Wednesday, July 16, 2025

Saiban Nahi Milta

یہ ان دنوں کی بات ہے جب تائی جان نے اپنی ایک مدعا بدلا تھا۔ بچپن میں مائرہ اور ظہور کا جو رشتہ طے کیا گیا تھا، اب وہ اسے توڑنا چاہتی تھیں۔ انہیں اظہر الدین کی بھتیجی ایک نظر بھی پسند نہ آئی تھی، جب اظہر الدین نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیے مائرہ کو بہو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب زیب النساء تائی کمزور تھیں، دادی نے انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر قابو میں رکھا ہوا تھا، اس لیے وہ کچھ بول نہ سکیں۔رفتہ رفتہ بچے بڑے ہوتے گئے اور تائی جان بھی مضبوط ہوتی گئیں۔ ان کی اس مضبوطی میں دادی اور میر کی دادی نے بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اب گھر اور اظہر الدین دونوں تائی جان کے قابو میں تھے۔ اظہر الدین روایتی شوہر کے بجائے ایک مسکین، بلکہ نیم پاگل سے انسان بن کر رہ گئے تھے۔ انہیں وہی کچھ نظر آتا جو تائی جان انہیں دکھاتی تھیں، اور وہی سنتے تھے جو وہ سنانا چاہتی تھیں۔اظہر الدین کے اس دوغلے پن نے ابا جی کو بھی بدگمان کر دیا تھا۔ وہ اب بہن بھائیوں کی پروا بھی نہیں کرتے تھے—کون آیا، کون گیا، سب تائی جان کو پتا ہوتا، اور وہی سب سنبھالتی تھیں۔ تائی جان اب مائرہ کا راستہ صاف کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے امی سے جھگڑے شروع کر دیے تھے، بات بے بات رشتہ توڑنے کی دھمکیاں دیتیں، اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے یہ باور کروانے میں کامیاب رہیں کہ وہ اب مائرہ اور ظہور کا رشتہ نہیں کرنا چاہتیں۔جب بات طے پائی تھی تو ظہور پندرہ برس کا تھا اور مائرہ چھ ماہ کی۔ ظہور کو آہستہ آہستہ پتا چل گیا تھا کہ مائرہ اس سے منسوب ہے، مگر مائرہ نے اس پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ حدِ عام سی صورت والا ظہور توجہ کے قابل بھی نہیں تھا۔

***

اسی روز امی اور تائی جی کی زور دار جھڑپ ثمینہ چاچی کے ہاں ہوئی ، تائی جی کا طنطنہ عروج پر تھا ان کا بیٹا پورے پندرہ ہزار روپے ماہانہ کماتا تھا، انہیں کیا ضرورت تھی گھر بیٹھے روبینہ جیسی کی بیٹی مائرہ کو گھر لانے کی۔ وہ ٹال مٹول کے بعد اب غصہ بھیکرنے لگی تھیں، ظہور انہیں ہر جگہ لاتا لے جاتا تھا، وہی ساتھ ہوتا تھا۔ امی نے اس کو مائرہ تائی کی ساری باتوں سے آگاہ کر دیا تھا کہ کیسے وہ دامن چھڑانا چاہ رہی ہیں اور امی خود بھی اس رشتے سے بدگمان ہو گئی تھیں جن کا ابھی سے یہ حال ہے انکار پر انکار کرنے والے بعد میں کیا حشر کرتے بھلا امی کا ارادہ اٹل اور درست تھا مگر مائرہ کچھ اور سوچ رہی تھی۔ اگلے ہی دن اس نے ابو سے اجازت لی اور زیب النساء تائی کے یہاں پہنچ گئی، النساء ایس کے خیال میں وہ تائی جی کا غصہ ٹھنڈا کر سکتی میں تھی، انہیں سمجھا سکتی تھی اپنے اچھے سلوک سے ان تی سے کی خود ساختہ مظلومیت بھرے دنوں کا کچھ ہی سہی کرسکتی تھی اور اس طرح ابو بھی بھائی کی وجہ سے ملنے والی تکلیف سے بچ سکتے تھے۔مگر تائی جی اور ان کی بہو کا گٹھ جوڑ اور ہی کہانی سناتا تھا، تائی جی وٹے سٹے میں لائی گئی بہو کی چھوٹی بہن لانا چاہ رہی تھیں ، ان کی بیٹی کی اولاد نہ ہوسکی تھی ہر وقت دوسری عورت کا خطرہ سر پر منڈلا رہتا تھا. انہوں نے اس خطرے کو دو بیٹیاں لے کر ختم کرنا تھا۔ بہو کی بہن گھر میں موجود تھی بلکہ کتنے دنوں سے آئی ہوئی تھی تاکہ آنے والے وقت کے لیے راہ ہموار کر سکے اور اس راہ کو ہموار کرنے میں تائی جی اور رفیعہ ان کی بہو بڑے دنوں سے بڑے اچھے طریقے سے کر رہی تھیں۔  بہوسرخ شلوار قمیص میں چھوٹی سی وہ لڑکی پورے گھر میں دندناتی پھر رہی تھی ظہور کوکھانا پیش کرنا ہو یا اس سے گپ شپ کرنا ہوٹل کے ٹی وی دیکھنا ہو، وہ ہر جگہ موجود رہتی ایسے میں تائی جی اور رفیعہ کو اس کا آنا بے حد ناگوار گزرا تھا اور اس ناگواری کا اظہار وہ ہر جگہ کر رہی تھیں، نہ اچھی طرح سے کھانا مل رہا تھا نہ اسے مہمان سمجھا جا رہا تھا۔ تائی جی صبح کا ناشتہ مائرہ سے بنواتیں، برتن دھلواتیں، اور پھر اس پر تنقید الگ سے کرتیں۔ تمہارے بال چھوٹے ہیں، تمہاری ماں کھانا بہت برا پکاتی ہے، تمہارا باپ لاچی ہے۔ وہ اس طرح کی ان گنت باتوں کو مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔ رفیعہ بھی اس پر عجیب سا رعب جما رہی تھی، جیسے یہ اس کے تایا کا گھر نہیں بلکہ رفیعہ کا میکہ ہو، جہاں ہر کوئی ہر کام کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ رفیعہ کا باپ بھی کوئی خاص شریف انسان نہیں تھا، جو ہر وقت اپنے بیٹوں کی تال میل کرواتا پھرتا۔ بھلا وہ کیسا عزت دار ہو سکتا ہے؟ بہرحال، بیٹی کا تاوان تھا جو انہیں ہر صورت ادا کرنا تھا۔ انہیں مائرہ سے جان چھڑانی تھی اور وہ گلے پڑ رہی تھی۔ اسے بہت بری طرح تنگ کیا گیا۔ اس کی زندگی اجیرن کر دی گئی تھی۔ بدشکل، بدتمیز نسرین ظہور کے آگے پیچھے پھرتی، اور مائرہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اسے کل چلے جانا تھا۔ بس، آج کے برتن دھو رہی تھی، اور کل سے تائی جی خود دھوتیں۔ وہ جانے کو مکمل طور پر تیار تھی۔ ظہور اور نسرین بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ تائی جی کریلوں میں قیمہ بھرنے میں مصروف تھیں۔ انصار، اس کا بھائی، اسے لینے آنے ہی والا تھا۔ تائی جی کا منہ بھرا ہوا تھا، مگر اس کے لیے نفرت بھی۔ رفیعہ اور تائی جی طنز کے تیر برسا رہی تھیں۔ وہ سب کچھ سن رہی تھی۔ مگر جب نسرین نے لاؤ بھرے انداز میں کہا، جا رہی ہو، تو وہ اندر تک غصے سے بھر گئی۔ وہ ہار کر نہیں جا رہی تھی، اگر جا رہی تھی تو یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ نسرین سے شکست؟ ہرگز نہیں! نہیں، آج ارادہ بدل گیا ہے۔ مہینہ بھر رہوں گی۔ اس نے انصار کو واپس بھیج دیا۔ تائی جی تلملا کر رہ گئیں۔ اگر انہیں تایا جان کا ذرا سا بھی لحاظ نہ ہوتا، تو وہ اسے اسی وقت نکال دیتیں۔ تائی جی باتیں سناتی رہیں، اور وہ برتن دھوتی رہی۔ ظہور اس کے باقی کام خاموشی سے کرتا رہا۔ تائی جی اور رفیعہ کی کڑوی کسیلی باتیں، ان کا ہر وار، ان کی ہر بے رخی، سب کچھ وہ سہتی رہی۔ ظہور چپ چاپ یہ سب دیکھتا رہا، اور مائرہ کی چپ بھی۔ وہ خاموشی جو چیخ چیخ کر سب کچھ کہہ رہی تھی۔ اور پھر، جب مائرہ نے اسے دیکھا، تو وہ مسکرا دی۔ وہ مسکراہٹ نسرین جیسی نہیں تھی—وہ بے ساختہ، بے ریا، اور پُر خلوص تھی۔ وہ منگیتر ہو کر بھی منگیتر نہیں بنی تھی، وہ ہار کر بھی جیسے جیت گئی تھی۔ ظہور کو مائرہ ہی سے شادی کرنی تھی، اور ہاں، اب تو فیصلہ ہو چکا تھا۔ مائرہ نے میدان مار لیا تھا۔

***

تائی جی اور رفیعہ کی اکڑ مائرہ نے ریزہ ریزہ کر دی تھی۔ تائی جی، نسرین اور رفیعہ کا غصے سے برا حال تھا، اور مائرہ اپنی خاموش جیت پر دل ہی دل میں خوش تھی۔ اس نے کچھ کہے بغیر وہ کر دکھایا تھا جو نسرین جیسی لڑکی کی ساری ادائیں اور چالاکیاں بھی نہ کر سکیں۔ امی اور ابو کو ان معاملات کا ذرا بھی علم نہ تھا۔ کئی اچھے گھرانوں کے رشتے مائرہ کے لیے موجود تھے، تو آخر ظہور ہی کیوں؟ ان کا دل تائی جی اور ظہور سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ انہوں نے ظہور سے صاف لفظوں میں پوچھا کہ وہ، جو اب باشعور اور پڑھا لکھا ہے، مائرہ سے شادی کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ مگر اس نے سرد لہجے میں جواب دیا کہ جو کچھ کرنا ہے، اس کی ماں نے کرنا ہے، اس لیے اس سے اس طرح کی بات نہ کی جائے۔ تائی جی اور ظہور کے رویے کو دیکھتے ہوئے خالہ کا لایا ہوا سرگودھا والا رشتہ قبول کر لیا گیا۔ وہ اپنی بیٹی کو قدر دانوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے، نہ کہ ایسے لوگوں کو دینا چاہتے تھے جو دن میں دس بار مزاج بدلتے تھے۔ سلمیٰ خاتون کا ایک ہی بیٹا تھا، جو شہر کے بیچوں بیچ ایک کامیاب دکان چلا رہا تھا۔ جب وہ مائرہ کو کچن میں چائے بناتے دیکھنے آئے، تو دل و جان سے پسند کر بیٹھے۔ مائرہ کے پیارے نقوش اور صاف رنگت نے ان کے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ مگر چائے لے کر مائرہ نہیں، بلکہ امی گئیں، اور ساری باتیں بھی امی ہی نے کیں، کیونکہ مائرہ چھت پر چلی گئی تھی۔ مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد، جب امی پیچھے آئیں، تو انہوں نے مائرہ کو خوب برا بھلا کہا—کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے؟ اور مائرہ نے صاف بتا دیا کہ اسے صرف ظہور سے شادی کرنی ہے، اور تائی جی ہی رشتہ لے کر آئیں گی۔ امی کا دل اس بات کو ماننے کو بالکل تیار نہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو تائی جی جیسے نفرت سے بھرے لوگوں کے حوالے کرے، مگر مائرہ اٹل ارادہ لیے بیٹھی تھی۔ وہ کیوں اپنی زندگی عذاب بنانے پر تلی تھی، امی سمجھ نہ پائیں۔ عباس نے مائرہ کی تصویر دیکھتے ہی اسے پسند کر لیا تھا اور بری طرح دل ہار بیٹھا تھا، مگر مائرہ کو وہ مکینک ہرگز پسند نہ آیا، اسے صرف اور صرف ظہور سے شادی کرنی تھی۔ امی نے ضد میں آ کر لاہور سے ذیشان کی امی کو بلوا لیا۔ وہ بھی مائرہ کو بہت پسند کر گئیں۔ امی کو لگا شاید اب مائرہ ہٹ دھرمی چھوڑ دے گی، مگر جب انہوں نے زبردستی اسے چائے کی ٹرے تھمائی، تو مائرہ نے غصے سے وہ ٹرے میز پر پٹخ دی۔ خاتون نے فوراً سب کچھ محسوس کر لیا اور خاموشی سے واپس چلی گئیں۔ امی نے فوراً معذرت کی، مگر خود بھی اپنا سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ظہور اس کے لیے سزا بن کر رہ گیا تھا، ایک ایسی سزا جس کا کوئی اختام نہیں تھا، وہ مرنا چاہتی تھی مگر موت بھی نہیں آئی، وہ جینا چاہتی تھی مگر ، وہ رفیعہ اور تائی جی نے اسے زندہ بھی نہیں رہنے دیتے تھے۔ اس نے کئی بار رفیعہ اور تائی جی سے معافی بھی مانگ کے دیکھ لی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS