اس واقعہ کا تعلق میری مرحومہ بھابھی سے ہے بلکہ یہ بھابھی شبنم ہی کی کہانی ہے۔ ان کا اصلی نام توشمیم تھا لیکن انہوں نے بعد میں شبنم رکھ لیا تھا۔ نام کی تبدیلی بھی ایک مجبوری تھی کیونکہ جب کوئی اپنی شناخت کھو دیتا ہے تو پھر اس کا اصل نام بھی بوجھ بن جاتا ہے۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی ، میرے شوہر ٹرک چلاتے تھے۔ ان کا اپنا ٹرک تھا۔ جس پر سامان لاد کر وہ ایک شہر سے دوسرے شہر جایا کرتے تھے۔ یوں انہیں اپنے وطن کے کونے کونے پھرنے کا موقع ملا۔ ایک بار وہ ٹرک لے کر میانوالی گئے۔ وہاں سے کچھ سامان لا کر پشاور جانا تھا۔ پشاور پہنچ کر سامان اتارا تو ایک واقف کار امان خان مل گیا۔ یہ ہوٹل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ امان خان سے پرانی جان پہچان تھی۔ وہ ڈرائی فروٹ کا تاجر تھا کئی بار اس کا مال کراچی پہنچایا تھا۔ اس نے خیر خیریت ، حال احوال کے بعد کہا یار میرے ایک علاقہ دار آدمی کا کام ہے۔ کیا تم یہ کام کر دو گے؟ کیا کام ہے اور مال کہاں پہنچاتا ہے؟ ملتان پہنچاتا ہے۔ مال نہیں ہے بس دو سواریاں ہیں۔ آج کوئی سواری نہیں اور ان کا ملتان جانا ضروری ہے۔ ہاں کیوں نہیں۔ میں ملتان ہی جارہا ہوں ، سواریاں ساتھ اٹھا لوں گا۔ راستہ میں چیکنگ ہوئی تو کہہ دوں گا کہ میرے اپنے بال بچے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ امان خان نے جواب دیا تم کھانا کھا لو جب تک میں سرور خان کو لے کر آتا ہوں۔ چند منٹ میں لوٹ آیا۔ اس کے ساتھ ایک آدمی تھا۔ یہ سرور خان ہے، اس کے چھوٹے بھائی کی ملتان میں نوکری ہے، ان کی نئی شادی ہوئی ہے۔ اپنی بھابھی ساتھ لے جا رہا ہے۔ ان کو تمہارے ساتھ جانا ہے۔ ملتان پر جہاں کہیں اتار دینا۔ ٹھیک ہے خاور صاحب، سرور خان نے مشکور ہو کر کہا۔ ٹھیک وقت پر سرور ایک لڑکی کے ہمراہ اڈے پر آ گیا۔ خاور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے ساتھ لڑکی بمشکل بارہ برس کی تھی۔ تا ہم ایک نظر کے بعد اس نے دوسری نظر اس پر نہ ڈالی کہ یہ ایک معیوب بات تھی۔ ہمارے وطن کے پسماندہ دیہاتوں میں لڑکیوں کو کم عمری میں بھی بیاہ دیا جاتا ہے۔ تاہم اس لڑکی اور سرور کی عمر میں فرق واضح تھا۔ لگتا یہی تھا کہ وہ اس کے چھوٹے بھائی کی منکوحہ ہی ہے۔ خاور کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ امان خان لین دین کا کھرا تجارتی بندہ تھا اور اس سے پرانا تعلق بھی اس کی تجارت کی بنیاد پر تھا۔ اعتبار کر کے میرے خاوند نے اس کی استدعا پر ان لوگوں کو ساتھ لے جانے کی ہامی بھر لی تھی۔لڑکی نے چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ صرف چہرے کا تھوڑا سا حصہ ظاہر تھا، جس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ لڑکی نو عمر ہونے کے علاوہ خوبصورت ہے۔ اس ایک جھلک کے بعد خاور نے اس بچی کی دوسری جھلک نہیں دیکھی۔ وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ معاون ملازم کو ساتھ والی نشست پر بٹھایا جبکہ سرور اور اس کے ہمراہ آنے والی کو اس نے پچھلی سیٹ پر جس کو ٹرک ڈرائیور چلتے ٹرک میں سونے یا آرام کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ساری رات کا سفر طے کر کے یہ لوگ صبح ملتان پہنچ گئے۔ ابھی اندھیرا باقی تھا۔ رات بھر ٹرک چلا کر خاور بہت تھک چکے تھے۔ وہ اب آرام کرنا چاہتے تھے۔ معاون ملازم نے کہا اتار دو استاد جی میں خود گھر چلا جاؤں گا۔ اب ان دونوں سواریوں کو بھی اتار کر خاور نے گھر آنا تھا۔ ہمارا گھر شہر سے کچھ اور آگے ایک مضافاتی بستی میں تھا۔ چونکہ لڑکی ہمراہ تھی اور وقت ایسا تھا کہ ابھی صبح کا اجالا بھی اچھی طرح نہیں پھیلا تھا۔ خاور نے یہی مناسب خیال کیا کہ ا ڈے پر اتارنے کی بجائے وہ ان لوگوں کو ان کی منزل کے قریب اتار دے۔ اس نے سرور خان سے پوچھا۔ آپ لوگوں نے کہاں اترتا ہے؟ جگہ بتادیں تو آپ کے ٹھکانے کے قریب ہی اتار دوں گا۔ سرور نے بتایا کہ فلاں جگہ پہنچا دو، آگے ہم خود چلے جائیں گے۔ جب وہ مطلوبہ جگہ اتر گئے، خاور نے ذرا دیر کو ٹرک سے اتر کر ہی ایک کپ چائے کا آرڈردیا اور خود ہوٹل کے واش روم جانے کا سوچا۔ اس کی دونوں سواریاں سڑک پر پیدل چلتے ہوئے ایک قریبی گلی میں مڑ گئیں۔
خاور کو خیال آیا کہ سرور نے ایک بیگ اسے دیا تھا جس میں ان کے کپڑے یا شاید ضرورت کا سامان ہوگا۔ وہ بیگ تو انہوں نے طلب نہیں کیا – خاور چائے خانے سے دوڑ کر سڑک کی طرف گئے اور بیگ اٹھا کردوڑ لگا دی تا کہ اپنی سواریوں کو آواز دے کر روک سکیں کہ اپنا سامان تو لے لیں – جب خاورگلی کے سرے تک پہنچے پہنچے دیکھا کہ وہ گلی کے آخری کونے پر تھے اور وہاں ایک مکان پر دستک دے رہے تھے۔ زرا دیر بعد دروازہ کھلا اور وہ اندر چلے گئے ۔ خاور نے اطمینان کا سانس لیا کہ گھر دیکھ لیا ہے۔ وہ گلی پار کرنے کے بجائے ٹرک کی جانب لوٹ آئے اور چائے خانے کے واش روم میں چلے گئے۔ حاجت سے فارغ ہو کر منہ ہاتھ دھویا۔ اتنے میں چائے کی ٹرے ٹیبل پر موجود تھی اور ایک چھوٹا ان کا منتظر تھا۔ سوچا چائے پی کر بیگ پچھلی سیٹ سے اتار لوں گا اور پھر اس سامان کو سرور کے حوالے کرنے مذکورہ مکان پر چلا جاؤں گا۔ خاور نے چائے کے بعد آرام کیا اور پاؤں میں چپل پہنے سامان دینے چل دیے- قسمت خراب کے چپل میں سے کانچ پاؤں میں چبھ گیا ور خوں بہنے لگا جب دروازے پر دستک دی، درد سے جان نکلی جا رہی تھی- کچھ دیر تک بار بار دستک دینے کے بعد دروازے پر ایک نہایت حسین دو شیزہ آنکھیں ملتی ہوئی آئی اور در کو ذرا سا کھول کر کے بولی۔ کون ہے۔ کیا نام ہے؟ سرور خان کا یہ بیگ ہے اس کو دے دیں- نفرت سے وہ لڑکی اندر چلی گئی- پاؤں میں درد سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، خون بہہ رہا تھا وہ سرور خان کو آواز لگاتے ہوئے دروازے سے اندر چلے گئے۔ لڑکی تو کمرے میں جا کر غائب ہو گئی لیکن ایک بوڑھی عورت صحن کے کونے میں بنے غسل خانے سے نکلی اور پوچھا کیا بات ہے اور آپ کون ہیں ؟ ایسے کیوں اندر آگئے ہیں۔ خالہ جی، میں سرور کے پیچھے آیا ہوں اس کا سامان میرے ٹرک پر رہ گیا تھا۔ یہ لیجئے ۔ خاور نے بیگ اس کی طرف بڑھا دیا۔ عورت کی نظر خاور کے پیر پر پڑی جس سے خون بہہ رہا تھا – یہ مجھے کانچ چبھ گیا ہے شاید گلی میں کچھ ٹوٹا پڑا تھا، اس پر میرا پاؤں آ گیا۔ اچھا! عورت نے رکھائی سے کہا۔ ادھر چار پائی پر بیٹھ جاؤ۔ میں ٹھنڈا پانی لاتی ہوں، پاؤں پر ڈالو، خون صاف ہو جائے گا۔ ذرا دیر میں وہ اسٹیل کا جنگ بھر لائی۔ خاور نے پاؤں دھویا اور کانچ کا ٹکڑا کھینچ کر پیر سے الگ کر دیا۔ اب اور زیادہ خون بہہ نکلا ۔ خالہ جی کوئی کپڑا ہو گا۔ پٹی باندھنے کو؟ ہاں ٹھہرو۔ وہ اندرگئی اور ایک صاف ستھری پٹی لے آئی ۔ شیشی میں زخم کو دھونے کا جراثیم کش محلول بھی تھا۔ سرور خان کہاں ہے؟ ذرا اسے بھیجئے ۔ وہ چلا گیا ہے، اسے کوئی ضروری کام تھا۔ اچھا۔ خاور اٹھنے کو ہوئے تو عورت بولی۔
لمبے سفر سے آئے ہو، پاؤں بھی زخمی ہے، ذرا سا بیٹھ جاؤ ۔ زخم رسنا بند ہو جائے گا پھر چلے جانا، وہ برف کی کچھ ڈلیاں ایک برتن میں ڈال کر لائی تھی۔ یہ زخم پر پھیرو گے تو خون تھم جائے گا۔ خاور کو کافی تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ انہوں نے عورت کی ہدایت سے زخم پر برف کا ٹھنڈا پانی ڈالا اور پٹی لپیٹ لی۔ ذر دیر بعد تکلیف کم ہو گئی اور زخم بھی رسنا بند ہو گیا۔ اب اس زخمی پاؤں سے کیسے چلو گے؟ پاؤں پر دباؤ پڑے گا تو خون پھر بہنے لگے گا۔ کانچ نکل گیا ہے بس اب اڈے تک کسی طرح چلا ہی جاؤں گا۔ اتنے میں عورت نے آواز دی، بیگماں ادھر آؤ۔ ایک کپ چائے کا بنا کر لا دو۔ چائے پینے سے ان کو آرام مل جائے گا ۔ یہ ہماری ریشم کا بیگ پہنچانے آئے ہیں۔ سرور خان لانا بھول گیا تھا۔ اب بوڑھی عورت پاس ہی چارپائی پر بیٹھ گئی اور چائے کا انتظار کرنے لگی۔ ذرا دیر میں وہی لڑکی جس نے دروازہ کھولا تھا، چائے کے دو کپ ٹرے میں رکھ کر لے آئی اور چارپائی پر ان دونوں کے درمیان رکھ کر چل دی۔ عورت کے انداز اور لڑکی کے رویے سے خاور نے سمجھ لیا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگریٹ کی ڈبی نکالنے کے بہانے نوٹوں کی موٹی سی گڈی نکال کر چار پائی پر رکھ دی۔ وہ اندازہ کرنا چاہتے تھے کیا واقعی یہ اس قماش کے لوگ ہیں کہ جیسا انہیں اس وقت گمان ہوا تھا۔ نوٹوں کی گڈی دیکھ کر بڑھیا کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے نہایت خوش اخلاقی سے سوال کیا۔ تم کون ہو بیٹا! کہاں سے آئے ہو؟ اور سرور خان سے تمہاری کیا جان پہچان ہے؟ خاور نے بے نیازی سے جواب دیا۔ آنٹی جی ، وہ میرا پرانا واقف کار ہے۔ میں اس کا مال لاتا لے جاتا ہوں ۔ بڑھیا نے مال کا کچھ اور ہی مطلب لیا۔ غالبا ویسا ہی مال جیسا کہ وہ آج لایا تھا۔ تبھی اس کی باچھیں کھل گئیں وہ قدرے خوش اخلاقی سے بولی ، بیٹا کچھ کھاؤ پیو گے، ناشتہ کرو گے؟ صبح کا وقت ہے ساری رات کا سفر کیا ہے۔ ناشتہ کر لو۔ اور تھوڑا سا آرام بھی کر لو ۔ گھڑی دو گھڑی بعد چلے جانا۔ خاور بھی شاید یہی چاہتے تھے کہ گھڑی دو گھڑی رک کر سرور خان کی حقیقت جان لیں۔ عورت ان کو اپنے کمرے میں لے گئی اور تخت پوش کی طرف اشارہ کر کے بولی ، دم بھر لو ، یہاں لیٹ جاؤ۔ بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔ خاور نے جان بوجھ کر نوٹوں کی گڈی صحن میں پڑی چار پائی سے نہیں اٹھائی۔ چند منٹ بعد لڑکی جو چائے کی ٹرے اٹھانے کو باہر گئی وہ گڈی بھی لے آئی ۔ خاور کو دے کر بولی ۔ آپ یہ باہر بھول گئے تھے۔ خاور نے لاپروائی سے نوٹ لے کر جیب میں ڈال دیئے ۔ بوڑھی عورت باہر چلی گئی۔ وہی لڑکی ناشتہ لے کر آئی اور قریب پڑی چھوٹی میز پر رکھ کر بولی۔ ناشتہ کر لیں ۔ تب ہی خاور نے کہا تم بھی بیٹھو۔ وہ بلا چوں چرا پاس پڑی تپائی پر ٹک گئی لیکن اس بار اس کا تاثر خوشگوار نہ تھا جیسے بادل نخواستہ بیٹھ گئی ہو۔ صبح سے وہ بڑھیا کے حکم سے ہی چائے اور پانی وغیرہ دے کر گئی تھی۔ لڑکی بے حد خوبصورت تھی لیکن ملول تھی ۔ شکل پر ناگواری کا احساس تھا۔ ماتھے پر بل پڑا ہوا تھا۔ خاور اس نگری کی ریت جانتے تھے۔ رکھائی سے سلام کا جواب دینے والی بڑھیا کی نوٹ کی گڈی دیکھ کر باچھیں کھل گئی تھیں وہ اب نہایت خوش اخلاقی سے آؤ بھگت کر رہی تھی اور اب اس لڑکی کے انداز بیگانگی سے خاور کو کوفت ہونے لگی تھی۔ انہوں نے بڑھیا سے کہا۔ تمہاری لڑکی خوش اخلاق معلوم نہیں ہوتی ۔ اس پرلڑکی اٹھ کر چلی گئی۔ اس بے تہذیب کا طور طریقہ ابھی تک درست نہیں ہوا ہے۔ آداب سکھانے کی کوشش کر رہی ہوں، دراصل نئی ہے۔ کیا یہ آپ کی بیٹی نہیں ہے؟ وہ سر جھکا کر اور منہ لٹکا کر چپ رہ گئی۔ اور وہ دوسری بچی جو ابھی سرور خان کے ساتھ آئی تھی۔ اس کا آج اس شہر میں پہلا دن ہے، سفر سے تھکی آئی تھی۔ آتے ہی سو گئی ہے۔ ہاں بچی ہے۔ آرام کرنے دو۔ ٹرک میں سفر کرنے سے بے آرامی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔
بڑھیا سمجھ رہی تھی خاور ، سرور خان کا ہی آدمی ہے جو اس کا مال لاتا لے جاتا ہے۔ اس کے دھندے سے واقف ہے۔ حالانکہ خاور کو یہاں آکر علم ہوا تھا کہ اس کے کالے کرتوت کیا ہیں اور وہ واقف کار تھا بھی کب … انہوں نے تو امان خان کے کہنے سے ان لوگوں کو اپنے ٹرک پر بٹھا لیا تھا۔ خاور نے تقریباً آدھ گھنٹے آرام کیا اس دوران ان کی آنکھ لگ گئی اور جب ان کی آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ کافی ٹائم گزر چکا ہے ٹرک اڈے پر کھڑا تھا۔ جلدی سے چپل پاؤں میں ڈال کر چلنے کو اٹھے تو بڑھیا آگئی۔ کیا چل دیئے؟ جی ہاں بہت وقت ہو گیا ہے، پاؤں کا درد بھی مدھم ہو چکا ہے، اب چلوں گا۔ جونہی خاور کمرے سے نکلے بڑھیا بھی ساتھ دروازے تک آئی اس کے پیچھے بیگماں تھی جو ، اب بنی سنوری عمدہ لباس پہنے تھی ، دلہن سی لگ رہی تھی۔ وہ بے حد دلکش تھی کہ خاور کے دل میں اتر گئی۔ دوبارہ ضرور آنا۔ کب آؤ گے۔ بڑی بی نے اپنائیت سے کہا تو خاور نے جواب دیا جب ادھر سے گزرنا ہوا آجاؤں گا۔ تب ہی لڑکی پر نظر ڈالی ۔ سولہ سنگھار کئے ان کی طرف دیکھ کر مسکرادی لیکن اس کی مسکراہٹ زبردستی کی تھی۔ مصنوعی مسکراہٹ جیسے وہ کوئی خفیہ سا پیغام دے رہی تھی ، خاموشی کی زبان میں سمجھا رہی تھی کہ میں وہ نہیں ہوں جیسا تم مجھے سمجھ رہے ہو۔ میں مجبور ہوں اور حالات کے جال میں پھنسی ہوئی ہوں۔ حالات کے رحم و کرم پر ہوں۔ میری خبر لینے دوبارہ ضرور آنا۔
گھر آکر خاور نے ہر بات مجھے بتادی اور بولے۔ نازیہ کوئی ایسی بات اس لڑکی میں ضرور تھی جو رحم کھانے پر مجبور کر رہی تھی ، اگر تم اجازت دو تو ایک بار اور وہاں جا کر حالات جاننے کی کوشش کروں۔ میں نے کہا کوئی بیوی اس کی اجازت نہیں دے سکتی ، مگر میں آپ کو اجازت دیتی ہوں ۔ ہماری نئی شادی ہوئی ہے۔ سو جیون ساتھی کو آزمانا بھی تو چاہئے ۔ بولے تم سے محبت ہے تب ہی سب کچھ بتایا ہے نہ بتاتا تو بھی تمہیں کیا معلوم ہوتا ۔ مرد باہر جا کر جو کریں بیوی تو گھر کی چار دیواری میں وفا کی دیوی ہوتی ہے۔ اسے کیا خبر کیا ہو رہا ہے لیکن میں ایسا مرد نہیں ہوں ۔ دو ہفتے بعد ایک روز ملتان اڈے پر سے ٹرک کھڑا کیا تو گھر جانے سے پہلے خیال آیا بیگماں کو دیکھنا چاہئے ۔ قدم خود بخود اس گلی کی طرف چل پڑے۔ خاور نے اسی وقت دروازے پر دستک دی۔ ادھیڑ عمر عورت نے در کھولا جو ان کی ملازمہ معلوم ہوتی تھی۔ اس نے کمرے میں لا بٹھایا پھر بڑی بی برآمد ہوئیں اور دیکھتے ہی ان کی باچھیں کھل گئیں۔ آؤ بیٹا! سدا آؤ۔ تمہارا کب سے انتظار تھا۔ خاور نے تب ہی جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر بڑھیا کے ہاتھ میں تھما دی ، اسے رکھیئے گا۔ پھر کسی دن آ کر لے جاؤں گا ۔ ابھی بہت آگے جانا ہے اتنی رقم ساتھ لے کر جانا نہیں چاہتا۔ واپسی پر دیکھی جائے گی۔ بنا چوں چرا وہ رقم اندر لے گئی تھوڑی دیر بعد سنوری بیگماں برآمد ہوئی۔ وہ خاور کے ساتھ تنہائی میں بیٹھی رو رہی تھی۔ ذراسی ہمدردی پا کر ہی اس کی آنکھوں کے پیالے چھلک پڑے تھے۔ اس نے بتایا جب میں نویں میں پڑھتی تھی ایک نوجوان کے جھانسے میں آ گئی، یوں سرور خان کے ہاتھ لگی اور اس نے مجھے اس عورت کے ہاتھ بیچا۔ تب سے یہاں ہوں، مجبوراً رہتی ہوں۔ یہاں سے بھاگی بھی تو کدھر جاؤں گی ۔ دنیا تو جانوروں سے بھری پڑی ہے۔ خاور نے اسے اعتبار دلایا تو اس نے بتایا کہ وہ رحیم یار خان کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہے اور کراچی میں والدین عرصہ قبل محنت مزدوری کرنے آگئے تھے۔ ماں کوٹھیوں میں کام کرتی تھی تو باپ رکشہ چلاتا تھا۔ تھوڑی تھوڑی رقم جوڑ کر وہ سرمایہ جمع کر رہے تھے تا کہ واپس گاؤں جا کر زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا خرید سکیں اور گزارے کا آسرا ہو جائے۔ رحیم یار خان میں مزدوری تو ملتی تھی لیکن دیہات میں رہنے کی وجہ سے برائے نام اجرت ملتی تھی ۔ بھوکوں مرتے تھے، گزارہ نہیں ہوتا تھا۔
بیگماں چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور نویں میں پڑھتی تھی ۔ ماں باپ چاہتے تھے کہ میٹرک پاس کرے تا کہ گاؤں جا کر کسی اسکول میں استانی لگ جائے ۔ وہ اس کو کوٹھیوں میں جھاڑو پونچے پر نہ لگانا چاہتے تھے۔ کیونکہ اس کام کے بہانے کچھ نو عمر لڑکیاں بھاگ چکی تھیں۔ دولت کی چمک دمک دکھا کر کئی اوباش لوگ ان کو لے اڑے تھے۔ لڑکیاں تو نادان ہوتی ہیں۔ گھر میں پابند ہوں کہ اسکول جائیں جب ان کی کچی عمر ان کو اونچے خواب دکھانے لگے تو خطرات اردگرد منڈلانے لگتے ہیں۔ بیگماں ایک دن اسکول سے گھر آنے کو نکلی تو روڈ پر ایک گاڑی میں بیٹھے نوجوان نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اس کے قدم ذرا سے ڈگمگا گئے ، دل دھڑکنے لگا، ڈر کر اس نے گلی میں دوڑ لگا دی اور گھر کے اندر آ کر دم لیا۔ باپ اور ماں کام پر گئے تھے اور چھوٹے بہن بھائی مدرسے تب ہی اس نے گھر کا دروازہ خوب اچھی طرح بند کر دیا۔ اسے خبر نہ تھی کہ وہ نوجوان بھی اس کے تعاقب میں گھر تک گیا تھا اور اس کا ٹھکانہ دیکھ لیا۔ چند ہی دنوں بعد جب وہ اسکول جانے کو نکلی۔ گلی کے اختتام پر دو جوانوں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور قریب کھڑی گاڑی میں اسے دھکیل کر وہاں سے ہوا ہو گئے ۔ یہ سرور خان کے آدمی نہ تھے لیکن یہ گروہ غریبوں کی لڑکیاں اغوا کر کے وطن کی آخری چوٹی کے پاس پہاڑوں میں لاتا تھا اور یہاں ہر جمعرات انسانوں کی منڈی لگتی تھی ۔ سرور خان کے آدمی ادھر سے ہی یہ لڑکیاں خرید کر لے جاتے تھے، پھر ان کو غلط دھندہ کرنے والوں کے ہاتھوں فروخت کر کے دام کھرے کر لیتے تھے۔ وہ ہمیشہ چھوٹی بچیاں اور کم سن لڑکیاں خریدتا تھا تا کہ آسانی سے خوف زدہ کر کے اپنا مقصد حاصل کرلے۔ یہ بچیاں جہاں بکتی تھیں وہاں سے نکل کر نہیں جا سکتی تھیں، اکثر تو محبت کا جھانسہ دے کر اغوا کرنے والے بھی اس گروہ کے رکن تھے جو ان کو اس تک پہنچا دیتے تھے، جہاں سے راستہ قلعہ جانی خلیل کو جاتا تھا جہاں ایسے ہی اغوا شدہ بیسیوں لڑکے لڑکیاں، مرد و عورتیں بکتے تھے۔ باقاعدہ منڈی لگتی تھی اور دوسرے ملکوں سے بھی خریدار ان کو خرید کر لے جاتے تھے۔ بیگماں کی زبانی ایسے انکشافات سن کر خاور کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ بڑھیا اندر گڈی سے نوٹ گن رہی تھی اور دوسرے کمرے میں بیگماں اپنی غمز وہ داستان خاور کر بیان کر رہی تھی۔ کیا اب تم واپس والدین کے پاس جانا چاہو گی نہیں وہ مجھے قبول نہیں کریں گے۔ رشتہ دار، باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں مجھے مروا دیں گے کہ یہ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ اپنی داستان بتاؤں گی، پھر بھی وہ یقین نہ کریں گے۔ تب ؟ میں کوشش کروں گا، خاور نے کہا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ کر کے دیکھ لو۔ بیگماں نے جواب دیا۔اگلے ماہ خاور دوبارہ وہاں گیا۔ بڑھیا سے کہا تمہاری بیٹی ہم کو پسند آ گئی ہے۔ میں اس سے شادی کا آرزومند ہوں ۔ کتنے میں دو گی ۔ اس نے لاکھوں میں قیمت لگا دی ۔ مگر وہ بیگماں کی آزادی کی قیمت سے زیادہ نہ تھی۔ فوری طور پر میرے خاوند نے ٹرک فروخت کیا اور رقم بڑھیا کو دے کر بیگماں کو گھر لے آئے ۔ ہم نے اس کے والدین سے رابطہ کیا مگر انہوں نے جواب دیا اب وہ ہمارے لئے مرگئی ہے۔ واپس آئی بھی تو اسے ہمارے لوگ بیچ دیں گے۔ ماں نے خفیہ پیغام بھجوایا کہ بہتر ہے واپس نہ آئے ۔ آپ لوگ کسی اچھی جگہ اس کی شادی کر دیں۔ میں ملنے آجایا کروں گی ۔ اب بیگماں کی شادی کا مسئلہ تھا۔انہی دنوں کارگل کی جنگ چھڑی اور میرا بھائی جو فوج میں تھا، زخمی ہو کر آیا۔ ایک ٹانگ اڑ گئی تھی ، دشمن کے گولے کی زد میں آگیا تھا۔ وہ ریٹائر کر دیا گیا اور باعزت ریٹائرمنٹ کے ساتھ کافی رقم بھی معذور ہونے کی وجہ سے ملی۔ اس کی شادی کا مسئلہ تھا جب ٹھیک ہو کر آیا تو کڑیل اور خوبصورت جوان ہونے کے باوجود معذور تھا۔ بیگماں نے اسے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تب میں نے پوچھا بیگماں کیا تم میرے بھائی سے شادی کرنا پسند کرو گی ۔ اس نے جواب دیا کیوں نہیں ، آپ نے مجھے سہارا دیا ہے۔ میں بھی آپ کے بھائی کا سہارا بنوں گی۔ بھائی کو سرکار کی طرف سے واجبات ملے۔ گھر مل گیا اور رقم کو انہوں نے فکس کرا دیا۔ وہ رقم البتہ میرے خاوند کو واپس کردی … ٹرک بیچ کر جس رقم سے انہوں نے بیگماں کو گندے ماحول کی نذر ہو جانے سے بچایا تھا۔
اللہ تعالیٰ اسباب خود پیدا کرتا ہے اگر نیت نیک ہو۔ خاور ٹرک فروخت کر کے بیروز گار اور بے دست پا ہو چکے تھے۔ اس رقم سے دوبارہ ٹرک خرید لیا اور اللہ نے برکت دی۔ ایک سے دو، پھر تین ٹرک ہو گئے ۔ میرے بھائی نے بھی ان کے کاروبار میں حصہ ڈالا اور منافع میں شریک ہو گئے، یوں ان کے حالات اور اچھے ہو گئے۔ یہ بیگماں کی قسمت تھی۔ ان کے دو بیٹے ہو گئے۔ بد قسمتی سے تیسرے بچے کی پیدائش پر وہ زندگی کی بازی ہارگئی۔ نومولود بچی میں نے گود لے لی بلکہ تینوں بچوں کی پرورش کی۔ میرے بھائی نے اور شادی نہ کی اور یہ بچے ہی ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوئے۔ بیگماں کا اصل نام شمیم تھا اور بھائی اس کو پیار سے شبنم کہتے تھے کیونکہ اس کی صورت فلم اسٹار شبنم سے ملتی تھی۔