میں اسے کھڑ کی یا دروازے سے چپ چپ کر دیکھا کرتی۔ سامنے آنے کی ہمت مجھ میں نہ تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ میرے دل میں کھپ چکا تھا۔ اس کی محبت پاش نظروں کا نشہ دوسری طرف ابّا کا خوف اور کم عمری کا عذاب مجھ سے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے وہ شرارت کرنے والا ہے یا شرارت کر کے آیا ہے۔ میں اس سے دور ہی رہنے کی کوشش کرتی ۔ مگر وہ مجھ سے ذومعنی بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ میں پریشان تھی اگر بابا نے اس کی بے باکی دیکھ لی تو کیا ہوگا۔ میں سوچ کر کانپ جاتی۔ اس نے مجھے عجیب صورت حال سے دوچار کر رکھا تھا- میرا نام مریم ہے۔ میں نے کسی دانشور کا قول پڑھا تھا کہ پتا نہیں لوگ بیٹیوں کے نام مریم زینب کیوں رکھ دیتے ہیں ۔ بڑے ناموں کے ساتھ دکھ بھی بڑے ہی وابستہ ہوتے ہیں ۔ اتنے بڑے نام غم کی صورت میں کچھ نہ کچھ خراج تو وصول کرتے ہی ہیں-جی ہاں میرا نامی مریم ہے۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ میرےبابا کا چھوٹا ساہوٹل تھا۔ اچھی گزر بسرہورہی تھی ۔دن کچھ بچپن کچھ کچھ جوانی کے تھے۔ زندگی مزے میں تھی۔ فاطمہ جو کہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے اس کو ستانے میں بڑا مزا آتا تھا۔ صلواتیںسننے کوملتی تھیں۔ علی بھیا کی چیزیں چھپا کران کی چیخیں سننا بس مزے ہی مزے تھے- میرےچچا کی فیملی بھی ہمارے ساتھ ہی رہائش پذیرتھی – میرے چچا شہباز کے دو بیٹے طلحہ اور بلال ہم سب اسکول اور کالجز میں تھے۔ امی بابا سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ اب ہم علیحدہ ہو جائیں تو اچھا ہے۔ ہمارے بچے جوان ہور ہے ہیں۔ ہمیں درمیان سے دیوار کھینچ لینی چاہیے۔بیٹیوں والا گھر ہے اگر کوئی غلطی ہو گئی تم معاف نہیں کرو گے میں تم کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ میرے بابا مذاق میں بات اڑا دیتے اور کہتے کہ میرے بچے ایسے نہیں ہیں مجھے ان پر مکمل اعتماد ہے- میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ تھی اور بلال یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن بد قسمتی سے میں گھر پر اکیلی تھی بلال یونیورسٹی سے واپس آ گیا۔ بلال کو کو دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ سب گھر والے کہاں گئےبلال نے مجھ سےپوچھا ۔ امی اور چچی بازار، باقی سب اسکول اور کالج- بلال کا موڈ ایک دم بدل گیا۔ وہ میرے قریب بالکل قریب آ گیا۔ میں اس سے دور ہونا چائی گئی کہ اچانک اس نے میرا بازو پکڑ لیا میں اندر تک لرز گئی ۔ بلال بھائییہ کیا مذاق ہے چھوڑ دیں مجھے۔ میں نے التجا کی اس نے سختی سے میرا بازو پکڑ رکھا تھا۔ تمہارے اس گریز ، شرم وحیا اور گھبراہٹ کو میں کیا سمجھوں؟ اگر تم مجھ سے شادی کے خواہش مند ہو تو بابا سے بات کرو۔ میں نے لرزتے ہوئے کہا۔ اس دن سے میری بد قسمتی کے دن شروع ہو گئے ۔ اچانک بابا ہوٹل سے گھر آئے ۔ چاۓ کے لیے فریج سے دودھ نکالنا تھا۔ بابا کو دیکھ کر بلال نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور سر جھکا کر باہر نکل گیا۔ رات کو جب میرے چچا شہباز گھر آئے تو بابانے نہایت صدے سےچچا سے کہا۔ اب میں بلال کو دیکھنانہیں چاہتا۔ یا تم یہ گھر چھوڑ دو یا میں یہ گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ بھائی جان بچوں سے غلطی ہوئی۔ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ میں مریم یٹی کا ہاتھمانگتا ہوں ۔آج سے مریم میری بہو ہے ۔ بہت جلد میں اس کو بیاہ کر لے جاؤں گا ۔ گھر کی بات گھر میں ہی رہنے دو۔ بات گھر سےنکلی تو بہت بدنامی ہو گی- چچا نے بابا سےالتجا کی لیکن میرے ابا نے ان کی ایک نہ سنی اور ہم بہاولپورشفٹ ہو گئے۔ میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا۔ ایک تو بلال جدائی اور دوسرا بابا کا مجھ سے لا تعلقی- غلطی بڑی نہیں تھی ۔ بعض دفعہ والدین بھی اولاد کے لیے آزمائش بن جاتے ہیں۔ میرے دل پر آبلے پڑتے چلے گئے پھر وہ ٹھیک نہ ہوۓ- بلال سے بچھڑے اور بابا سے ہم کلام ہوئے مجھےچھ سال کا عرصہ گزر گیاتھا۔ ہمیں رشتے داروں نے بتایا کہ بلال کی شادی پھوپھو کی بیٹی سے ہوگئی ہے۔ پھرپتا چلا کہ بلال کے دو بیٹے ہیں۔ ایک دن اچانک بابا کے ساتھ چچا ہمارے گھر آگئے مسجد میں ان کی صلح ہو گئی تھی اور ساتھ ہے میرے بہن فاطمه اور طلحہ کا نکل بھی طے پا گیا تھا- بابا اور چچا خوش گپیوں میں مصروف تھے اور میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھاری کی بابا نے میرے اور بلال کے حوالے سے ایسا کیوں نہ سوچا ؟ یہ سراسر مجھ سے زیادتی ہے۔ میں نے دکھ سے سوچا۔ چچا چلے گئے میں چھ سال بعد بابا سے ہمکلام ہوئی۔ میں نے بابا سے کہا۔ میرے اور بلال کے حوالے سے آپ نے نرمی کیوں نہ دکھائی ؟ میں اب یہ صلح نہیں ہونے دوں گی ” صدمے سے میرا دل پھٹ رہا تھا بابا کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا انہوں نے سر جھکا کر کہا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا میں نے شہباز کو لوگوں کے سامنے فاطمہ کا رشتہ دیا ہے۔“ میں نے ایک بار پھر بابا سے کہا کہ میں یہ صلح نہیں ہونے دوں گی لیکن بابا نے زندگی میں صرف اپنی منوائی تھی۔ فاطمہ کی شادی کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہو چکی تھیں ۔ روز بازار کے چکر لگائے جار ہے تھے ۔ فاطمہ بے حد خوش تھی ایک دن فاطمہ نے میرا اداس چہرہ دیکھ کر بڑے غرور کے ساتھ کہا۔ میری اور طلحہ کی شادی میں رکاوٹ مت بنو تمہاری بدقسمتی کی میں ذمہ دار نہیں۔” فاطمه کے الفاظ مجھے مشتعل کر گئے ۔ لیکن میں خاموش رہی کیونکہ خاموش رہنا وقت کا تقاضا تھا۔ شادی کا دن ان پہنچا میں صرف بلال کو تلاش کر رہی تھی۔ جیسے ہی میری اور بلال کی نظرآپس میں ملیں ہمیں سکتہ ہو گیا بلال نے دونوں بیٹے ماں کے حوالے کیے اور میری دوست کے گھر چلا گیا۔ میری دوست نے مجھے بلال کا پیغام دیا۔ بلال تم سے ملنا چاہتا ہے میں اپنی دوست کے گھر آ گئی۔اب مجھے کسی کا ڈر اور خوف نہ تھا ۔۔ بلال کو ایک عرصہ بعد دیکھ کر میری آنکھیں دریائے راوی بن گئیں ۔ وقت بہت کم ہے اسے رونے میں ضائع نہ کرو۔ جلدی سے بتاؤ کیا تم میرے ساتھ کورٹ میرج کرو گی ؟ میں نے ہاں کر دی مجھے کسی کی کوئی پروا تھی۔ مریم میں شادی شدہ دو بچوں کا باپ ہوں۔ پتا ہے بہت ہنگامہ ہو گا لیکن میں تم تک کسی کو نہیں آنے دوں گا۔ فاطمہ کے پر غرور الفاظ نے میرے اندر آگ لگا رکھی تھی – فاطمہ کی شادی کے دو دن بعد میں نی بلال سےنکاح کر لیا – یہ خبر میرے گھر والوں پر بم بن کر گری میرے ماں اور باپ بار بار بوش ہو رہے تھے میرے بھی نے پیغام بھجوا دیا کہ تم اور فاطمه اس گھر میں دوبارہ داخل نہ ہونا- فاطمه نہیں کھا میں تو میکے آؤں گی میرا کیا قصور پر بابا نے کہا طلحہ کا بلال بھائی ہے اب اس گھر کے دروازے تم پر بند ہیں- یہی فاطمہ کی سزا تھی۔ فاطمہ (میری چھوٹی بہن) نے مجھے بغاوت پر اکسایا۔ میرا چہرہ کھلی کتاب کی مانند ہے۔ تمام کشتیاں جلا کرساحل تک آنے کی تکلیف میرے چہرے پر رقم ہے میں بابا کے گھر سے بے دخل ہونے کے بعد ایک بار بھی مسکرانہ سکی ۔ بابا کی بے جا ضد نے مجھے بغاوت پر اکسایا۔ والدین کو چاہیے کہ اولاد کو آزمائش میں نہ ڈالیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا کریں – آخر اولاد بھی انسان ہوتی ہے اسے انسان کی نظر سے دیکھیں –