میں تو ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک تھی، وہ مجھ کو ہاتھ کا چھالا بنا کر پال رہے تھے۔ ناز بھی شہزادی جیسے، مگر جلد ہی یہ آبگینہ پھوٹ گیا۔ ایک روز کا ذکر ہے والد دفتر سے لوٹے تو افسردہ سے تھے۔ آتے ہی بستر پرڈھے گئے ۔ شاید موت ان کا تعاقب کر رہی تھی ۔ امی سے پانی مانگا۔ وہ ابھی گلاس میں پانی لا رہی تھیں کہ یہ ذراسی دیر میں چٹ پٹ ہو گئے۔ چند دن سوگ میں گزرے، ہوش آیا تو چولہا ٹھنڈا پڑا تھا اور پیٹ میں بھوک نے انگارے دہکا دیئے تھے۔ ایسے میں اپنے پرائے سب دور ہو گئے۔ کوئی معاشی سہارا نہ تھا۔ ماں نے مجبورا سلائی مشین کا سہارا لیا۔ اسے صاف ستھرا کیا اور محلے والوں کے کپڑے لا کر سلائی میں مشغول ہو گئیں۔ یوں زندگی کا بوجھ گھسیٹ کر مجھ کو میٹرک کرا دیا۔ اب میں نوکری کر کے ماں کا بوجھ بانٹنا چاہتی تھی ۔ مگر ماں کہتی تھیں۔ ابھی اور پڑھ – وہ مجھ کو زیور تعلیم سے سجا دینا چاہتی تھیں۔ یوں میں نے ان کے اصرار پر کالج میں داخلہ لے لیا اور میلوں کے چکر پیدل کاٹنے لگی ۔ کالج دور تھا، سڑک پر رش ہوتا تھا۔ گلیوں سے گزرتے ایک دن احساس ہوا کوئی میرے پیچھے آتا ہے۔ ہمت کر کے مڑ کر دیکھا تو ایک نہایت خوبرو نوجوان کواپنا پیچھا کرتے پایا … دراز قد ، گورا چٹا تھا۔ بھولی بھالی صورت تھی، دل کو بھایا مگر خوفزدہ بھی تھی۔ اس نے بھی مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر دل کو تھام لیا۔ اب یہ معمول ہو گیا میں گھرسے نکلتی اور وہ بھولی صورت والا رستے میں منتظر متا۔ نگاہوں سے نگاہیں ملتیں، پیغام کی صورت پلکیں جھپکتیں، پھر یہ پیغامات تحریروں کی صورت میں ڈھلنے لگے۔ ایک دن وہ آیا کہ ہم ایک بندھن میں بندھ جانے کے آرزو مند ہو گئے۔ اس کا نام سرور تھا، وہ ایک ایڈوکیٹ کا سپوت تھا اور والد کسی کے مقدمے کی پیشی کے سلسلے میں لاہور آئے تھے۔ یہ بھی شہر دیکھنے کی چاہ میں باپ کے ساتھ آ گیا۔ یہ لوگ ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے جو ہمارے کالج کے قریب تھا۔ وکیل صاحب صبح کورٹ چلے جاتے اور صاحبزادے مجھ سے ملنے آجاتے۔ یوں کبھی کسی پارک میں جاتے اور کبھی کوئی تاریخی مقام دیکھنے ہم نکل پڑتے ۔ لاہور کی ہر خوبصورت جگہ سے ہم نے یادوں کے خزانے جمع کر لئے۔ وہ دن آیا جب انہوں نے واپس اپنے گاؤں لوٹ کر جانا تھا۔ سرور نے بتایا تو میں خوب روئی میرا کلیجہ مسل دیا، لاج کے بندھن تو ڑ کر میں نے اسے اپنے گھر بلا لیا۔ اماں تو عشاء کی نماز پڑھ کر سوجاتی تھی۔ ان کو کیا خبر ان کی شرمیلی بیٹی نے جذبات میں کیا قدم اٹھا لیا ہے۔ وہ رات میری زندگی کی عجیب رات تھی۔ ایک دوسرے سے بچھڑنے کا غم اس قدر تھا کہ ہم دونوں ہی رو پڑے تھے۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ جونہی چپ کرانے کو اس نے مجھے گلے لگایا جوایک بھڑکتی آگ میں ڈھل گیا۔ تنہائی اور بے خوفی محبت محبت نہ رہی آگ اور کپاس کا کھیل بن گئی۔ ضبط کی ناؤ ڈوب گئی تو پریشانی کا طوفان دل کو ڈبونے لگا میں رونے لگی اور وہ تسلی دینے لگا کہ گھبراؤ مت جاتے ہی اماں سے بات کروں گا اور پھر ان کو لے کر آؤں گا۔ اب تم کو مجھے بیاہ کر لے جانا اور یہ تم سے پکا وعدہ ہے۔ اس وعدے نے مجھے ہی زندگی بخش دی اور اپنا سارا خسارہ بھول کر میں اس کے خیالوں میں کھوگئی۔ وہ چلا گیا اور میں اس کے لوٹ آنے کی امید میں دن گن گن کر کاٹنے لگی۔ جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ جو سندر سپنا دیکھا تھا وہ بس ایک خواب تھا اور اب وہ نہیں آئے گا۔ ادھر ماں میری بگڑی طبیعت اور بھاری قدموں کو اپنی جہاں دیدہ نگاہوں سے تول رہی تھیں۔ آخر ایک روز انہوں نے سر پیٹ لیا اور پھر مجھکو پیٹنے لگیں۔ وہ جو بھی سوال کرتیں میں جواب نہ دیتی۔ بالآخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئیں۔ پہلے تو امید تھی کہ آج نہیں تو کل آجائے گا اور یہ سارے خوف کے سائے میرے سر سے ہوا ہو جائیں گے ۔ مگر دن پر دن گزرتے رہے وہ نہ آیا۔ اب تو قیامت کا دن قریب آگیا، ماں کو اسی قیامت کے خوف نے بالآ خر نگل لیا اور وہ ایک روز سوئیں تو پھر نہ اٹھ سکیں۔ ماں تو ایک گھنیر درخت تھی، چھاؤں بھرا ایک چھپر تھی۔ ایک سائبان تھی جو زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر رکھتی تھی۔ جب وہ سائبان ہی نہ تھا ہاتھ میں اکیلی کیا کرتی تھی۔ سوچا س سے پہلے کہ محلے والے پتھر مارنے آجائیں یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔ ایک دن دو جوڑے کپڑے اٹھا کر تھوڑی سی نقدی گرہ میں باندھ کر میں نے مکان کو تالا لگایا اور سرور کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ جس گاؤں کا نام اس کے منہ سے سنا تھا تلاش کرتی وہاں جا پہنچی۔ پتہ چلا کہ وہ کراچی چلا گیا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں تلاش کرنا آسان کام نہ تھا۔ کراچی میں اس کی ایک رشتہ دار رہتی تھی میں وہاں گئی۔ اس عورت سے بہانہ کیا کہ ملازمت کیلئے آئی ہوں مگر میری حالت دیکھ کر وہ شک وشبہ میں مبتلا ہوگئی۔ میں دوہرے غم سے مری جاتی تھی ، ایک طرف سرور کا پتہ نہ تھا، دوسری جانب اس کی نشانی میرے وجود کا بوجھ بن گئی تھی۔ ہمت کی خدا کا نام لے کر اس کی خالہ کو سچ ساری بات سنائی تو وہ سٹپٹا گئی۔ جب بتایا کہ امی ابو وفات پاچکے ہیں اور دنیا میں کوئی میر انہیں ہے تو ان کو ترس آگیا، مجھے لے کر ایک نرس کے پاس گئیں جو ان کی واقف کار تھی۔ اتفاق سے ایک ضرورت مند عورت وہاں آئی ہوئی تھی جسے ایک ننھے سے بچے کی آرزو تھی۔ وہ بیوہ اور بے اولاد تھی ، اس کا بھائی بھی بے اولا دیگر ایک مالدار بزنس مین تھا۔ نرس کی زبانی ہماری رام کہانی سن کر اس نے ہم کو اپنے گھر چلنے کی پیشکش کر دی۔
یہ عورت ہمارے لئے فرشتہ رحمت ثابت ہوئی۔ پتہ چلا کہ اس کا بھائی شادی کے قابل نہیں ہے۔ مگر سماج میں عزت بنانے کو شریک حیات چاہتا ہے اور دولت کا وارث بھی۔ اس نے شادی کی آفر کی، یہ پیشکش میرے لئے تو زندگی کی نوید تھی۔ حامی بھر لی، یوں مجھے تحفظ اور بچے کو باپ کا نام مل گیا۔ اس کا نام حبیب تھا، وہ نیک دل آدمی تھا۔ اسے اولاد اور مجھے سہارا مل گیا۔ اس نے اپنی محبت سے میرا دل جیت لیا اور میں نے اسے وہ آرام اور سکون دیا جو ایک اچھی عورت اپنے خاوند کو دے سکتی ہے۔ مجھے تحفظ کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہر نعمت مل گئی مگر دل پر جو زخم سرور نے لگا یا وہ آج تک ہرا ہے۔ شاید سرور کو یہ خیال ہو گا کہ اس دن مجھے دھوکا دے کر بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ایک بے بس بیوہ کی بچی کو محبت کے نام پر لوٹ کر وہ تو نگر ہو گیا ہے مگر قیامت کے دن ضرور اس کی پوچھ گچھ ہوگی۔ کیونکہ جو جیسا کرے گا اس دنیا میں اس کے اعمال نامے میں ویسا ہی لکھا جائے گا۔ وہ سمجھتا ہوگا کہ دردر کی ٹھوکریں کھا کر مرگئی ہوگی۔ جس نے اس کی خالہ کا پتہ دیا تھا وہی میرے لئے فرشتہ رحمت تھا اور خالہ نے بھی ترس کھا کر میری زندگی بچالی۔ مگر سرورنہیں جانتا کہ خدا جب کسی کے گناہ کا پردہ رکھتا ہے تو اس پر اپنی رحمت کا سایہ کر دیتا ہے۔ لیکن بے رحم لوگوں پر اس کی پکڑ بہت سخت ہو سکتی ہے۔ میں دعائیں دیتی ہوں اس شخص کو جس نے ان حالات میں مجھے اپنا کر سہارا دیا ، جب سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ سرور کو کیا خبر جس یتیم اور بے سہارا لڑکی کو اس نے بیچ منجدھار میں دھکا دے کر چھوڑا تھا آج وہ کروڑوں کی مالک ہے۔ میری بددعا ہے کہ سرور کو بھی سکون نصیب نہ ہو۔ میرے بیٹے کو توباپ ل گیا مگر سرور جسے لوگوں کو بھی اولاد کا سکون نصیب نہ ہو۔