چھوٹی سی تھی۔ لڑکیوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھتی تھی تو ماں سے ضد کرتی کہ مجھے اسکول جانا ہے۔ تم ابھی چھوٹی ہو تھوڑی اور بڑی ہوجائو تب داخلہ کرادوں گی۔ وہ مجھے طفل تسلیاں دے کر چپ کرادیتیں۔
حقیقت یہ تھی کہ گائوں میں ہم جیسے غریب گھرانوں میں بچوں کو تعلیم دلوانے کا رواج نہیں تھا۔ میرا بھائی ماہتاب چار برس بڑا تھا۔ ابا اسے کوئی ہنر سکھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں اس وقت کا انتظار کرتی رہ گئی جب بقول اماں بڑی ہوجائوں گی اور اسکول جایا کروں گی۔ اس وقت کے آنے سے پہلے ہی کھیتوں کو پانی لگاتے ہوئے ابا کو ناگ نے ڈس لیا۔ جوانی میں سہاگ کا دوپٹہ اماں کے سر سے اُتر گیا اور انہوں نے بیوگی کی بے رنگ چادر میں خود کو لپیٹ لیا۔ اب گائوں والے سندیسے دینے لگے بچوں کی پرورش کی خاطر دوسری شادی کرلو۔ مگر والدہ
نے انکار کردیا کہ محنت مزدوری کرلوں گی مگر اپنے بچوں کو سوتیلے باپ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑوں گی۔ اللہ جانے وہ کیسا سلوک میرے جگر گوشوں سے کرے۔
گرمیوں کی جھلستی دوپہروں میں لوگوں کے آنگن میں گندم کی بوریاں صاف کرنا اور سردیوں میں لحاف اور رضائیاں سینا۔ غرض یہی نہیں کوئی کیسا ہی سخت کام بتاتا، میری ماں انکار نہ کرتیں۔ رات دن محنت و مشقت کرکے اس باحوصلہ خاتون نے یہ کٹھن وقت بھی کاٹ دیا۔ یہاں تک کہ میرا بھائی جو ابا کی وفات کے وقت صرف سات برس کا تھا، جوان ہوگیا۔
جس روز ابا فوت ہوئے اس کے ایک ماہ بعد ایک پڑوسی بلال چاچا نے اس کو اپنے بیٹے مہر دین کے ساتھ اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ بھائی آٹھ جماعتیں پاس کرچکا تو پڑھائی چھوڑ دی کیونکہ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ماہتاب کو کام کرنا لازم ہوگیا تھا۔ اماں کو اب دمے کی شکایت رہنے لگی تھی۔ بدقسمتی سے میں صرف تین جماعتیں پڑھ سکی۔
بھائی نے کافی بھاگ دوڑ کی۔ گائوں میں کوئی ڈھنگ کا کام نہ ملا۔ تبھی ایک خیرخواہ کے مشور ے پر قریبی شہر کے ایک ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر میں داخلہ لے لیا۔ دو سال کا کورس تھا، سائیکل پر روزانہ بارہ میل کا سفر طے کرکے شہر جانا ہوتا۔ ماہتاب نے ہمت نہ ہاری، ٹیکنیشن کا ڈپلوما حاصل کرلیا۔ شہر میں پھر بھی نوکری نہ ملی۔
انہی دنوں جبکہ مایوسی نےہمارے دلوں پر قبضہ کر رکھا تھا ایک روز ماہتاب خوش خوش گھر لوٹا۔ کہنے لگا۔ ماں، ابا کے ماموں زاد کا بیٹا صغیر دبئی سے بہت کما کر لوٹا ہے۔ میری آج اس سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ چند ویزے بھی لایا ہے۔ انہیں فروخت کرے گا۔ اگر پیسوں کا بندوبست ہوجاتا تو میں اس سے ویزے کی بات کرتا۔ کچھ رقم لے کر وہ بڑی امید سے صغیر کے پاس گیا لیکن وہ گھر پر نہ تھا۔ اس کے بھائی کو سندیسہ دے کر آگیا کہ آجائے تو ملنے کا وقت دے، ضروری بات کرنی ہے۔ اگلے دن دوپہر سے ذرا پہلے صغیر نے در پر دستک دی۔ در کھولا تو بھائی کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ صغیر نے عزت افزائی کی تھی۔ خود چل کر ملنے آگیا تھا، حالانکہ اب وہ پیسے والا ہوچکا تھا۔ دولت اکثر انسانوں کو بدل دیا کرتی ہے۔ جیب میں روپیہ بہت ہو تو غریب رشتے دار حقیر لگنے لگتے ہیں لیکن صغیر ان لوگوں میں سے نہیں تھا۔ تبھی گھر آگیا تھا۔
اللہ جانے وہ ایک سوالی کا سوال پورا کرتا ہے یا نہیں، لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چند لمحات کو سانس لینا بھول گیا۔ بے اختیار اس کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے۔ ماشاء اللہ… حیات بی بی اتنی بڑی ہوگئی ہے۔ میرے تصور میں تو ابھی تک چھوٹی سی لڑکی تھی جب میں دبئی گیا تھا۔ صغیر کی نگاہیں گواہی دے رہی تھیں کہ اس نے اِک نظر میں مجھے پسند کرلیا ہے۔ وہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا، حالانکہ عمر میں مجھ سے بیس برس بڑا ہوگا۔ اماں نے حسبِ مقدور خاطر مدارات کی اور بھائی کا مسئلہ بیان کردیا۔
ممانی فکر کیوں کرتی ہو۔ اس نے میری جانب دیکھ کر کہا۔ صغیر میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے۔ ویزے کی کیا حقیقت، رشتے داری میں اتنا تو تعاون ہوتا ہے، پیسوں کی آپ فکر مت کریں۔ گائے بیچنے کی ضرورت نہیں، جس گھر میں دودھ، مکھن اور لسی نہ ہو وہ گھر سُونا ہوتا ہے۔ گائے کا سودا ختم کردیں۔ ویزا میں ماہتاب کو دے دیتا ہوں، ایک ماہ بعد دبئی جانا ہے اسے ساتھ لے جائوں گا۔ رہائش اور ملازمت سب میرے ذمے۔ بس آپ بے فکر ہوجائیں۔
میں محسوس کررہی تھی کہ صغیر، بھائی سے آنکھ بچا کر ایک نظر مجھ پر ڈال لیتا تھا۔ وہ کھانا کھانے کے بہانے رکا اسی لیے تھا کہ اچھی طرح میرا دیدار کرسکے۔ شاید اسی روز اس نے مجھ سے بیاہ کی ٹھان لی تھی۔
اگلے دن ماہتاب خوش خوش گھر آیا۔ وہ صغیر سے مل کر آرہا تھا۔ جس نے اسے اپنے ہمراہ دبئی لے جانے کی پکی نوید سنادی تھی۔ دو ہی دن گزرے تھے کہ صغیر کی ماں ہمارے گھر سوالی بن کر آگئیں اور میرا رشتہ طلب کرلیا۔ اماں کی باچھیں کھل گئیں۔ سوچا بھی نہ تھا کہ صغیر کی والدہ مجھے بہو بنانے کا خیال کریں گی کیونکہ ہم ان کے ہم پلہ نہ تھے۔
بلاشبہ اچھی صورت بھی نعمت ہے۔ میری خوبصورتی نے لمحہ بھر میں صغیر کو میرا اسیر بنالیا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ اس نے ایک لاکھ کا ویزا کیسے مفت میں بھائی کے نام کردیا تھا۔ دبئی جانے سے پہلے رسمِ منگنی ادا کرکے وہ ماہتاب کو ہمراہ لے کر دبئی پرواز کرگیا۔ قسمت مہربان تھی کہ ماں کے دو اہم مسئلے دنوں میں حل ہوگئے۔
ایک سال بعد جب ماہتاب گھر آیا تو ماں نے ا س کی شادی کا اہتمام کر ڈالا۔ سادگی سے اپنی یتیم بھتیجی، شمسہ سے اس کی شادی کردی اور مدت بعد ہمیں گھر میں خوشی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ ایک ماہ پلک جھپکتے بیت گیا۔ ماہتاب کے واپس جانے کا دن آپہنچا۔ شمسہ بہت اداس تھی۔ آنکھیں بار بار چھلک آتیں اور وہ اپنے آنچل سے اشکوں کو جلدی سے پونچھ ڈالتی۔ نئی نویلی دلہن اپنے دولہا کے پردیس چلے جانے پر بہت اداس تھی مگر دبئی واپس لوٹ کر جانا بھائی کی مجبوری تھی۔
سال بھر میں جو کمایا وہ شادی پر خرچ ہوگیا۔ ادھر صغیر کے والدین نے بھی میری رخصتی کا تقاضا شروع کردیا۔ اماں نے شرط رکھی تھی کہ پہلے گھر میں بہو لائوں گی پھر بیٹی کو رخصت کروں گی ورنہ اکیلے گھر میں رہ نہ پائوں گی۔ طے پایا کہ صغیر چھ ماہ بعد جب دبئی سے لوٹے گا تو میرا بیاہ اس کے ساتھ کردیا جائے گا۔
ان دنوں سیل فون کا رواج نہ تھا اور گائوں میں لینڈ لائن فون بھی کسی کے گھر نہ تھا۔ سارا کام خط و کتابت سے ہوتا۔ شمسہ کو بھائی باقاعدگی سے خطوط لکھتے تھے اور وہ مجھ سے پڑھوالیا کرتی۔ میں پڑھ تو لیتی تھی لکھنا مجھے نہیں آتا تھا، تب اماں چاچا بلال کے گھر جاتیں اور ان کے بیٹے مہر دین کو بلا لاتیں جو خط پڑھنے اور جواب لکھنے کا فریضہ ادا کرتا۔
اس زمانے میں پڑوسی بھی کسی کام سے انکار نہ کرتے تھے۔ ہم جب چاہتے بلالیتے۔ مہر دین کی بات اور تھی۔ وہ بھائی کا ہم جماعت ہی نہیں ہمارے لیے سگے بھائی جیسا تھا۔ ماں اسے اپنا دوسرا بیٹا کہا کرتی تھی۔ بھائی کے دبئی جانے کے بعد مہر بھیا ہی ہمارے گھر کے سارے کام کردیا کرتے تھے۔ لکڑیاں کلہاڑی سے کاٹ کر بالن تیار کرنا ہوتا یا چکی سے آٹا پسوانا، سودا سلف لانا سبھی کچھ مہر دین کے ذمے تھا اور وہ بھی تمام کام خوش اسلوبی سے اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتا تھا۔ ماہتاب بھائی، مہر دین کو وقتاً فوقتاً خط تحریر کرتا کیونکہ یہ ہمارے قریب ترین پڑوسی اپنوں سے بڑھ کر تھے۔
میری شادی ہوگئی چند دن سسرال رہ کر میں صغیر کے ساتھ دبئی آگئی۔ تب بھابی اور زیادہ اداس رہنے لگی۔ بے چین ہو کر جلد جلد مہر دین سے شوہر کو محبت نامے لکھوا کر بھجوانے لگی۔ ایک دن مہر دین ہمارے گھر آیا، امی گھر پر نہ تھیں۔ بھابی کو خوش خبری سنائی کہ تمہارا ویزا بن رہا ہے اور ماہتاب تم کو جلد دبئی بلوا لے گا۔ مجھے تمہارے پاسپورٹ بنوانے کا کہا ہے۔ تمہارے فوٹو درکار ہیں۔ جب پاسپورٹ بن جائے گا تو ویزا بھی لگ جائے گا۔ میرے پاس کوئی فوٹو نہیں ہے، کبھی نہیں کھنچوایا۔ بھابی نے بتایا۔ گائوں میں کوئی فوٹو گرافر کی دکان نہ تھی اس کے لیے مہردین کے ہمراہ بھابی کو شہر جانا پڑتا۔ لہٰذا اس نے یہ حل نکالا کہ دوست سے کیمرہ مانگ کر لے آیا اور کہا کہ گھر پر ہی تمہاری فوٹو بنالیتا ہوں۔
امی جان پرانے خیالات کی تھیں۔ شمسہ نے سوچا کہ یہ فوٹو بنوانے نہ دیں گی، لہٰذا ساس سے چوری چھپے مہردین سے تصویر بنوالی۔
کچھ دن بعد مہر دین نے بتایا کہ تمہارا پاسپورٹ بن گیا ہے مگر ایک شرط پر ملے گا کہ تم میرے ساتھ اکیلی شہر چلو گی۔ بھابی بچاری منہ دیکھتی رہ گئی کیونکہ وہ ساس کے بغیر اکیلی مہردین کے ہمراہ شہر جانے سے قاصر تھی۔ اور مہردین کا کہنا تھا ساس سے چوری بہو کے فوٹو لیے ہیں تو وہ بہت ناراض ہوگی کہ مجھے بتائے بغیر یہ سارے کام تم نے کیسے کیے۔
گائوں تک جانے کی بات ہوتی تو بھابی کوئی بہانہ کرکے گھر سے نکل جاتی۔ شہر تو دور تھا اور یہ راز چھپ نہیں سکتا تھا کہ مہر دین کے ہمراہ حیات بی بی کی بھابی اکیلی شہر گئی ہے۔ جب بھابی نے انکار کردیا تو مہر دین کو غصہ آیا کہ تم نے میری ساری محنت پر پانی پھیر دیا، جبکہ مجھے تمہارے کاغذات بنوانے کے لیے کئی طرح کے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ اب وقت پر پاسپورٹ وصول نہ کیا تو ویزا نہیں لگے گا اور ساری محنت اکارت جائے گی۔
بھابی کو مہر دین کی نیت ٹھیک نہ لگی۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں لینا پاسپورٹ اور نہ دبئی جانا ہے۔ میرے شوہر کو بے شک خط لکھ دو۔ میں اسی وقت جائوں گی جب وہ خود مجھے لینے آئے گا۔ جو میرے فوٹو تمہارے پاس ہیں وہ مجھے دے دو۔ فوٹو تمہارے شوہر نے منگوائے تھے۔ میں نے اسے بھجوادیے ہیں۔ اگر فوٹو کے بدلے میری بات مان جائو تو ’’نگیٹو‘‘ تمہارے حوالے کرسکتا ہوں۔ بھابی شمسہ، شوہر کی وفادار تھی، وہ اپنے جیون ساتھی سے خیانت کا سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اس نے مہر دین کو ٹھکرادیا۔ اس نےکہا۔ تیرے ساتھ کہیں نہ جائوں گی۔ میں تمہارا پاسپورٹ جلادوں گا پھر تم کبھی دبئی نہ جاسکو گی۔ جلادو۔ شمسہ نے جواب دیا۔ کبھی تو ماہتاب آئے گا، وہ خود بنوالے گا مگر میں پاسپورٹ کی خاطر عزت کا سودا منظور نہیں کرسکتی۔ مہر دین ناراض ہوکر چلاگیا۔
اس کے بعد بھائی کے خطوط آئے تو بھابی نے مہر دین سے نہ پڑھوائے اور نہ جواب لکھنے کو کہا، یوں بھائی کے خطوط آنا بند ہوگئے۔ امی کو خط لکھوانا ہوتا وہ خود بلال چاچا کے گھر چلی جاتیں۔ بھابی نےسوچا کہ جب میری طرف سے جواب ماہتاب کو موصول نہ ہوگا، خود معلوم کرلے گا کہ میں جواب کیوں لکھوا کر نہیں بھیجتی۔
انہی دنوں میرا چند دن کے لئے پاکستان آنا ہوا۔ تب اس نے بتایا کہ مہر دین نے مجھے پاسپورٹ بنوانے کا کہہ کر میرے فوٹو لیے تھے لیکن اماں کو یہ بات نہیں پتا۔ اس نے شاید پاسپورٹ بنوالیا، تبھی مجھے کہتا تھا کہ میرے ساتھ شہر چلو تو پاسپورٹ ملے گا مگر میں ڈر کے مارے اس کے ساتھ نہیں گئی۔ لیکن تم اس بات کا ذکر اپنے بھائی اور خاوند سے مت کرنا ورنہ اماں کو پتا چلا تو میری کم بختی آجائے گی۔ میں نے بھابی سے کہا تم نے عقل مندی کی، جو مہردین کے ہمراہ اکیلی شہر نہ گئیں۔ پاسپورٹ بھائی خود آکر بنوالے گا لیکن گائوں کے لوگ تمہیں مہر دین کے ہمراہ اکیلے شہر جاتے دیکھ لیتے تو نجانے کیسی کیسی باتیں بناتے۔
میں نے دبئی آکر ماہتاب سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا، مبادا کوئی مسئلہ بنے۔ لیکن بھائی بیوی کو اب بھی خطوط لکھتے تھے، تاہم یہ خطوط مہر دین ڈاک خانے جاکر خود وصول کرلیتا تھا اور بھابی تک نہ پہنچاتا تھا۔
سال بعد بھائی گھر گیا تو بیوی سے شکوہ کیا کہ شمسہ تمہارے خطوط مجھے ملتے تھے تو اداسی دور ہو جاتی تھی۔ انہی خطوط کے سہارے میں جدائی کا یہ عرصہ کاٹ رہا تھا۔ بعدمیں میرے خطوط کا تم نے جواب دینا ہی بند کردیا۔ آخر کیوں…؟ یہ سن کر وہ حیران ہوگئی۔ بے اختیار منہ سے نکلا۔ کیا آپ مجھے خطوط بھیجتے تھے؟ مجھے تو نہیں ملے۔
اس جواب سے بھائی کو شک گزرا۔ انہوں نے مہر دین سے جاکر استفسار کیا تب اس نے کہا کہ بھابی جھوٹ بولتی ہے۔ وہ خط ملنے پرجواب نہ لکھواتی تھی بلکہ پھاڑ دیتی تھی۔
عجب معمہ ہے۔ بھائی نے تعجب سے کہا۔ معمہ نہیں ہے حوصلہ ہے تو بتادیتا ہوں۔ دیکھو یہ فوٹو تمہاری بیوی کے ہیں۔ اس نے کسی کے ساتھ یہ تصویریں اتروائی ہیں۔ یہ شہر کے اسٹوڈیو سےنہیں اتاری گئی ہیں بلکہ کسی نے گھر پر کیمرے سے لی ہیں۔ مہردین نے فوٹو ماہتاب کو دیے، جس میں شمسہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ بیٹھی تھی۔ دراصل فوٹو گرافر نے مہر دین کی ملی بھگت سے کسی شخص کے ہمراہ شمسہ بھابی کی تصویر کو کچھ اس طرح نتھی کرکے دوبارہ پرنٹ کردیا تھا کہ گمان یہی ہوتا تھا دونوں نے اکٹھے تصویریں اتروائی ہیں۔
بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھ کر ماہتاب کا سر گھوم گیا اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جاتی رہی۔ وہ شمسہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں بے وفائی کی مرتکب ہوگی اور یہ بات بھی بعید از قیاس تھی کہ اس کا وفادار اور مخلص دوست جسے بھائی سمجھتا تھا یعنی مہر دین اس سے اتنا بڑا جھوٹ بولے گا۔
وہ غصے سے بھرا ہوا گھر پہنچا اور شمسہ کا گلا پکڑ کر بولا۔ سچ بتا یہ فوٹو کا کیا قصہ ہے۔ وہ خوف کے مارے کچھ بول نہ سکی۔ بتاتی ہے یا دبادوں گلا؟ تم نے کیوں فوٹو کھنچوائی۔ وہ بتاہی نہ سکی کہ مہر دین نے کہا تھا پاسپورٹ بنوانا ہے اور تصویریں دبئی بھجوانی ہیں، کیونکہ ماہتاب کا اگلا سوال یہ ہوتا کہ ایسا تھا تو اماں کو کیوں نہ بتایا۔ اس کے ساتھ فوٹو کھنچوانے شہر کیوں نہ گئی۔ کسی اور کے ساتھ کیوں گئی۔ اماں سے چھپ کر یہ کام کرنے کا کیا مقصد تھا اور اس معاملے میں رازداری کا کیا مطلب تھا۔
شمسہ کے لبوں سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ بھائی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا دبوچا ہوا تھا۔ اس گرفت کا زور بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں اور سانس رک گیا۔ بھائی کو پتا ہی نہ چلا کہ اس کمزور سی لڑکی نے دم توڑ دیا ہے۔
سچ ہے انسان غصے میں پاگل ہو جائے تو پھر اسے کچھ سوجھتا نہیں اور وہ سدھ بدھ کھودیتا ہے۔ بھائی کی گرفت تب ڈھیلی پڑی جب شمسہ کے سانس کی ڈوری ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا۔
اب ہوش آیا تو کیا۔ جانےوالی تو لبوں پر خاموشی کا تالا لگائے چلی گئی تھی۔ اس دم اماں گھر میں نہ تھیں۔ وہ آئیں تو عجب منظر دیکھا۔ بہو کا بے جان جسم فرش پر پڑا تھا اور بیٹا سر پکڑے پتھر کے بت کی مانند بیٹھا ہوا تھا۔ اماں نے چلا کر کہا۔ یہ کیا ہوا؟ کیا کیا ہے تو نے۔ مار دیا ہے میں نے اسے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکلا اور سیدھا پولیس اسٹیشن چلا گیا۔ اپنے ابتدائی بیان میں اس نے بیوی کے بدچلن ہونے کا الزام لگا کر قتل کا اعتراف کرلیا۔
بھائی کو بیوی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوگئی۔ وہ جوان تھا۔ سزا پوری کرکے جب جیل سے باہر آیا تو بوڑھا ہوچکا تھا۔ ماں نے اس کے سفید بال اور داڑھی دیکھی تو پچھاڑ کھا کر گرگئی۔ وقت نے انتقام لے لیا تھا۔ بھائی گائوں میں نہ نکلتا۔ اماں بھی باہر جانے نہ دیتی تھیں کہ شمسہ کے بھائی کہتے تھے ہمارے سامنے جب بھی ماہتاب آیا اس کی جان لے لیں گے۔ ہماری بے گناہ بہن کو مارا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔
ایک روز میرا بھائی مزدوری کررہا تھا کہ شمسہ کے بھائیوں نے اسے للکارا۔ وہ موقع کی تاک میں تھے۔ انہوں نے موقع ملتے ہی اس پر کلہاڑی سے وار کردیا اور صبح ماہتاب کی لاش کھیتوں میں پڑی ہوئی ملی۔
مقدمہ چلا مگر عینی شاہدوں کی عدم موجودگی کے باعث شک کا فائدہ مل گیا اور قاتل بری ہوگئے۔ ماں پر تقدیر کا یہ کاری وار تھا۔ وہ اس درد کی تاب نہ لاسکتی تھی۔ ہمیں اطلاع ہوئی تو میں اور صغیر فوراً دبئی سے گائوں پہنچے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ سب مردود مہر دین کا کیا دھرا ہے۔ مگر کسی کو کچھ نہ بتا پائی کہ لوگ میری بات کا یقین نہ کرتے اور پھر میں ثبوت کہاں سے لاتی۔ بھائی اور بھابی تو اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ مہر دین کو مجرم ثابت کرنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ ماں چند ماہ زندہ رہی اور ہم پھر دبئی آگئے۔
مہر دین کو قدرت کی طرف سے کیا سزا تجویز ہوئی یہ نہیں معلوم۔ یقین ہے جو اس نے کیا، اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔ آج نہیں تو کل… کل نہیں تو آخرت میں، کیونکہ مجرم کو ہر حال میں اپنے کئے کی سزا مل کر رہتی ہے۔ (ح… دبئی)