Monday, November 11, 2024

Sawan Kab Ayega?

نجانے کیا سوچ کر میرے والدین نے میرا نام خوب سیرت رکھا تھا، حالانکہ لوگ اپنی بیٹیوں کا نام خوبصورت ، حسینہ، سونی وغیرہ تو رکھتے ہیں مگر خوب سیرت نہیں رکھتے۔ شاید اس لفظ کی طرف نام رکھتے وقت انکا دھیان نہیں جاتا ہوگا۔ بہرحال والدین مجھے خوب سیرت دیکھنا چاہتے تھے۔ غالبا اسی سبب یہ نام ان کے ذہن میں آیا۔ ان دنوں ہم حیدر آباد دکن میں رہتے تھے، ہمارا شہر بہت خوبصورت اور لوگ بہت پیار کرنے والے تھے، میں اپنی ہم جولیوں کی پیاری اور بڑوں کی آنکھ کا تارا تھی۔ نانا کہتے کہ خوب سیرت اسم بامسمی ہے، ابا کہتے یہ ہماری مینا ہے جو گھر بھر میں چہکتی پھرتی ہے اور امی بلاتیں میری شہزادی گڑیا تو دوسرے گھر جا کر راج کرے گی۔ پھپھو اس پر اپنی ناک پر انگلی رکھ کر فرماتیں، کیا کہتی ہو بھائی جان، یہ تو گائے ہے، اور گائے کو جس کھونٹے سے باندھو بندھ جاتی ہے۔ میں چار بھائیوں اور دو بہنوں کی آپی اور نمبر ون پر تھی۔ میں سبھی کی آپا تھی۔ ہم سب بہن بھائی ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ صبح امی آواز لگاتیں تو سب کروٹیں لے کر آنکھیں موند کر پھر سوتے بن جاتے۔ پر جونہی ابا کی گرجدار آواز آتی ، ہر کوئی اپنے بستر سے کود کر غسل خانے کو دوڑتا۔ مگر میں جلدی سے اٹھ کر باورچی خانے کا رخ کرتی ۔ ہاتھ دھو کر منہ پر پانی کے چھپکے مارتی اور جلدی جلدی سب کے کپڑے پریس کرنے کو چل دیتی۔ امی کچن میں ہوتیں تو میں چھوٹی بہن کو تیار کرنے میں مدد کرتی اور امی جان ناشتہ تیار کر کے ایک ایک سینڈوچ سب بچوں کے بیگوں میں ڈالتیں۔ ایک بجے اسکول کی چھٹی ہوتی ، میں بہن بھائیوں کی فوج کو اکٹھا کرتی، پھر ہاتھ تھام کر گھر لاتی۔ امی دسترخوان لگاتیں اور میں بستہ رکھ کران کا ہاتھ بٹانے کو آجاتی، وہ کہتیں۔ خوب سیرت یونیفارم تو تبدیل کر لو۔ کھانا کھانے کے بعد سارے لوگ اپنے کمرے میں چلے جاتے اور میں مغرب تک امی کے ساتھ کام میں لگی رہتی، گھر کی صفائی ستھرائی کر کے اسے چمکا دیتی اور برتن دھو کر جمانے کے بعد پڑھنے بیٹھ جاتی- مہمان آتے تو امی اکیلی گھبرائیں، میں تسلی دیتی، گھبرایئے نہیں اماں، میں ہوں نا، چائے بناتی ، مٹر چاول پکاتی ، رس ملائی بناتی، کھیل کے وقت بہن بھائیوں کے ساتھ ہر کھیل کھیلتی اور رات ہونے پر بہن بھائیوں کو کہانیاں، لطائف نظمیں اور لوریاں سنا کر سلا دیتی۔ میرے والدین کے زندگی گزارنے کے اپنے چند اصول وضوابط تھے۔ وہ بچوں کو اسکول سے بالکل ناغہ نہیں کرنے دیتے تھے اور بچوں کو رات دس بجتے ہی بستر پر سونے بھیج دیتے تھے۔ چھٹی کے روز بھی صبح صادق کے وقت اٹھنے کو ترجیح دیتے اور دیر تک گھوڑے بیچ کر سونے کو نحوست گردانتے تھے۔ کھیل کے وقت کھیل پڑھائی کے وقت پڑھائی اور آرام کے وقت آرام کو پسند کرتے تھے۔ میں سادہ لوح طبیعت کی مالک تھی۔ امی جو پہننے کے لئے لباس لا کر دیتیں وہ پہن لیتی ، جو کھانے کو دیتیں وہ کھا لیتی ، دوسرے بچوں کی طرح ضد نہ کرتی اور غصہ تو آتا ہی نہ تھا، کلاس میں بھی اساتذہ کی ہر دل عزیز لائق بچی تھی۔ سادہ طبیعت کی بناء پر جماعت کی ہر دوسری بچی مجھے اپنی سہیلی بنانا چاہتی تھی۔ بہن بھائیوں کے ساتھ استانی جی سے سپارہ پڑھنے جاتی ، تو مجھے سب سے پہلے سبق یاد ہو جاتا۔ جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی شخصیت میں نکھار آتا جارہا تھا۔ سادگی معصومیت، بھولپن ، خوش اخلاقی کی بدولت سب ہی گردیدہ تھے۔ امی مجھے جو بھی نصیحت کرتیں وہ اپنے پلو کی گرہ میں باندھ لیتی تھی ۔ یہ صلاحیت تو اللہ تعالی کسی کسی انسان کو عطا کرتا ہے کہ وہ ازخود سمجھدار ہو اور سب کچھ سیکھ لے۔

جوں جوں عمر بڑھتی گئی، میری سیرت اور اخلاق بھی ازخود سنوارتے گئے ۔ پڑھنے کی لگن اور شوق کے باعث جو چیز والد صاحب سے کہتی وہ جھٹ پٹ حاضر کر دیتے، ابا جان کا کہنا تھا کہ میری یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے۔ یہ ضرور زندگی میں کچھ نہ کچھ بنے گی اور نہیں تو اپنے گھر جا کر بابل کی لاج نباہے گی اور اپنے گھر کو چار چاند لگائے گی۔ والدین کی دعا، اپنی محنت و لگن سے گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ اچھا رشتہ آنے پر نسبت طے کرنے میں بھی والدین نے دیر نہ کی۔ انہیں مجھ پر اعتماد تھا کہ گھرداری ، گھر کی سجاوٹ، کھانا پکانا، سلائی کڑھائی ، سب سے حسن سلوک ، یہ سب صفات میری شخصیت میں موجود ہیں۔ پھپھو کہتی کہ خوب سیرت کے سسرال والے نصیب والے ہوں گے کہ اتنے گنوں والی لڑکی ان کے یہاں بہو بن کر جائے گی۔ منگنی ہوتے ہی منگیتر کا باہر کا ویزا لگ گیا ، ساس کہتیں کہ بڑی بھاگوان ہے۔ منگنی ہوتے ہی میرے بیٹے کی اتنی مشہور کمپنی میں ملازمت ہوگئی ہے۔ منگنی کے دو سال بعد اصغر خوب کما کر لوٹے اور میں پیا دیس سدھار گئی۔ خوب دھوم دھام، بڑھی چاہتوں اور ارمانوں سے شادی ہوئی ، سرال کی اصل چاہت اور اپنائیت کا اندازہ تو شادی کے بعد ہی ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ لوگ بہو کو بیٹی بنا کر گھر لاتے ہیں۔ اپناپن اور اپنائیت پاکر لڑکیاں سسرال میں گھل مل کر سسرال کو ہی اپنا میکہ سمجھ کر بابل کے دیس کو بھلا پاتی ہیں اور سرال ہی کو بابل کے دیس میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ شوہر کے والد کو اپنے بابل اور شوہر کی ماں بہن بھائیوں کو اپنے بہن بھائیوں کی طرح سمجھتی ہیں اور ان کا خیال اپنے والدین، بہن بھائیوں کی طرح رکھتی ہیں۔ جواباً محبت اپنائیت پا کر لڑکی کو اپنے پیا کا دیس پیارا لگنے لگتا ہے۔ تبھی لڑکی ہر غم و خوشی ہنسی خوشی جھیل کر اپنی زندگی پیا سنگ گزار دیتی ہے- صورتحال برعکس ہو تو بھی لڑکی ہی کو ایڈجسٹمنٹ کر کے ان کو اپنا بنانے کے لئے ان کے رنگ میں ڈھل جانا ہوتا ہے۔ یعنی معاملہ یوں چل پاتا ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس یا تو کسی کو اپنا لو یا کسی کے ہو جاؤ ۔ ظاہر ہے کہ صدا ہی جھک کر ہی بھرا کرتی ہے پیمانہ- سسر بھی میرا بہت خیال رکھتے۔ میں ان کو والد کی طرح ہی مان دیتی، بڑے جیٹھ کو بھائی جان، دیور کو بھائی ، نندوں کو باجی اور چھوٹی نند کو چھوٹی بہن کی طرح مانتی ، جیسے اپنے بہن بھائیوں کا خیال کرتی تھی ویسے ہی اپنے شوہر کے بہن بھائیوں کو اپنا سمجھتی تھی۔ سسرال چونکہ دوسرے شہر میں تھا تو کہتی کہ سسرال ہی میرا میکہ ہے۔ ساس اپنے آپ کو امی تو کہلواتی تھیں لیکن اپنے ڈھکے چھپے طنزیہ فقروں سے بہو کی نوک پلک درست کرتی رہتی تھیں اور اپنے منہ میاں مٹھو بنتی تھیں کہ میری جیسی ساس کسی کی نہ ہوگی جو بہو کو بیٹی کی طرح چاہتی ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں۔ بات بات میں ہمارے ابا کے گھر سے اپنے گھر کا مقابلہ کرتی رہتیں کہ ہمارا جو سلیقہ ہے وہ تمہارے ہاں کہاں؟ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ والا حساب تھا۔ یا تو اتنا اچھا رویہ ہوتا کہ میں سمجھتی کہ امی جان اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر مجھ کو چاہتی ہیں اور بعض دفعہ اتنا روکھا رویہ کہ میں دیکھتی رہ جاتی۔ کھانا پکانے کھڑی ہوتی تو میرے ہاتھ سے لے لیتیں کہ بے برکت کر دیتی ہو، ڈھیروں روٹیاں پکوا کر بھی کہتیں کہ روٹی تو جلی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے روٹی کھانے کا کیا مزہ ، اس سے تو کچی ہی کھا لیتے، گھر پر فون لگوانے کی بات ہوتی تو کہتیں پھر تو خوب سیرت کے مزے ہو جائیں گے ہر وقت اپنی ماں سے لگی رہے گی باتوں میں۔

میں ان کے منفی رویے کو دیکھتی تو امی جان کے نصیحتوں کے پوٹلے کی گرہیں کھلنا شروع ہو جاتیں۔ جو ماں وقتا فوقتا میرے پلو سے باندھتی رہتی تھیں کہ شوہر کا احترام کرنا شوہر کے والدین اور بہن بھائی اب تمہارے والدین اور بہن بھائی ہیں۔ لڑکی کا اصل گھر اس کا سسرال ہوتا ہے، بابل کا گھر تو پردیس ہوتا ہے، ایک چپ سوسکھ، غرض ساس کی باتوں کا برا منائے بغیر ان کی کھٹی میٹھی باتیں سنتی اور ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال کر بے پرواہ ہو جاتی ۔ گھر کے کاموں میں لگ جاتی ۔ سسر کی خدمت ساس کی سیوا، جیٹھ جٹھانی کا احترام چھوٹی نند اور دیور سے شفقت، غرض جو بن پڑتا کرتی جاتی، پھر بھی کسی کو شکایت ہوتی تو اللہ توکل کر کے اگلے دن سے پھر دلوں کی تسخیر کرنے کی مہم میں جت جاتی، بابل کے دیس کی، یادیں میرے ارد گرد منڈلاتیں تو چپکے سے دو آنسو بہا کر صبر کر لیتی ۔ رب کی مرضی میں خود کو راضی کر کے صابر و شاکر رہنے سے اللہ تعالی نے آخر سن لی۔ اصغراب کی آئے تو میرا ویزا بھی لائے اور مجھے ساتھ لے جانے کا مژدہ سنایا، وہاں ان کے عربی کفیل نے ان کو عمدہ رہائش دے دی تھی۔ اس کو بھی میں نے اپنی خوش نصیبی سمجھا۔ یہاں بھی کفیل کے اہل خانہ سے خوش اخلاقی برتی ان کی زوجہ کے کام آنا، خندہ پیشانی کے ساتھ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹا دینا۔ غرض زندگی کی کڑواہٹ ، حلاوت میں تبدیل ہوتی گئی۔ جیسی سسرال میں تھی، یہاں بھی وہی خدمت گزاری سلیقہ شعاری، بڑوں کا ادب بچوں سے شفقت، نماز روزے کی پابندی اور اپنے حسن سلوک سے ان اجنبیوں کے دلوں کو جیت لینے میں جتی تھی تا کہ خاوند کی کامیابی اور تنخواہ میں اضافہ ہوتا رہے اور ہمارا مقدر بنتا رہے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا جاتا تھا اور میں ان اجنبیوں کے دلوں میں گھر کرتی جاتی تھی۔ کفیل کی بیوی میری تعریف کرتے نہ تھکتی تھی اور وہ میرے بغیر کہیں آتی جاتی نہ تھی۔ بابل کا دیس چھوٹے ایک عرصہ بیت گیا تھا، اللہ تعالی نے اولاد کی دولت سے نہیں نوازاتھا۔ خدا کی کرنی اچانک اصغر کا وہاں حادثے میں انتقال ہو گیا، ادھر کفیل کی بیوی اس حد درجہ بیمار ہوگئی کہ اس کی دیکھ بھال گھر بار کا انتظام اور ان کو سنبھالنے والا میرے جیسا اور کوئی نہ تھا۔ بیوگی میں انہوں نے اصرار کر کے روکے رکھا، اور قدردانی بھی کرتے تھے کہ اب تو میں ان کی بھی مجبوری بن گئی تھی۔ مال و دولت کے ڈھیر دینے کو تیار مگر یہ سب کیا کرتی ۔ ماں باپ بہن بھائیوں سے جدائی تڑپاتی سو الگ، اور اصغر کی وفات سے دل زخمی سو الگ مگر وہ کسی صورت جانے نہ دیتے تھے کفیل کہتے تھے کہ تم چلی گئیں تو تم جیسی اور نہیں مل سکتی۔ میرے بچے سخت پریشان اور رنجیدہ ہوں گے۔ میری بیوی کا کون سہارا ہوگا۔ جیسے تم اسے اٹھاتی بٹھائی کھلاتی ہلاتی، دیکھ بھال کرتی ہو، میں اگر ساری دولت بھی حوالے کر دوں تو کوئی دوسرا ایسا نہیں کرے گا۔ جو خلوص تمہارے پاس ہے یہ دولت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ میری بیوی کے تندرست ہو جانے تک تم نہیں جاسکتیں۔ اس کی بیوی کی بیماری ایسی نہ تھی کہ تندرست ہوتی وه تو روز بہ روز لاغر ہو رہی تھی بالآخر موت نے اس کو بیماری کی اذیت سے نجات دلا دی۔

اب میں نے کفیل کو وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے کہا تھا کہ جب یہ ذمہ داری پوری ہو جائے گی تو پھر تم وطن جاسکوں گی۔ اب میری واپسی کا انتظام کیجئے۔ اس کے بچے مجھ سے لپٹ گئے اور رونے لگے۔ تب اس نے کہاں ، ان معصوموں کی محبت دیکھو اور ان کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ مجھ سے نکاح کر لو تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا۔ ساری دنیا کی سیر کرواؤں گا۔ کہو گی تو تمہارے گھر والوں کو بھی مالا مال کر دوں گا۔ میں نکاح ثانی نہ کرنا چاہتی تھی۔ اپنے بابل کے دیس لوٹ کر جانا چاہتی تھی۔ مدت ہوگئی تھی اپنوں کو دیکھے وہاں میں جابسنا چاہتی تھی مگر کفیل نے ایسا نہ ہونے دیا اور مجھ کو اس کے ساتھ نکاح ثانی کرنا پڑا۔ ایک گھر اور بہت زیادہ دولت مند سہاگ تو مل گیا ۔ ماں باپ سے ملاقات پھر بھی نہ کر سکی البتہ کفیل نے میرے والدین کو کافی رقم بھیجوائی اور نکاح کی اجازت بھی میرے والد صاحب سے لی۔ والدین سے ملاقات شاہد یہ خوشی میرے نصیب میں نہ تھی۔ پیا کے دیس میں بھی اپنائیت اور محبت بھری یادیں مجھے پکارتی رہ گئیں۔ وہاں بھی نہ جاسکی۔ سسرال بھی تو لڑکی کو میکے جیسا لگتا ہے۔ شوہر کے والدین، بہن بھائی اپنے والدین بہن بھائی بن جاتے ہیں۔ میں تو جب اصغر کے گھر والوں کو یاد کرتی ، تب بھی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے تھے۔ تب سوچتی تھی ماں باپ کی دعائیں قبول تو ضرور ہوئیں کہ ہماری بیٹی لاکھوں میں کھیلے اور سونے سے پیلی ہو۔ آج سیروں سونے کے زیورات میرے پاس ہیں، لاکھوں کی قیمتی گاڑیوں میں بیٹھتی ہوں، ابرو کے ایک اشارے پر خادمائیں دوڑتی چلی آتی ہیں۔ خدا نے بچے بھی دیئے۔ میری کوکھ کے نہ سہی مجھ سے پیار ایسا کرتے ہیں کہ ممتا کی تشنگی باقی نہیں رہی لیکن اپنوں سے دوری کا دکھ کلیجہ کھاتا رہتا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ جو گن تم میں ہیں کفیل نے انہی تو جانچا اور پسند کیا ہے۔ بے شک لڑکی اپنے حسن سلوک سے ہی اپنے شوہر کے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے اور پرسکون زندگی کا سبب بنتی ہے۔ کفیل کا گھر بھی میری وجہ سے خوشیوں کا مسکن ہے مگر کچھ چیزیں جو قسمت میں نہ ہوں، لاکھ خوشیاں پانے کے باوجود انسان ان کو اپنی مرضی سے حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنوں سے دوری بھی ایک محرومی ہوتی ہے جس کو ایک عورت کبھی نہیں بھلا سکتی۔

Latest Posts

Related POSTS