خبر ہی ایسی تھی کہ صدف کے ہاتھ سے موبائل فون گرتے گرتے بچا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ زمین گھوم رہی ہے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگا ہے۔ اس کے لیے کھڑا رہنا مشکل ہورہا تھا، جسم میں جیسے جان ہی نہیں رہی تھی۔ صدف نے گرتے گرتے کرسی کو پکڑا اور پھر اسی کرسی پر بیٹھ گئی۔ دوسری طرف بدستور ’’ہیلو… ہیلو…‘‘ کی آوازیں آرہی تھیں، لیکن صدف کے لیے بات کرنا مشکل ہوگیا تھا اور اس نے موبائل فون ایک طرف رکھ دیا اور آنکھوں سے نکلنے والے آنسوئوں کو روکنا بھی اس کے اختیار میں نہیں رہا تھا۔
ابھی دبئی سے فون آیا تھا کہ اویس کار ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوگیا ہے اور اس وقت وہ اسپتال میں ہے۔ صدف کے لیے یہ خبر بجلی بن کر گری تھی اور وہ شدت غم میں مبتلا ہوگئی تھی۔
اویس اور صدف آپس میں کزن تھے اور یہ رشتے داری پہلے دوستی میں تبدیل ہوئی پھر دونوں نے منگنی کرلی۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے، وہ ایک دوسرے سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ صدف کا باپ ایک بزنس مین تھا لیکن اویس کے مقابلے میں وہ آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ اویس کا کاروبار دوسرے ممالک میں بھی پھیلا ہوا تھا، اس کے پاس بے حساب دولت تھی لیکن اتنے وسیع کاروبار کا وہ تنہا وارث تھا۔ دو سال قبل اس کے والدین چھ ماہ کے فرق سے اسے چھوڑ کر آسمانوں کی بلندیوں پر بسیرا کرچکے تھے۔ اتنی بڑی جائداد، کاروبار اور دولت کے وارث کو بھلا کون رشتہ نہ دیتا۔ اویس اور صدف ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، اس بات کا خاندان کے سبھی لوگوں کو پتا تھا لیکن اس کے باوجود خاندان کی لڑکیوں کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح اویس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور صدف کی جگہ انہیں مل جائے لیکن کسی کو صدف کی جگہ تو دور کی بات اس کے سائے تک بھی رسائی نہیں مل سکی۔
اس وجہ سے خاندان کی لڑکیاں صدف سے حسد کرتی تھیں۔ کچھ اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھیں اور کوئی اسے طنز کا نشانہ بھی بنادیتی تھی۔ صدف ہر بات کو مسکرا کر ٹال دیتی تھی۔
اویس اپنے کاروبار کے سلسلے میں دبئی گیا ہوا تھا۔ اُن دنوں جب بھی اویس کے پاس فرصت کے لمحات ہوتے ایک دوسرے سے بات ہوتی تھی۔ ویسے بھی ان کی اگلے ماہ شادی تھی، دبئی جانے سے پہلے اویس شادی کا دن مقرر کرکے گیا تھا۔
اب صدف کو اویس کے حادثے کی اطلاع ملی تو وہ غم میں نڈھال ہوگئی تھی۔ اس کی امی کمرے میں آئیں تو اس نے دیکھا کہ صدف بیٹھی رو رہی ہے۔ اس کی امی کے بار بار پوچھنے پر صدف نے ہچکیوں کے درمیان بتایا کہ اویس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ یہ خبر اس کی امی کے لیے بھی بہت درد ناک تھی۔
ایک گھنٹے کے اندر پورے خاندان میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ اویس کو دبئی میں حادثہ پیش آگیا ہے۔ سب نے خبر سن کر زبان سے افسوس کا اظہار کیا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ہر کوئی یہ کہنا چاہتا ہو کہ اچھا ہوا صدف کی نظر اب زمین پر آجائے گی۔ حالانکہ صدف نے اس رشتے پر تکبر کی بجائے محض رشک کیا تھا۔
صدف چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ اڑ کر دبئی چلی جائے لیکن اس کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ حالانکہ اویس نے اسے کئی بار کہا تھا کہ وہ اپنا پاسپورٹ بنوالے کیونکہ شادی کے بعد انہیں ورلڈ ٹور پر ہنی مون کے لیے جانا ہے۔ صدف کی کاہلی ہر بار مانع رہی۔ اب اسے شدت سے احساس ہورہا تھاکہ اس نے اویس کی بات کیوں نہ مانی۔
صدف کا باپ اپنے ملک میں ہی کاروبار کرتا تھا کبھی بیرون ملک گیا تھا اور نہ اسے بیرون ملک جانے کی ضرورت پڑی تھی، اس لیے وہ اویس کی تیمار داری کے لیے نہیں جاسکتا تھا۔
صدف کا خاندان محض اب دعا ہی کرسکتا تھا۔ اویس کے دوست کے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ تھا، وہ بتارہا تھا کہ اویس کا آپریشن ہورہا ہے۔ شام کو اس نے اطلاع دی کہ اویس کا آپریشن ہوچکا ہے اور اس کی حالت بہتر ہے، کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے صدف کے لیے ہر لمحہ کانٹوں پر گزارنے کے مترادف تھا، اس کی ابھی تک اویس سے بات نہیں ہوئی تھی۔ حادثے کے چند دن بعد اویس نے صدف سے بات کی تو اس کی آواز سے نہیں لگ رہا تھا کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھا اور ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا۔ ’’مشکلوں کا اگر ہمت اور بہادری سے مقابلہ نہ کیا جائے تو پھر یہ مشکلیں انسان پر غالب آجاتی ہیں۔ دیکھو میں نے ہمت سے کام لیا ہے، اس حادثے کو بہادری سے سہا ہے، تم بھی ہمت سے کام لو، میں بہت جلد واپس آجائوں گا۔‘‘
’’میرے لیے وقت گزارنا مشکل ہورہا ہے، میں سونہیں سکتی مجھے ہر وقت تم یاد آتے ہو۔‘‘ صدف نے کہا۔
’’اب میں بالکل ٹھیک ہوں، اگلے ہفتے میں تمہارے پاس ہوں گا۔‘‘ اویس نے تسلی دی۔
’’کاش میں تمہارے پاس آسکتی۔‘‘ صدف کی آواز میں تاسف تھا۔
’’تم میرے پاس ہی ہو، ہر لمحہ میرے پاس ہو۔‘‘ اویس نے یقین دلایا۔
’’مجھے تمہاری فکر رہتی ہے۔‘‘
’’اب سب ٹھیک ہے، تم حوصلہ رکھو، میرے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، بس خراشیں آئی ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپریشن کس چیز کا ہوا تھا؟‘‘ صدف نے فوراً پوچھا۔
’’میرے دوست نے خواہ مخواہ آپریشن کا نام دے دیا، وہ محض میری ڈریسنگ تھی مجھے ہلکی چوٹیں آئی ہیں، ان کو ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا، تب تک میں اسپتال میں ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں اگلے ہفتے واپس آجائوں گا۔‘‘ اویس کا لہجہ پراعتماد تھا۔
’’مجھے شدت سے انتظار ہے۔‘‘
’’ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق شادی کریں گے۔‘‘ اویس نے کہا۔
’مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔‘‘ صدف نے کہا دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ صدف نے کہا۔ ’’ہیلو… ہیلو اویس۔‘‘
’’ہاں میں موجود ہوں۔ ذرا پانی پینے کے لیے رکا تھا۔‘‘ اویس کی آواز میں کچھ اداسی آگئی تھی جو صدف کو محسوس نہیں ہوئی تھی۔‘‘ ٹھیک ہے ہم پھر بات کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب میرے کمرے کی طرف آرہے ہیں۔‘‘
صدف کی دو دن تک اویس سے بات نہیں ہوئی، صدف مضطرب رہی اور ہر پل اس کے فون کا انتظار کرتی رہی۔ جب وہ خود اویس کو فون کرنے کی کوشش کرتی تو اویس کا فون بند ملتا، پھر تیسرے دن اچانک اویس کا فون آگیا۔
’’تم کہاں چلے گئے تھے؟ تمہارا فون مسلسل بند جارہا تھا؟ میں پریشان ہوگئی تھی۔ مجھے بہت سی سوچوں نے گھیرلیا تھا۔‘‘ جونہی اویس کی آواز اس نے سنی وہ یکدم بولی۔
’’ارے سانس تو لے لو، ایک ہی سانس میں گلے شکوے شروع کردیے، میں اسپتال سے گھر منتقل ہوگیا ہوں، ڈاکٹر نے مجھے فون سننے سے منع کردیا تھا۔‘‘ اویس مسکرادیا۔
’’کیوں منع کیا تھا؟‘‘
’’بھئی وہ ڈاکٹر ہیں مجھے کسی بات سے بھی منع کرسکتے ہیں۔‘‘ اویس کے لہجے میں شوخی تھی۔
’’تم واپس کب آرہے ہو؟‘‘
’’بس ایک ہفتے کے بعد۔‘‘ اویس بولا۔
’’اتنے دن ہوگئے ہیں، مجھے برا لگتا ہے کہ تم مجھے اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کررہے ہو۔‘‘ صدف کو بے چینی ہونے لگی۔
’’میں تم سے بھلا کیوں کچھ چھپائوں گا، تم میری زندگی اور میری سانسوں میں بستی ہو۔‘‘
’’اتنا رومانٹک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’صدف تم مجھ سے اب بھی شادی کروگی؟‘‘ اویس کے لہجے میں متانت تھی۔
’’اب بھی سے کیا مراد ہے تمہاری؟‘‘ صدف بھی سنجیدہ ہوگئی۔
’’مطلب اب بھی۔‘‘ اویس کے لہجے میں کوئی تغیر نہیں آیا۔
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو اویس؟‘‘ صدف کا چہرہ سنجیدگی میں ڈوب گیا تھا۔
یکدم دوسری طرف سے اویس کے ہنسنے کی آواز آنے لگی۔ صدف کو اس وقت اس کی ہنسی بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
’’تم ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘ صدف کو غصہ آنے لگا۔
’’تمہیں اپنے لیے پریشان دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور مجھے کبھی نہیں چھوڑوگی، ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی، میرا سہارا بن کر… اور میری آنکھیں بن کر۔‘‘
’’تم مجھے پریشان کررہے تھے اویس؟‘‘ صدف نے منہ بنایا۔
’’بس ایسے ہی چھیڑ رہا تھا۔‘‘ اویس نے کہا۔
’’ایک بار تم واپس آجائو، پھر سارے بدلے لے لوں گی۔‘‘ صدف نے بھی غصہ دکھایا اور پھر دونوں باتوں میں کھوگئے۔
کئی دن گزرگئے تھے لیکن اویس واپس نہیں آیا۔ دوسرے، تیسرے دن ان کی بات ہوجاتی تھی لیکن واپسی کے سوال پر اویس کوئی نہ کوئی عذر پیش کردیتا تھا۔ صدف کو یقین تھا کہ اویس اس سے کچھ نہیں چھپارہا ہے وہ واپس نہ آنے کی جو مجبوری بتاتا ہے یقیناً وہ صحیح ہوگی۔
صدف کی ایک کزن رخسانہ تھی، وہ امیرکبیر باپ کی بیٹی تھی اور اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اویس کی زندگی کی ہمسفر بنے۔ اس کے لیے اس نے اویس کو متاثر کرنے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلے تھے اور جب اویس ٹس سے مس نہیں ہوا اور اس کی منگنی صدف سے ہوگئی تھی تو سب سے زیادہ غصہ اور حسد رخسانہ کو ہی ہوا تھا۔
ایک دن وہ مارکیٹ میں صدف کو مل گئی، اس نے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اچانک سوال کردیا۔ ’’اویس واپس کیوں نہیں آرہا ہے؟‘‘
’’کچھ مجبوریاں ہیں شاید اس لیے۔‘‘ صدف نے غیر واضح جواب دیا۔
’’مجبوریاں وہ تمہیں بتاتا ہے؟‘‘ رخسانہ نے اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
’’ظاہر ہے مجھے اور کون بتائے گا۔‘‘ صدف بولی۔
’’وہ تمہیں بس مجبوریاں ہی بتاتا ہے یا کوئی اندر کی بات بھی بتاتا ہے۔‘‘ رخسانہ کے لہجے میں تمکنت تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ صدف نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’آئو میں تمہیں ڈراپ کردوں۔ گاڑی میں باتیں بھی کرلیں گے۔‘‘ رخسانہ نے اپنی کار کا لاک کھولا تو صدف سوچنے لگی کہ اب اس کے ساتھ بیٹھنا ہی پڑے گا۔ جانے اس کے دل میں کیا تھا، وہ کونسی ایسی بات تھی جس کا رخسانہ کو پتا تھا لیکن اس کے علم میں نہیں تھی۔
رخسانہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ صدف نے بھی اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور اس کی برابر والی سیٹ پر براجمان ہوگئی۔ رخسانہ کار اس جگہ سے نکال کر سڑک پر لے گئی جبکہ صدف مضطرب تھی کہ رخسانہ اپنی بات اس پر واضح کردے۔
کچھ آگے جاکر صدف نے پوچھا۔ ’’تم نے اپنی بات کی وضاحت نہیں کی۔‘‘
اس کی بات سن کر رخسانہ مسکرائی، وہ اس کی بے چینی سے دل ہی دل میں لطف اندوز ہورہی تھی۔
’’اب میں کیا بتائوں؟ کل کو اگر میری بات جھوٹی ہوگئی تو تم مجھے برا بھلا کہو گی کہ میں نے تم سے غلط بیانی کی تھی، اس لیے میرے منہ سے جو بات نکل گئی ہے
میرا خیال ہے مجھے اس کی وضاحت نہیں کرنی چاہئے اور اویس کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے۔‘‘ رخسانہ نے جان بوجھ کر بات کو طوالت دینے کی کوشش کی تاکہ صدف کی بے چینی مزید بڑھ جائے۔
’’تم نے کوئی بات سنی ہے؟‘‘ صدف نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ رخسانہ نے کہہ کر اثبات میں سر ہلایا۔
’’کیا بات سنی ہے؟‘‘ صدف کے چہرے پر اضطراب تھا۔
’’چھوڑو… ایسے ہی کل تم مجھ کو کوسو گی اور اگر بات سچ ہے تو پھر اویس کو تمہیں خود بتادینا چاہئے تھا، آخر وہ تم سے محبت کرتا ہے اور تمہارے لیے اس نے خاندان کی خوبصورت اور تم سے کہیں زیادہ دولت مند لڑکیوں کو ٹھکرایا ہے۔‘‘ رخسانہ کے لہجے میں تمسخر بھی تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ اسے اپنے دل میں سلگتی آگ کی تپش میں مبتلا کرنا چاہتی ہو۔
’’تم نے مجھے یہ کہنے کے لیے اپنے ساتھ بٹھایا تھا؟‘‘ اس کی بات سن کر صدف کو غصہ آگیا۔
’’یہ ایسے ہی میرے منہ سے ایک بات نکل گئی، میرا کوئی خاص مطلب نہیں تھا۔‘‘ رخسانہ نے فوراً بات گھمائی۔
’’مجھے تم اسی جگہ اتار دو میں رکشہ میں چلی جائوں گی۔‘‘
’’اتنا غصہ آگیا ہے؟‘‘ رخسانہ کے الفاظ پھر طنز میں ڈوب گئے۔ ’’ہاں بھئی غصہ تو تم کرو گی ہی کیونکہ تم ہمارے خاندان کے سب سے امیر کبیراور جائداد کے اکلوتے وارث کی منگیتر ہو۔‘‘
’’رخسانہ کیا تم گاڑی روک رہی ہو؟‘‘ وہ سخت لہجے میں بولی۔
’’کیا تم سننا نہیں چاہو گی کہ خاندان میں یہ بات ہر ایک کی زبان پر ہے کہ اویس اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکا ہے۔‘‘ رخسانہ نے یکدم کہا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا، اس نے پراحتجاج لہجے میں کہا۔ ’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘
’’خدا کرے کہ یہ جھوٹ ہو، میں نے تم سے سنی سنائی بات کی ہے، حقیقت کا تو خود مجھے بھی علم نہیں۔‘‘ رخسانہ نے کندھے اچکائے۔
صدف چپ ہوگئی، رخسانہ کا یہی مقصد تھا کہ صدف غمزدہ ہو۔ اس نے کن انکھیوں سے صدف کا اداس چہرہ دیکھا اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاکر دوسرے ہی لمحے معدوم کی اور بریک لگا کر بولی۔ ’’تمہارا گھر آگیا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر صدف چونکی اور کار سے باہر نکل کر اس کا شکریہ ادا کیے بغیر اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مستغرق تھی کہ اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ وہ رخسانہ کو ایک کپ چائے پینے کی ہی پیشکش کردے۔ رخسانہ مسکرائی اور اس جگہ سے چلی گئی۔
٭…٭…٭
صدف کا اویس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا، تین دن گزر گئے تھے، وہ بہت اداس تھی۔
اچانک اویس کا فون آگیا، صدف نے جلدی سے فون کان سے لگایا اور غصے سے بولی۔ ’’کہاں چلے جاتے ہو تم؟‘‘
’’کہیں گیا، نہیں بلکہ آیا ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے اویس کی نرم آواز آئی۔
’’کہاں آئے ہو؟‘‘
’’اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ اس وقت میں اپنے گھر سے بات کررہا ہوں۔‘‘ اویس نے یہ بتا کر اسے ششدر کردیا۔
’’تم اچانک واپس آگئے… میں ابھی آتی ہوں۔‘‘
’’لیکن تم اکیلی آنا ابھی کسی کو ساتھ لے کر نہ آنا۔‘‘ اویس نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کی بات سن کر صدف کو حیرت ہوئی۔
’’اس کا جواب میں یہاں دوں گا۔ اور دیکھو تمہارے گھر کے باہر میرا ڈرائیور کھڑا ہے، تم اس کے ساتھ اکیلی آجائو۔‘‘ فون بند ہوگیا تھا۔ صدف نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ڈرائیور کار لیے موجود تھا۔
صدف نے اپنی امی کو بتایا اور ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی، وہ اویس سے ملنے کے لیے بہت بے چین تھی۔ جب کار اویس کے وسیع گھر کے گیراج میں داخل ہوئی تو صدف جلدی سے کار سے باہر نکلی اور اندر چلی گئی۔ سامنے اویس کی ملازمہ کھڑی تھی، اس نے بتایا کہ اویس اپنے بیڈروم میں ہے۔
صدف اس کے بیڈروم کی طرف چلی گئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو اویس کو دیکھ کر اسی جگہ رک گئی۔ اس کے سامنے اویس کرسی پر براجمان مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ صدف کی نظریں اس کی ٹانگوں سے ہوتی ہوئی اس کے سرتک چلی گئیں۔ اویس بالکل تندرست اور پہلے جیسا دکھائی دے رہا تھا، بس اس کے سر کے بال چھوٹے ہوگئے تھے۔
’’دیکھو میری ٹانگیں سلامت ہیں۔ مجھے پتا چلا تھا کہ خاندان میں یہ افواہ اڑی ہے کہ میری ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں اور میں زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوگیا ہوں۔‘‘ اویس اپنی جگہ سے اٹھا وہ کرسی کے گرد چلا اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں تمہارے سامنے آکھڑی ہوں۔‘‘ صدف خوشگوار حیرت سے چلتی ہوئی اس کے پاس آگئی۔
’’بیٹھ جائو صدف۔‘‘ اویس نے کہا اور صدف اس کے ساتھ رکھی دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ مسلسل اس کی طرف دیکھے جارہی تھی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’مجھے اچھی طرح دیکھ لو، صدف میرے جسم پر اس وقت کوئی پٹی نہیں ہے، میرے جسم کی ہڈیاں بالکل ٹھیک ہیں، میرے جسم پر آئی ہوئی خراشیں بھی ٹھیک ہوگئی ہیں، میں چل سکتا ہوں، بول سکتا ہوں، اپناکام کرسکتا ہوں اور یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میں نے تم کو فون کیا ہے… میں تم سے ملنا چاہتا تھا، میں چاہتا تھا کہ سب سے پہلے تم میرے پاس آئو۔‘‘
’’اسی لیے تم نے مجھ اکیلی کو بلایا تھا؟‘‘
’’ہاں… جانتی ہو کہ ہم نے شادی کی تاریخ مقرر کی تھی۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ صدف نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کونسی تاریخ؟‘‘ اویس نے مسکرا کر پوچھا۔
’’بائیس تاریخ۔‘‘ صدف نے بتایا۔
’’آج اکیس ہے۔ کل ہماری شادی ہے۔‘‘ اویس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی اور صدف نے خوشگوار حیرت سے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں چھپالیا۔
’’مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔‘‘ وہ شرمیلے لہجے میں بولی۔
’’کیا تم مجھ سے شادی کرنا بھول گئی ہو؟‘‘
’’اس حادثے کی وجہ سے میں اتنی پریشان رہی ہوں کہ میں سب کچھ بھول گئی، بس تم یاد رہے۔‘‘ صدف بولی۔
’’تو کیا تم کل میرے ساتھ شادی کرو گی؟‘‘ اویس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
صدف کچھ شرمائی اور مسکراتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
اویس نے کہا۔ ’’تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘
’’میں نے سر ہلایا تو ہے۔‘‘ صدف نے کہا۔
’’سر ہلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے بتائو کہ تم کل مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘ اویس بولا۔
’’ہاں کل میں تم سے شادی کروں گی۔‘‘ صدف نے واضح الفاظ میں جواب دیا۔
’’سوچ لو صدف تم کل مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘ ایک بار پھر اویس نے پوچھا۔
’’اس میں سوچنا کیا ہے، یہ ہمارا اور میرے والدین کا فیصلہ تھا جو ہم کل نبھائیں گے۔‘‘ صدف بولی۔
’’جانتی ہو صدف اچانک حادثہ ہوا اور میں اسپتال پہنچ گیا۔ میرے سر پر شدید چوٹیں آئیں، مجھے ایسا لگا جیسے میں مفلوج ہوگیا ہوں… جیسے میں زندہ تو رہوں گا لیکن میرا شمار زندوں میں نہیں ہوگا۔‘‘
’’تم ایسا کیوں سوچتے تھے اویس؟‘‘
’’ایسی سوچوں نے چاروں طرف سے گھیر کر مجھے اندھیروں میں دھکیل دیا تھا، اچانک مجھے تم یاد آئیں، پھر جیسے میری مردہ رگوں میں توانائی بھرنے لگی… جیسے مجھے توانائی ملنے لگی، جیسے اندھیرے دور ہونے لگے ہوں اور ایک سوچ نے میری تمام سوچوں کو دور دھکیل دیا کہ جب تم میرے ساتھ ہو تو مجھے کس بات کی فکر ہے۔‘‘
’’میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں اویس۔‘‘ صدف نے پیار بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اویس اپنی جگہ سے اٹھا اور دو قدم چل کر رک گیا، پھروہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اور اپنا ہاتھ دروازے کے ہینڈل کی طرف گھمایا۔ صدف اس کی طرف انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ اویس کا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر جانے کی بجائے کچھ فاصلے پر چلا گیا اور اویس نے ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے دروازے کا ہینڈل تلاش کیا تو صدف کا مسکراتا چہرہ یکدم حیرت میں ڈوب گیا… اسی اثناء میں اویس نے گھوم کر صدف کی طرف دیکھا۔
’’صدف تم نے دیکھا کہ میں دروازے کے ہینڈل کو نہیں دیکھ سکا… جانتی ہو کیوں؟ اس لیے کہ اس حادثے میں میری آنکھیں ہمیشہ کے لیے چلی گئی ہیں۔ میں تمہیں یہ سچائی دکھانے کے لیے دروازے تک گیا تھا۔ میں اب کبھی نہیں دیکھ سکوں گا… میں اندھا ہوگیا ہوں، میری دولت کا انبار بھی میری آنکھوں کی روشنی کو واپس لانے میں ناکام ہوچکا ہے۔‘‘ اویس اتنا کہہ کر چپ ہوگیا۔
صدف پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اسے اویس کی آنکھوں میں روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اسے بالکل پہلے جیسا لگ رہا تھا، لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے، وہ اندھا ہوگیا ہے اور کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔
صدف اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کی طرف دیکھتی ہوئی اس کے قریب چلی گئی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھے جارہی تھی، اس کے چہرے پر برستی ہوئی حیرت دوچند ہوگئی تھی… اس کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت تھی۔
’’نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا۔ تم دیکھ سکتے ہو، مجھ سے مذاق کررہے ہو۔‘‘ صدف نے کہا۔
’’یہ حقیقت ہے… میں ساری دنیا سے جھوٹ بول سکتا ہوں لیکن تم سے نہیں۔ میں اب کبھی نہیں دیکھ سکتا، میز پر رکھی ہوئی فائل میں میری تمام میڈیکل رپورٹس موجود ہیں۔ میری رپورٹس پر بڑے بڑے ڈاکٹروں کے دستخط ہیں، جو جھوٹ نہیں ہیں۔‘‘ اویس بولا۔
صدف نے ایک نظر میز پر رکھی فائل کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ ’’اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور تم نے مجھ سے چھپائے رکھا۔‘‘
’’بتادیتا تو تمہارا حوصلہ ٹوٹ جاتا۔‘‘
’’مجھے بتاتے تو سہی، میں اپنی آنکھیں تمہیں دیدیتی اویس۔‘‘
’’یہ آنکھیں اب بھی میرے پاس ہیں، اگر تم میرے ساتھ شادی کرلیتی ہو تو تمہیں میری آنکھیں بن کر میرے ساتھ رہنا ہوگا… میرے دفتر میں، میری میٹنگز میں، سفر میں، تم ہر جگہ میرے ساتھ میری آنکھیں بن کر رہو گی۔ کیا تم میری آنکھیں بنو گی؟‘‘ اویس نے دو قدم چل کر واپس کرسی کی طرف جانا چاہا تو اس کا پیر اپنے بیڈ کے ساتھ ٹکرایا اور صدف نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔
٭…٭…٭
صدف کے والدین اس کے سامنے بیٹھے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کررہے ہوں۔ صدف نے ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کردیا تھا۔
حقیقت دونوں میاں بیوی کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی، ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کی اچھی جگہ شادی ہو۔ بیٹی جس کی دلہن بن کر جائے اس کا شوہر ہر عیب سے پاک ہو… جب انہوں نے ان کی
خواہش پر دونوں کی منگنی کی تھی تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب صدف کے ہونے والے شوہر کی آنکھیں نہیں رہی تھیں۔ آنکھوں سے محروم شخص ان کی بیٹی کا شوہر کیسے ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں دولت کا انبار بہت کچھ چھپا لیتا ہے، لیکن اس وقت دونوں میاں بیوی کے لیے دولت سے کہیں زیادہ ان کو اپنی بیٹی عزیز تھی، جس کا شوہر تندرست ہو، کہ خاندان میں کوئی اس پر انگلی نہ اٹھاسکے۔
’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ جب ان کی خاموشی طوالت اختیار کرگئی تو صدف نے دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
صدف کا باپ کچھ سوچنے کے بعد بولا۔ ’’مناسب یہی ہے کہ ہم اس رشتے کو ختم کردیں، میں نہیں چاہتا کہ صدف اس کی بیوی کی بجائے نرس بن کر رہے۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے، صدف کی حیثیت اب ایک سفید چھڑی سے زیادہ نہیں ہوگی۔‘‘ اس کی ماں نے فیصلے کی تائید کی۔
صدف نے کہا۔ ’’مجھے اویس کی سفید چھڑی بننے میں کوئی اعتراض نہیں ہے… میں کل اس سے شادی کروں گی۔‘‘
’’تم پاگل ہوگئی ہو… اویس جب بالکل ٹھیک اور تندرست تھا تو اس خاندان کی لڑکیاں تمہیں اپنے طنز کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتی تھیں، اب جبکہ وہ اپنی آنکھیں کھوچکا ہے تو جانتی ہو کہ اس سے شادی کے بعد تمہیں کیا کیا سننا پڑے گا۔‘‘ صدف کی ماں پریشان ہو کر بولی۔
’’مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔‘‘ صدف کھڑی ہوگئی۔
’’ایسی حماقت مت کرو صدف۔‘‘ اس کے باپ نے سمجھانا چاہا۔
’’جب خاندان کی امیر سے امیر لڑکی اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اور اس نے ان سب کو میری خاطر ٹھکرادیا، اب اس حالت میں اسے چھوڑدوں؟ یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ صدف نے کہا۔
’’صدف اب یہ تمہارا فیصلہ ہے اور ہم تمہارے اس فیصلے اور ضد کو نبھائیں گے۔‘‘ صدف کے باپ نے کہا۔
٭…٭…٭
سارے خاندان میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ اویس اب دیکھ نہیں سکتا اور اس کے باوجود صدف اس سے شادی کررہی ہے۔ سب سے پہلے رخسانہ نے شوشا چھوڑا تھا کہ اویس اندھا کیا، وہ اپاہج بھی ہوجائے تو صدف اس سے شادی کرکے رہے گی کیونکہ وہ اویس سے نہیں بلکہ اس کی دولت سے شادی کررہی ہے۔
مقامی ہوٹل کے ہال میں سارے رشتے دار جمع تھے، سب کو فون پر اطلاع کی گئی تھی۔ شادی میں شرکت سے زیادہ خاندان کی لڑکیاں صدف پر طنز کے تیر چھوڑنے آئی تھیں۔ صدف دلہن بنی بیٹھی تھی کہ اویس خوبصورت شیروانی زیب تن کیے دولہا بنا اپنے دوست کے ساتھ سفید چھڑی ہاتھ میں تھامے ہال میں داخل ہوا تو سب کی نگاہیں بے اختیار اس کی طرف اٹھ گئیں۔
اویس بہت حسین تھا…کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ اویس اسٹیج پر آیا اور صدف کے ساتھ بیٹھ گیا۔ نکاح ہوا، کھانا کھلایا گیا اور اس دوران کئی طنز سے بھری باتیں کسی نہ کسی طرح صدف اور اویس کے کانوں تک پہنچتی رہیں… سب کا نشانہ صدف تھی اور صدف سے زیادہ اویس کو ان کی باتیں سن کر تکلیف ہورہی تھی۔
رخصتی ہونے لگی تو چلنے سے پہلے صدف نے اویس کے ہاتھ سے چھڑی لے کر ایک طرف پھینک دی اور اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔ ’’اب آپ کی آنکھیں میں ہوں۔‘‘
صدف کی بات سن کر کئی لڑکیوں کے منہ بن گئے اور دونوں چلتے ہوئے بڑی سی کار میں بیٹھ گئے۔ ہال خالی ہونے لگا، ایک طرف رخسانہ اور اس کا کزن نعیم بیٹھا ہوا تھا۔ نعیم کے کاروبار کا کسی کو خاص علم نہیں تھا۔ بس اس کے بارے میں سب یہی جانتے تھے کہ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج فلاں ملک میں ہے تو کل دوسرے ملک گیا ہوا ہے۔ نعیم پرسوں رات ہی واپس آیا تھا۔ رخسانہ کے ساتھ اس کی اچھی بے تکلفی تھی۔ رخسانہ کا دل جلا ہوا تھا اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ ابھی اسی وقت صدف کا منہ نوچ لیتی۔ اچانک اس نے نعیم سے کہا۔ ’’تم کو اس بات پر بڑا دعویٰ ہے کہ تم اپنی باتوں کے ذریعے کسی کو بھی شیشے میں اتار سکتے ہو۔ اگر تم صدف کو شیشے میں اتار کر اس کا گھر برباد کردو تو میں مانوں۔‘‘
اس کی بات سن کر نعیم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ اس وقت تمہارے دل پر کیا گزررہی ہے۔ اگر مجھے دس دن مل جاتے تو یقین کرو صدف کی شادی اس کی بجائے میرے ساتھ ہوتی۔ بہرحال اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں اپنی باتوں کا سحر دکھائوں تو پھر میرے ساتھ شرط لگائو۔‘‘
’’کیسی شرط؟‘‘ رخسانہ نے پوچھا۔
’’صدف سے تو مجھے حسد ہونے لگا ہے، اسے میں اویس سے ایسا متنفر کروں گا کہ اویس اس غم میں دنیا ہی چھوڑ جائے گا۔ صدف اتنی دولت اور جائداد کی اکیلی مالک بن جائے گی اور پھر صدف کو میں اپنی بیوی بنائوں گا… لیکن…‘‘ نعیم نے اپنی بات جان بوجھ کر ادھوری چھوڑدی۔
’’لیکن کیا؟‘‘ رخسانہ نے پوچھا۔
’’اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو میری شرط ہے کہ تم مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘ نعیم نے اپنا ادھورا جملہ مکمل کردیا۔
اس کی بات سن کر رخسانہ ہنس کر بولی۔ ’’لیکن تم تو صدف سے شادی کرلو گے۔‘‘
’’اس سے شادی ہوگی دولت کے لیے اور تم سے شادی ہوگی گھر بسانے کے لیے۔ تمہاری وہ سوکن ہوگی، پھر جس طرح چاہنا تم اسے اپنے رعب میں رکھنا۔‘‘ نعیم مسکرایا۔
رخسانہ نے سوچا اور بولی۔ ’’مجھے منظور ہے اور اگر تم ناکام ہوگئے تو؟‘‘
’’اگر میں ناکام ہوگیا تو جو تم میری سزا تجویز کرو گی وہ مجھے منظور ہوگی۔‘‘ نعیم نے کہا۔
’’تمہارے پاس ایک مہینے کا وقت ہے؟‘‘
’’میں نے نفسیات پڑھی ہے، ایک مہینہ بہت زیادہ ہے، تم دیکھنا چند دنوں میں کیا ہوتا ہے؟‘‘ نعیم کا لہجہ معنی خیز تھا۔
٭…٭…٭
اویس کی بیوی بن کر صدف جیسے کسی محل میں آگئی تھی، نوکروں کی فوج آگے پیچھے تھی۔ شادی کو تین دن گزر گئے تھے، ان تین دنوں میں صدف کا ایک اشارہ نوکروں کی فوج کو متحرک کردیتا تھا، جبکہ اویس کے منہ سے نکلا ایک لفظ سنتے ہی صدف کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑتی تھی۔
اویس کو وہ اخبار پڑھ کر سناتی تھی، مارکیٹ کے ریٹس بتاتی تھی۔ جب اس کے موبائل فون کی گھٹنی بجتی تھی تو صدف فوراً فون اٹھا کر اسے دیتی۔ بات مکمل ہونے پر اس سے فون لے کر ایک طرف رکھتی تھی، اویس کے موبائل فون پر آنے والے اس کے پیغامات پڑھ کر سناتی۔ اویس کہتا تو صدف پیغام کا جواب بھی لکھ کر بھیجتی تھی۔ اویس کو کپڑے پہنانے میں مدد کرتی، اس کے ساتھ باہر جاتی تھی۔ ان تین دنوں میں صدف ایک مشین بن کر رہ گئی تھی لیکن اس کے ماتھے پر کوئی سلوٹ نہیں آئی تھی۔
چار دن کے بعد اویس اپنے دفتر گیا تو صدف ساتھ تھی۔ سارا دن دفتر میں مصروف رہی۔ صدف اسے فون دیتی، اس کے کہنے پر مطلوبہ فائل کھول کر اس کے اندر جو لکھا ہوتا وہ بتاتی، اویس کے کہنے پر اگر کچھ لکھنا ہوتا وہ لکھتی، اس کے ساتھ میٹنگ میں جاتی، وہاں بھی اس کی مدد کرتی اور رات کو جب وہ واپس گھر آتی تو صدف تھک چکی ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ان کاموں کی عادی نہیں تھی۔ زندگی کے ان ہی معمولات میں ایک ہفتہ گزرگیا اور ایک ہفتے میں صدف اپنے آپ کو بھول گئی۔ وہ ہر لمحہ، ہر پل اویس کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہ کر اس کی مدد کررہی تھی۔ اویس کسی معمولی کام کے لیے بھی صدف کو آواز دیتا تھا۔
ان کی شادی کو تقریباً ایک ماہ ہونے والا تھا۔ اس رات جب وہ بستر پر لیٹے تو اویس نے کہا۔ ’’میں جانتا ہوں صدف کہ تم تھک جاتی ہو، مشین کی طرح میرے ساتھ کام کرتی ہو، میں نے سوچا تھا کہ تمہاری جگہ کوئی ملازم رکھ لوں لیکن میرے دل میں وہم بیٹھ گیا ہے کہ مجھے کوئی دھوکہ نہ دے، مجھے تم پر اعتبار ہے۔ مجھے تم پر یقین ہے کہ تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی ہو، لیکن پھر بھی اگر تم چاہو تو میں تمہاری جگہ ملازم رکھ لیتا ہوں۔‘‘
’’تمہیں ایسا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ صدف نے مسکرا کر کہا۔ حالانکہ پہلی بار اس کے دل میں یہ بات آئی تھی کہ اپنے لیے کوئی ملازم رکھ لے تو اچھا ہے، لیکن وہ کہہ نہیں سکی۔ وہ اس کا یقین نہیں توڑنا چاہتی تھی… لیکن وہ اندر ہی اندر اس مشقت بھری زندگی سے عاجز آگئی تھی۔
ایک دن لنچ بریک کے بعد نعیم ان کے آفس میں آگیا۔ اس نے دو دن قبل ایک فائل ان کو بھیجی تھی جسے صدف نے ہی پڑھ کر اویس کو بتایا تھا کہ نعیم ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے اور اس کے پاس چند منصوبے ہیں، اویس نے اسے ملاقات کا وقت دے دیا تھا۔
جب نعیم ان کے آفس میں پہنچا تو اویس اپنی کرسی پر بیٹھا تھا، اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا وہ جو کہتا تھا صدف فوری وہ کام کرتی۔ وہ کسی کٹھ پتلی کی طرح اویس کے سامنے کبھی ادھر کبھی ادھر گھوم رہی تھی۔ اویس اور نعیم کی ملاقات ختم ہوگئی تو اویس نے باتھ روم جانے کے لیے صدف سے کہا۔ آفس سے ملحق باتھ میں صدف اویس کو چھوڑ کر جیسے ہی واپس آئی تو نعیم نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟‘‘
’’ہاں کہیں۔‘‘ صدف نے اس کی طرف دیکھا۔
’’وہ صدف کہاں کھوگئی ہے جو بڑی ہنس مکھ ہوتی تھی، جس کے چہرے پر شادابی دکھائی دیتی تھی، جو دن بھر میں اپنی مرضی کا کام کرتی تھی اور گھنٹوں کوئی مووی دیکھتی تھی، جو گنگناتی تھی اور جس کے چہرے پر کوئی تفکر دکھائی نہیں دیتا تھا۔‘‘
نعیم کے الفاظ نے صدف کو جھنجھوڑ سا دیا تھا۔ یکدم اسے احساس ہوا کہ اس کی شادی کو پچیس دن ہوگئے ہیں اور پچیس دنوں میں اس نے پوری رات سکون سے بستر پر نہیں گزاری تھی کیونکہ رات کے کسی پہر بھی اویس کی کوئی ضرورت اسے اٹھنے پر مجبور کردیتی تھی۔
صدف چپ رہی تو نعیم مزید بولا۔ ’’مجھے تم سے ہمدردی ہے صدف۔ میں تمہارے فیصلے پر اعتراض کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ لیکن مجھے آج یہاں بیٹھ کر یہ اندازہ ہوا کہ تم اپنی زندگی کبھی نہیں جی سکو گی۔ مجھے تم نئی نویلی دلہن نہیں بلکہ ایک رئیس کی ملازمہ لگتی ہو جو دولت کے انبار پر بیٹھ کر اس کی ناک صاف کرنے کا کام کرتی ہے۔‘‘ نعیم نے دکھ بھرے انداز میں کہا اور آفس سے چلا گیا۔
نعیم کی باتوں نے صدف کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ صدف کی حالت بالکل اس شخص جیسی تھی جو زندگی کو سزا کے طور پر گزارنے کے لیے مجبور ہوگیا ہو اور آنکھوں سے آنسو اس لیے نہ بہارہا ہو کہ اس کے پاس کوئی کندھا ہی نہیں تھا۔
اس دن رات بارہ بجے تک وہ اویس کے ساتھ اس کے آفس میں مصروف رہی اور بستر پر تھک کر گری تو اسے لگا جیسے وہ ایک مزدور ہو اور دن بھر کی مزدوری نے اس کے وجود کو بری طرح تھکادیا
کی آنکھیں خودبخود نیند سے بند ہونے لگیں، جسم بالکل نڈھال ہوچکا تھا کہ اچانک اسے کچھ گرنے کی آواز آئی، اس کی نیند ٹوٹ گئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے دیکھا کہ اویس کھڑا ہے اور گلاس ٹوٹ کر فرش پر بکھرا ہوا ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’میں باتھ روم جانے کے لیے اٹھا تو ہاتھ لگنے سے گلاس ٹوٹ گیا۔‘‘ اویس نے کہا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔
ایک بار پھر صدف اٹھی اس نے گلاس کی کرچیاں اٹھائیں اور انہیں باہر پھینکنے کے لیے چلی گئی۔ ہاتھ دھوکر جب وہ واپس آئی تو اویس سوچکا تھا۔ اس کے ہلکے ہلکے خراٹے کمرے کی خاموشی توڑ رہے تھے۔ صدف نے اپنا موبائل فون اٹھایا اورکمرے سے باہر نکل کر دوسرے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی۔
صدف سوچنے لگی کہ چار گھنٹے کے بعد ایک نئے دن کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کا لگایا ہوا الارم بجنے لگے گا اور وہ اپنی نیند کو ختم کرکے اٹھ بیٹھے گی اور پھر کام شروع ہوجائے گا، اور رات گئے تک وہ مشین کی طرح کام کرتی رہے گی۔ وہ اپنے والدین سے اپنی حالت بیان نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ اس نے اپنی ضد سے ان کو اس شادی کے لیے منایا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے۔ پھر اچانک اس نے نعیم کا نمبر نکالا اوراس کا نمبر ملا کرموبائل فون کان کو لگالیا۔ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی ’’ہیلو۔‘‘
صدف بول نہیں سکی تھی اور اس کے آنسو چھلک پڑے اور پھر وہ پھوٹ پھو کر رونے لگی۔ شاید رونے کے لیے اسے کسی کندھے کی ضرورت تھی، وہ رونا چاہتی تھی اور نعیم دوسری طرف مسکرا رہا تھا جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ہو۔
٭…٭…٭
دوسرے دن ٹھیک دس بجے نعیم آفس میں موجود تھا، آج اس کی ملاقات کا وقت طے نہیں تھا۔ صدف اویس کے ساتھ مصروف تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد صدف کو موقع ملا اور وہ ایسے ہی کمرے سے باہر نکلی تو اس کی نظر نعیم پر پڑگئی۔ نعیم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور صدف اس کے پاس چلی گئی۔
’’تم یہاں، خیریت ہے؟ آج تو تمہارا ملاقات کا کوئی وقت نہیں ہے۔‘‘
’’آج میں صرف تم سے ملنے آیا ہوں۔ تمہارے آنسوئوں نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا اور میں بے چینی کے عالم میں یہاں آگیا۔ مجھ سے اپنے دل کی بات مت چھپائو اور مجھے بتائو کہ میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں، جس اذیت سے تم دوچار ہو تمہارے آنسوئوں اورہچکیوں نے مجھے سب کچھ بتادیا ہے۔ اگر تم نے مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو جو تمہارے پاس سانسیں بچی ہیں، انہیں لے کر اس شخص کے ساتھ باقی زندگی بھی گزار دو۔ دیکھو صدف یہ شخص تمہیں اپنی آنکھیں بنا کر تم سے تمہارا جینے کا حق چھین رہا ہے، بہتر ہے کہ تم اس زنجیر کو توڑ کر اپنی زندگی جیو۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ یکدم صدف کے منہ سے نکلا۔
’’تمہاری زندگی کے لیے، تمہیں جینے کا حق دلانے کے لیے، میں اس شخص کا گلا دبا کر ہمیشہ کے لیے تمہیں اس سے نجات دلاسکتا ہوں۔‘‘ نعیم نے کہا تو صدف اس کی بات سن کر کانپ گئی۔
اسی اثناء میں ملازم نے اویس کا پیغام دیا کہ وہ انہیں اندر بلارہے ہیں۔ صدف کوئی بات کیے بغیر فوراً اویس کے پاس چلی گئی۔ اویس کے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
جونہی صدف نے اندر جاکر کہا۔ ’’جی میں آگئی ہوں۔‘‘
’’کہاں چلی گئی تھیں تم؟ تم جانتی نہیں ہو کہ تمہارا میرے پاس رہنا کتنا ضروری ہے۔ کیا تم یہ بھول گئی ہو کہ تم میری آنکھیں ہو، تم میری وہ آنکھیں ہو جن پر مجھے اعتبار ہے، میرے ساتھ رہا کرو۔‘‘ اویس کو جانے کیا ہوا کہ اس نے اپنے پاس بیٹھے کاروباری لوگوں کی بھی پروا نہیں کی اور صدف کو ڈانٹ دیا۔
صدف ندامت بھری آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ کر آنکھیں چرارہی تھی اور وہ سب اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے ان کے سامنے کوئی تماشا ہورہا ہو۔
اویس کے اس تغیر نے صدف کو اور بھی دکھی کردیا تھا۔ وہ اپنے آنسوئوں کو چھپا کر اویس کے ساتھ کام کرنے لگی اور جو وہ کہتا اسے پورا کرنے لگی۔
دن اسی طرح گزرگیا۔ اویس آفس سے نکل کر اس کے ساتھ کار میں بیٹھا تو وہ کلب چلا گیا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی صدف کو بتادیا تھا کہ بہت دن ہوگئے ہیں وہ اپنے دوستوں کی طرف نہیں گیا، اس لیے آج وہ کچھ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے گا۔
کلب میں اس وقت اس کا ایک ہی دوست موجود تھا۔ اویس اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اویس نے صدف کو اجازت دے دی کہ ان کے ساتھ بیٹھنا چاہے تو یہاں بیٹھ جائے اور اگر کسی اور جگہ بیٹھ کر وقت گزارنا چاہے تو وہ وہاں چلی جائے۔ صدف ان سے کچھ فاصلے پر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
رفتہ رفتہ اویس کے دوست آنے لگے اور پھر وہاں محفل جم گئی، کھانے پینے کے ساتھ قہقہے گونجنے لگے۔ اپنے دوستوں میں اویس نے صدف کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔ صدف نے کھانا بھی الگ کھایا تھا، وہ بار بار اویس کی طرف دیکھ رہی تھی جو اتنا خوش تھا کہ صدف کو اس پر پہلی بار غصہ آنے لگا تھا۔ اویس نے ایک بار بھی اس سے سوری نہیں کہا تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کے سامنے اس پر غصہ ہوا تھا۔ آج پہلی بار صدف کو احساس ہوا کہ آنکھیں چلی جانے کے بعد اس نے اس سے شادی محض اس لیے کی تھی کہ وہ اس کی نرس بن کر اس کے ساتھ دن رات رہے، وہ اس کی بیوی نہیں نرس تھی۔ صدف نے سوچا۔
پھر اس کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ نعیم ٹھیک کہتا ہے۔ وہ مرجائے گی اور اپنی زندگی کبھی نہیں جی سکے گی۔ صدف کے اندر جینے کی امنگ جاگی اور اس نے بیٹھے بیٹھے فیصلہ کرلیا کہ وہ جینے کے لیے اس زنجیر کو توڑ دے گی۔
اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے پاس آکر بیٹھا ہے، اس نے چونک کر دیکھا تو سامنے نعیم بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے کہ صدف کوئی سوال کرتی وہ اویس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھو وہ اپنی زندگی مزے سے جی رہا ہے اور تم جینے کا حق کھوچکی ہو۔‘‘ اچانک اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور سرگوشی کے انداز میں بولا۔ ’’آج رات ایک پانی کے گلاس میں یہ شیشی انڈیل کر اویس کو پلادینا، تم کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی مل جائے گی۔‘‘
صدف اپنے ہاتھ میں پکڑی شیشی کو متوحش نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ خوف اس کے چہرے پر عیاں ہونے لگا۔ پھر یکدم اس نے نعیم کی طرف دیکھا تو وہ غائب ہوچکا تھا۔ اس نے متلاشی نگاہیں گھمائیں وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔ اسی اثنا میں اپنے ایک دوست کی مدد سے اویس اس کے پاس آچکا تھا، اس نے اپنا ہاتھ صدف کی طرف بڑھایا اور چلنے کو کہا۔ وہ اٹھ کر اس کے ساتھ چلی گئی۔
جب وہ گھر پہنچے تو رات کے ڈھائی بج چکے تھے، کپڑے تبدیل کرکے جیسے ہی اویس اپنے بیڈ پر آیا اس نے پینے کے لیے پانی مانگا تو صدف نے پانی کا گلاس بھر کر ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اسے گزرے مہینے کا ہر دن یاد آنے لگا جو سخت محنت سے بھرپور تھا، وہ اس ایک مہینے میں ایک رات بھی بھرپور نیند نہیں لے سکی تھی، پھر اسے آج اپنی بے عزتی بھی یاد آئی اور اویس کے وہ قہقہے بھی سنائی دینے لگے جو اس نے بڑی بے فکری سے اپنے دوست کی محفل میں لگائے تھے۔
اس نے سوچا کہ کل کا سورج اس کے لیے پھر مشقت سے بھرا دن لے کر طلوع ہوگا۔ اس نے مزید کچھ نہیں سوچا اور زہر کی شیشی پانی کے گلاس میں انڈیل کر اویس کو دے دی۔ اویس نے گلاس پکڑا اور پانی حلق سے نیچے اتارلیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ صدف ایک طرف کھڑی ہو کر عجیب سے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
اچانک اویس کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہونے لگی، اس کی طبیعت گھبرانے لگی۔ وہ بے چینی سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل سے کچھ تلاش کرنے لگا، جیسے اسے پھر پانی کی طلب ہورہی ہو، اس کا ہاتھ اپنے اور صدف کے موبائل فون پر پڑا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ صدف نے پوچھا۔
’’میرا دل گھبرارہا ہے… میری سانس رک رہی ہے… ڈاکٹر کو فون کرو… جلدی… ‘‘ وہ رک رک کر بولا۔
’’میں ابھی فون کرتی ہوں۔‘‘ صدف اپنی جگہ کھڑی رہی۔
اویس نے پوچھا۔ ’’کیا تم فون کررہی ہو؟‘‘
’’ہاں لیکن فون بند جارہا ہے۔‘‘ صدف نے جھوٹ بولا۔
اویس کے چہرے پر تکلیف کے ساتھ حیرت بھی عیاں ہوگئی۔ ’’تم کس فون سے کال کررہی ہو… تمہارا اور میرا فون تو میرے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کردیے۔ صدف یکدم چونکی اس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا۔ ’’ کک… کیا تم نے… مجھے کوئی ایسی… چیز تو نہیں دیدی… صدف کیا… واقعی…؟‘‘
صدف چپ رہی، اویس پھر بولا۔ ’’پانی پیتے ہوئے مجھے… محسوس ہوا تھا… کچھ عجیب سا ذائقہ… کیا تم نے مجھے… زہر دیدیا ہے… صدف تم نے… کیا تم مجھ سے تنگ آگئی تھیں… اس مشقت سے تنگ آگئی تھیں… میرے ساتھ دن رات کام کرنے اور میری دیکھ بھال کرنے سے… یہ تم نے کیا کیا صدف… ’’اویس کھانسنے لگا۔
اس کی سانس سینے میں رک رہی تھی، اس کے چہرے پر تاسف اور کرب نمایاں تھا۔ صدف خود خوفزدہ ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی۔ وہ عجیب تذبذب کا شکار تھی کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک کیا ہے؟
’’صدف… میں اندھا نہیں ہوں۔میں … تو تمہیں… اپنے ساتھ سایہ کی طرح رکھ کر…ایک استاد کی طرح کام سکھارہا تھا… میں تمہیں بتارہا تھا کہ میں کام کیسے کرتا ہوں…کیسے بات کرتا ہوں… کیسے فیصلے کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ سب تمہیں ہی سنبھالنا تھا… تم نے بڑی جلد بازی کی… میں تمہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا، جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو یہ بات سامنے آئی تھی کہ مجھے کینسر ہے اور میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے… تم نے سارا کام سمجھنے سے پہلے مجھ سے تنگ آکر… اس مشقت سے جان چھڑانے کے لیے… مجھے زہر دے دیا۔‘‘
اویس کے لیے بولنا مشکل ہورہا تھا۔ صدف پر جیسے ہی یہ حقیقت منکشف ہوئی وہ چیخی اور روتے ہوئے اویس سے لپٹ گئی۔ وہ بری طرح چیخنے لگی۔ اویس ساکت ہوگیا تھا اور صدف کے زور زور سے چیخنے سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا اور اس کا جسم بھی بے جان ہونے لگا تھا۔
(ختم شد)