھا، آج اس نے جذبوں کی صداقت سے اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی، جو تیرہ شبی کے خوف سے گھر سے بھاگ گئی تھی، آج اس کو منزل مل گئی تھی۔ یہ قصہ تب شروع ہوا جب ہماری پڑوسن صاحباں کی چھوٹی بہن نور بی بی کا گائوں میں انتقال ہو گیا تو وہ اپنی بہن کی دو سالہ چھوٹی سی بچی کو گھر لے آئی۔ اس نے دس برس تک بچی کو اپنے پاس رکھا، پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بارہ برس کی ہو گئی۔ ایک روز اس کا بہنوئی محراب بچی کو لینے شہر آیا اور صاحباں سے کہا۔ بی بی صاحباں! تم نے بے شک اس کو محبت سے پالا ہے اور ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی لیکن اب تم اس کو واپس کر دو، مجھے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ہے۔ نیز برادری کے سامنے بھی جواب دہ ہوں۔ ٹھیک ہے محراب بھائی! آپ اپنی بچی لے جا سکتے ہیں لیکن اب یہ شہر کی پروردہ ہے اور میں نے اس کو مڈل تک پڑھا دیا ہے۔ تم اس کی شادی سوچ سمجھ کر کرنا، کسی بالکل ہی جاہل گنوار سے مت بیاہ دینا۔ تم فکر نہ کرو بہن! شمن آخر میری اولاد ہے۔ میں اس کی شادی تمہاری صلاح اور رضا کے بغیر نہیں کروں گا۔ خالہ نے بھانجی کو اداس دل اور بہت سی دعائوں کے ساتھ اس کے والد کے حوالے کر دیا۔ اسے شمن کی جدائی کو برداشت کرنا ہی تھا۔ محراب نے بیٹی کو اسی وجہ سے اس کی خالہ کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں نہ دینا چاہتا تھا۔ جانتا تھا کہ اس کو دوسری بار بھی گھر بسانا ہی ہو گا تب اس بچی کا کیا ہوگا۔ وقت گزرتا گیا۔ اب ثمن لڑکپن کی دہلیز پار کر کے بڑی ہو گئی تھی۔ اس نے بہو اپنی ماں کی طرح روپ نکالا تھا۔ اس کے چہرے پر سب سے پُر کشش اس کی چمکدار سیاہ آنکھیں تھیں جن میں اک عجیب طرح کی اداسی کارنگ تھا جو دیکھنے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا۔ محراب کی تھوڑی سی زرعی اراضی تھی جس پر کھیتی باڑی سے اس کی گزرا وقت ہو جاتی تھی۔ کھیتوں سے ذرا فاصلے پر اس کا گھر تھا۔ شمن جب گھر کے کام سے فارغ ہو جاتی تو اپنے والد کے پاس کھانا لے کر کھیتوں میں چلی جاتی۔ یہ کھیت ان کے اپنے تھے لہذا محراب، بیٹی کو ادھر آنے سے منع نہیں کرتا تھا۔ محراب کے کھیت کے اس پار ملک صاحب کی زمین تھی جہاں ان کی حویلی بھی تھی۔ ان دنوں ملک کرم داد کی حویلی میں بہت رونق نظر آ رہی تھی کیونکہ ان کا بیٹا اکرام تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر سے لوٹ رہا تھا۔ بیٹے کی آمد کی خوشی میں ملک صاحب نے سارے گائوں میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ اکرام کے ساتھ اس کا دوست شاہد بھی آیا تھا جو سیر و سیاحت کا شوقین تھا اور فطرت کے حسین مناظر کا دلدادہ تھا۔ صبح سویرے اس نے ناشتے سے پہلے چہل قدمی کے بارے میں سوچا۔ انکل! میں کھیتوں کی سیر کرنا چاہتا ہوں،اکرام تو ابھی تک سو رہا ہے، جانے وہ کب بیدار ہو، ناشتہ میں اس کے ساتھ واپس آکر کر لوں گا۔ یوں شاہد، ملک صاحب کے ملازم کے ہمراہ پیدل ہی کھیتوں کی طرف اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر نکل گیا۔ وہ فطرت کے حسن میں کھویا ہوا اپنی دھن میں ممکن چلتا ہی چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ محراب کے کھیتوں کو جانکلا۔ محراب کام چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور آنے والے شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ شاہد نے کسان کو حیران دیکھ کر خود ہی اپنا تعارف کروایا کہ میں اکرام کے ساتھ لاہور سے آیا ہوں اور ملک صاحب کے گھر قیام ہے۔ اچھا تو آپ ملک اکرام باری کے دوست ہو، آئو بیٹا! میرے ساتھ آجائو۔ ہماری بیٹھک میں آرام کر لو، کچھ لسی پانی پیو۔ نہیں چاچا! ہم یہیں ٹھیک ہیں، ادھر چار پائی پر بیٹھتے ہیں۔ تبھی دونوں درخت کے سائے تلے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ لاہور کا رہنے والا ہے۔ ماں کا چند سال پہلے انتقال ہو گیا، والد بزنس کرتے ہیں۔ ا بھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے، شاہد ایک نسوانی آواز پر چونک گیا۔ سامنے ایک معصوم صورت من موہنی لڑکی کھڑی تھی جو محراب سے مخاطب تھی۔ بابا! ناشتہ تیار ہے، گھر آکر کھا لیں یا یہیں لا دوں؟ بیٹی! ایک مہمان میرے ساتھ ہیں،ماں سے کہو، بیٹھک میں ناشتہ لگادے، ہم آرہے ہیں۔ محراب، شاہد کو بھی اصرار کر کے گھر لے گیا اور کھانا کھلایا۔ گائوں میں لوگ اسی طرح اجنبیوں کو مہمان بنا لیتے ہیں اور ان کی تواضع کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اگلے روز بھی صبح کی سیر کو شاہد اسی طرح ملک صاحب کی حویلی سے نکلا اور چہل قدمی کرتے ہوئے محراب کے کھیت میں آپہنچا۔ محراب نے اسے دور سے دیکھ لیا تھا۔ وہ اصرار کر کے اسے گھر کی طرف لے آیا۔ شاہد کو کچھ کھانے پینے سے دلچسپی نہ تھی مگر آج اس کی نگاہیں شمن کے معصوم چہرے کو کھوج رہی تھیں جس نے کل سے اس کے دل و دماغ پر قبضہ جمالیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر محراب سے اس کی لڑکی کا ہاتھ مانگ لے تو کیا یہ دیہاتی اپنی بیٹی کی شادی ایک شہری سے کرنا پسند کرے گا؟ اگر یہ ہاں کر بھی دے تو بھی ایک رکاوٹ پہاڑ کی طرح اس کی خوشیوں کے راستے میں کھڑی تھی۔ اس کے والد نے کچھ ماہ قبل اس کا رشتہ اپنے دوست کی بیٹی سے طے کر دیا تھا۔ اس روز بھی ساری رات وہ اسی مسئلے پر غور کرتا رہا۔ ایک جانب والد کی ناراضی کا خوف تو دوسری جانب دل کی آواز۔ ساری رات جاگنے کے بعد صبح جب اکرام سے سامنا ہوا تو شاہد نے ساری بات بغیر کسی لگی لپٹی دوست کو بتادی کہ وہ سیدھے طریقے سے محراب کی لڑکی شمن سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ کچھ خراب ہے، بہر حال ابا جان سے بات کرنا پڑے گی وہی اس مسئلے کو سلجھا سکتے ہیں۔ دوست کی خاطر اکرام نے اپنے والد کو شاہد کے بارے ساری بات بتا دی۔ بیٹے کے دوست کی خوشی کی خاطر انہوں نے محراب کو حویلی بلا کر اس سے شاہد کے لئے اس کی بیٹی کا رشتہ طلب کر لیا۔ یہ بھی کہا کہ تم کو بدلے میں زمین جو چاہئے، ہم تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہیں۔ محراب پہلے تو ملک کی بات سن کر حیران ہو گیا – ۔ کہاں جو اونچے محلوں والے اور کہاں میں ایک غریب کسان! اس نےکہا۔ ملک صاحب! آپ کے مرتبے اور احترام کا لحاظ ہے، انکار کی ہمت بھی نہیں۔ میری کوئی شرط نہیں لیکن یہ رشتہ جوڑ ہے، کل کو غریب کی لڑکی آپ کے دوست کے گھرانے میں قبول نہ کی گئی، اب کیا ہو گا ملک صاحب گیری سوچ میں ڈوب کے مادھر محراب بھی اسی دنیا کارنے والا تقل نیتی کے مستقبل کی فکر نے اس کے چہرے کی لکیروں کو اور بھی گہرا کر دیا تھا۔ ملک صاحب نے حوصلہ دیا کہ تمہاری بیٹی ہماری بیٹی ہے، اب امیری غریبی کی تفریق کا دور نہیں رہا لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں۔ مشن کو میرے ہونے کوئی تکلیف نہ ہو گی مجھ پے اور اللہ ہے اور یہ سوار کھو اور رشتے کے لئے ہاں کہنے اور کہاں انہوں نے محراب سے ہاں کہ لوار کی۔ سے مسئلہ توصل ہو گیا لیکن انکا مرحلہ شمن سے شاہد کے تاج کا تھا کیو نکہ نکاح کے بغیر وہ لڑکی کو اپنے ساتھ شور نہیں لے جا سکتا تھا اور اس کے باپ کا یہاں کا کمال احمد شاہد نے ملک صاحب کو بتادیا تھا کہ اس انکاری پر فی الحال تو اس کا باپ راضی نہ ہو گا، ہاں اگر نکاح ہو جائے اور دو بیوی بنا کر شمن کو گھر لے جائے تو پھر شاید اس کے والدین اس کو بہو کے روپ میں قبول کر لیں گے۔ تم چاہتے ہو کہ یہاں نکاح کر کے تم شمن کو اپنے ساتھ گھر لے جائو؟ جی۔ اس نے کہا۔ انکل گیا کیا مرحلے پر ہی آپ کا حسان مند ہو نا چاہتا ہوں۔ ٹھیک ہے ہم تمہارا اکارت ہے ان کردار ہے یہاں آگے تم اپنے والد کو سنبھال لینا۔ یوں شمن کا نکاح بھی ملک صاحب کے گھر پر ہو گیا اور وہ شاہد کی زندگی میں شامل ہوگئی۔ نکاح کے اگلے روز شاہد، شمن کو لے کر لاہور آ گیا۔ آج اپنے والد کا سامنا اس انداز میں کرتے ہوئے اس کو کچھ گھبراہٹ ہو رہی تھی تاہم اس کو یقین تھا کہ اس کا شفیق باپ اس جسارت کو تھوڑی سی ناراضی کے بعد معاف کر دے گا ہر شی کو بیع کے روپ میں فرما کر یا با آ خر محمول کر لیا جائے گا مگر خلاف توقع بڑے بیٹے کو باپ کی سخت ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کو اتنا گہر اصدمہ ہوا کہ سخت غصے کا اظہار کرنے کے بعد دل پکڑ کر لیٹ گئے۔ شاہد نے گھبرا کر جلدی سے ڈاکٹر کو جوان کیا۔ اس دوران من بیاری کی حالت زرد پتے میں ہورہی تھی جس کو وقت کی مکہ میں ہوانےایک انجانے موڑ پر لا کر پھینک دیا ہو۔ ڈاکٹر نے چیک آپ کے بعد ملک صاحب کو ایمبولینس میں ڈالا اور اسپتال لے گئے۔ ملک اللہ یار کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ بہر حال ہر وقت طبی امداد ملنے سے وہ بیچ تو گئے لیکن اب بقول ڈاکٹر آئندہ ان کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچنا چاہئے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کیا کر شاہد کی گویا جان ہی نکل گئی۔ وہ خود کو باپ کی اس حالت کا قصور وار کھنے لگا۔ جو باپ کی زندگی چاہتا تھا تو دوسری طرف شمن کو بھی کھونانہ چاہتا تھا۔ جب ذرا حالت سنبھل گئی تو ملک نے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ تم کو ہر صورت اس لڑکی کو طلاق دینی ہو گی اور جہاں میں نے بات ملے کی ہے، وہاں شادی کرنی ہو گی۔ یہ میری زبان اور ان کا سوال ہے۔ شاہ کے لئے یہ ساری صور تمال است الیت کا باعث تھی لیکن اب پیار باپ کے سامنے چون دورا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ شمن کا اس سارے معاملے میں کوئی کردار نہ مواد اور شاہ نے اس کو پانے کہار اور اس کے باپ سے اور پاور تاج ہو گیا۔ یہ سب شمن کی خواہش پر ہر گز نہ ہوا تھا، وہ بے خبر تو اپنے باپ کی رضا سے اس کی منکوحہ بن گئی تھی۔ اب شاہد اس کو کسی طور طلاق کے دکھ سے آشنانہ کرنا چاہتا تھا۔ اب ایک طرف باپ کا حکم تھا اور دوسری جانب بے قصور شن تھی۔ شاہد کو لگا کہ اس کا سر چکی کے دورانوں کے چکر کھا ہوا ہے۔ اس کور شش دوائی کے گرداب میں پتہ ہو کچھ کر کمسن شمن نے وہ فیصلہ کر ڈالا جس کی کسی کو بھی توقع نہ تھی۔ ایک رات درونی موٹی سے گھر سے نکل گئی اور کسی نہ کسی طرح دالاس گائوں آپکی۔ واجہی کا یہ کھن سٹر اس نے کسی طرح طے کیا، میں اس کا دل ہی جانا خود اپنے باپ کو اس نے بتایا۔ بابام گاہ کے والد کسی صورتے مجھ کو بہو قبول کرنے اور اپنے گھر میں جگہ دینے کو تیار نہیں۔ میں طلاق کے الفاظ سننے سے قبل وہاں سے بھاگ آئی ہوں تاکہ ان لوگوں کی مشکل آسان ہو۔ میں سب کو اس ہے سے جوڑ کر آئی ہوں کہ مال کے اللہ کو اپنے کانوں سے نہیں ملتا جاتی۔ اس سے پہلے کہ شاید مجھے تلاش کرتے یہاں آجا کیا ہم یہ گائوں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر میر کی وفا میں کہانی کا نور شامل ہے تو کسی نہ کسی روز میری خوشیاں مجھے کو آملیں گی۔ باپ نے بیٹی کی بات کھولی اور طلاق کا معاملہ اس کے نصیب پے چھوڑ کر اور مشن کے بھر یا گلے روز حصہ اور میرے خاموشی سے اک نئی ڈگر کے مسافر بن کر چل نکلا۔ شمن کو دکھوں کی بیتی ریت میں بھی ابر کے برسنے کا انتظار تھا تا ہم وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی کوکھ میں مستقبل کی امید کا پھول آچکا ہے۔ بیٹی کے دکھ سے محراب کی کمر میں بڑھاپے کا غم وقت سے پہلے پڑ گیا مگر آزمائش کا جو بوجھ آپڑا تھا، اس کا سامناتو بہر حال کرنا ہی تھا۔  یہ دونوں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر چار گائوں آگے چلے گئے۔ یہ کانوں شہر سے برے قریب اب لڑکا آیا تھا یہاں شی کی خالہ رہتی تھی جس نے اس کو نگراں میں یا اتقول زندگی کی اس طویل شاہر میں مصائب کا سامنا کرنے کے لیے اللہ نے اسے چنے کی صورت میں ایک لحت سے اور دیاتو شمن کو جینے کا سہارا مل گیا۔ اس کے اندر امید کی ایک کرن پھوٹ پڑی کہ کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی موڑ پر شاہد کو ینے کی کمال کملی والے گی۔ شمن کے جانے کے بعد شاہد نے اس کو تلاش کیا، گائوں بھی آیا اور محراب کی بیوی کو سندیسہ دے گیا کہ شمن مل جائے تو کہنا کہ میں اب بھی تمہارا ہوں، دوسری شادی والد نے کروا بھی دی تو تمہارا ہی رہوں گا اور تمہیں کبھی طلاق نہ ادوں کا بلکہ تمہارے اوٹ آنے کا انکار کر دوں گا۔ وہ جانتا تھا کہ اپنی ناقص سوجھ بوجھ کے مطابق تین طلاق کے شوق سے بھاگی ہے۔ باپ کے دریا کو سے شاہد نے دوسری شادی کر تولی مگر وہ انوال یہ تھا ہر وقت کھا کھا اور اداس رہتا تھا۔ ور خود کو کس کا مجرم گردانتا تھا۔ اب تو اپ کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنی انا کی خاطر چنے کی کسی بسائی دنیا اماری تھی مگر وقت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد کیا ہوا کسی کام کا 1 پلک جھپکتے پانچ برس بیت گئے۔ شاہد کئی بار گائوں آیا مگر کسی نے اس کو شمن کی خالہ کے گھر کا نہ بتایا۔ اس کو تو اس بات کا بھی نظر نہ تھا کہ وہ ایک خوبصورت سے میلے گا – اس کا باپ سن چکا ہے۔ یہ عرا کیا کیا دوسری بیوی کی بری نہ ہو گیا اور اس عورت کی زندگی بھی ویران ہی رہی۔ حسین نے پیڑے کو اسکول میں داخل کر دو یہ شہر اور خالہ کے گالوں سے محفل میں میل دور قادر شن خود جاگے پر ہے کو اسکول چھوڑنے اور لینے جاتی تھی۔ واجب تشہیر کو شہر کے اسکول چھوڑنے جارہی ہوتی سوچتی۔ اے کاش کوئی معجزہ ہو جائے اور اس کو راستے میں ایک بار شاہد نظر آجائے۔ ادھر شاہد بھی اتنا وقت گزر جانے کے باوجو دشمن کو نہیں ہوا تھا۔ اس نے باپ کے پاس میں بھی کوئی نہیں بولی تھی جب اس کا دل از باردار اس ہونا دوام نمی سڑکوں کے گاڑی لے کر نکل جاتا ہو کر ادھر سے مقصود دار الیو تک کرنے لگیک اس روز بھی وہ صبح ہی شہر کی قریبی سڑک پر نکل گیا۔ وہ تین میل بمشکل آگے گیا تو اس کو سڑک پر ہجوم نظر آیا۔ گاڑی سے اتر کر وہ اس طرف گیا اور لوگوں کے رش کو چیرتاہوا اس جگہ پہنچا جہاں حادثہ ہوا تھا۔ دیکھا کہ ایک عورت برقع میں پانی سڑک پریا کی ہے اور ایک بچہ بھی زخمی حالت میں اس کے قریب گر ہوا ہے ساتھ اسکول بیگ پیا تھا جس سے کا پیاں نکل کر بکھر گئی تھیں۔ شاہد نے لوگوں کی مدد سے عورت کو سیدھا کیا جس کا چہرہ خون میں لت پت تھا۔ تا ہم میں چیر ماں نے بیان لیا سے نکھرا اس کے لئے اجنبی یہ قد حادثہ کیسے ہوا؟ کوئی سوال کر رہا تھا۔ یہ تانگے میں سوار ہونے کو سڑک پار کر رہی تھی کہ پیچھے سے آتی ایک موٹر سائیکل نے تیزی سے اس کو ٹکر مار دی۔ زور کا دھکا لگنے سے دونوں ہی کئی گز دور جا پڑے۔ حادثے کے ایک عینی شاہد نے بیان کیا۔ دونوں کو شاہ نے گاڑی میں ان اور ہسپتال الیہ کے کو معمولی پر نہیں آئی تھیں لیکن کسی کے سر کی چوٹ کافی گہری تھی۔ بچہ جلد ہوش میں آگیا اور ماں کو ایک دن اور ایک رات کے بعد نئی زندگی ملی۔ جب شمن نے آنکھیں کھولیں، شاہد اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ واقعی شاہد ہے۔ کیا یہ معجزہ تھا، کیا واقعی اس کی دعا قبول ہو گئی تھی؟ شمن کی زبان پر پہلا سوال یہی تھا۔ شاہد! تم نے مجھ کو طلاق تو نہیں دی نا؟ نہیں شمن! میں نے تم کو طلاق نہیں دی بلکہ میں نے تو ہر لمحے تم ہی کو ڈھونڈا ہے، چپے چپے پر تمہیں سلاف کیا ہے۔ مجھے امین تھا کہ تم مل جائو گی۔ مجھے ہی نہیں تھا۔ مین نے کیا۔ دیکھا تم نے ہمارے صبر کا ثمر دون التنا خوبصورت ہے۔ اور ٹھیک تو ہے اس کو زیاہ دیتے تو نہیں آئی؟ نہیں اور بالکل ٹھیک ہے۔ اپنے دادا کے پاس گیا ہے ان کو منانے۔ دادا نے جب اپنے لخت جگر کے لخت جگر کو دیکھا تو خون نے جوش مارا اور سمیر کو گلے سے لگالیا پھر وہ اس کو لے کر اسپتال آئے بہو کو دیکھنے۔ شمن کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ بیٹی! جلدی سے ٹھیک ہو جائو تو گھر چلو، دیکھو میں تم کو لینے آیا ہوں۔ تم نے ہم کو شمیر کی صورت میں جو تحفہ دیا ہے، ہم اس کے لئے تمہارے احسان مند ہیں بیٹی! ہمیں معاف کر دو۔ شمن بہت خوش تھی۔ سر نے اس کو قبول کر لیا تھا۔ زندگی کے تپتی ریگستان میں دکھوں کی انگار و ریت پر ایک عرصے تک آبلہ پا چلنے کے بعد اب ایسے سائبان مل گیا تھا۔ شمن گھر آگئی۔ اب وہ ملک اللہ یار کے پوتے کی ماں تھی اور یہ اعزاز یہاں کم نہ تھا۔ تب وہ سوچتی تھی اگر شمیر نہ ہوتا یا یہ اس کو اپنا پوتا قبول نہ کرتے، تب کیا ہوتا؟

Latest Posts

Related POSTS