قمر اور ستارہ نے بڑوں کی گفتگو سن رکھی تھی تبھی وہ آپس میں ایک دوسرے کو پسندیدگی سے دیکھنے لگے تھے کیونکہ بڑے ہر وقت کہتے رہتے تھے ہم ان دونوں کا بیاہ کریں گے۔ میرا بھائی اسی سبب ہر وقت ماموں کے گھر دوڑا جاتا تھا۔ ایک ہی محلے میں ہمارے مکان تھے۔ ستارہ بہت اچھی اور سادہ طبیعت لڑکی تھی۔ وہ مجھ سے بھی پیار کرتی تھی، جب ہمارے گھر آتی امی کے گلے لگ جاتی۔ امی تو اس پر واری صدقے ہو تیں ، اسے دیکھ دیکھ جیتیں آخر وہ ان کے پیارے بھائی کی بیٹی تھی۔ ہمارے گھر کے برابر میں ایک خالی پلاٹ پڑا ہوا تھا۔ ماموں نے وہ خرید لیا اور اس پر کو ٹھی کی تعمیر شروع کرادی۔ تعمیر میں سہولت کی خاطر ماموں نے اپنا سارا سامان ہمارے مکان میں رکھا اور یہ سب ہمارے گھر رہنے لگے۔ انہوں نے پر انا گھر فروخت کر دیا۔ ستارہ ہمارے ساتھ رہنے لگی، ہماری تو عید ہو گئی۔ اب ہم تینوں ہر وقت باتیں کرتے رہتے، کھیلتے ، ساتھ پڑھتے ، ساتھ کھاتے ، وہ دن اتنے اچھے گزرے کہ میں ان کو عمر بھر نہیں بھلا سکتی۔ چھ ماہ ماموں ہمارے گھر پر رہے ، جب ان کا گھر بن گیا تو وہ اپنے مکان میں شفٹ ہو گئے۔ یہ مکان ماموں جان کے لئے باعث برکت ہوا کہ ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا اور وہ کروڑ پتی ہو گئے۔ اب ان کے کاروبار کی وسعت بیرون ملک تک ہو گئی تھی۔ وہ بھی امریکا، کبھی برطانیہ، بھی جاپان اور ملائیشیا آنے جانے لگے۔ جب خالہ نے ان کے یہ ٹھاٹ باٹ دیکھے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بیٹے کو ستارہ سے بیاہ دوں۔ لاکھوں میں کھیلے گا اور بیرون ملک عیش کرے گا۔ بد قسمتی سے انہی دنوں امی کو بخار ہوا اور وہ آنا فانا اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ ہمارے لئے یہ صدمہ تھا۔ ہم دو ہی بہن بھائی تھے اور اپنی ماں سے بہت پیار کرتے تھے۔ قمر توماں کی وفات کے صدمے سے بجھ کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی رونق ہی غائب ہو گئی۔ ہر وقت میرے پاس بیٹھا ماں کی باتیں کیا کرتا۔ میں لڑکی تھی، مجھ کو ماں کے جانے کا صدمہ کم نہ تھا لیکن بھائی کی حالت دیکھ کر یہ ظاہر کرتی جیسے مجھے کو صبر آگیا ہے۔ تمام وقت قمر کو ڈھارس دیتی اور اس کی دل جوئی میں لگی رہتی کیونکہ میرا بھائی بہت حساس تھا۔ اسے تو ماں کی جُدائی میں دورے پڑنے لگے تھے۔ اگر میں اسے نہ سنبھالتی تو جانے اس کا کیا حال ہوتا۔ ممانی اور دیگر رشتے دار بھی ہمارے گھر آکر رہے، ہم کو سہارا دیا لیکن کچھ دنوں بعد سبھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ البتہ ہماری سگی خالہ کو جانے کیا ہوا کہ اتنا پیار کرنے والی نے ہم سے سرد مہری اختیار کرلی اور منہ پھیر لیا۔ انہوں نے قمر کے خلاف ماموں اور ممانی کے کان بھرنے شروع کر دیئے۔ خُدا جانے وہ کیا کچھ کہتی تھیں کہ ہم دونوں جو پیار کی امید لے کر ماموں کے گھر جاتے تھے ، ہمیں وہاں ان سے وہ پیار نہ ملتا تھا، وہ جو پہلے ملتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماں کے فوت ہونے کے بعد رشتہ دار زیادہ ہم کو توجہ اور پیار دیتے مگر سب نے رفتہ رفتہ ہماری طرف سے منہ پھیر لیا۔ اب کوئی ہمارے گھر نہیں آتا تھا، پھر بھی قمر روز ماموں کے گھر چلا جاتا کیونکہ اس کی عادت تھی کہ وہ وہاں ضرور جاتا اور ستارہ سے باتیں کرتا۔ میں زیادہ سمجھ دار نکلی۔ جب دیکھا کہ ماموں کے گھر سے مجھے خاطر خواہ لفٹ نہیں مل رہی تو میں نے جانا کم کر دیامگر بھائی کو جیسے کسی بات کی پروانہ تھی ، وہ باز نہ آیا۔ میں اس کو سمجھاتی مگر وہ ایک کان سے بات سنتا اور دوسرے کان سے نكال دیتا۔ جب میں نے اس کو بہت زیادہ سمجھایا تو اس نے کہہ دیا کہ ستارہ میری منگیتر ہے اور میں اسی کی خاطر جاتا ہوں۔ آپ مجھ کو مت روکا کریں۔ ممانی منہ پر تو بھائی کو کچھ نہیں کہتی تھیں، مگر جب وہ ان کے گھر پر ہوتا تو اپنی بیٹی کو سخت سست کہنے لگتیں۔ ان کے اس رویہ کا قمر کے دل پر اثر ہوتا۔ جب بھائی نے دیکھا کہ ماموں کے گھر میں ستارا سے ٹھیک طرح بات کر نا دشوار ہو رہا ہے ، وہ اس سے اسکول کے رستے میں ملنے لگا۔ ایک دن راستے میں ستارہ کی استانی نے اسے قمر کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ لیا۔ جب وہ اسکول پہنچی ، استانی نے اسے بہت ڈانٹا بلکہ آڑے ہاتھوں لیا۔ ستارہ کی بہت سبکی ہوئی اس نے قمر کو منع کر دیا کہ وہ ا سکول کے رستے میں نہ آیا کرے کیونکہ استانی نے ممانی کو بھی شکایت کہلوا بھیجی تھی۔ اس واقعہ کے بعد قمر کافی اپ سیٹ اور پریشان سا رہنے لگا۔ وہ کھاتا پیتا بھی کم تھا اور کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ انہی دنوں اس کی دوستی ایک لڑکے عارف کے ساتھ ہو گئی – وہ ایک غلط قسم کا لڑکا تھا جس نے میرے بھائی کو بُرے رستے پر لگانے کی کوشش کی اور قمر آوارہ ہو گیا۔ اب وہ دیر سے گھر آتا۔ کالج جانا اس نے چھوڑ دیا اور گھر سے نکلتے وقت بتا کر نہ جاتا کہ میں کہاں جارہا ہوں اور کب آئوں گا۔ قمر بھائی کے عادات و اطوار بدلتے دیکھے تو مجھ کو بڑی تشویش ہوئی، میں ماموں کے گھر گئی اور ستارہ کو بتایا کہ چاند ایسا ہو گیا ہے۔ تمہی اس کو سمجھا سکتی ہو اور روک بھی سکتی ہو کیونکہ وہ تمہاری ہر بات مانے گا۔ وہ بھی پریشان ہو گئی۔ اس نے کہا میں ضرور سمجھائوں گی۔ موقع پا کر قمر کو سمجھانے ستارہ ہمارے گھر آئی، اتفاق سے اس دن بھائی گھر پر تھا۔ ستارہ نے کہا۔ قمر تم نے میرے بارے کیا سوچا ہے۔ یہی کہ میں تم ہی سے شادی کروں گا – اچھا تو پھر تم میری ایک بات مانو ! تم عارف اور اس کے ساتھی لڑکوں کی دوستی چھوڑ دو اور آوارگی ختم کر دو ورنہ میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔ یہ بات قمر کے دل پر گولی کی طرح لگی۔ اس نے عارف سے دوستی ختم کر دی۔ بُری صحبت ترک کر کے وہ د و بارہ پڑھائی میں سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے باقاعدگی سے کالج جانا شروع کر دیا۔ دو سال تک وہ کتابوں کا کیڑا بن گیا، یہاں تک کہ جب رزلٹ آیا تو اس نے فرسٹ پوزیشن لی تھی۔ اس کا میابی پر میں اور ا با جان پھولے نہیں سماتے تھے۔ ا می زند ہ ہو تیں تو ماموں ممانی اور خالہ بھی خوشی سے دیوانے ہوتے مگر اب انہوں نے کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کیا، البتہ کبھی خوشی اگر کسی کو ہوئی تو ستارہ کو ہوئی۔ اس نے سجدہ شکر ادا کیا۔ عورت چاہے تو مرد کا دل و دماغ ہی نہیں، اس کی کائنات ہی بدل ڈالے۔ کم از کم میرے بھائی کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ نیک اور اچھا بن گیا۔ لائق ہو گیا تو اس نے سوچا اب تو ماموں کے گھر اس کی عزت ہو گی۔ وہ پہلے سے زیادہ ماموں کے گھر جانے لگا مگر کسی نے نوٹس نہ لیا، سوائے ستارہ کے جو دل و جان سے اس کی منتظر ہوتی تھی۔ ایک دن قمر بھائی خالہ کے گھر گئے ، ان سے کہا۔ خالہ تم ماں کی جگہ ہو ، ان لوگوں کو نجانے کیا ہو گیا ہے۔ میری ماں کے مرتے ہی بدل گئے ہیں۔ تم ہی ان کو سمجھائو ، ستارہ میری منگیتر ہے ، ۔ تبھی خالہ نے جواب دیا۔ پرانے بندھن بھول جائو اور اب تم ماموں کے گھر بھی مت جایا کرو۔ خالہ کی بات سُن کر قمر کو بہت دُکھ ہوا، مگر وہ باز نہ آیا پھر ماموں کے گھر گیا۔ خالہ وہاں بیٹھی تھیں، ان کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ انہوں نے ممانی سے بات کی کہ لڑ کاروز یہاں آتا ہے اور تمہاری جوان لڑکی گھر میں ہے، تم کیسی ماں ہو ۔ اتنی غفلت اچھی نہیں۔ گویا ممانی کو عقل کے ناخن مل گئے۔ انہوں نے بیٹی کو کہا۔ ستارہ، قمراب آئے تو کہہ دینا کہ آئندہ یہاں نہ آیا کرے۔ ستارہ مجبور ہو گئی ، وہ ماں سے ڈرتی تھی۔ اس نے قمر سے کہا۔ اب یہاں نہ آیا کرو۔ امی نے منع کیا ہے۔ اس نے بات مان لی پھر کبھی ان کے گھر نہیں گیا کیونکہ میر ابھائی ستارہ کی ہر بات مانتا تھا۔ ماموں کی بڑی بیٹی کی شادی تھی۔ ہم بھی گئے ، وہاں قمر اور ستارہ بہت خوش تھے کیونکہ دونوں ایک گھر میں تھے۔ وہ چھت پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ خالہ نے دیکھ لیا۔ نیچے آکر ممانی کے آگے خوب بڑھا چڑھا کر بات کی اور یہاں سے قمر اور ستارہ کے درمیان جدائی کی ابتدا ہو گئی، جس میں ان کی اور ہم سب کی خوشیاں غرق ہو گئیں۔ اس روز تو دونوں چُپ ہو گئے ، ڈانٹ کھا کر سر جھکا لیا۔ شادی کے دوسرے دن جب دلہن رخصت ہو گئی اور مہمان رخصت ہو رہے تھے اور وہ کچن میں کھانا گرم کر رہی تھی تو قمر وہاں آگیا، اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے ستارہ سے کھاناما نگا۔ کہنے لگا، کھانا تو گرم کر دو، بھوک لگی ہے۔ کل صبح تو ہم چلے جائیں گے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ بجلی چلی گئی۔ انہوں نے موقع غنیمت جانا، اندھیرا ہوتے ہی شور مچانے اور گالیاں دینے لگی کہ بے شرم ، بے غیرت، کسی کی عزت کا پاس نہیں، کسی کا خیال نہیں۔ غرض انہوں نے ایسے شور کیا جیسے خُدا جانے کیا غلط بات دیکھ لی ہو۔ حالانکہ میں بھی ان کے پیچھے کھڑی تھی اور دیکھ رہی تھی کہ قمرکچن کے دروازے سے باہر کھڑا ستارہ سے بات کر رہا تھا جبکہ وہ کچن کے اندر کھانا گرم کر رہی تھی۔ خالہ کے شور کرنے سے ممانی موم بتی ہاتھ میں پکڑے باورچی خانے کی طرف گئیں۔ قمر بچارا گھبرا کر ادھر سے چلا تو ممانی پریشان ہو گئیں ، خُدا جانے کیا ہوا ہے۔ ماموں بھی شور سُن کر بیٹھک سے صحن میں آگئے ، مہمان بھی سب چوکنے ہو گئے کہ کیا مسئلہ ہو گیا ہے، پھر تو جو جس کے جی میں آئی، کہا۔ مہمانوں میں ماموں کی بے عزتی ہو گئی۔ خالہ کے شور کرنے کی وجہ سے ہر ایک پوچھ رہا تھا، کیا ہوا؟ کیوں چلارہی ہو اور خالہ کہہ رہی تھیں۔ ہم سے کیا پوچھتے ہو۔ اس بے غیرت، بے شرم قمر سے پوچھو۔ خالہ نے ایسا جال بن کر ڈالا کہ قمر اور ستارہ اس میں پھنس کر بے موت مر گئے۔ ماموں نے و دونوں کو پیٹ ڈالا۔ انہوں نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ بہت بے عزت ہو کر میں اور قمر بھی ماموں کے گھر سے نکلے۔ ابا جان بیمار تھے۔ وہ تو شاد ی پر باہر سے ہو کر چلے گئے تھے۔ سارے رشتہ داروں کو پتا چل گیا ہم ماموں خالہ کی وجہ سے کسی کو مُنہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ خالہ کا وار اوچھا تھا مگر کامیاب رہا تھا۔ ماموں نے خالہ سے کہا کہ وہ ناہنجار تود فعہ ہوا۔ تم ہی اپنے بیٹے کے لئے ستارہ کارشتہ لے لو۔ ساری براد ر ی میں بد نامی تو ہو چکی ہے۔ خالہ کی پانچوں انگلیاں میں تھیں، بھلاوہ کیوں نہ خوش ہو تیں۔ ان کے تو وارے نیارے ہو گئے تھے۔ ایک دن ستارہ مجھے بازار میں ملی ، بہت روئی، حالانکہ ہم بازار میں ملے تھے ۔ میں نے اس کو چپ کرایا، اس کے ساتھ نوکرانی تھی اور ڈرائیور تھا۔ مجھے ڈر تھا یہ لوگ جا کر پھر کوئی بات ممانی کو نہ کہہ دیں۔ ماموں اس کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔ ہمارا تو مکمل طور پر ان کے گھر کا آنا جانا ختم ہو گیا۔ فون پر چوری چھپے میں اور ستارہ بات کر لیتے تھے۔ اس بات کا بھی ممانی کو پتا چل گیا۔ بیٹی کو خوب ہی برا بھلا کہا۔ ابا جان کو بلا کر میری شکایت کی۔ وہ گھر آئے تو بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے قمر کو مارا۔ بس اس روز سے میرے بھائی کا دماغ پلٹ گیا۔ اس نے خود کشی کی کوشش کی مگر ڈاکٹروں کی کوشش سے بیچ گیا۔ قمر کی جان تو بچی مگر وہ آوارہ اور چڑ چڑے مزاج کا ہو گیا۔ اب وہ گھر میں ہم سے کم بات کرتا، آوارہ گھومتارہتا، ابا کا وہی واحد سہارا تھا۔ ان کو اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ اسے اپنا کاروبار سونپنا چاہتے تھے۔ دکھ سے ان کی صحت متاثر ہو گئی – پہلے تو سب ایک ہوتے تھے ، ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ اب یہ حال ہوا کہ ماموں ہم کو دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ خالہ ، خالو ماموں سب ایک ہو گئے۔ میں اور ا باجان ہی بس اکیلے رہ گئے۔ قمر کا کیا تھا، وہ تو اپنا رہا اور نہ کسی اور کا، نشہ کرنے لگا۔ نشے نے اس کے اعصاب کو متاثر کیا۔ آج میر اچاند سا بھائی قمر کہاں ہے ؟ کچھ پتا نہیں۔ ایک دن گھر آیا تھا، ابو سے پیسے مانگے ،انہوں نے اسے ڈانٹ دیا۔ قمر کو ابا کی ڈانٹ نے فنا کر کے رکھ دیا۔ اس کو ان کے پیار پر بھروسہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا، ساری دُنیا مجھ سے نفرت کر سکتی ہے مگر میرا باپ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ وہ باپ کی دھتکار نہ سہ سکا۔ نیم پاگل تو تھا، پورا پاگل ہو گیا۔ گھر سے نکالا خدا جانے کدھر چلا گیا۔ اس کے بعد ابا جان کی جو حالت ہوئی بیان نہیں کر سکتی۔ وہ بھی بیٹے کی تلاش میں جیسے پاگل سے ہو گئے۔ کہاں کہاں نہیں انہوں نے اسے ڈھونڈا، کتنا نہیں پکارا، مگر ان کی کوئی صدا اس تک نہ پہنچ سکی۔ وہ کہیں نہ ملا اور نہ خود لوٹ کر آیا۔ اس واقعے کو اٹھارہ برس گزر چکے ہیں۔ اس کے چار سال بعد کسی نے اس کو ایک درویش کے روپ میں کسی مزار پر دیکھا تھا، اس کے بعد بھی کوئی خبر نہ ملی۔ اباجب تک زندہ ر ہے، ان کی نگاہیں دروازے پر رہتی تھیں۔ بیٹے کی خاطر وہ دن رات گھر کا دروازہ کھلا ہی رکھتے تھے کہ شاید کسی دن قمر آ جائے۔ ابا قمر کے جانے کے بعد کاروبار پر توجہ نہ دے سکے اور کارو بار بیٹھتا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں تو وہ بہت دُکھی رہتے تھے۔ مجھ سے ان کا دُکھ دیکھا نہیں جاتا تھا۔ میں اپنے اکلوتے بھائی کی جدائی سے پریشان تھی، اوپر سے والد کی حالت اور بیماری کا بوجھ میں نے کیسے برداشت کیا۔ بس وہ بھی قیامت کے دن تھے۔ بالآخر وہ مجھ کو اس بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر چل ہے۔ ہمارے گھر کو تالا لگ گیا۔ پھپھو اور چا جو دوسرے شہر میں رہتے تھے، مجھے آکر اپنے ساتھ لے گئے۔ سال بعد پھپھو کے بیٹے سے میری شادی ہو گئی۔ خالہ نے بڑے چائو سے ستارہ کو اپنی بہو بنایا تھا مگران کا بیٹا غصے کا تیز اور نالائق تھا۔ اس کی بیوی کے ساتھ ایک دن نہ بنی۔ نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔ اس وجہ سے خالہ اور ماموں میں بھی جدائی ہو گئی۔ ماموں کی دولت خالہ کے کسی کام نہ آئی۔ آج میں تو اپنے گھر خوش ہوں مگر ستارہ برباد ہے اور قمر میر چاند سابھائی، خُدا جانے کہاں ہے اور کس حال میں ہے، میری آنکھیں اپنے پیارے بھائی کی دید کو ترس گئی ہیں۔ ایک بہن کو اپنے بھائی سے کتنی محبت ہوتی ہے، یہ کوئی ان بہنوں سے پوچھے جن کے بھائی جیتے جی ان سے بچھڑ جاتے ہیں۔