Wednesday, October 16, 2024

Sarab

میرے والد صاحب کھاتے پیتے خوش حال گھرانے سے تھے، زرعی زمین تھی اور ذاتی مکان تھا، اس کے علاوہ شہر میں ایک بڑا جنرل اسٹور بھی تھا، غرض اتنی آمدنی تھی کہ ہم لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ والد صاحب اکلوتے تھے، کوئی بھائی تھا اور نہ بہین ! دادا، دادی وفات پا چکے تھے۔ امی نے ان سے پسند کی شادی کی تھی اس لیے تھیال والے امی سے قطع تعلق کر چکے تھے۔ قریبی رشتے داروں کا ساتھ نہ ہونے کے باوجو دامی جان خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ انہیں اپنے خاندان سے الگ ہو جانے کی کوئی پروا نہیں تھی کیونکہ شوہر کی محبت سے دامن مراد بھرا ہوا تھا۔ بھی کے دن بڑے بھی کی راتیں ! وقت سدا ایک سانہیں رہتا۔ والد صاحب کا اچانک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔ ان دنوں ہم سارے بہن، بھائی
کمسن تھے اور اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ ہم چھ بہن، بھائی تھے، میں سب سے بڑی تھی اور میٹرک کی طالبہ تھی ، باقی چھوٹی کلاسوں میں تھے۔ جب میری ماں پر بیوگی کا پہاڑ ٹوٹا تو وہ صدے سے نڈھال ہو کر بستر پر پڑگئیں ۔ اب مجھی کوگھر دیکھنا تھا اور تعلیم بھی مکمل کرتی تھی۔ ان دنوں میری عمر سولہ بریں تھی مگر میں اپنی ہم عمر لڑکیوں سے زیادہ باشعور تھی، مجھ کو گھر کے حالات اور والدہ کیے دکھوں کا پورا ادراک تھا ، عام لڑکیوں سے مختلف تھی۔ میں اپنی والدہ کو تسلی دیا کرتی تھی کہ ماں ! گھبراؤ نہیں ، میں آپ کی بیٹی نہیں بیٹے جیسی ہوں، بس مجھے تعلیم مکمل کر لینے دو پھر سب دکھ دُور ہو جائیں گے۔ ماں کو میری ڈھارس سے بہت سکون ملتا تھا۔ در حقیقت میرے سوا کوئی دوسرا ان کو ڈھارس دینے والا تھا بھی نہیں۔ وہ بجھنے لگی تھیں کہ واقعی میری یہ بیٹی گھر کے دکھوں کا مداوا بنے گی۔ میں نے پکا سوچ لیا تھا کہ شادی نہیں کروں گی ، جب تک میرے بھائی کمانے کے لائق نہ ہو جائیں گے۔ صرف پیٹ کا دوزخ ہی نہیں بھرنا تھا، اپنے بہن، بھائیوں کو پڑھانا بھی تھا۔ والد صاحب کے ایک مخلص دوست اس برے وقت میں بہت کام آئے۔ میرے بھائی ابھی چھوٹے تھے، وہ ابو کا اسٹور نہیں چلا سکتے تھے، انکل واحد نے وہ جنرل اسٹور اچھے داموں ہم سے خرید لیا اور رو پیدامی کے نام بینک میں ڈلوا دیا، اس طرح ہمارا گزارہ ہونے لگا۔ جس سال ابو فوت ہوئے، میں میٹرک کا سالانہ امتحان نہ دے سکی کیونکہ امی ذہنی پریشانی کا شکار ہو کر بیمار پڑگئی تھیں، گھریلو مسائل اور امی کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ انکل واحد سے میں نے ہی رابطہ کیا کیونکہ جنرل اسٹور بند پڑا تھا۔ ایک سال ایسے ہی مسائل سمیٹتے گزر گیا، زرعی زمین سے آمدنی آنا بند ہوگئی۔ زمین پر جو شخص مختار کا تھا، وہ مالک بن بیٹھا ، ساری پیداوار خود رکھ لیتا تھا، اس کا مقابلہ کون کرتا، ادھر سے آمدنی کا آسرا بھی جاتا رہا۔ سال بعد دوبارہ پرچوں کی تیاری کر کے میں نے میٹرک کا امتحان دے دیا۔ جی چاہتا تھا کہ کالج میں داخلہ لے لوں مگر ابھی حالات اجازت نہ دے رہے تھے، پڑھائی کو بادل نخواستہ موقوف کرنا پڑا ۔ ناچار ملازمت کی تلاش کرنا پڑی کیونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ پہلے میں گریجویشن کروں پھر بھائی پڑھیں، اس وقت فوری طور پر معاشی حالات پر قابو پانے کی ضرورت تھی۔ چھ ماہ تک بھاگ دوڑ کر کے دیکھ لیا بھلا میٹرک پاس لڑکی کو کیا ملازمت ملتی تھی۔ ایک سہیلی کے ابو سے ملازمت کے لیے کہا تو انہوں نے مشورہ دیا بیٹی! ایسے ملازمت نہ ملے گی، تمہاری تعلیم کم ہے، پہلے ایف اے کر لو اور پھر نرسنگ ٹریننگ لے لو، اس طرح تم کو کسی اسپتال میں نوکری مل جائے گی۔ میں نے ان کا مشورہ مان لیا۔ جوں توں کر کے ایف اے پاس کر لیا، اس دوران امی کی طبیعت سنبھل چکی تھی اور وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے قابل ہو گئی تھیں۔ ایف اے کے بعد میں نے ایک سرکاری اسپتال میں نرسنگ کی کلاس میں داخلہ لے لیا جہاں یونیفارم ، رہائش ، کھانا اور وظیفہ بھی ملتا تھا ، اس طرح میرا کورس کرنا سہل ہو گیا۔ جن دنوں میں نریسنگ کورس کے دوسرے سال میں تھی، میری واقفیت ایک ڈاکٹر سے ہوگئی۔ اس کا نام یوسف تھا، ڈاکٹر یوسف نے نئے اس اسپتال میں تعینات ہوئے تھے۔ یہ شخص پشاور کا رہنے والا تھا اور کافی خوبصورت تھا۔ جب اس نے مجھ سے التفات برتنا شروع کیا تو وہ بھی میرے تصور میں رہنے لگا۔ اب میں زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنے کی سعی کرتی، اس کی اور میری ڈیوٹی عرصہ تک ایک ہی وارڈ میں رہی۔ وہ جب مجھ سے بات کرتا۔ کہتا اے کاش مجھے کو تمہارے جیسی شریک حیات مل جائے تم بہت دلکش ہو، میرا آئیڈیل ہو۔ اس کی باتیں میرے دل پر کیوں نہ اثر کرتیں، میں ایک سیدھی سادی اور حالات کی ستائی ہوئی لڑکی تھی۔ میں اچھی زندگی کے خواب دیکھنے لگی۔ یوسف نے مجھے کچھ ایسے سبز باغ دکھائے کہ میں ہر دم اس کے بارے میں سوچنے لگی اور میرا دل نرسنگ ٹریننگ سے ایات ہو گیا۔ بھی امی جان سے کہا کرتی تھی کہ اس وقت تک شادی نہ کروں گی جب تک سارے بہن، بھائی پڑھ لکھ کر اچھے مستقبل تک نہ پہنچ جائیں ، کجا اب امی کو کہتی کہ میں کورس مکمل کرنا نہیں چاہتی، نرس کا پیشہ میرے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ امی جان حالات کے بھنور میں گھر چکی تھیں، پھر میں ان کی اولاد تھی ، ان کو میری خوشیاں عزیز تھیں۔ جب امی کو بتایا کہ ایک ڈاکٹر مجھے کو پسند کرتا ہے اور شادی کے لیے اصرار کر رہا ہے تو میری خوشی کی خاطر امی جان میری شادی اس ڈاکٹر سے کرنے پر رضامند ہو گئیں۔ ایک روز ڈاکٹر یوسف ہمارے گھر آئے اور امی سے بات کی۔ کہنے لگے کہ آپ کو صاف صاف بتا کر پھر رشتہ طلب کروں گا، آگئے آپ کی مرضی میں آپ کو دھوکا دینا نہیں چاہتا، میں پہلے سے شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے بھی ہیں۔ جب والدہ کے سامنے اس نے ایسا انکشاف کیا تو امی سوچ میں پڑ گئیں۔ کہا کہ سوچ کر جواب دوں گی۔ امی نے مجھ سے کہا کہ تم کس آدمی کے چکر میں پڑ گئی ہو، وہ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے، کیوں اپنی زندگی برباد کرنے چلی ہو۔ امی کی بات ٹھیک تھی۔ مجھ کو ڈاکٹر یوسف کی اس بات سے بہت صدمہ ہوا کہ اس نے یہ سب کچھ پہلے مجھ کو کیوں نہ بتایا ، بتا دیا ہوتا تو کم از کم میں امی سے تو نہ کہتی ۔ بہر حال میں نے شادی سے منع کر دیا لیکن دکھ اس قدر ہوا کہ بیمار پڑگئی اور نرسنگ کا کورس بھی ادھورا رہ گیا۔ جب یوسف کو پتا چلا کہ میں بیمار ہوں اور نرسنگ ٹرینگ بھی چھوڑ دی ہے تو وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ میری خیریت معلوم کرنے آیا۔ اس کا دوست بہت خوبرو اور نرم خو تھا۔ وہ ایک بزنس مین تھا اور اس کا نام محبت خان تھا۔ یہ لوگ تھوڑی دیر ہمارے گھر بیٹھ کر چلے گئے۔ ایک ہفتہ بعد محبت خان نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ تم یوسف کا خیال چھوڑ دو، وہ ایک دھو کے باز اور جھوٹا آدمی ہے، تم ایک اچھی لڑکی ہو، اگر چاہو تو میں تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں تم میرے گھر جا کر یا کر سکتی ہو کہ میں غیر شادی شدہ ہوں اور بہت امیر آدمی ہوں ، تم عیش کرو گی اور تمہارے گھر والوں کی بھی مدد کروں گا، تمہارے سارے بھائی سیٹ ہو جائیں گے، میں تم لوگوں کو حالات کے بھنور سے نکال لوں گا۔ اپنے لیے نہیں لیکن اپنے گھر والوں کی خاطر میں نے محبت خان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ وہ دوسری بار ہمارے گھر آیا، مجھ سے چھوٹی بہن دسویں کی طالبہ تھی، مجھے سے زیادہ خوبصورت تھی ، میں حالات کی سختیاں سہتے ہوئے میر جھا کر رہ گئی تھی لیکن علینہ کسی نوخیز کلی کی طرح تھی۔ جب محبت خان کی اس پر نظر پڑی، وہ گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا، معا مجھے خیال آیا اگر محبت میرے بجائے میری بہن سے شادی کرلے تو اچھا ہوگا ، اس طرح میں اپنے چھوٹے بہن، بھائیوں کے لیے زندگی وقف کردوں گی ، ماں بھی میرے جانے سے تنہا نہیں ہوگی اور چھوٹی بہن کو ایک اچھی زندگی مل جائے گی، وہ سیٹ ہو جائے گی اور وہ محبت خان کے ذریعے ہمارے کنبے کی مدد کر سکے گی۔ میں نے محبت خان کی طرف دیکھا۔ اس نے جیسے میرے ذہن میں آئے خیال کو پڑھ لیا۔ اس نے میری والدہ سے کہا۔ اگر آپ بڑی بیٹی کا رشتہ نہیں دینا چاہتیں تو پھر چھوٹی کا دے دیں۔ اس پر میں نے فوراً اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وہ بولا۔ اس بار جب میں آؤں گا، گھر والوں کو ساتھ لاؤں گا اور وہ انگوٹھی پہنا کر جائیں گے۔ اس کے جانے کے بعد امی نے مجھ کو ڈانٹا کہ یہ تم کیا کرنے لگی ہو؟ ابھی علینہ کی عمر ہی کیا ہے، تمہیں شادی کرنی ہے تو کر لو، میں ہاں کر دیتی ہوں لیکن علینہ کی نہیں کروں گی، اسے میٹرک پاس تو کر لینے دو۔ میں نے امی کو خوب سمجھایا۔ ان کو باور کرایا کہ میں محبت خان سے شادی نہیں کر سکتی کیونکہ اس کو میرا اور ڈاکٹر یوسف کا سلسلہ معلوم ہے، ساری عمر اس کے ذہن سے یہ بات نہ نکلے گی ممکن ہے شادی کے بعد وہ مجھ کو یوسف سے تعلق کے طعنے دے اور پھر ہماری ازدواجی زندگی برباد ہو جائے ، اگر وہ گھر والوں کو لانے اور علینہ کو اپنانے پر راضی ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ علینہ ایک بزنس مین امیر آدمی کی بیوی بن جائے گی، وہ پر تکلف زندگی بسر کرے گی اور آپ کا ایک بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا ، سوچئے ذرا کیا ان حالات میں کوئی دوسرا اچھا رشتہ آپ تھی کسی بیٹی کے لیے آسکتا ہے؟ غرض ایسی باتیں کر کے امی کو راضی کیا۔ وہ بیچاری اس معاملے میں کسی ہے مشورہ بھی نہ لے سکتی تھیں۔ ہمارے آس پاس کوئی دانا ہستی تھی ہی نہیں۔ جب گھر میں مرد نہ ہوں اور عورتوں کو ہی فیصلے کرنے پڑیں پھر ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ اس ہفتے محبت خان دو خواتین کے ہمراہ آیا۔ اس نے ان میں سے ایک عورت کو اپنی والدہ اور دوسری کو بہن بتایا۔ وہ لوگ مٹھائی اور انگوٹھی بھی لائے تھے۔ علینہ کے رشتے کے لیے ہاں کرنے میں امی سے زیادہ میں پیش پیش تھی ، غرض کہ انہوں نے محبت خان کے نام کی انگوٹھی علینہ کی انگلی میں پہنا دی اور رسم مثلنی کر کے چلے گئے ۔ شادی کے لیے ایک ماہ کی مدت کا اصرار کیا۔ جب امی نے عذر کیا کہ ابھی تیاری کرنی ہے، لڑکی کے لیے چند جوڑے کپڑے بنانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز آپ کسی قسم کا تکلف نہ کریں گی ، ہم خود جہیز بھی دیں گے اور بری بھی بنائیں گے، زیور بھی دونوں طرف کا ہم ہی چڑھائیں گے۔ والدہ خوش ہو گئیں کہ شادی کا تمام خرچہ لڑ کے والوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ جب شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تو محبت خان نے بتایا کہ ان کے ایک قریبی عزیز کی موت ہوگئی ہے لہذا شادی نہایت سادگی سے ہوتی ۔ اس طرح وہ دس اچھے جوڑے کپڑوں کے لائے اور زیورات کے
دوسیٹ بھی چڑھائے اور علینہ کو نہایت سادگی سے بیاہ کر لے گئے۔ ایک اہم بات بتاتی چلوں کہ اس سارے معاملے کی خبر یوسف کو نہ گی ۔ محبت خان نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ ہر گز اس کو معلوم نہ ہو ورنہ وہ یہ شادی نہ ہونے دے گا، وہ میرا دوست ہے، میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں، غریب لوگ جان کر وہ آپ لوگوں کی عزت نہیں کرتا اور مجھ کو بھی منع کرے گا کہ اتنے غریبوں میں رشتہ داری مت جوڑو، ڈر ہے شادی میں کوئی رخنہ نہ ڈال دے۔ ہم نے سادہ دلی سے محبت کی ہر بات کا اعتبار کیا اور میں نے ڈاکٹر یوسف کو کچھ نہ بتایا ، بہن کی شادی کو راز میں رکھا۔ یوں بھی میرا دل یوسف سے خفا تھا، ان دنوں اس سے ملتی بھی نہ تھی۔ خیر شادی کے بعد ہی محبت خان علینہ کو لے کر پشاور چلا گیا، وہاں سے علینہ نے تین چار بار فون پر بات کی اور ہم سب کو اطمینان دلایا کہ آپ لوگ پر سکون رہے، میں یہاں بہت خوش ہوں، واقعی محبت خان بہت امیر آدمی ہے، ہم لوگ بہت جلد ہنی مون کے لیے یورپ جانے والے ہیں۔ ایک ہفتہ بعد علینہ نے فون کیا آج ہم روانہ ہورہے ہیں ہنی مون کے لیے اور میں آپ لوگوں کو ایئر پورٹ سے فون کر رہی ہوں۔ وہ دن اور آج کارون اس واقعہ کو نہیں برس گزر چکے ہیں، آج تک پھر بھی علینہ کا فون آیا اور نہ اس نے رابطہ کیا انجانے وہ کہاں چلے گئے محبت خان بھی پھر بھی نہیں آیا۔ جب علینہ کے جانے کے بعد چھ ماہ تک اس سے رابطہ نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر یوسف سے رابطہ کیا، تمام احوال بتایا تو وہ پریشان ہو گیا۔ اس نے کہا تم نے مجھ کو پہلے کیوں نہ بتایا، میں ہر گز تم کو محبت خان سے رشتہ داری نہ جوڑنے دیتا، وہ ہمارے شہر کا آدمی ضرور ہے لیکن وہ ایک اسمگلر تھا، وہ اچھا آدمی نہ تھا، اس نے اس طرح پہلے بھی دو، تین شادیاں کی تھیں، پہلے مجھے معلوم نہ تھا لیکن اب کسی نے بتایا ہے کہ وہ یونہی شادیاں کرتا تھا اور پھر ان لڑکیوں کو دوسرے ملکوں میں فروخت کر دیتا تھا۔ یوسف کی زبانی یہ کن کر میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی، میں مزید تصدیق کی خاطر اس کے پاس چلی گئی، اس نے قسم کھا کر کہا کہ یہ بیچ ہے محبت خان صرف ضرورت کے تحت اس کے پاس آ گیا تھا۔ وہ اسپتال میں اپنے کسی عزیز کا علاج کرانے آیا تھا، جب میں تمہارے گھر عیادت کو آنے کے لیے تم سے فون پر بات کر رہا تھا، وہ پاس موجود تھا، اس نے فون پر بات سنی تھی ، اس وقت میرے پاس گاڑی نہ تھی تبھی اس نے آفر کر دی کہ چلو میں اپنی گاڑی میں لے چلتا ہوں لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے، اگر جانتا کہ تم سے رشتے داری ہو جائے گی تو کبھی اس کو تمہارے گھر لے کر نہ آتا۔ یوسف بچارا ہمارے لیے بہت دکھی اور پریشان ہوا تھا۔ اس نے محب خان کا معلوم کرنے کی بھر پور کوشش کی، اسپتال سے چھٹی لے کر امی جان کو ہمراہ لیا اور پشاور لے گیا۔ وہاں سے بس اتنا معلوم ہو سکا کہ وہ اپنے محلے سے نقل مکانی کر گیا ہے، نہ معلوم کہاں چلا گیا ہے۔ امی ، علینہ کے غم میں رورو کر اللہ کو پیاری ہوئیں۔ میری بہن ایسی غائب ہوئی کہ پھر اس کا پتا نہ چلا کہ زندہ بھی ہے کہ مرگئی۔ محبت خان لڑکیاں بیرون ملک جا کر فروخت کرتا تھا، یقینا اس نے میری بہن کو بھی کسی دور دراز مقام پر فروخت کیا ہوگا ۔ اگر اپنے ملک میں ہوتی تو کسی نہ کسی طور بھی تو رابطہ کرتی۔ اتنی مدت اس معاملے کو گزر چکی ہے کہ ہم پوری طرح مایوس ہو چکے ہیں۔ امی وفات پاگئی ہیں، چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی ہے، بھائی بھی پڑھ لکھ کر اچھا کما رہے ہیں، وہ اپنی بیویوں ، بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک میں ہوں کہ جس کو علینہ کے غم نے کھا لیا ہے، وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہے۔ اگر جانتی کہ محبت خان بردہ فروش ہے تو کبھی اپنی معصوم بہن کو اس کے حوالے نہ کرتی۔ میں نے محبت خان سے علینہ کی شادی یہ سوچ کر کرائی تھی کہ وہ امیر آدمی ہے، ہم کو غربت کے بھنور سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوگا ، شاید میرے بھائیوں کو بزنس کرادے، کیا خبر تھی کہ علینہ اس سوچ کی قربان گاہ پر قربان ہو جائے گی۔ سچ ہے برے حالات خدا ہی بدل سکتا ہے، انسانوں کا آسرا ایک سراب ہوتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS