ابا اور چچا کا کاروبار مشترکہ تھا، ہم سب اکٹھے رہا کرتے تھے۔ ہمارا گھر خوشیوں کا گہوارا تھا۔ اس کا سبب میری والدہ اور چچی جان تھیں، چچی میری سگی خالہ بھی تھیں۔
کہتے ہیں بچپن کے پیار کو بھلایا نہیں جاسکتا جبکہ ننھے منے کزن ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔ اکٹھے پڑھتے ہوں، اور اکٹھے کھیلتے ہوں۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، دیکھتے ہی دیکھتے، ہم سب بڑے ہوگئے۔ جن دنوں میں دسویں میں تھی۔ ذیشان سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ ہمارے رشتے کی باتیں ہونے لگیں، لیکن مجھے پڑھائی کی فکر تھی۔ چاہتی تھی کہ گریجویشن کرلوں تبھی شادی ہو۔
میں نے انکار کیا تو ذیشان کو غلط فہمی ہوگئی کہ میں اسے پسند نہیں کرتی، اس نے اپنی ماں سے کہا کہ میری آرزو تھی کہ شادی صائمہ سے ہو، وہ اگر نہیں مانتی تو زبردستی نہ کریں، میں نے یہ بات سنی تو میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ چچا کے بچوں میں ذیشان ہی سب سے زیادہ میرا خیال رکھتا تھا۔ اسے میری پڑھائی کی بھی فکر رہتی تھی۔ کہتا تھا محنت کرو، اچھے نمبر لائو اور اسکول میں بہترین طالبہ کہلوائو۔ وہ اکثر پڑھائی میں میری مدد کردیا کرتا، جبکہ اس کا چھوٹا بھائی ارشاد بالکل مدد نہیں کرتا تھا حالانکہ وہ لائق اور ذہین طالب علم تھا، لیکن اس کی تعلیمی رپورٹ بعد میں خراب آنے لگی۔
چچا نے اس بارے میں استفسار کیا تو اس نے کہا کہ نئے ٹیچر صحیح نہیں ہیں وہ بات بات پر کلاس میں انسلٹ کرتے ہیں اور اسٹیل کے اسکیل سے پیٹتے بھی ہیں۔ سب ہی لڑکے ان کے رویے سے ناخوش ہیں، آپ ہیڈ ماسٹر سے ان کی شکایت کریں۔ چچا جان نے سمجھایا۔ استاد سختی کرے تو برا نہیں ماننا چاہئے۔ کچھ بچے جب کلاس میں توجہ سے نہیں پڑھتے یا اپنا ہوم ورک ٹھیک طور پر نہیں کرتے تو ٹیچر کو سختی کرنی پڑتی ہے تاکہ رزلٹ اچھا آئے۔ وہ تمہارے بھلے کو ایسا کرتے ہوں گے۔
اب جب بھی ارشاد باپ سے استاد کا گلہ کرتا، وہ ٹیچر کی حمایت کرنے لگتے جس پر وہ خاموش ہوجاتا… لیکن تعلیم سے اس کی لاپروائی بڑھتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دسویں کلاس میں فیل ہوگیا… والد صاحب اس صورت حال سے گھبرا گئے کیونکہ وہ میری چھوٹی بہن تہمینہ کا رشتہ اس کے ساتھ طے کرنے والے تھے۔
رزلٹ آیا تو چچا جان نے ارشاد کی خوب پٹائی کی، لیکن کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کیوں نئے ٹیچر سے اس قدر برافروختہ ہوگیا ہے کہ ہر وقت اس کا گلہ کرتا ہے اور اسکول چھوڑنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
ٹیچر کے بعد جب باپ نے بھی سختی کی اور پابندیاں لگائیں، حتٰی کہ جیب خرچ بھی بند کردیا تو ارشاد نے اسکول سے بھاگنا شروع کردیا۔ تب بھی چچا جان نے اسکول جاکر یہ معلوم کرنے کی زحمت نہ کی کہ صحیح صورت حال کیا ہے۔ کیونکہ پہلے تو ارشاد لائق طالب علم تھا۔ اسکول سے کبھی ناغہ نہ کرتا او باقاعدہ ہوم ورک کرتا تھا۔ دسویں میں کیوں کر منفی سوچوں کا شکارہوگیا۔
والد اور چچا کو بزنس سے فرصت نہ تھی اور ارشاد پوری طرح ایک باغی نوجوان کا روپ دھار چکا تھا۔ اسکول جانا چھوڑ دیا لیکن گھر والوں کو نہیں بتایا۔ اللہ جانے وہ یہ ٹائم کہاں گزارتا تھا۔ نوید ہمارے محلے میں رہتا تھا اور یہ لڑکا ارشاد کا کلاس فیلو تھا۔ ایک روز اس کی والدہ ملنے آئیں تو تذکرہ کیا کہ دسویں کے سالانہ امتحان کی داخلہ فیس بھرنی ہے۔ کچھ رقم ادھار دے دیں تاکہ بچے کی فیس بھر دوں کل آخری تاریخ ہے۔
خالہ جی کے کان کھڑے ہوگئے۔ ارشاد گھر آیا تو پوچھا۔ بیٹا تم نے امتحانی فیس کب بھرنی ہے، کیونکہ کل آخری تاریخ ہے۔ کہنے لگا۔ جی کل آخری تاریخ ہے رقم دے دیں تو بھردیتا ہوں۔ خالہ نے رقم دے دی لیکن اس نے فیس جمع کرانے کے بجائے جیب میں رکھ لی۔
ہفتہ بعد نوید کی امی رقم لوٹانے آئیں تو بتایا کہ تمہارے لڑکے نے تو اسکول چھوڑ دیا ہے۔ نوید بتا رہا تھا۔ ارشاد نے کیوں اسکول چھوڑ دیا کیا کسی اور جگہ داخلہ لے لیا ہے؟ خالہ جی کا ماتھا ٹھنکا۔ یہ بات چھپانے والی نہ تھی۔ انہوں نے چچا جان سے کہا ہیڈ ماسٹر صاحب سے پتا کریں۔ کیا یہ درست ہے کہ ہمارے بیٹے نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ گھر سے تو وہ روزانہ تیار ہوکر جاتا ہے۔
چچا ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملے، بات درست تھی۔ انہیں بے حد غصہ آیا۔ آئو دیکھا نہ تائو گھر آکر ارشاد کی خوب پٹائی کی۔ جس پر وہ گھر سے ہی متنفر ہوگیا۔
اب وہ تمام وقت گھر سے باہر گزارتا۔ چچا بے عزتی کرتے اس پر اثر نہ ہوتا تبھی میں سوچتی کہ پہلے تو وہ ایسا نہ تھا۔ آخر کیوں ایسا ہوگیا۔ جب مسلسل اپنے استاد کا گلہ کرتا تھا تو چچا کو اس وقت اس کی شکایت پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ والدین کی ناانصافیوں سے مایوس ہوکر نوجوان غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں۔ وہ اب غلط قسم کے دوستوں کے ساتھ غلط قسم کی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔
وقت گزرتا رہا ذیشان نے تعلیم مکمل کرلی اور میرا اس کے ساتھ نکاح کردیا گیا۔ رخصتی میرے سالانہ امتحان کے بعد ہونا تھی اور امتحان میں ابھی دوماہ باقی تھے مگر دادا جان سخت بیمار تھے۔ چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں یہ رسم مبارک ادا ہو لہٰذا امتحان سے دو ماہ قبل نکاح کرنا پڑا، تاکہ وہ یہ خوشی دیکھ لیں۔
میرے اور ذیشان کے نکاح کو ایک ماہ گزرا تھا کہ دادا جان کا انتقال ہوگیا، گھر پر ان کی وفات کی وجہ سے سوگواری طاری تھی لیکن ارشاد خوش باش تھا، اس کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔ صبح وہ اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھنے کا کہہ کر نکلتا اور شام کووالد اور چچا کے آنے سے کچھ دیر پہلے گھر میں قدم رکھتا تھا۔ خالہ جی کچھ کہتیں تو ان سے جھگڑ پڑتا۔ وہ خاموشی اختیار کرلیتیں کہ جوان اولاد ہے، اگر باپ سے شکایت کی تو ان کے منہ کو نہ آجائے۔
انہی دنوں یہ واقعہ پیش آیا۔ ارشاد اپنے دوست کے ساتھ ایک گرلز کالج کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک لڑکی گزری تو یہ دونوں اس کے پیچھے ہو لئے۔ ارشاد لڑکی پر فقرے کسنے لگا، اسے معلوم نہ تھا کہ لڑکی کے بھائی کا سامنے ہی جنرل اسٹور ہے، وہ یہ بدتمیزی دیکھ رہاتھا اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے اسٹور سے باہر آکر ارشاد کا گریبان پکڑ لیا، اتنے میں دوسرا بھائی بھی آگیا، دونوں نے مل کر میرے کزن کی پٹائی شروع کردی۔ یہ آپس میں دست و گریباں تھے کہ ارشاد کے دوست نے جیب سے چاقو نکال کر وارکردیا۔ چاقو لڑکی کے بڑے بھائی کو لگا اور وہ موقع پر شدید مضروب ہوکر گر گیا۔ خون کا فوارہ اس کے پہلو سے ابلتے دیکھ کر ارشاد خوفزدہ ہوگیا۔ لوگ اکٹھا ہونے لگے۔ وہ وہاں سے سرپٹ بھاگ نکلا اور اپنے ایک دوست کے گھر جا کر چھپ گیا۔ جس دوست نے چاقو مارا تھا وہ بھی بھاگ نکلا۔ بدقسمتی سے مضروب شخص اسپتال جانے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔ اس کے والد نے پولیس میں رپورٹ درج کرا دی۔ ادھر دوست نے بھی کہہ دیا کہ اب میں زیادہ دن تمہیں اپنے گھر پناہ نہیں دے سکتا، اگر میرے والد صاحب کو علم ہوگیا کہ تمہاری وجہ سے قتل ہوا ہے، وہ مجھے بھی گھر سے نکال دیں گے۔ ہم ارشاد کے لئے پریشان تھے اور چچا اس کی گم شدگی کی وجہ سے نیم جان ہورہے تھے کہ وہ اچانک گھر آگیا۔
جلد ہی پولیس اسے تلاش کرتی گھر آپہنچی۔ چچا اس واقعے سے حواس باختہ ہوگئے، والد صاحب نے پولیس کو ہر طرح کی ضمانت دینا چاہی لیکن وہ نہ مانے اور ارشاد کو پکڑ کر لے گئے۔ جب اولاد سے ایسی حرکت سرزد ہوجائے والدین کے لئے یہ گھڑی قیامت سے کم نہیں ہوتی، عزت کے ساتھ ساری زندگی کی جمع پونجی بھی دائو پر لگ جاتی ہے۔ والد اور چچا نے دولت کو پانی کی طرح بہا دیا، یوں ارشاد کی جان تو بچ گئی مگر برسوں کا جمع جمایا کاروبار اس المناک واقعے کی نذر ہوگیا۔ مقتول کے ورثہ کو صلح نامے کے عوض بھاری رقم دینی پڑی، تب کیس خارج ہوا۔ اس کے بعد چچا جان صدمے سے گھر بیٹھ گئے، ابا نے بچا کھچا کاروبار سنبھال تو لیا مگروہ پہلے جیسی بات نہ رہی۔ بس ہم ارشاد کی وجہ سے کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے سے بال بال بچ گئے۔ والد صاحب کی اچھی ساکھ مارکیٹ میں کام آگئی۔
اس موقع سے پھپھو جان نے فائدہ اٹھایا۔ جو یہ چاہتی تھیں کہ دادا کی جائداد میں ان کو برابر کا حصہ مل جائے، جبکہ چچا ایسا نہ چاہتے تھے، پھپھو نے والد صاحب کے کان بھرنے شروع کردئیے کہ تم نے ناحق بیٹی کا رشتہ شفاعت بھائی کے لڑکے کو دیا ہے۔ میرا بیٹا انجینئر ہے اور اس کا مستقبل شاندار ہے، میری یہ آرزو تھی کہ صائمہ کا رشتہ منور بیٹے کے لئے لوں گی، اللہ جانے تم نے کیوں جلدی کی، بھلا ان کے بچوں کا کیا مستقبل ہے، جو ابھی تک تمہارے محتاج ہیں۔ ایک بیٹا فسادی کام چور آوارہ اور دوسرا محض بی اے پاس ہے۔ بھلا اسے کہاں اچھی ملازمت ملے گی۔ میری مانو تو اب بھی وقت ہے، شفاعت بھائی کا اب غربت سے نکلنا مشکل ہے۔ اپنی بیٹی کے مستقبل کی سوچو۔
بار بار بہن نے ایسی باتیں کیں تو والد بھی سوچ میں پڑ گئے کہ واقعی جب بھائی کے بیٹوں کا یہ حال ہے تو میری بیٹی کیسے گزارہ کرے گی۔ کہیں اسے عمر بھر محنت مشقت کی چکی پیسنی نہ پڑ جائے۔ ابھی وہ اسی سوچ میں تھے کہ چچا نے گھر کے بٹوارے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنا حصہ بیچ کر اس روپے سے کوئی کاروبار کروں گا۔ اور خود کرائے کے مکان میں رہ لوں گا۔
والد نے سوچا کہ میں کب تک ان کا ساتھ دوں گا اور ان کا کنبہ پالوں گا جبکہ ارشاد کا کچھ پتا نہیں، کب کوئی گل کھلا دے۔ انہوں نے آدھے مکان کے درمیان دیوار اٹھا دی اور وہ حصہ چچا کے حوالے کردیا۔ بولے تمہاری مرضی اس میں رہو یا بیچ کر کاروبار کرلو۔ لیکن میں اب بھی یہی کہوں گا کہ اپنا ٹھکانہ بیچ دیا تو دربدر ہوجائو گے اور ساتھ ہی میری بیٹی بھی تمہاری بہو بن کر دربدر ہوگی۔
ادھر انہوں نے آدھا گھر بھائی کو دیا، ادھر والدہ کے کان کھانے لگے کہ یہ مفلس ہوگئے ہیں، ہماری بیٹی کیوں کر خوش رہ سکے گی۔ کیوں نہ ہم آپا سنجیلا کی بات مان لیں، ان کا بیٹا لائق فائق ہے اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔ وہ سچ کہتی ہیں محض ایک بی اے پاس سے، لائق انجینئر کا مستقبل زیادہ روشن ہے۔ بہن اپنا حق مانگتی ہے تو یہ کون سی غلط بات ہے۔ اس کا شرعی حق ہے لیکن شفاعت بھائی کو یہ حق بھی آپا کو دینا منظور نہیں، ان پر تبھی یہ مصیبت آئی ہے۔
امی کے دل میں خالہ جی کا پیار تھا، وہ رشتہ توڑنے پر راضی نہ تھیں۔ کہتی تھیں اچھے برے دن آتے جاتے رہتے ہیں، اس پر خونی رشتے نہیں ٹوٹ جاتے… اور اب تو صائمہ اور ذیشان کا نکاح بھی ہوچکا ہے، منگنی نہیں کہ توڑ دیں، ایسی باتیں مت سوچو بیٹی کی جو قسمت میں ہے وہ اسے مل کر رہے گا۔
والدہ کی باتوں پر ابا جان نے دھیان نہ دیا، یہی کہتے تھے کہ بھئی نکاح ہوا ہے۔ رخصتی تو نہیں ہوئی نا۔ شفاعت بھائی ہے تو سنجیلا آپا میری بہن ہے۔ بھائی کا لڑکا نہ سہی بہن کا سہی۔ رشتہ غیروں میں تو نہیں جارہا۔
ابا جان کی نیت بدل گئی تھی۔ پھوپھا کافی امیر آدمی تھے اور بھائی اب مطلق غریب ہوچکا تھا۔ چچا کے گھر میں مفلسی نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ ادھر ارشاد ہمارے خاندان کے لئے مسلسل ایک جیتا جاگتا خطرے کا نشان بن چکا تھا۔ جس کی وجہ سے ڈر تھا کہ کوئی دوسری مصیبت نہ آجائے۔ ہر کوئی چچا سے منہ پھیرنے لگا، بالآخر والد صاحب نے فیصلہ کرلیا اور چچا سے کہا کہ وہ ذیشان سے صائمہ کی طلاق چاہتے ہیں۔
جب امی نے یہ سنا تو دل تھام لیا اور میرا تو غم سے برا حال تھا۔ ہرگز میں چچا اور ذیشان سے رشتہ ختم نہ کرنا چاہتی تھی۔ اس وجہ سے کہ وہ غریب ہوگئے تھے۔ مجھے ذیشان سے محبت تھی اور باشعور ہوتے ہی ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اتنا پیار راسخ ہوگیا تھا کہ اب اس کا محو کردینا محال تھا۔
چچا نے گھر فروخت کرنے کی بات کی تو پھپھو نے والد سے کہا جتنی رقم مانگتے ہیں۔ انہیں میں ادا کردیتی ہوں اور مکان تمہاری بیٹی کے نام کردیتی ہوں، بشرطیکہ کہ یہ صائمہ کو طلاق دے دیں۔ پھر میں اسے اپنی بہو بنالوں گی۔
والد کو یہ سودا بھی برا نہ لگا۔ وہ چاہتے نہ تھے کہ ان کی رہائش کے آدھے حصے میں غیرلوگ آکر بس جائیں۔ انہوں نے پھپھو سے روپیہ لے کر چچا کو دیا اور آدھا مکان میرے نام کرالیا، اس کے بعد ہی ذیشان پر خلع کا مقدمہ میری جانب سے دائر کرنے کے لئے وکیل سے ملے۔
امی نے خالہ جی کو فون کرکے بتایا۔ وہ ہمارے گھر آئیں اور والد صاحب سے کہا۔ بھائی صاحب، آپ عدالت جانے کی تکلیف نہ کریں، ہم خود ہی صائمہ کو آزاد کئے دیتے ہیں، میں ذیشان کو راضی کرتی ہوں کہ وہ طلاق کے کاغذات پر دستخط کردے۔ ہمیں تھوڑی سی مہلت دے دیجئے۔
میں ان حالات سے بے حد پریشان تھی ابا سے کیا کہتی وہ پوری طرح پھپھو کی مٹھی میں آچکے تھے۔ کسی کی سنتے ہی نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بہن کو راضی کرلیں گے تو بہنوئی ان کے گرتے کاروبار کو سنبھالا دے دے گا۔
حیران تھی کہ انسان جب کاروباری انداز میں سوچنے لگتا ہے تو وہ کتنا بے رحم ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی اولاد کی خوشی کے برباد ہوجانے کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ سوچ سوچ کر میں پاگل ہوتی جارہی تھی، اسی کشمکش میں بالآخر میں ایک نتیجہ پر پہنچ گئی کہ جو ہو سو ہو لیکن میں اپنے پیارے چچا اور خالہ جی کا ہرگز ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔ انہوں نے مجھے بچپن سے ہی اولاد جیسا پیار دیا تھا، یہ انمول پیار ایسا نہ تھا کہ پل بھر میں مٹ جاتا۔
ایک شام میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور گھر سے نکل کر چچا کے گھر چلی گئی، جو انہوں نے ہمارے محلے سے تھوڑے فاصلے پر کرائے پر لیا تھا۔ دستک پر چچا نے دروازہ کھولا ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں شام کے اندھیرے میں ایک چھوٹا سا بیگ لئے دروازے پر موجود ہوں۔ بیٹی اندر آجائو… خیریت تو ہے صائمہ، تم کیسے اس وقت اکیلی آگئیں۔
میں ہمیشہ کے لئے آگئی ہوں چچا جان… کیونکہ ابا جان میری اور ذیشان کی طلاق کے درپے ہوچکے ہیں، وہ مجھے پھپھو کی بہو بنانا چاہتے ہیں اور یہ مجھے ہرگز منظور نہیں ہے۔ یہ کہہ کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ خالہ جی نے گلے لگایا لیکن میرا رو رو کر برا حال تھا۔ کچھ دیر چچا چچی دونوں سمجھاتے رہے کہ بیٹی تمہیں اس طرح گھر سے نہیں آنا چاہئے تھا۔ بہتر ہے کہ واپس گھر چلی جائو … لیکن میں اڑ گئی اور گھر لوٹ جانے سے انکار کردیا۔ ذیشان نے والد کی منت کی کہ اباجی آپ اسے واپس نہ بھیجئے۔ یہ ہم سب کی عزت ہے، تایا جی کا گھر ہو یا ہمارا … دونوں گھر اسی کے ہیں، آپ تایا سے خود بات کیجئے اور بتائیے کہ آپ کی بیٹی اپنی مرضی سے ہمارے گھر آگئی ہے اور اب واپس آپ کے گھر جانا نہیں چاہتی۔ وہ آپ کے بھائی ہیں اور یہ میری منکوحہ ہے۔ بات چیت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ خالہ جی نے بھی یہی رائے دی کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا لیکن اب میں اپنی بہو کو جدا نہیں کروں گی۔
ادھر امی ابو پریشان تھے کہ میں کہاں چلی گئی، تبھی چچا کا فون آگیا کہ صائمہ ہمارے گھر ہے پریشان نہ ہوں۔ میں اور صفیہ ابھی پہنچ رہے ہیں۔ چچا اور خالہ جی ابا جان کے گھر گئے۔ وہ ان کو دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے کہ تم نے میری بیٹی کو میری مرضی کے خلاف کیوں گھر میں رکھ لیا ہے… اسے ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے۔ وہ بولے۔ صائمہ آنے پر راضی نہ تھی تو زبردستی کیسے لاتے؟ آپ خود چل کر اسے سمجھائیں۔ آپ کے ساتھ آنا چاہے گی تو ہم نہیں روکیں گے۔
امی نے اس نازک موقع پر اپنے دیور اور بہن کا ساتھ دیا۔ شوہر کو بھی سمجھایا کہ دولت ہی سب کچھ نہیں… اصل اہمیت رشتوں کی ہے۔ بڑی مشکل سے ابو مانے۔ کچھ عرصے مجھ سے ناراض رہے لیکن پھر معاف کردیا۔
میری شادی کے بعد ذیشان کو ملازمت مل گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ حالات درست ہونے لگے۔ والد صاحب نے دوبارہ چچا کو بزنس میں شامل کرلیا… پھپھو کو رقم لوٹا کر مکان میں جو حصہ بنتا تھا ادا کرکے گھر واگزار کرالیا۔ میں اور ذیشان دونوں بھائیوں کے درمیان محبت کا پل بن گئے اور ہم اپنے والد کے گھر کے قریب واپس آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے چچا اور خالہ جی کی دعائیں قبول کرلیں۔
پھر ارشاد کو بھی عقل آگئی، اس نے احساس کرلیا کہ اس کی وجہ سے ہم سب پر کتنی مشکلات آئی تھیں، ارشاد نے اس کے بعد اپنے آپ کو سدھار لیا اور دکان پر بیٹھنے لگا۔ اس نے آوارہ گردی چھوڑ دی، اسے سبق مل گیا کہ بری صحبت اور برے دوست، تباہی کے راستے پر لے جاتے ہیں۔
آج وہ ماں باپ کا تابعدار بیٹا ہے۔ والد اور چچا کے ساتھ کاروبار میں شریک ہے۔ والد صاحب نے میری چھوٹی بہن سے اس کی شادی کردی ہے۔ شادی کے بعد اس نے آج تک کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا… ایک انسانی جان جانے کا اسے بھی دکھ ہے اور اس خطا کے بدلے مقتول کے وارثوں کو اس کے والد نے جو سرمایہ نذر کیا تھا اس کا بھی اسے بے حد احساس ہے۔
(ص … لاہور)