ہم ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے اور بقول کسے زندگی پیار کا میٹھا گیت معلوم ہوتی تھی مگر وقت کڑیل مزاج ہوتا ہے۔ یہ بھی جل تھل کر کے اور کبھی قطرے قطرے کو ترسا کر اپنے آپ کو منواتا ہے۔ میری زندگی میں بھی بہت سی مصیبتیں آئیں لیکن اللہ نے مجھ کو ہر مصیبت کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا۔ اسی خاطر میں ہمہ وقت شکر ر ہی کرتی رہتی ہوں۔میرے دادا ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ بہت دیندار آدمی تھے، ان کے دو بیٹے تھے، ایک میرے والد اور دوسرے چچا منان …..! دونوں کی پرورش نہایت توجہ سے اسلامی اصولوں پر ہوئی ، اسی وجہ سے آج میں فخر سے کہتی ہوں کہ ماں ، باپ نے ہمارے اندر حرام کا ایک لقمہ بھی جانے نہ دیا۔
پاپا اور چاچو ساتھ رہتے تھے، گھر میں مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ پی کے یہاں شاہ زیب پیدا ہوا اور سال بعد میں، عالم وجود میں آئی۔ دادی کہتی تھیں کہ اس وقت انہوں نے مجھے چاچی کی گود میں دیے کر کہا تھا کہ یہ تمہاری بہوبنے گی اور چاچی نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ اماں جی ! یہ تو وقت بتاۓ گا ،ابھی سے کہنا قبل از وقت ہوگا ۔
چاچی اور امی کے درمیان بہنوں جیسا پیار تھا تبھی گھر میں کسی قسم کی بدمزگی کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔ ابو اور چاچو بھی ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے۔ یوں لوگ ہمارے گھرانے کے پیار و محبت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پر مشکل وقت نہ آۓ تھے۔ چاچو بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کا شدید قسم کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا تو اس کا سارا خرچہ نہ صرف میرے بابا نے اٹھایا بلکہ ان کے بچوں کا بھی پورا خیال رکھتے تھے، غرض ہمارے گھرانے پر آئی ہر مصیبت کو میرے ابواور چاچومل کر برداشت کرتے تھے۔
میں اور شاہ زیب ایک ساتھ بڑے ہوۓ۔ ہم بچپن سے ہی اچھے دوست تھے،عمر کے ساتھ ساتھ یہ دوستی پکی ہوتی گئی۔ ہم دونوں کی ایک جیسی عادات تھیں، مل کر کھانا، ایک ہی چیزیں پسند کرنا لیکن جب امی مجھے لڑکیوں والے فراک پہنا تیں تو میں لڑ پڑتی کہ آپ میرے لئے شاہ زیب جیسے کپڑے کیوں نہیں بناتیں۔
ہم دونوں اپنے والدین کی پہلوٹھی کی اولاد تھے، تبھی خوب عیش کئے۔ اپنے چھوٹے بہن، بھائیوں پر رعب جماتے۔ وہ اور میں شرارتوں میں سب سے آگے تھے لیکن ہماری بے ضرر شرارتیں ہوتیں مثلا لمبی گرم دو پہروں کو جب سب گھر والے سوجاتے ، ہم چپکے سے کمروں سے باہر نکل جاتے ۔ جانے کیوں ہم کو کمروں کی خنکی سے زیادہ دوپہر کی لو پسند تھی ۔ ساتھ والے انکل کے گھر جامن کا درخت تھا، شاہ زیب درخت پر چڑھ جاتا اور جامن توڑ لاتا، تبھی ہم مل کر موج اڑاتے ۔
ایک بار میری بے وقوفی کے باعث اس کا سر پھٹ گیا۔ حسب معمول وہ جامن کے درخت پر چڑھا تو پتہ نہیں کیسے میرے جی میں آئی کہ پتھر سے جامن توڑنا آسان ہے، سو میں نے زمین پر پڑا ہوا پتھر اٹھا کر شاخ پر دے مارا۔ نشانہ خطا ہو گیا بلکہ شاہ زیب کے سر پر جالگا، خون بہنے لگا۔
خون بہتے دیکھ کر کسی کو بلانے کی بجاۓ میں وہیں رونے بیٹھ گی تھی ۔ وہ خود ہی نیچے اتر آیا اور اندر جانے کی بجاۓ مجھے چپ کرانے لگا۔ میری آواز پر امی، بابا، باہر آۓ تو شاہ زیب کی پٹی کرائی۔ شام کو چاچو نے ہم کو خوب ڈانٹا تب ہم نے توبہ کی کہ آئندہ جامن توڑنے کے لئے درخت پر نہ چڑھیں گے۔
چاچو نے ہم سے وعدہ کیا کہ ہم دوپہر میں آئندہ باہر نہیں جائیں گے۔ وعدہ توڑنے کی صورت میں انہوں نے دھمکی دی کہ وہ شاہ زیب کو سائیکل اور مجھ کو چوڑیاں لا کر نہ دیں گے۔
ہم دونوں نے دو دن صبر کیا لیکن یہ ہماری ہمت سے باہر تھا،سو ہم پھر اپنی روٹین پر واپس آگئے ۔ ہم نے پھر سے شرارتیں شروع کر دیں۔ چیکے سے دو پہر کو گھروں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ آتے تھے، کیونکہ ساتھ والے انکل نے جامن کا پیڑ ہی کٹوادیا تھا۔
ایک دن ہمساۓ نے ہم کو گھنٹیاں بجاتے پکڑ لیا اور سیدھا چاچو کے پاس لے گیا۔ اس روز جو ہماری مرمت ہوئی، وہ آج تک یاد ہے۔ ساری گرمیاں باہر گزارنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے بخار ہو گیا۔ اگلے دن بارش ہونے لگی تو میں حسرت بھری نگاہوں سے شاہ زیب کونہاتے دیکھ رہی تھی۔
امی جیسے ہی وہاں سے گئیں، شاہ زیب نے مجھے بلا لیا۔ رانی! باہر آؤ، دیکھو کتنی مزیدار بارش ہورہی ہے، تم بھی نہاؤ۔ میں توپہلے ہی چاہ رہی تھی ۔ امی سےچھپتے چھپاتے ہم دونوں پچھلے صحن میں چلے گئے اور نہاتے رہے۔ گھنٹہ بعد امی کچن میں آئیں تو مجھے بسترپر نہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔
انہیں پتہ چل گیا کہ میں باہر ہوں۔ ہمیں بارش میں نہاتے دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ گیا۔ بخار میں نہانے کی وجہ سے سردی نے پکڑا اور رات کو تیز بخار چڑھ گیا۔ تب ہی ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو نمونیہ ہو گیا ہے۔
اسی طرح شرارتیں کرتے ہوئے ہم نے سہانے بچپن کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دوستی تو اب بھی تھی مگر بچپن والی نہیں بلکہ سنجیدہ دوستی تھی۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی، تبھی آٹھویں کے بعد مجھے گھر بٹھا دیا گیا، تاہم مطالعہ کا شوق موجود تھا لہذا شاہ زیب کے اصرار پر میں نے دسویں کا پرائیویٹ امتحان دیا۔ شام کو آرام کرنے کے بعد وہ اکیڈمی چلا جاتا اور پھر واپس آ کر مجھے پڑھاتا۔ اس دوران وہ مجھ کو اسکول کے واقعات بتاتا۔
شاہ زیب شروع سے ہی لائق تھا۔ ہم برآمدے میں سب کے سامنے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ابواور چاچو ہم کو انہماک سے پڑھتا دیکھ کر کہتے تھے کہ چلوتم دونوں کو فضول باتیں کرنے کے علاوہ پڑھنا بھی آتا ہے۔ اب بھی ہم ساتھ کھانا کھاتے اور اگر اس کو اکیڈی سے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں بھی نہ کھاتی ۔
ایک دن میری خالہ زاد آمنہ آئی۔ بولی ۔ رانیہ ! تم کتنی خوش قسمت ہو جس کو پسند کرتی ہو، شادی بھی اسی سے ہو گی ۔ میں نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔ کیا مطلب ؟
وہ بولی ۔ مطلب یہ کہ کل خالہ، امی کو بتارہی تھیں کہ رانیہ کا کوئی مسئلا نہیں ، یہ میری نگاہوں کے سامنے رہے گی۔ آمنہ کچھ دیر بیٹھی مجھ سے باتیں کرتی رہی مگر وہ میری سوچوں کو ایک نیا رخ دے گئی۔ کیا واقعی میں اس کو چاہتی ہوں لیکن چاہت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ نہیں معلوم کیونکہ وہ تو صرف میرا دوست ہے۔ میں نے اپنے آپ کو اطمینان دینے کے لئے سوچا تھا۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ چاہت کس درد کا نام ہے، جب میں نے اس کو کھو دیا۔
ایک دن میں نے سوچا۔ چلواس سے تو پوچھوں دیکھوں کیا کہتا ہے ۔ اس نے کہا۔ رانیا مجھے سب پتہ ہے لیکن ابھی میں اس رشتے پر سوچنا نہیں چاہتا کیونکہ ابھی مجھے بہت پڑھنا ہے، آئندہ مجھ سے اس بارے میں بات مت کرنا۔ میں چپ ہوگئی تھی۔ اتنا بھی نہ پوچھ سکی کہ اتنا تو بتا دوکہ تم مجھ کو اپناؤ گے یا نہیں.
میٹرک میں وہ اول پوزیشن لایا اور میں بھی اچھے نمبر لائی تھی ۔ وہ انجینئر بنا چاہتا تھا، اس لئے دل لگا کر پڑھائی شروع کر دی۔ اب وہ مجھے کم ہی وقت دے پاتا تھا۔ کالج سے گھر آ کر دیر تک آرام کرتا پھرا کیڈمی چلا جاتا ، واپس آ کر ٹی وی دیکھنے لگتا پھر پڑھنے چلا جاتا۔ اب وہ صرف اتوار کو مجھے پورا سبق پڑھا دیتا، جس کو میں ہفتہ بھر یاد کرتی رہتی۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود شاہ زیب کے نمبر اس بارکم آۓ تو وہ بہت افسردہ ہوگیا۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ کیوں تم اتنے پریشان ہو، اس مرتبہ نمبر کم ہیں تو کیا ہوا ….. تم مزید محنت کرو، انشا الله ا گلے سال اچھے نمبر لے آؤگے۔ اس نے ایک تھکی تھکی نظر مجھ پر ڈالی اور کہا۔ رانیہ ! تم کو نہیں پتہ یہاں کتنی بے انصافی ہوتی ہے۔ ہماری کلاس کے نالائق لڑکوں کے نمبر مجھ سے کہیں زیادہ ہیں، آخر ایسا کیونکر ہوجاتا ہے، کیا محض دولت کے بل بوتے پر یا پھر تعلق کی وجہ سے….؟
تم کو گمان ہے محنت کرنے میں کامیابی ہے، زیب! ایسا مت سوچا کرو۔ نہیں رانیا تم نہیں جانتیں، دنیا میں کیا ہورہا ہے، لوگ تو آج کل پیسے کی خاطر اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں، کاش! میں امیر ہوتا یا پھر میرے پاس ایسا ذریعہ ہوتا کہ میں۔…… لیکن اب تو خودکشی کرنے کو دل چاہتا ہے۔
اس کی باتیں سن کر میں ڈر جاتی تھی۔ کہیں وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔ انہی دنوں میرا رزلٹ آیا، پاس ہوئی مگر عجب بات یہ ہوئی کہ شاہزیب نے مبارکباد دینا تو درکنار مجھ سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ تمہارے نمبر کتنے ہیں۔ میں بہت دلبرداشتہ ہوگئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے دور……. بہت دور ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی شادی جلد ہو جاتی تھی مگر میں اپنی ہم عمروں میں کنواری رہ گئی تھی۔ میرے والدین نے صرف شاہ زیب کی وجہ سے میرے کئی رشتے ٹھکرا دیئے تھے۔ ان دنوں کچھ نہ سوجھتا تھا کہ کیا کروں، خالی الذہن بیھٹی رہتی یا سارا دن اوٹ پٹانگ سوچتی رہتی۔ کچن میں کام کرنے جاتی تو سارا کچھ جلا کر آجاتی ۔
انہی دنوں شاہ زیب میں پھر تبدیلی آ گئی یہ وہ دوبارہ خوش رہنے لگا۔ وہ پہلے کی طرح سب سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا تھا لیکن اس نے مجھ سے جو دوریاں اختیار کر لی تھیں، وہ جوں کی توں تھیں۔ ایک سال گزر گیا۔ شاہ زیب کے دوسرے سال کا رزلٹ آ گیا حالانکہ نمبر بہت زیادہ نہیں تھے لیکن وہ بہت خوش تھا۔ وہ سب گھر والوں کو باہر کھانے پر لے جانا چاہتا تھا مگر سبھی اپنی اپنی جگہ مصروف تھے لہذا وہ کھانا گھر پر ہی لے آیا۔
سب نے کھانا کھایا۔ برتن سمیٹ کر میں چھت پر آئی تو شاہ زیب بھی میرے پیچھے آیا۔ کہنے لگا۔ رانی اتم ناراض تو نہیں ہو مجھ سے ۔
کیوں ناراض ہونے لگی ….؟ وہ کچھ دیر کھڑا میرے ساتھ باتیں کرتا رہا کہ جیسے ہمارے بیچ دوریاں آئی نہ ہوں لیکن ایک بات میں نے شدت سے محسویں کی کہ وہ بدل چکا تھا، اس کی ساری باتیں بدل چکی تھیں ۔ کل تک جو اخلاق کی باتیں کرتا تھا۔ آج اس کی باتوں میں صرف ایک ہی چیز تھی دولت……. دولت اور دولت……!
وہ جتنا دولت کی ہوس میں ڈوبتا جارہا تھا، مجھ کو وہ اتنا ہی خود سے دور محسوس ہورہا تھا۔ اگلے ماہ اس نے چاچو کو بتایا کہ اس کا داخلہ انجینئرنگ میں ہورہا ہے۔ اس کے والد نے کہا کہ تمہارے نمبر توکم ہیں پھرداخلہ کیسے ہوسکتا ہے…..؟؟
میرا ایک دوست جو بہت امیر ہے، اس نے داخلہ کروانا ہے۔اس نے جواب دیا۔
باپ نے سمجھایا کہ تم اپنے دوست کا احسان کیوں لے رہے ہو۔ تو وہ بولا کہ جب انجینئر بن
جاؤں گا تو سب کچھ لوٹا دوں گا۔
شاہ زیب نے جس کالج میں داخلہ لیا، اس میں ابو کے ایک دوست بھی پڑھاتے تھے۔انہوں نے ابوکوآ کر بتایا کہ شاہ زیب پڑھنے کی طرف کم اور ایک لڑکی جس کا نام مونا ہے، اس کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے، ساتھ یہ بھی کہ وہ دونوں کالج میں کم اور کینٹین میں زیادہ پاۓ جاتے ہیں۔ ابو یہ جان کر خاموش ہو گئے تاہم انہوں نے اپنے بھائی کے کان میں یہ بات ڈال دی۔
چچا کو بہت غصہ آیا کیونکہ انہیں شاہ زیب سے یہ امید نہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بیٹے کو کم از کم ان کی عزت کا تو پاس رکھنا چاہئے۔ ایک دن چچا غصے میں گرج رہے تھے تو مجھے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا، تبھی میں دروازہ بجا کر اندر داخل ہوگئی۔ سب مجھے کو دیکھ کر خاموش ہو گئے ۔
بیٹھنے سے پہلے ہی بابا نے کہا کہ رانیہ بیٹا! چار کپ چائے بنالاؤ۔ یوں لگا جیسے مجھے باہر بھیجنے کا بہانہ بنایا ہو، چپ چاپ باہر نکل آئی۔
شام کو شاہ زیب آیا تو چاچو نے فورا اپنے کمرے میں بلالیا۔ اس کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ کس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مونا کون ہے؟ چاچو نے پوچھا۔ وہ حیران رہ گیا پھر ہچکچاتے ہوۓ کہا۔ میری دوست ہے۔
تمہاری دوستی بس کلاس تک ہونی چاہئے ، وہ تمہارے ساتھ ہوٹلوں میں کیا کرنے جاتی ہے۔۔۔ کم از کم تم کو میری عزت کا خیال کرنا چاہئے۔ جب تابڑ توڑ ایسے سوالات ہوۓ تو اس نے کہہ دیا۔ ابو! فکرمت کر میں، میں جلد ہی اس لڑکی کو آپ کی بہوبنا رہا ہوں۔
بیٹے کے اس بے حجابانہ جواب پر باپ نے حیران پریشان ہوکر اس کو دیکھا پھر چپ چاپ لیٹ گئے۔ شام کو شاہ زیب میری طرف آیا۔ اس نے کہا۔ رانی! میں نے واقعی تمہارے ساتھ غلط کیا ہے لیکن میں کیا کروں…… مجھے مونا بہت پسند ہے، یاد ہے جب فرسٹ ایئر کے امتحان کے بعد میں بری طرح ٹوٹ چکا تھا تو مونا ہی تھی جو میری مدد کو آئی ، اس نے یقین دلایا کہ وہ پوری طرح سے میری مدد کرے گی ، انجینرنگ میں داخلہ بھی اس نے کرایا، اب میں اس کے احسانوں تلے دب چکا ہوں، ان احسانات کو اتارنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ میں اس سے شادی کرلوں۔
وہ کہتا جارہا تھا ابھی میں نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا۔ مجھے پتہ ہے کہ تم مجھے پسند کرتی ہو لیکن رانیا مجھے یقین ہے تم اتنی اچھی لڑکی ہو کہ کوئی بھی لڑکا تم سے خوشی خوشی شادی کر لے گا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
میں واقعی مونا کو پسند کرتا ہوں۔ اس کے یہ الفاظ میرے کانوں میں برچھیوں کی طرح لگے۔ چیچ چیخ کر کہنا چاہتی تھی کہ تم مونا سے نہیں، اس کی دولت سے پیار کرتے ہولیکن آنسوؤں نے مجھے یہ کہنے کا موقع نہ دیا۔
ایک دن چاچی آئیں۔ بہت بجھی بجھی تھیں۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ امی نے حال احوال پوچھا تو بھی ان کی زبان نہ کھل رہی تھی۔ آخر کار گویا ہوئیں کہ میں رانیہ کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی۔ وہ معذرت کر رہی تھیں اور امی بت بنی ہوئی تھیں ۔ بس اسی قدر کہا کہ شاید اس کی قسمت اس گھر میں نہیں تھی۔ یہ کہہ کر آنسو چھپانے لگیں۔ چاچی نے بھی نظریں نیچی رکھیں تاکہ ان کے آنسوؤں کو نہ دیکھ سکیں۔
انہی دنوں میرارشتہ آ گیا۔ لڑکا سعودی عربی میں تھا اور وہاں اس کی اپنی ورکشاپ بھی تھی۔ امی شاید اسی انتظار میں تھیں، انہوں نے فورا ہاں کہہ دی۔ ایک ماہ بعد میں احمد کے گھر میں دلھن بن کر چلی گئی ۔
احمد بہت اچھے انسان تھے اور میری ساس تو مجھے بیٹی جانتی تھیں۔ آہستہ آہستہ میں شاہ زیب کے غم کو بھولنے گئی۔ دو سال گزر گئے ، میں دو بچوں کی ماں بن گئی ، اپنے میکے بہت کم جاتی تھی کیونکہ شاہ زیب کو دیکھ کر میرا غم تازہ ہونے لگتا تھا۔ امی بھی میرے جذبات سے واقف تھیں، اس لئے زیادہ تر وہ خود ملنے آجاتی تھیں ۔
پچھلے دنوں چاچی کی طبیعت خراب تھی۔ میں ان سے ملنے گئی تو شاہ زیب کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ دو خاصا بیمار لگ رہا تھا۔ اس کی بہن نے بتایا۔ آپ کی شادی کے بعد بھیا کو احساس ہوا کہ وہ آپ کو کھوکر کس قدر غریب ہو گیا ہے مگر ان دنوں دولت کی چاہ نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی ، بعد میں مونا سے ویسی چاہت نہ رہی جیسی پہلے محسوس ہوتی تھی تب انہوں نے اس کی جانب بھی توجہ کم کر دی ، مونا کا دل ٹوٹ گیا، انہی دنوں اس کے لئے ایک امیر لڑکے کا رشتہ آ گیا تو اس کے والدین نے دباؤ ڈال کر ہاں کرا دی ، وہ بھی شاہ زیب کے گر یز کومحسوس کر نے لگی تھی۔
اس کی بہن یہ سب بتا کر چلی گئی مگر میں وہاں بیٹھی سوچتی رہ گئی کہ دولت کی چاہت میں اندھے ہوکر جولوگ اپنے بچپن کے ساتھی کو گنوادیتے ہیں ،ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ خالی ہاتھی رہ جاتے ہیں۔
شاہ زیب میرے بچپن کا ساتھی….. پل پل میرا ساتھ نبھانے والا ۔۔۔۔۔ کیلا رہ گیا تھا۔ اس کی ہنسی ، شوخی سب کچھ ختم ہوگیا تھا، لٹا لٹا سا … اماں نے کئی لڑکیاں دکھائیں۔ بہن اور باپ نے سمجھایا کہ اب شادی کرلو، کیا بوڑھے ہوکر گے، جب بیوی آۓ گی خود ہی دل لگ جائے گا، بچے ہوجاتے ہیں۔ زندگی کا ایک مقصد بن جاتا ہے، آدمی خود بخود جینے کی آرزوکرنے لگتا ہے۔
ایسی باتیں شاہ زیب پر الٹا اثر کرتی تھیں۔ وہ خفا ہوجاتا یا پھر گھر سے نکل جاتا۔ ان دنوں چچی اس کیلئے بہت پریشان رہتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ وہ وقت کہاں سے لاؤں جب تم کو کھو دیا اور مونا اس کی زندگی میں آئی۔ اے کاش! اس سے بہتر تھا کہ یہ انجینئر نہ بنتا، انجینئر بن کر بھی کیا پایا، زندگی تو خالی کی خالی رہ گئی۔
دعا کرتی ہوں۔ خدا اسے سکون دے اور مجھے بھی سکون دے تا کہ ہم دونوں اپنی اپنی زندگی ایک دوسرے کے بغیر چین سے جئیں اور کبھی کوئی ہماری شرافت کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے۔