میرے ابو کی کافی زمینیں تھیں، جس کی وجہ سے ہمارے گھر کا انتظام بہت اچھا چل رہا تھا۔ زمینوں سے ہمیں خوب ساری آمدنی ہو جاتی تھی اور ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ اچانک ہماری زندگیوں میں ہلچل مچ گئی۔ ابو کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ اس وقت میں سب سے بڑی تھی، میری عمر تیرہ سال تھی اور نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ چھوٹی بہن ساتویں میں اور سب سے چھوٹا بھائی صرف سات سال کا تھا۔ ہم سب کا اس حادثے کی وجہ سے برا حال تھا، خاص طور پر ہماری ماں کا۔ ہم تو پھر بھی مطمئن تھے کہ ہمارے سروں پر ماں کا تو سایہ ہے۔ اس موقع پر چچا نے ہمارا ساتھ دیا۔ جو کچھ زمینوں سے آتا، وہ ایمانداری سے ہمیں پہنچا دیتے اور ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ امی خاموش طبع اور صابر خاتون تھیں۔ سسرال والے خوش تھے کہ بچوں کی خاطر جوانی میں بیوگی کو قبول کیا اور مرحوم شوہر کا گھر نہیں چھوڑا۔ امی کا ایک وقار تھا۔ جب سسرال کے کسی گھر جاتیں، تو عورتیں تعظیم کی خاطر مرد بھی اٹھ کر ملتے تھے۔ معلوم نہیں، پھر امی کو کیا ہوا کہ وہ ہم سے کچھ کھنچی کھینچی رہنے لگیں۔ ان دنوں میں دسویں میں پڑھتی تھی کہ ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ ہماری امی نے فیروز نامی ایک شخص سے شادی کر لی ہے۔ شروع میں تو ہم میں سے کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، لیکن یہ حقیقت تھی۔ معلوم نہیں، اس آدمی نے کیسے امی کو اپنے جال میں پھنسا لیا تھا۔ بقول امی، انہوں نے ہماری بہتری کے لئے اس شخص سے شادی کی تھی۔ سب لوگوں نے امی کو بہت لعن طعن کی۔ ابو کے تمام رشتے داروں نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا۔ ننھیال والوں نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا۔ غرض کہ اب ہم سراسر اسی شخص کے رحم و کرم پر تھے، جس کو ابو کہنے سے ہمیں نفرت آتی تھی۔ میں بڑی تھی، مجھے امی کی غلطی کا سب سے زیادہ دکھ تھا۔ لہذا، میں اپنے سوتیلے باپ سے سیدھے منہ بات نہ کرتی تھی۔ وہ اگر صحیح بات بھی کرتے تو میں زبان درازی شروع کر دیتی۔ ان حالات کا میرے دماغ پر کچھ الٹا اثر ہو گیا تھا۔ اب یہ ہوتا تھا کہ میں بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جاتی تھی۔ پھوپھی کو جب میری حالت کا پتہ چلا تو وہ مجبور ہو کر مجھے دیکھنے آئی۔
جب مجھے ڈاکٹروں کو دکھایا، وہ کہتے کہ اس کو کچھ نہیں ہے، ٹھیک ٹھاک ہے۔ حکیم کہتے مرگی ہے۔ دن بدن میری حالت بری ہوتی جا رہی تھی۔ ایک دفعہ تو ایسی حالت ہو گئی کہ امی نے مجھ پر سفید چادر ڈال دی اور چارپائی پر لٹا کر میری آخری سانس نکلنے کا انتظار کرنے لگیں۔ ان ہی دنوں پھپھو مجھے دیکھنے آگئیں اور اسی بری حالت میں اپنے گھر لے گئیں۔ خدا کی کرنی کہ میں پھپھو کے ہاں جاتے ہی بغیر علاج ٹھیک ہو گئی۔ اپنے پیروں پر چل کر گھر آئی، لیکن گھر آتے ہی میری حالت پھر غیر ہو گئی اور مجھے دوبارہ دورے پڑنے لگے۔ اس بات کی اطلاع جب میرے ماموں کو ہوئی تو وہ آکر مجھے لے گئے۔ میرے بعد میرے بھائی کی باری تھی، کیونکہ اس دفعہ میں اپنی چھوٹی بہن کو بھی ساتھ لے آئی تھی، لیکن بھائی کو میری اماں نے ساتھ نہ آنے دیا کیونکہ بھائی سے ماں بہت پیار کرتی تھی۔ میرا بھائی سوتیلے باپ کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اس کے ساتھ سوتیلے باپ نے کچھ ایسا سلوک کیا کہ اس معصوم نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگالی اور تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ اب ماں کو احساس ہوا کہ اس نے دوسری شادی کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ جس اولاد کی خاطر اس نے دوسرا خاوند کیا، اولاد نے اس کو قبول نہ کیا۔ پھر نہ وہ اولاد ہی ساتھ رہی جس کی بہتری کے لئے میری ماں نے یہ طوق گلے میں ڈالا تھا اور نہ اسے نئے خاوند کا پیار ہی ملا۔ فیروز کا یہ اصرار تھا کہ زمین اور جائیداد میرے نام لکھ دو۔ مکان کے علاوہ آدھی سے زیادہ زمین والد صاحب ماں کے نام کر گئے تھے۔ ماں جائیداد اس شخص کے نام نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کی بدسلوکی کو سلوکی میں بدلنے کے لئے انہوں نے اپنی جائیداد اس آدمی کے نام کر دی۔ یہ وجہ بھی کارگر نہ ہوئی اور ماں بالکل بے یار و مددگار ہو گئی۔ وہ تھی کہ یہ آدمی چاہے ساری جائیداد لے لے لیکن طلاق دے دے، مگر اس شخص نے یہ بھی منظور نہ کیا۔ چاہتی کہ چھوٹی بہن کی شادی میں نے خالہ کی منت سماجت کر کے ان کے بیٹے کے ساتھ کرادی اور خود ایف اے کر کے ایک اسکول میں ملازمت کر لی۔ ان ہی دنوں خالہ فوت ہو گئیں، تو اس کے بعد مجھے کوئی بھی رشتہ دار اپنے یہاں رکھنے پر تیار نہ ہوا، یہاں تک کہ بہن بھی اپنے گھر رکھنے پر راضی نہ تھی۔ ننھیال میں کوئی اپنانے کو تیار نہ تھا۔ کہتے تھے کہ ایک لے لی ہے، وہی کافی ہے۔ میں مجبور ہو کر اپنی ہیڈ مسٹریس کے توسط سے ایک گرلز کالج کے ہوسٹل میں رہنے لگی۔
بعض لوگ کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں کہ بن مانگے سب کچھ پالیتے ہیں اور بعضوں کو سوائے محرومیوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، حالانکہ جیون بھر وہ دکھوں کی خاردار راہوں پر چلتے رہتے ہیں۔ سدا منزل کے متلاشی رہتے ہیں۔ اس تلاش میں ان کے پائوں کیا، روح تک زخمی ہو جاتی ہے۔ میں بھی ان ہی لوگوں میں تھی جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ دنیا میں میری کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ ایک پھوپھی تھیں جو سارے خاندان سے چھپ کر مجھے کبھی کبھی ہوسٹل میں ملنے آجاتی تھیں۔ ایک دن پھوپھی آئیں تو ان کا چہرہ بڑا ہی پر امید تھا۔ آتے ہی بولیں، “بیٹا، آج تم دو دن کے لیے میرے گھر چلو کیونکہ میری ایک سہیلی، صائم کی والدہ، تمہارے رشتے کے لیے آنے والی ہیں۔” شدید پھوپھی! آپ کو تو پتا ہے کہ میں نے ساری عمر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے نفرت ہے مردوں سے، شدید نفرت۔ دیکھا نہیں، ماں نے ہمارے لیے کیا سائبان ڈھونڈا۔ “زندگی بہت لمبی ہے بیٹا! کیسے تنہا گزارو گی؟” مرد تو محافظ ہوتا ہے عورت کا، ایک سائبان ہوتا ہے۔ اگر یہ سائبان سر پر نہ ہو تو عورت زمانے کی تیز دھوپ میں جل کر رہ جاتی ہے۔ جیسا سائبان ماں نے ڈھونڈا، ایسا سائبان ہم کو قبول نہیں۔ میں بھی ویسے گزار دوں گی جیسی آپ گزار رہی ہیں اور مجھے کسی محافظ کی ضرورت نہیں ہے۔ امی نے بھی تو کی تھی شادی، اب نیا محافظ کہاں ہے؟ وہ سائبان جس نے ہمارے سر سے تمہارے باپ کے گھر کی چھت بھی چھین لی ہے۔ میں شدت جذبات سے روپڑی تھی۔ اور آپ کا بھی بنایا گیا تھا ایک محافظ۔ میں نے پھوپھی جان کو یاد دلایا۔ پھر پوچھا، “کہاں ہے وہ محافظ؟ وہ سائبان؟” مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے پھوپھی، جب پھوپھا نے محض اتنی سی بات پر آپ کو طلاق دے دی کہ وہ آپ کو مزید رقم گھریلو اخراجات کے لیے نہیں دے سکتے تھے۔ ایسے محافظوں کا کیا فائدہ، جن کو اپنی معصوم بچیوں اور باوفا بیویوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جن کو اپنی عیاشیاں اور پیسہ اولاد سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ پھوپھی کو بھی پھوپھا نے دس سالہ رفاقت اور محبت کا صلہ طلاق کی صورت میں دے دیا تھا اور اپنی کم سن جواں سال سیکرٹری سے بیاہ کرنے کی خاطر بہانے سے طلاق دے دی تھی۔ انہوں نے طلاق دیتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ میری دو معصوم بچیوں کا کون محافظ ہوگا۔ کون ان کے سر پر دست شفقت رکھے گا، کون ان کی پرورش کرے گا۔ انہوں نے ان سب کو اپنی زندگی سے اس طرح نکال پھینکا تھا جیسے ان سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے بعد میری پھوپھی اور ان کی بچیاں بھی چا کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو گئیں اور آج تک یہی ان کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھیں۔ جن دنوں پھوپھی مجھے اپنے ساتھ لے گئیں، میری پھوپھی زاد بہن عقیلہ بہت دکھی لگتی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی، “عارفہ، اگر کبھی مجھے ابا جان زندگی کے کسی موڑ پر مل جائیں تو میں ان سے یہ ضرور پوچھوں گی کہ ناراضی اور اختلاف اگر تھا تو امی سے تھا لیکن ہمارا کیا قصور تھا؟ کیا بگاڑا تھا ہم نے آپ کا، جس کی آپ نے یہ سزادی کہ میرے سر سے سائبان ہی چھین لیا۔” دراصل وہ مجھے یہ سمجھا رہی تھی کہ تم تو سوتیلے باپ کی ستم ظریفی پر رورہی ہو، ہمیں دیکھو، ہم سگے باپ کی سنگدلی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ تبھی مجھے اور بھی زیادہ مرد حضرات سے نفرت محسوس ہوئی۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہر گز شادی نہیں کروں گی۔ “سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے، بیٹی! صائم بہت اچھا لڑکا ہے، تم مان جاؤ۔” میری بچیاں اپنے ماموں کے سائے میں ہیں۔ ان کے رشتے کہیں نہ کہیں ہو ہی جائیں گے لیکن تم تنہا رہتی ہو اور تمہارا رشتہ ہونا بے حد مشکل ہے۔ وہ دیر تک مجھے سمجھاتی رہیں کہ تم نے مرد کا صرف ایک رخ دیکھا ہے۔ مان جاؤ! میری بچی، پھوپھی نے منت سماجت کی تو ان کی خوشی کی خاطر میں مجبور ہو کر ان کے ساتھ چچا کے گھر آگئی۔
اگلے دن صائم کی امی آئیں، مجھے دیکھا اور پسند کر لیا۔ پھر شادی کی تیاریاں زور و شور سے ہونے لگیں۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ دن بھی آگیا جب چچا اور پھوپھی کے سمجھانے پر میں دلہن بنی اور رخصت ہو کر صائم کے گھر آگئی۔ آج امی بے تحاشہ یاد آرہی تھیں اور آنسو بھل بھل کر کے میری آنکھوں سے گر رہے تھے۔ کاش اس وقت وہ مجھے دلہن بنا ہوادیکھتیں، اپنے ہاتھوں سے رخصت کرتیں لیکن میں تو تھی ہی بد نصیب کہ ایسے اہم موقع پر نہ باپ کا ہاتھ سر پر تھا نہ ماں کی دعائیں لے سکی تھی۔ شادی کے بعد چند ہفتے تو سیر و تفریح میں گزر گئے۔ پہلی بار خوشی اور سکون کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ صائم واقعی بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔ ساس، نندیں، سب ہی حسن سلوک سے پیش آرہے تھے۔ اتنی خوشی مل جانے کے باوجود ماضی کی اداسی اب بھی کسی کسی وقت مجھ پر اچانک ہی یلغار کر دیتی تھی۔ تب میں دکھی ہو جاتی اور ان لمحات کو بھلانے کے لئے ایسے گانے سنتی اور یہی ایک بات میرے شوہر کو ناگوار گزرتی تھی۔ وہ کہتے تھے، “عارفہ! آخر تم یہ غمگین گانے کیوں سنتی ہو؟ جب خوشیوں سے بھری زندگی مل گئی ہے اور میں بھی تمہارا ہوں تو پھر زندگی سے بھرپور خوشیوں بھرے گیت سنو۔” جب بھی وہ مجھ سے یہ شکوہ کرتے، میں یہی جواب دیتی کہ مجھے یہ المیہ گانے اچھے لگتے ہیں۔ ان سے میرے دل کو سکون ملتا ہے، تو وہ چپ ہو جاتے تھے۔ اس منحوس دن بھی صائم دفتر سے واپس آئے تو بہت الجھے ہوئے تھے۔ آفس میں کام بہت تھا اور طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ میں کام وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی پسند کے گیت سن رہی تھی۔ جب وہ آئے، میں آنکھیں موندے لیٹی تھی اور ایسی گم تھی کہ مجھے ان کے آنے کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔ گانے کے بول میرے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ “کیا بکواس ہے یہ؟” صائم نے جھنجھلا کر کیسٹ نکال دیا۔ “ہزار بار کہا ہے کہ مت سنو ایسے گانے، مگر تمہیں کب میری باتوں کی پرواہ؟ نجانے کون سا دکھ ہے تمہیں، کون جدا ہو گیا ہے تم سے، جس کی یادوں میں اس قدر درد بھرے گانے سنتی رہتی ہو۔” میں ان کے انجانے خدشوں پر حیران تھی۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا سوچتے ہیں؟ جب میں اپنی پسند کے گانے سنتی ہوں۔ حالانکہ میرا ماضی تو بے داغ آئینے کی مانند شفاف تھا اور اس پر کبھی کسی مرد کا نام تو کیا، شبیہ تک نہ پڑی تھی اور وہ تھے کہ آج آپے سے باہر ہو کر چلا رہے تھے۔ آج اس مرد کا باطن بھی ظاہر ہو گیا تھا جس کو میں اپنا پیارا دوست، جیون ساتھی اور اچھا انسان سمجھتی تھی۔ صائم کہہ رہا تھا، “عارفہ، تمہیں خود کو میری خواہش کے مطابق بدلنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کر سکتیں تو چلی جاؤ میرے گھر سے۔ میں قطعی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچو۔ کسی بچھڑے ہوئے کی یاد میں دن رات مجھ سے چھپ چھپ کر اور اپنے ماضی کو یاد کرنے کے لیے ہر وقت المیہ گانے سنتی رہو۔” وہ یہ کہہ کر چلے گئے اور میں سن بیٹھی رہ گئی کہ پر اس کو کیا ہو گیا ہے؟ اور میں سن بیٹھی رہ گئی کہ پر اس کو کیا ہو گیا ہے؟ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرا خاوند، میرا محافظ، میرا سایہ مجھ پر اس قدر کھٹیا الزامات بھی لگا سکتا ہے۔ میں نے، خدا گواہ ہے، اپنے خاوند کو دل کی گہرائیوں سے چاہا تھا، اس کی پوجا کرتی تھی۔ میرے دل میں تو صرف اور صرف صائم کی تصویر آویزاں تھی کیونکہ اب وہی میرا سب کچھ تھا۔ اپنے حقیقی والد کے بعد میں نے صرف صائم ہی کا پیار دیکھا تھا، اسی پر اعتبار کیا تھا، میرا تو اعتماد تھا وہ۔ مجھے مرد ذات سے جو نفرت تھی وہ صائم سے شادی کے بعد ختم ہو چکی تھی۔ اس کا المیہ گانے سننے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ تو میرا مزاج بن چکا تھا۔ میں یہ بھول ہی گئی تھی کہ صائم بھی ایک مرد ہے کہ وہ عورت پر جب چاہے جیسا الزام لگا دے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ کاش! صائم تم نہ کہتے یہ سب کچھ، میں تو پہلے ہی دردوں جلی تھی، تم نے تو یہ تک نہ پوچھا کہ عارفہ، آخر تمہیں دکھ کیا ہے جو تم یہ گانے سنتی ہو؟ میرا تو ایسا مزاج بن گیا تھا۔ والد صاحب کے کار کے حادثے میں فوت ہو جانے کے بعد سے حالات کی تلخی کے سبب میں یہ گانے کسی بچھڑے ہوئے محبوب کے عشق میں نہیں سنتی تھی، مگر ہاں، اپنے افسردہ دل کو بہلانے کے لئے المیہ گیت سنتی تھی۔ مگر مجھ سے پوچھنے کی ضرورت بھی کیا تھی؟ میرے دکھوں سے آخر تمہارا کیا واسطہ تھا؟ اور پھر کس قدر آسانی سے تم نے کہہ دیا کہ چلی جاؤ، میرا جانا ہی بہتر ہے۔ میں نے کہا تھا تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں رہا، اس لئے میں تمہارے گھر سے جا رہی ہوں۔ تم نے پھر بھی مجھے روکا اور نہ بیگ رکھوایا۔ اعتماد کی بنیاد پر ہی میاں بیوی کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ کسی غیر کا تصور بھی اس اعتماد کی بنیاد میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ تب مقدس بندھن کی یہ عمارت پل بھر میں زمین بوس ہو جاتی ہے۔ اسی شام میں اپنے چند جوڑے لے کر اپنی سہیلی کے گھر چلی گئی اور پھر وہاں سے ہوسٹل۔
میں صائم کو یہ باور ہی نہ کروا سکی کہ اپنے بچپن کی باتیں، اپنے مرحوم باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس ماضی میں مجھ پر اس قدر گہرا تھا کہ میں دنیا کی تمام دلچسپیوں سے کٹ کر رہ گئی تھی۔ اس وجہ سے میں المیہ گانے سنا کرتی ہوں۔ ہوسٹل آ کر بھی میں کتنے ہی دن صائم کی منتظر رہی کہ ایک دن اس کو جب اپنی غلطی کا احساس ہو گا تو وہ مجھے لینے ضرور آئے گا، مگر وہ نہ آیا۔ کچھ عرصہ خاموش رہی۔ پھر طلاق آگئی اور میں اپنے تصورات دل میں دفن کر کے ہمیشہ کے لئے ہوسٹل کی ہو گئی اور اپنی محرومیوں سے سمجھوتا کر لیا۔ جو تھوڑی سی رقم زمین فروخت کرنے کے بعد وراثت میں ملی.. اس کو چچا نے ہم دونوں بہنوں میں برابر تقسیم کر دیا، اور میں نے اس رقم سے ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا تھا کہ سر پر سائبان نہ سہی، باپ کے ورثے سے خریدے مکان کی چھت تو ہو جو مجھے موسموں کے سرد و گرم سے بچا سکے۔ پانچ برس تک میں تن تنہا زندگی کے سرد و گرم سہتی رہی۔ اسکول میں دوبارہ ملازمت مل جانے سے مجھے سکون نصیب ہوا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ زندگی میں ایک بار پھر کوئی خاموش طوفان آئے گا۔ مارچ میں میری شاگرد لڑکیوں کے امتحان تھے، جب میری ملاقات نائلہ کے توسط سے ہوئی۔ انہوں نے مہمان کا نام وحید اور ان کی بیٹی کا نام شیزا بتایا۔ مجھے شیزا کو ٹیوشن پڑھانے کو کہا گیا تھا۔ میں نے معذرت چاہی کہ وقت کم تھا اور امتحان سر پر تھے، مگر باجی نائلہ کے اصرار پر ہامی بھر لی۔ شیزا روز اپنے والد وحید صاحب کے ہمراہ پڑھنے کو آنے لگی۔ دو چار دنوں میں اندازہ ہو گیا کہ وحید اچھے انسان ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا لیتی تھی۔ وہ انتظار کرتے رہتے اور جب شیزا اڈیڑھ گھنٹے بعد پڑھائی سے فارغ ہوتی، وہ اس کو ساتھ لے کر چلے جاتے۔ ایک دن انہوں نے وقت مانگا کہ مجھ سے چند باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے معذرت کی، کیونکہ اکثر وقت میری اسٹوڈنٹ مجھ سے پڑھائی میں مدد لینے گھر آ رہی تھیں۔ انہوں نے استدعا کی، میری دعوت قبول کر لیں اور میرے گھر پر تشریف لائیں تاکہ آپ سے چند ضروری باتیں جو کہنا چاہتے ہیں، کہہ سکوں۔ میں نے سوچا کہ بچی کے بارے میں کچھ مسائل ہوں گے، اس لئے ان سے ان کے گھر پر بات کرنے کا وقت دے دیا۔ میں ان کے گھر گئی، جہاں ایک ملازمہ اور دو ملازم ان کے ساتھ رہتے تھے۔ بیگم وفات پا چکی تھیں، اور بچی انہی ملازمین کی مدد سے پروان چڑھ رہی تھی۔ بھرا ہوا گھر بھی خالی خالی لگا، کیونکہ گھر میں وہ عورت موجود نہ تھی جس کے دم سے گھر آباد ہوتا ہے۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اجڑی زندگی میں بہار لانے کی بھیک طلب کی، کیونکہ وہ بھی تنہا تھے اور میں بھی۔ وہ میرے گھر کا ماحول دیکھ چکے تھے اور ان کی بیٹی کو بقول ان کے، مجھ ایسی ماں کی ضرورت تھی۔ میں جو شادی کے نام سے کانوں کو ہاتھ لگاتی تھی، ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا یہ کہہ کر کہ مرد ذات سے میرا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ان کی آفر قبول کرنے سے معذرت کر لی اور ماتھے پر بل ڈال کر گھر آ گئی۔ اس کے بعد وہ میرے گھر نہیں آئے، لیکن ایک خلش سی دل میں چھوڑ گئے۔ آج جبکہ شادی کی عمر نہیں رہی، جانے کس بات کا تاسف ہے جو کسک بن کر دل کو دبوچ لیتا ہے۔ شاید آنے والے بڑھاپے میں مزید تنہائی کا خوف، یا اولاد سے محرومی کا احساس، یا پھر نہیں جانتی اس جذبے کو کس شے کا نام دوں، لیکن کبھی کبھی لگتا ہے کہ ایک بار بہار نے دستک دی تو مگر میں نے اس کو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے کھو دیا۔ کیا خبر اگر میں وحید پر اعتبار کر کے گھر بسا لیتی اور شیزا کو ممتا کا پیار دیتی تو خدا مجھے ماں کے درجہ پر فائز کر دیتا۔ یہ خلش آج بھی ہے۔