زندگی میں کوئی خوشی نہ تھی، پھر بھی شادی سے پہلے خوش رہا کرتی تھی۔ ہر دم ہنسنا، بولنا۔ سہیلیوں کی محفل مجھ بن سونی ہوتی۔ شادی ہو گئی تو دنیا بدل گئی۔ چند دن سکون کے گزرے۔ پھر مجھے چپ لگ گئی۔ لگتا تھا جیسے بہت کچھ گم ہو گیا ہے۔ وہ ہنسنا ہنسانا، سکھیوں سنگ آنا جانا سبھی جیسے خواب ہو گیا۔ میٹرک میں تھی ، ابو بیمار ہوئے۔ ایف اے کیا تو وہ ہمیں خیر باد کہہ گئے۔ آگے پڑھنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ جلد ہی فکر معاش نے آگھیرا۔ امی ٹیچر بنانا چاہتی تھیں اور میں ایئر ہوسٹس بننا چاہتی تھی۔ میری ایک سہیلی غریب ماں، باپ کی بیٹی تھی۔ اس نے انٹرویو دیا اور ہوائی میزبان منتخب ہو گئی۔ تبھی سے مجھ کو اس جاب میں کشش محسوس ہوئی۔ شہلا بتاتی تھی کہ ہوائی میزبان کی تنخواہ بہت اچھی ہوتی ہے جبکہ ٹیچر کو پرائیویٹ اسکول والے اتنی بھی اجرت نہیں دیتے کہ اسکول آنے جانے کا خرچہ ہی نکل آئے۔ ایسی نوکری میں بھلا دن کیسے پھر سکتے تھے۔ امی نے بہت منع کیا کہ رات کی ڈیوٹی کرنا پڑے گی کیونکر گھر سے باہر رہو گی۔ میں نہ مانی۔ زندگی سدھارنے کے خواب آنکھوں میں بسا کر ہوائی میزبان ہونے کا ارمان لیے انٹرویو دینے چلی گئی۔ شہلا نے مدد کی اور مجھے میرے خواب کی تعبیر مل گئی۔ میں ایئر ہوسٹس منتخب ہو گئی۔
کیا بتاؤں وہ دن میرے لیے کتنی بڑی خوشی لے کر آیا تھا۔ ہوائی میزبان کے طور پر پہلا سفر کرنے سے پہلے ہی ہوائوں میں اڑنے لگی تھی۔ تربیت مکمل ہو گئی اور میں نے ڈیوٹی جوائن کر لی۔ ان دنوں میں بے حد خوش تھی۔ ابھی ڈیوٹی دیتے سال بھی نہ ہوا تھا کہ قدرت نے تحسین صاحب سے ملوادیا۔ وہ لاہور سے کراچی جارہے تھے۔ اس فلائٹ پر میری ڈیوٹی تھی۔ دورانِ سفر کچھ اس انداز سے ہم کلام ہوئے کہ ان کا شائستہ انداز دل میں گھر کر گیا۔ جب جہاز نے لینڈ کیا اور مسافر ہینڈ بیگ وغیرہ سنبھال کر باہر جانے لگے تو انہوں نے اپنا کارڈ مجھے دے دیا۔ میں نے بھی از راہ اخلاق رکھ لیا۔ ڈیوٹی دے کر گھر آئی تو بار بار تحسین صاحب کا چہرہ نگاہوں میں آنے لگا۔ نجانے کیسا جادو تھا ان خاموش اور گہری آنکھوں میں کہ رات بھر نیند نہ آئی۔ تبھی پرس سے کارڈ نکال کر دیکھنے لگی کہ کون ہیں ؟ پورا نام پتا درج تھا۔ پیشہ گولڈ اسمتھ لکھا تھا۔ گویا صراف تھے، سونے چاندی کے بیو پاری … ! سونے میں کھیلنے والے ! اللہ جانے کیونکر انہوں نے میرا فون نمبر معلوم کر لیا جبکہ میں چاہتے ہوئے بھی ان کو فون نہیں کر سکی۔ ایک روز ان کا فون آگیا۔ دلِ منتظر نے سکون محسوس کیا۔ میں نے پوچھا۔ کہئے کیسے یاد کیا۔ پوچھا کہ کس دن آف ہو گا آپ کا …؟ میری والدہ آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں۔ سمجھ گئی کہ والدہ کے آنے کا کیا مقصد ہو گا کیونکہ تفریح طبع کے لیے تعلق رکھنا ہوتا تو والدہ کو گھر لانے کی بات نہ کرتے۔ میں نے بتادیا کہ اس اتوار کو میرا آف ہے ۔ وہ اتوار کو شام چار بجے اپنی والدہ کے ہمراہ ہمارے غریب خانے پر تشریف لے آئے۔ ان کی ماں نے لگی لپٹی رکھے بغیر امی جان کو آنے کا مقصد بتادیا کہ تحسین بیٹے کے رشتے کی خواہش مند ہوں۔ اس کو آپ کی بیٹی دوران سفر پسند آگئی ہے۔ امید ہے مایوس نہ کریں گی۔ تحسین بھی ساتھ تھے ۔ امی نے انہیں دیکھا تو پسند کر لیا۔ ان میں کوئی کمی نہ تھی۔ آنٹی کو جواب دیا کہ دوچار دن دیجیے۔ بیٹی سے پوچھ لوں۔
ان کے جانے کے بعد مجھ سے پوچھا تو میں نے ہاں کہہ دی۔ اماں کو مجھے بیاہنا ہی تھا۔ ہمارے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ خاصا پیسہ ابا کے علاج پر صرف ہو گیا تھا۔ ان کو گلے کا کینسر تھا۔ ان کا تین برس تک علاج چلتا رہا تھا۔ والدہ میری ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں۔ ان کو میری رضامندی مل گئی تو بات طے ہو گئی۔ ایک ہفتہ کے بعد تحسین کی والدہ دوبارہ آئیں۔ بولیں۔ آپ میرے بیٹے کی دکان دیکھ لیں۔ جو معلومات درکار ہیں، ان کے پڑوسی دکانداروں سے لے سکتی ہیں۔ ہمارا گھر بھی دیکھیں۔ ذاتی مکان ہے۔ کسی شے کی کمی نہیں ہے مگر رخصتی میں دیر نہ کریں کیونکہ قریبی رشتے دار اپنی بیٹی کارشتہ دینا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کو خبر ہو اور معاملات خراب ہوں، ہم خاموشی سے لڑکی بیاہ کرلے جانا چاہتے ہیں۔ غرض دبائو ڈال کر انہوں نے ایک ماہ میں تاریخ لے لی۔ یوں ہمیں سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور یہ کہہ کر کہ جہیز کی ضرورت نہیں۔ نکاح کے بعد مختصر وقت میں رخصتی لینے آگئے۔ یہ عجب شادی تھی کہ نہ شادیانے بچے، نہ بارات آئی۔ دولہا والوں کو اس قدر جلدی تھی کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کو مدعو کرنے نہ دیا۔ صرف ہماری پھوپھی، پھوپھا اور دو نہایت قریبی عزیز شرکت کر سکے۔ شادی کے بعد ساس نے کہا کہ بیٹی ! ملازمت چھوڑنی پڑے گی۔ اس کی اجازت ہم نہیں دے سکتے ورنہ شادی کامیاب نہ ہو گی۔ مجھے ملازمت چھوڑنے کا دکھ ہوا مگر شوہر اور ساس کی خوشنودی مقدم جانی۔ شہلا کہتی رہ گئی کہ پہلے ان کے طور طریقے دیکھ لو۔ شادی میں بھی عجلت کی ہے اور ملازمت چھوڑنے میں بھی جلدی کر رہی ہو۔ایسانہ ہو کہ ملازمت چھوڑ کر پچھتانا پڑے۔ اب سوچنے کا وقت نہ تھا۔ شادی ہو چکی تھی۔ اس کی کامیابی کے بارے میں سوچنا تھا۔ میں نے شہلا کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ دوماہ بعد ہی تحسین صاحب گھر سے غائب ہونے لگے ۔ کہتے تھے کہ کاروباری سلسلے میں دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ تم میری غیر موجودگی کو محسوس مت کیا کرو بلکہ عادت بنالو کہ میں گھر نہ آئوں تو بے فکر ہو کر سو جایا کرو۔ اماں تو ہوتی ہیں تمہارے پاس، تم محفوظ ہو ، فکر کس بات کی ہے؟ خود کمایا کرتی تھی تو پرس میں ہر وقت پیسے رہتے تھے لیکن شادی کے بعد پرس خالی رہنے لگا۔ تحسین گھر کے خرچے کے لیے اخراجات کی مد میں رقم اپنی ماں کو دیتے تھے۔ مجھے ایک پیسہ نہ دیتے۔ کبھی ضرورت پڑ جاتی تو کہتے ، اماں ہیں نا… ان سے مانگ لیا کرو۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا۔ ان کی والدہ سے مانگتے مجھے اچھا نہ لگتا۔ اگرچہ جو شے کہتی، منگوا دیتیں، مگر جیب خرچ کی تو بات ہی اور ہوتی ہے۔ شوہر اکثر غائب اور میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہوتی۔ پھر تحسین کی توجہ مجھ پر کم ہوتی گئی تو ایک انجانے دکھ کی آگ میں جلنے لگی۔ کسی سے کہہ سکتی تھی اور نہ فریاد کر سکتی تھی۔ کھل کر رو بھی نہ سکتی تھی کہ ساس کہتی تھیں۔ کس بات کا رونا ہے؟ کون ساغم ہے ، سب کچھ تو ہے تمہارے پاس … دل پر کیا بیت رہی تھی یہ میرا اللہ جانتا تھا۔ ان کی بے اعتنائی کے باوجود میں ان سے پیار کرتی تھی۔ ان کا ہر طرح خیال رکھتی کہ میرا گھر نہ بگڑے۔ ساس بھی کہتی تھیں۔ صبر کرو، دو چار بچے ہوں گے تو لوٹ آئے گا۔ رفتہ رفتہ ان کی غیر موجودگی کا دورانیہ بڑھتار ہا اور میں رورو کر دیوانی ہو گئی۔ ساس کہتیں کہ بہو ! گھبرائو نہیں۔ وہ جہاں بھی ہے ، ٹھیک ہے، خود بخود گھر آجائے گا۔ بالآخر امی نے ماموں سے کہا تو انہوں نے تحسین کا کھوج لگانا شروع کر دیا۔ پتا چلا کہ دکان پر ہی ہوتے ہیں۔ گھر نہیں آتے تو اس کا سبب ان کی کاروباری مصروفیت ہو سکتی ہے۔
امی کیسے اعتبار کرتیں۔ انہیں شک ہوا کہیں دوسری بیوی موجود نہ ہو۔ ایک روز وہ بولیں۔ چلو دکان پر چل کر پتا کر لیتے ہیں، جبکہ تحسین نے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ کبھی دکان پر نہ آنا۔ اس بار وہ بہت دن نہ آئے۔ میں ایک بچی کی ماں بن چکی تھی اور بچی بیمار تھی۔ ماں کا کہا مان کر ان کے ساتھ صرافہ بازار ان کی دکان پر چلی گئی۔ تحسین دکان پر نہ تھے، ان کے ملازم تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اندر کمرے میں بیٹھ کر انتظار کر لیں۔ وہ آجائیں گے۔ میں شوہر کی حکم عدولی نہ چاہتی تھی۔ اماں کی شہ پر دکان کے اندر چلی گئی جہاں پچھلی طرف ایک کمرہ تھا جو سجا ہوا ایئر کنڈیشنڈ تھا۔ ہم وہاں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد دو عور تیں وہاں آئیں اور بیٹھ گئیں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا۔ آپ کون ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ میرے شوہر کی شاپ ہے۔ میں ان کا انتظار کر رہی ہوں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں آئی ہیں ؟ ہم نے کچھ زیورات آرڈر کئے تھے ، وہی لینے آئی ہیں۔ میری بچی کی شادی ہے۔ خاتون نے بیٹی کی جانب اشارہ کیا۔ بیٹی کی خوبصورتی نگاہوں کو خیرہ کرنے والی تھی۔ خیر سنار کی دکان پر تو ہر قسم کی خواتین آتی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد خاتون نے سوال کیا۔ کیا تحسین صاحب گھر نہیں آتے جو آپ دکان پر آگئی ہیں ؟ ہاں … ! کئی دنوں سے گھر نہیں آئے۔ بچی بیمار ہے تو میں والدہ کے ساتھ آگئی ہوں۔ بے اختیار سچ میرے منہ سے نکل گیا۔ عمر رسیدہ خاتون نے کہا۔ ایسے شخص سے یوں کب تک تمہارا گزارہ ہو گا؟ بہتر ہے کہ ابھی سے راستہ الگ کر لو۔ آج ایک بچی ہے ، کل دو بچے اور ہو جائیں گے پھر کیا کرو گی ؟ ہمارے یہاں طلاق اتنی آسان نہیں ہوتی۔ میں نے کہا تو بولیں۔ تحسین میرا بیٹا بنا ہوا ہے۔ میں نے سب بچوں کی شادیوں کے زیورات ان سے ہی بنوائے ہیں۔ مجھے ماں سمجھتا ہے۔ اگر تم کہو تو میں تمہاری مدد کروں؟ مجھے صبر کرنے کی عادت ہے آنٹی جی… بیٹی کے ہوتے طلاق لینے کا نہیں سوچ سکتی۔ اللہ ان کو نیک ہدایت دے۔ ہم وہاں تین گھنٹے بیٹھے رہے۔ دراصل میں چاہتی تھی کہ یہ عورتیں جائیں تو ہم جائیں۔ وہ مگر ٹس سے مس نہ ہوئیں بلکہ بیٹی اب کچھ چیں بہ جبیں تھی کہ وقت دے کر نہیں آئے۔ کس قدر غلط بات ہے۔ اللہ جانے تحسین کو اس کی ماں نے کیسی تربیت دی ہے۔ ایڈوانس رقم لے لیتا ہے پھر مہینوں چکر لگواتا ہے۔ ابھی یہ بات اس نے کہی تھی کہ اس لڑکی کا بھائی آگیا۔ بولا ۔ باجی نغمہ ! ابھی تک نہیں آیا، کدھر ہے وہ ملعون۔ مجھے بہت برالگا کہ میرے شوہر کے بارے میں یہ کنبہ کیسی باتیں کر رہا ہے۔ نوجوان لڑکے نے میری جانب دیکھا تو اپنی ماں سے پوچھا۔ یہ کون ہیں؟ ماں بولی۔ تحسین میاں کی پہلی بیوی ہے۔ پہلی بیوی کا سن کر میں چونکی … گو یا دوسری بھی کوئی ہے۔ امی جان نے بھی حیرت سے ان لوگوں کو دیکھا۔ کیا ان کی دوسری بیوی بھی ہے؟
میری ماں سے رہا نہ گیا، سوال کر دیا۔ ہاں ! یہ جو سامنے بیٹھی ہیں۔ میری بہن، یہ ان کی دوسری بیوی ہیں۔ لڑکے نے بغیر جھجکے جواب دیا۔ امی نے دانتوں میں انگلی داب لی۔ عجیب بات ہے۔ اتنی دیر سے آپ تحسین کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، یہ نہیں بتایا کہ ان کی یہ دوسری بیوی ہیں۔ بہر حال اتنا دل دکھا کہ چکنا چور ہو گیا۔ ضبط کرنے کے باوجود بندھن ٹوٹ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ملازمت بھی ان کے کہنے پر چھوڑ دی تھی۔ اب کیا ہو گا؟ یہ اندیشہ بھوت بن کر ڈرانے لگا۔ میری حالت دیکھ کر امی نے میرا ہاتھ تھاما اور گھر لے آئیں۔ میں اس دن کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح لڑکھڑاتے قدموں سے گھر پہنچی تھی جبکہ وہ خواتین ہمیں ہمدردانہ لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے تحسین کو کوس رہی تھیں۔ انہیں دھوکے باز، فراڈیا کہہ رہی تھیں۔ انہوں نے باتوں باتوں میں میرے گھر کا پتا بھی پوچھ لیا تھا۔ اس واقعہ کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ وہ خاتون گھر آگئیں اور کہا کہ تمہاری بیٹی کس کا انتظار کر رہی ہے ؟ اس سانپ نے تو ہمیں بھی ڈس لیا ہے۔ اب ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ میں یہ بتانے آئی ہوں کہ اس نے ایک اور شادی کر رکھی ہے۔ وہ اب میری بیٹی کے پاس بھی نہیں آتا اور نہ خرچہ دیتا ہے۔ اگر اس بات کا تمہیں یقین نہیں ہے تو میرے ساتھ چلو اور اس کی تیسری بیوی سے مل لو۔ وہ ہماری پڑوسن کی بیٹی ہے۔ میری بیٹی کی سہیلی تھی جو اب سوتن بن گئی ہے۔ میں نے کہا، دیکھ کر کیا کروں گی۔ جہاں ایک وہاں دو… لیکن اس خبر نے دل کو بہت تڑپایا۔ میں نے امی سے کہا کہ آپ جا کر دیکھ لیں، کیا پتا اس بات میں کوئی غلط فہمی ہو۔ خاتون کے ساتھ امی گئیں۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی کے گھر لے گئی جہاں نئی نویلی دلہن سے ملاقات کرائی۔ جس کی عمر سترہ برس ہو گی۔ حسن میں مثل ماہتاب تھی۔ بولی۔ ہاں ! میں تحسین کی بیوی ہوں ۔ ہماری شادی کو پندرہ روز ہوئے ہیں۔ وہ میرے لیے گھر لے رہے ہیں تب تک میکے میں رہوں گی۔ وہ خاتون ، امی کو اپنے گھر بھی لے گئیں جہاں ان کی بیٹی نغمہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ رنجیدہ تھی۔ کہا کہ آپ لوگ بے شک اس فراڈ شخص سے بندھن قائم رکھیں، میں طلاق لے لوں گی۔ ابھی بچے نہیں ہیں، کل کو ہو گئے تو ان کو پالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ شخص جب ایک شادی اور کر لیتا ہے تو پچھلی بیوی کا خرچہ بند کر دیتا ہے۔ مجھے چھ ماہ سے خرچہ نہیں دیا۔ اسی لیے اس روز ہم دکان پر گئے تھے۔ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس بے وفا سے کنارہ کر لیا جائے۔ وہ طلاق کی راہ دکھا کر چلی گئی مگر میری سوچوں میں آگ لگا گئی۔ اب دل یہی چاہ رہا تھا ایسی زندگی سے نجات پالوں کہ میں روکھی سوکھی میں بھی شرافت سے گزر کر رہی تھی اور وہ عیاش شادی پر شادی کیے جارہا تھا۔ میری کیا اپنی بچی کی بھی پروانہ تھی۔ سوائے محرومیوں اور انتظار کے کرب کے اور دیا ہی کیا تھا اس نے مجھے … ! میں نے میکے میں ڈیرا جمالیا اور لوٹ کر گھر نہ گئی۔ چند دنوں میں گھل گھل کر آدھی رہ گئی۔ تیس برس کی عمر میں بوڑھی نظر آنے لگی۔ تحسین آئے تو سیدھے منہ بات نہ کی، الٹا ناراض ہوئے کہ دکان پر کیوں آئی تھیں جب میں نے منع کیا تھا۔ اگر دوبارہ یہ غلطی کی تو طلاق دے دوں گا۔ دے دو طلاق! میں کون سا خوش ہوں تمہارے ساتھ غصے میں میرے منہ سے نکل گیا۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک ساتھ تین طلاقیں دے کر کہا کہ لو یہ شوق بھی پورا کر لو۔ میرا دل لہو لہو ہو گیا۔
ایک روز میری ساس رونی صورت بنا کر میرے پاس آئ آئیں۔ افسوس کرنے لگیں کہ بہو ! تم نے ہوش سے کام نہ لیا۔ کن عورتوں کا اعتبار کر لیا۔ وہ اس بازار کی عورتیں ہیں، پیسے کی غلام ہیں۔ تم شریف زادی ہو ، ان کے کہنے میں آگئیں۔ طلاق کا لفظ منہ سے کیوں نکالا۔ مرد کو اس طرح نہیں اکسانا چاہیے ۔ اب کیا ملا طلاق لے کر … ! میں جانتی ہوں کہ اس نے تمہارے سوا کسی سے نکاح نہیں کیا۔ لیکن اب نغمہ سے کر لیا ہے۔ پھر بھی پچھتا رہا ہے۔ اری نادان…! تیسری کا تو نغمہ نے سوانگ بھرا تھا۔ تم کو جلانے اور بدظن کرنے کے لیے ! وہ لڑکی نغمہ کی سہیلی تھی۔اصل بیوی تم ہی تھیں ورنہ اپنے گھر میں میرے ساتھ تم کو کیوں رکھتا؟ تم نے اپنی بچی کا بھی خیال نہ کیا۔ جلاپے میں طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ ارے بیٹی، بیوی تحمل سے کام لے تو یہ چڑیلیں قدم نہیں جما سکتیں مگر اس چالاک عورت نے تمہارے قدم اکھاڑ دیے ، اس لیے کہ اپنے قدم جما سکے۔ نغمہ بالآخر تحسین سے نکاح کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ میری خوشیوں کو ڈسنے والی۔ میں نے کس کا اعتبار کر لیا۔ میرا گھر تو مجھ سے چھن گیا۔ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ میری بچی باپ کی شفقت سے محروم ہو گئی۔ کسی کے بہکائے میں آکر زہر کا پیالہ پیا تواب کون سا سکون ہے۔ آج تک در در کی نوکریاں کر رہی ہوں۔ والدہ فوت ہو گئی ہیں۔ کوئی بہن ہے، نہ بھائی۔ سہیلی اور نہ غمگسار …! نوکری کی تھکن بھی عورت کے لیے جان لیوا ہوتی ہے۔ یہ تو وہی جانیں جو نوکری کرتی ہیں۔ میں نغمہ کی زندگی کا کانٹا تھی۔ مجھے نکال کر اس نے مراد پالی۔ سوچتی ہوں اگر سہاگن ہی رہتی تو اچھا تھا۔ شوہر جیسا بھی تھا کبھی گھر آہی جاتا تھا۔ معاشرے میں عزت بھی تھی۔ گمان تھا طلاق لے کر سکون مل جائے گا لیکن نہیں ملا۔ آج تک بے سکون ہوں۔