مجھے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا گیا۔ صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس ملک میں نہ جانے کتنے بے گناہوں، سیدھے سادے اور معصوم لوگوں کو آئے دن نجانے کن کن جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی اور تعجب خیز بات نہیں ہے۔ ایسا کرنے میں کسی خاص خوبی، صلاحیت اور قابلیت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کام میں پولیس خاصی مہارت رکھتی ہے۔
میرا جرم یہ تھا کہ میں نے شازیہ اور جہانزیب کی شادی کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے تھے۔ ایک جذبہ صادق تھا، اچھوتا اور ہر طرح کی غرض سے بلند…! ان میں آج کی وہ محبت نہیں تھی جس میں جنگ کی طرح ہر بات جائز ہوتی ہے۔
شازیہ ایک بڑے جاگیردار اور ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کی بیٹی تھی۔ اس کا باپ ارب پتی تھا۔ آخر کیوں نہ ہوتا۔ جس پارٹی سے اس کا تعلق تھا، وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تھی۔ کئی برس اقتدار میں رہی، اس نے دونوں ہاتھوں سے عوام اور حکومت کو لوٹا تھا۔ کروڑوں کی جو رقم اس نے قرض لی تھی، معاف کروا لی تھی، کالا دھن سفید کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وہ بے لوث اور مخلص ہے، نہایت نیک اور شریف آدمی ہے۔ وہ ملک اور عوام کا خدمت گار ہے۔ اس نے ایک پیسے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ اس ملک میں جتنے لٹیرے اور کرپٹ لوگ تھے، وہ یہی کہتے تھے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
جبکہ جہانزیب کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ اس کے والدین حیات نہ تھے۔ اس نے محنت، مزدوری کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک نجی فرم میں اچھے عہدے پر فائز تھا اور فارغ اوقات میں ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ وہ شازیہ کو بھی ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا۔ پھر وہ پڑھتے پڑھاتے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔
شازیہ کے والدین ایک عام شخص کو اپنا داماد بنانے کے لئے تیار نہ تھے، جبکہ جہانزیب ایک نیک اور باکردار شخص تھا۔ جاگیردار اور سیاسی لیڈر کردار کی دولت کو نہیں دیکھتے۔ ان کے نزدیک تعلیم و اخلاق کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اگر وہ کسی ایسے دفتر میں بھلے کلرک ہی ہوتا جہاں ناجائز آمدنی ہوتی تو وہ قبول ہوتا۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی زمیندار، سیاسی لیڈر اور جاگیردار کے بیٹے سے کرنا پسند کرتے تھے۔
میں زیرزمین دنیا کا ایک سرگرم باسی تھا۔ شازیہ نے مجھ سے رابطہ قائم کیا۔ پانچ لاکھ کی رقم کی پیشکش کی۔ اس کے اکائونٹ میں پچیس لاکھ روپے موجود تھے۔ میں نے شازیہ کو چند مشورے دیئے اور اسے نشیب و فراز سے آگاہ کیا لیکن حسین لڑکیوں کی ذہانت گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ شازیہ نے میرے کسی مشورے پر عمل نہیں کیا اور اس نے جہانزیب سے خفیہ طور پر شادی کرلی۔
شازیہ کے والدین کے کانوں میں کسی طرح اس شادی کی بھنک پڑ گئی۔ انہوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا۔ ان کی عزت پر دھبہ لگا تھا۔ اس میں بھلا بے عزتی کی کیا بات تھی۔ ان دونوں نے قانونی اور شرعی طور پر شادی کی تھی۔ نکاح نامہ موجود تھا لیکن ان کے نزدیک عزت کے کام، ناجائز اور ذلت و رسوائی کا باعث ہوتے ہیں۔ اجرتی قاتلوں کی خدمات حاصل کرلیں اور انہیں یہ حکم دیا گیا کہ جہانزیب کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کو کھلا دیا جائے۔
ادھر پولیس نے جہانزیب کی تلاش میں شہر کا چپا چپا چھان مارا، مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ وہ کسی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگیا۔ اگر وہ اجرتی قاتلوں کے ہاتھ لگ جاتا تو شازیہ بیوہ ہوجاتی۔ پولیس کو اس مقصد کے لئے دو لاکھ روپے دیئے گئے تھے کہ جہانزیب پر ایسا تشدد کیا جائے کہ وہ سسک سسک کر مر جائے۔ پولیس کے لئے ایسا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ پولیس تشدد اور ایذا رسانی میں مہارت رکھتی ہے۔ انہیں اس کام میں بڑا لطف محسوس ہوتا تھا۔
میں نے ان کے پاسپورٹ اور ویزا کی تیاری میں مدد کی۔ پیسے میں ایسا جادو ہوتا ہے کہ نہ ہونے والا کام بھی چشم زدن میں ہوجاتا ہے۔ شازیہ باپ کی حویلی نما کوٹھی میں نظربند تھی۔ اسے ایک رات وہاں سے نکال لایا اور ایئرپورٹ پہنچا دیا۔ وہ رات دو بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ برقع بھی کیا کمال کی چیز ہے جس نے شازیہ کی پردہ پوشی کی۔ دوسرے دن وہ کراچی سے سنگاپور چلے گئے۔ دبئی اور ابوظہبی جانے میں خطرہ تھا
کہ وہاں انہیں پکڑا جاسکتا تھا۔
شازیہ نہ صرف بیس لاکھ بلکہ گھر سے اتنی مالیت کے زیورات بھی لے گئی تھی۔ یہ بھی میرے کارن ہوا تھا۔ شازیہ کے والدین کو کسی طرح اس بات کا علم ہوگیا کہ یہ کارنامہ میرا ہے۔ بس پھر میری شامت آگئی۔
اگر میں ایک عام آدمی ہوتا تو ایک دن بھی زندہ نہ رہتا۔ میں زیرزمین دنیا کا باسی ہی نہیں بلکہ ذہین اور دوراندیش بھی تھا۔ مجھ پر تین برس تک مقدمہ چلتا رہا۔ شازیہ کے باپ نے مجھے جیل میں مروانے کی بڑی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ میں جیل میں تھا لیکن رات کو، صبح ہونے تک آزادی اور رعایت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں جیل میں ہر طرح کے کارندوں کی سیوا کردیا کرتا تھا۔ میں ایک طرح سے مقدر کا سکندر تھا، اس لئے میرا بال تک بیکا نہ ہوسکا۔ میں نے کبھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر روپوش ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی، کیونکہ میں یہ بات جانتا تھا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ آخر میں کب تک ان ہاتھوں سے خود کو بچاتا پھروں گا۔
تین برس تک مجھ پر مقدمہ چلتا رہا جو بے مقصد اور بے وزن تھا۔ آخر عدالت کو عدم ثبوت کی بنا پر مجھے رہا کرنا پڑا، لیکن میری رہائی میرے لئے عذاب بن گئی، کیونکہ شازیہ کے بھائی اور اس کے والدین میری جان کے دشمن بن گئے۔ کرائے کے قاتل میری تلاش میں شکاری کتوں کی طرح بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ میرے لئے مناسب تھا کہ جتنا جلد ہوسکے شہر چھوڑ دوں۔ مجھے اس بات کی اطلاع جیل ہی میں مل گئی تھی کہ میرے جیل سے باہر آتے ہی مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جائے گا۔
شازیہ نے مجھے جو پانچ لاکھ کی رقم دی تھی، وہ میں نے کسی تاخیر کے بغیر ایک بینک میں فکسڈ ڈپازٹ کرا دی تھی کہ جانے کب ایسے حالات پیش آئیں کہ اس رقم سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کسی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا اور رقم بھی خاصی بڑی تھی۔ کسی حسین اور جوان عورت کی طرح جس کی آبرو کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میں نے کراچی جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس رقم سے بڑی آسانی سے گزارہ ہوسکتا تھا۔ گو کہ میں پڑھا لکھا تھا لیکن کسی کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ میں نے اس رقم کا پے آرڈر بنوا لیا تھا لہٰذا میری رقم محفوظ ہوگئی تھی۔
ہوائی جہاز کا ٹکٹ تین دن کے بعد کا مل رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کا مرکز کراچی بنا ہوا تھا چونکہ میرے لئے چند گھنٹے رکنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا، اس لئے میں نے ٹرین سے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ایک قلی سے ٹکٹ بلیک میں خریدا۔ اس قلی نے مجھے بتایا کہ گاڑی دو گھنٹے لیٹ ہے۔ وقت گزاری کے لئے ایک بک اسٹال کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس وقت شازیہ بے اختیار یاد آئی تو اسے دعائیں دینے لگا جس نے میری زندگی بنا دی تھی اور اپنا مستقبل بھی بنا لیا تھا۔ معلوم نہیں وہ مجھے یاد کرتی ہوگی یا نہیں…! لیکن میں اپنی اس محسنہ کو نہیں بھولا تھا۔ مجھے کبھی کبھی وہ جیل میں بھی یاد آجاتی تھی۔
میرے لئے دو گھنٹے کا وقت گزارنا بڑا اذیت ناک تھا۔ میرے دل کو ایک انجانا سا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ میری تلاش میں جو کرائے کے غنڈے شہر کا چپا چپا چھان رہے ہیں، کہیں وہ ادھر نہ آنکلیں۔ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو وہ بلاتامل مجھے گولی مار دیں گے۔
میں اس ادھیڑ بن میں تھا کہ وقت کہاں اور کیسے گزاروں۔ کیا اسٹیشن سے باہر جاکر کسی ہوٹل میں چائے پی لوں، ناشتہ کرلوں۔ اپنے شانے پر کسی کا ہاتھ محسوس کرکے چونک پڑا۔ میرے جسم میں ایسی سنسنی دوڑی کہ رگوں میں لہو منجمد ہونے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ کسی بدمعاش نے مجھے پہچان لیا ہے اور اب وہ مجھے ایک طرف لے جائے گا۔
بُرے پھنسے بیٹے…! میں نے دل میں کہا۔ کلمہ پڑھ لو لیکن میں اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا۔ زیرزمین دنیا کا باسی تھا پھر جیل میں بھی میں نے بدمعاشوں اور قاتلوں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں برقی سرعت سے اِک دم گھوم گیا تاکہ اس بدمعاش سے دو ہاتھ کرسکوں۔ پلیٹ فارم پر مسافروں کا ہجوم تھا، لہٰذا وہ مجھے اتنی آسانی سے موت کی نیند نہیں سلا سکتا تھا۔
لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میری پشت پر کسی بدمعاش کی جگہ ایک دراز قامت، حسین و جمیل عورت کھڑی ہوئی ہے۔ کسی فلم کی ہیروئن کی طرح پیاری اور موہنی سی! میں اسے پہلی نظر میں نہیں پہچان سکا تھا لیکن دوسرے لمحے میں نے
کافر ادا کو پہچان لیا۔ یہ شائستہ تھی۔ ایسا لگاجیسے میری نظروں کا واہمہ ہے لیکن یہ واہمہ نہیں تھا، یہ ایک حقیقت تھی۔ اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر مجھے حیرت اور خوشی سے زیادہ دکھ ہوا تھا۔
وہ مجھے خاموش اور حیرت سے دیکھتا پا کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر بولی۔ ’’منظور…! تم مجھے اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو؟ کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا…؟‘‘
میں نے چونک کر اس کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ پھر کہا۔ ’’شائستہ! کیا تم بھول جانے والی ہستی ہو جو میں تمہیں بھول جائوں گا؟‘‘
اس کا حسین چہرہ یک دم نکھر گیا۔ وہ رسیلی آواز میں بولی۔ ’’کیا ہم چار پانچ برسوں کے بعد نہیں مل رہے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ’’یہ چند برس، صدیوں کی طرح لگ رہے ہیں۔ میں نے خواب و خیال میں نہیں سوچا تھا کہ تم سے اچانک اور اس طرح غیر متوقع ملاقات ہوجائے گی۔‘‘
’’میں نے تمہاری رہائی کی خبر اخبار میں پڑھی تھی۔ تمہارے گھر تم سے ملنے گئی تھی لیکن تم سے ملاقات نہ ہوسکی۔ مالک مکان نے بتایا کہ تم جیل سے رہا ہونے کے بعد آئے تھے لیکن چند دنوں کے بعد پھر کبھی نظر نہیں آئے۔‘‘ اس نے کہا۔
میں نے فوراً ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کرا دیا۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ اس نے مجھے پہچان لیا تھا، کیونکہ میں نے اپنا حلیہ ایسا بدلا ہوا تھا کہ شناسا بھی نہ پہچان سکے۔ اس کے قریب ہوکر میں نے سرگوشی کی۔ ’’تم میرا نام لے کر مخاطب کرو اور نہ ہی اس موضوع پر بات کرو کیونکہ دشمن میرے تعاقب میں ہیں۔ ناصر کہاں ہے؟ تم اکیلی نظر آرہی ہو۔‘‘
’’وہ کراچی میں ہے۔‘‘ اس نے سنبھل کر جواب دیا۔
پھر ہم دونوں بک اسٹال سے ہٹ کر کھڑے ہوگئے، کیونکہ دو تین لڑکیاں رسالے خریدنے آگئی تھیں۔
’’ناصر کراچی میں ہے تو پھر تم لاہور میں کیا کررہی ہو؟‘‘ میں نے متعجب ہوکر پوچھا۔ ’’وہ کراچی میں کب سے ہے؟‘‘
’’میں اپنی باجی کی عیادت کے لئے یہاں آئی تھی۔ ان کا آپریشن ہونے والا تھا۔‘‘ اس نے دلکش تبسم کے ساتھ جواب دیا۔ ’’میں آج واپس کراچی جارہی ہوں۔ شاید تمہیں علم نہیں کہ ہم دونوں کراچی میں رہ رہے ہیں۔ میں تمہارا کارنامہ اخبارات میں پڑھ چکی ہوں۔‘‘
’’پھر تم اس موضوع پر بات کررہی ہو جو میرے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا تم چاہتی ہو کہ یہاں میری لاش پڑی نظر آئے؟‘‘
’’سوری…!‘‘ وہ خجل سی ہوکر بولی۔ ’’اگر تمہیں کسی نے مارنے کی کوشش کی تو میں ڈھال بن جائوں گی، تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔‘‘
’’تم بغیر سامان کے جارہی ہو، کیا اکیلی جارہی ہو؟ مجھے تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میرا سامان فرسٹ کلاس ویٹنگ روم میں رکھا ہوا ہے۔ میرے ساتھ سہیل جارہا تھا لیکن اس نے کسی وجہ سے اچانک اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’یہ سہیل کون بزرگ ہیں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’تمہارے گھر اور خاندان میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے۔‘‘
’’ایں…! تم سہیل کو بھول گئے؟‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’وہ بزرگ نہیں میرا دیور ہے۔ وہ آج کل لاہور میں رہ رہا ہے۔‘‘
مجھے سہیل یاد آگیا۔ میں نے کہا۔ ’’میں نے جب اسے آخری بار دیکھا تھا تو شاید بارہ تیرہ برس کا تھا، اب تو وہ کافی بڑا ہوگیا ہوگا؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ وہ بولی۔ ’’تم اسے دیکھو گے تو پہچان نہ سکو گے۔‘‘
’’اچھا! یہ بتائو کہ تم نے مجھے کیسے پہچان لیا، جبکہ میرے قریبی دوست بھی مجھے نہیں پہچان سکے تھے؟‘‘
’’تمہیں پہچاننا میرے لئے کیا مشکل ہے۔‘‘ وہ زیرلب مسکرا دی۔ ’’میں تمہیں لاکھوں میں بھی پہچان سکتی ہوں۔‘‘
’’پہلے میں کلین شیو ہوا کرتا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں نے جیل میں داڑھی رکھ لی، مونچھیں بھی گھنی اور نوک دار ہیں۔ داڑھی، مونچھوں کی وجہ سے میرے دشمن بھی مجھے شناخت نہیں کرسکتے لیکن تم نے بڑی آسانی سے پہچان لیا؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہم ویٹنگ روم کے قریب پہنچ کر رک گئے۔ سامنے ایک بینچ تھی، ہم وہاں بیٹھ گئے۔ اس کے حسین چہرے پر ایک گھٹا سی چھا گئی۔ پھر وہ بکھرے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’جو من میں بسا ہوتا ہے، اسے کسی روپ میں بھی پہچاننا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ تم تو میری محبت اور جنم جنم کے ساتھی ہو۔ میرا دل اور
سپنا!‘‘
’’شائستہ…!‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اس نے میرے کانوں میں جیسے رس گھول دیا تھا۔ میں نے اسے تحیر زدہ نظروں سے دیکھا۔ اگر شائستہ بارہ برس پہلے یہی بات مجھ سے کہہ دیتی جو آج اس نے کہی تھی تو آج میری زندگی کے اوراق پر کچھ اور لکھا ہوتا۔ شائستہ نے کبھی بھولے سے بھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ کس لئے اور کیوں مہر بہ لب تھی؟ شاید اس سوال کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ شاید اس لئے کہ وہ عورت تھی۔ عورت محبت کے اظہار میں پہل نہیں کرتی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں محبت کا انجانا پیام دیکھا اور نہ ہی اس کی کسی بات سے ایسا ظاہر ہوا تھا۔
میں نے برسوں پہلے اس روز راولپنڈی کو خیرباد کہہ دیا تھا جب شائستہ اور ناصر نے شادی کرکے گھر بسا لیا تھا جو میری محبت اور وجود پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا۔ حسد و جلن کی آگ میں جلنے سے بہتر تھا کہ میں ان سے دور ہوجائوں۔
ناصر اور میں بچپن کے دوست اور کالج تک ہم جماعت رہے تھے۔ شائستہ بھی ہم جماعت تھی۔ میری اور ناصر کی دوستی گہری اور مثالی تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ شائستہ اتنی حسین اور پرکشش تھی کہ ہم دونوں اسے جنون کی حد تک چاہتے تھے، مگر میں نے کبھی ناصر پر یہ ظاہر ہونے نہیں دیا تھا کہ میں شائستہ سے محبت کرتا ہوں۔ وہ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواب ہے۔ کوئی رات ایسی نہیں جاتی جب وہ میرے چشم تصور میں نہ ہوتی ہو اور میں اس سے محبت بھری باتیں نہ کرتا ہوں۔
ناصر مجھ سے ہر گھڑی شائستہ سے اپنی محبت اور چاہت کا تذکرہ کیا کرتا تھا۔ میرے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے اور میں دل پر جبر کی سل رکھ کر خاموشی سے سن لیا کرتا تھا۔ فطری طور پر شائستہ کا جھکائو بھی ناصر کی طرف تھا۔ وہ ناصر کو اس لئے پسند کرتی تھی کہ ناصر زمیندار باپ کا بیٹا تھا اور میں ایک غریب کسان کا…! ان کی شادی کے بعد میرا وہاں ایک دن کیا، ایک گھنٹہ رہنا بھی سوہان روح تھا۔ میرے آبگینہ دل پر ان کی شادی پتھر بن کر لگی تھی، جس سے میرے سارے خواب چکناچور ہوگئے تھے اور اس کی کرچیوں نے میرے دل کو لہولہان کردیا تھا۔ میں دلبرداشتہ اور غمزدہ لاہور چلا آیا۔ وہاں ایک دوست نے مجھے ایسے سبز باغ دکھائے کہ میں ایک زیرزمین دنیا کی تنظیم سے وابستہ ہوگیا۔ ایسا میں نے اپنے دل کا گھائو بھرنے اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے کیا تھا۔ پھر میں شازیہ اور جہانزیب کے معاملات میں ملوث ہوگیا تھا۔
ہم دونوں ایک خالی بنچ پر بیٹھ گئے۔ میں نے بڑے دکھ اور کرب سے کہا۔ ’’شائستہ! تم نے ناصر کو چاہا اور پالیا، میرے لئے تمہارے دل میں جگہ ہی کب تھی؟‘‘
اس کے چہرے پر اضطراب لہر بن کر دوڑ گیا۔ وہ لرزیدہ آواز میں بولی۔ ’’مجھے اپنی حماقت کی بہت بڑی سزا ملی ہے منظور! کیسی دردناک سزا…! میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ تم میرے زخم نہ کریدو… مجھے علم نہ تھا کہ ناصر شادی کے بعد مجھے گھر کا ڈیکوریشن پیس بنا دے گا، محبت کو پامال کردے گا۔‘‘
شائستہ نے ناصر کے بارے میں جو کچھ بتایا، وہ میرے لئے تعجب خیز ہی نہیں بلکہ دکھ کا بھی باعث تھا۔ جانے کیوں مجھے یقین نہیں آیا تھا۔ کراچی میں کاروبار پھیلانے کے بعد ناصر دولت مند شخص بن گیا تھا اور اس کی دولت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ بے پناہ دولت ہونے کے باوجود اس کی دولت کمانے کی ہوس پوری نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس کا اپنی پرسنل سیکرٹری اور دو ماڈل گرلز جن کے کمرشلز نے ٹی وی پر دھوم مچا رکھی تھی، ان سے گہری دوستی اور آزادانہ میل جول تھا۔ ناصر کو اب شائستہ سے کوئی دلچسپی اور محبت نہیں رہی تھی۔ وہ دونوں ایک چھت کے نیچے اجنبی تھے۔
میرے بارے میں شائستہ کو سب کچھ علم تھا۔ شازیہ اور جہانزیب کا معاملہ جو اخبارات کی زینت بنا تھا، مجھے قتل کے جھوٹے الزام میں پھانسا گیا تھا۔ اس نے وہ خبریں پڑھی تھیں۔ اسے مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ وہ نہ صرف اخبار بینی کی عادی تھی بلکہ جرم و سزا کی کہانیاں بھی پڑھتی تھی۔ میں نے اس کے دریافت کرنے پر بتایا کہ میں کراچی کس لئے جارہا ہوں۔ جب اس نے سنا کہ میں کراچی میں مستقل طور پر آباد ہورہا ہوں تو وہ خوش ہوگئی۔ پھر اس نے میرے سامنے ایک پروگرام رکھا جسے میں نے خوشی سے منظور کرلیا۔
پھر وہ مجھے ویٹنگ روم میں لے گئی۔ وہاں
موجود تھا جو سامان کی نگرانی کررہا تھا۔ اس نے ہم دونوں کا تعارف کرایا۔ سہیل کو میرے بارے میں کچھ کچھ یاد تھا مگر میں سہیل کو بالکل نہیں پہچان سکا تھا۔ وہ یکسر بدل گیا تھا۔ وجیہ، خوبصورت اور دراز قد ہونے کے باعث بھرپور مرد دکھائی دیتا تھا۔ میں نے اس کی باتوں سے محسوس کیا کہ وہ ایک سیدھا سادا اور معصوم سا شخص ہے۔ اس میں ریاکاری اور منافقت بالکل نہیں تھی۔ ایسی سادگی جوانوں میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔
شائستہ اپنی ایک سہیلی اور اس کے شوہر کے ساتھ کراچی جارہی تھی۔ سہیل نے عین وقت پر اپنا پروگرام ملتوی کردیا تھا۔ اس کا ٹکٹ میرے کام آگیا۔ ان چاروں نے ایک ایئرکنڈیشنڈ بوگی جو چار مسافروں کی تھی، محفوظ کرا رکھی تھی۔ میں بھی ان کا ہمسفر بن گیا۔ شائستہ، سہیلی کے شوہر اور سہیلی کے ساتھ یہ سفر بڑا خوشگوار گزرا تھا۔
ناصر اپنی بیوی کو لینے اسٹیشن آیا تو مجھ سے زیادہ شائستہ کو حیرت ہوئی تھی کیونکہ وہ ایک مصروف ترین شخص تھا۔ وہ مجھے اس حلیئے میں بالکل نہیں پہچان سکا تھا لیکن جب میں نے اسے بتایا تو وہ وفور محبت سے مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر وہ اصرار کرکے مجھے ہمراہ اپنے گھر لے گیا۔ اس نے اپنی ساری مصروفیات ترک کردیں۔ وہ مجھے ہر طرح سے سہارا دے کر اپنی دوستی کا حق ادا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے دوسری منزل پر واقع اپنا فلیٹ رہائش کے لئے دے دیا تھا جو نہایت آراستہ و پیراستہ تھا جسے اس نے اپنے بزنس مین مہمانوں کے لئے لے رکھا تھا جو اندرون ملک سے آتے تھے۔ وہ آج بھی کل جیسا مخلص دوست ثابت ہوا تھا۔
شائستہ نے تنہائی اور کشیدہ حالات کی وجہ سے فلیٹ میں رہنا پسند کیا تھا۔ یہ فلیٹ شہر کے اعلیٰ رہائشی علاقے میں واقع تھا۔
دوسرے دن ناشتے سے فراغت پا کر ناصر اپنے دفتر چلا گیا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد وہ مجھے ایک کمرے میں لے آئی۔ اس کمرے میں تین بڑی الماریاں تھیں۔ ایک الماری میں کتابیں اور رسائل تھے، دوسری میں اس کے ملبوسات اور تیسری میں سی ڈیز تھیں۔
میں نے اس کی کتابوں کی الماری کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’اتنی ساری کتابیں کیا تم نے فیشن کے طور پر تو نہیں خریدی ہیں؟ ویسے تمہارا ذوق شروع ہی سے اچھا رہا ہے۔‘‘
’’یہ کتابیں میری تنہائی کی رفیق ہیں، میں انہیں روز پڑھتی ہوں۔‘‘
’’کیا فلمیں بھی روز دیکھتی ہو؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’ہاں…!‘‘ اس نے اپنا خوش نما سر ہلایا۔ ’’اگر میں کوئی رسالہ یا ناول نہ پڑھوں، فلم نہ دیکھوں تو پاگل ہوجائوں۔ میرے لئے وقت کاٹنا دوبھر ہوجائے۔‘‘
’’کیا تم نے سہیلیاں نہیں بنائی ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ بہت بڑا شہر ہے۔ تم ایک دولت مند شخص کی بیوی ہو۔ یہاں تمہارے لئے مصروفیت کی کیا کمی ہوسکتی ہے؟ آئے دن تقریبات ہوتی ہیں، ساحل سمندر بھی ہے۔‘‘
’’میرے حلقے میں کئی عورتیں ہیں، ان کے ہاں تقریبات ہوتی رہتی ہیں، پھر بھی میں تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ ناصر بہت دیر سے گھر آتا ہے۔ جب میں کسی سہیلی کے ہاں سے گھر آتی ہوں تو اس کے انتظار میں فلم دیکھتی ہوں۔ کسی رات وہ گھر آتا ہی نہیں۔ جب میں پوچھتی ہوں کہ وہ رات کہاں غائب تھا، کہتا ہے کہ لندن سے ایک پارٹی آئی ہوئی تھی لیکن میں سب جانتی اور سمجھتی ہوں مگر میں خاموش رہنا پسند کرتی ہوں اس لئے کہ اس کے پاس حیلے بہانوں کی کمی نہیں ہوتی۔ تکرار اور لڑائی جھگڑے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
’’سنو…!‘‘ مجھے کچھ یاد آیا تو میں نے موضوع بدلا اور ایک مشہور انگریزی فلم کا نام بتا کر پوچھا۔ ’’اس کی سی ڈی ہے؟ میں نے اس کی بڑی تعریف سنی تھی۔ اس نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔ میں اسے اس لئے دیکھ نہیں سکا تھا کہ ان دنوں جیل میں تھا۔ وہ فلم ہے کیسی…؟‘‘
’’وہ فلم بہت اچھی ہے۔‘‘ شائستہ نے تعریفی لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں اسے کوئی دس بارہ مرتبہ دیکھ چکی ہوں پھر بھی میرا دل نہیں بھرا… میری سہیلیاں اب بھی وہ فلم دیکھتی رہتی ہیں۔‘‘
پھر اس نے میری فرمائش پر اس فلم کی سی ڈی، سی ڈی پلیئر پر لگا دی۔
فلم واقعی بہت اچھی، دلچسپ اور عمدہ فلمائی ہوئی تھی۔ ساڑھے تین گھنٹے دورانیے کی اس فلم نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ فلم کے ختم ہونے کے بعد شائستہ نے پوچھا۔ ’’فلم تمہیں کیسی لگی؟‘‘
’’مجھے یہ فلم بہت اچھی لگی۔ اب ایسی فلمیں کہاں بنتی ہیں۔‘‘ میں نے
جواب دیا۔ ’’یہ ایک ایسی فلم ہے جسے باربار دیکھا جائے۔ اس کی کہانی اور لڑکی کی اداکاری نے متاثر کیا۔‘‘
’’اس فلم کی ہیروئن اور میری کہانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ لڑکی کا نام روز ہے۔ میں بھی ایک طرح سے روز ہی ہوں، تم میرے ساتھ آئو۔‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔
پھر وہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لے آئی۔ اس نے الماری سے سونے کے زیورات کے کئی سیٹ نکال کر میرے سامنے رکھ دیئے۔ میں نے ان زیورات کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بہت خوبصورت اور قیمتی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ ہیرے، جواہرات کے زیورات ہیں جو ناصر نے مجھے تحفے میں پیش کئے ہیں۔ ان کی مالیت چھ لاکھ سے زیادہ ہے لیکن عورت ہونے کے ناتے مجھے ان زیورات میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ تم جانتے ہو سونے کے زیورات عورت کی کتنی بڑی کمزوری ہوتے ہیں۔ بعض تو ان کے حصول کے لئے انجانے راستے پر دور تک چلی جاتی ہیں۔ میں اس کی محبت کی بھوکی ہوں لیکن اس نے مجھے محبت نہیں دی۔ اس نے دنیا کی ہر آسائش اور یہ زیورات دیئے ہیں، مگر میں انہیں لے کر کیا کروں؟‘‘ وہ جذباتی ہوگئی اور اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ ’’اس نے مجھے محض ڈیکوریشن پیس بنا دیا ہے۔ وہ اپنی محبت غیر عورتوں کی جھولی میں ڈالتا پھر رہا ہے۔ اس کے ہرجائی پن پر میرا اس سے کئی بار جھگڑا ہوا، تلخی اور بدمزگی ہوئی مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ اپنی روش نہیں بدل رہا، غلط راستے پر بڑھتا چلا جارہا ہے۔ میں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے کہ اس نے میری محبت کو داغدار کیا ہے۔‘‘
اس روز سے فلم جیسی رومانوی کہانی اس فلیٹ میں شروع ہوگئی۔ اس نے میری محبت اور رقابت میں سب کو یکسر فراموش کردیا۔ ہماری محبت کا جہاز وقت کے سمندر کی تیز موجوں سے گزرتا اور طوفانوں سے اُبھرتا جارہا تھا۔ شائستہ اب فلم کی ہیروئن کی طرح خوش و خرم رہنے لگی تھی۔ اسے اب اس بات کا غم نہیں رہا تھا کہ ناصر اس سے محبت نہیں کرتا۔
شائستہ اور ناصر کے اختلافات کھل کر میرے سامنے آنے لگے تھے۔ میں ان دونوں کو غیر محسوس انداز میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر خوش ہونے لگا تھا۔ یہ ایک ایسا سنہری موقع تھا جو مجھے پھر کبھی نہیں مل سکتا تھا۔ میں اس طرح ناصر سے برسوں پہلے کا انتقام لے رہا تھا کہ اس نے اپنی حیثیت اور دولت کے بل بوتے پر میری شائستہ کو مجھ سے چھین لیا تھا۔ آج بھی شائستہ میری محبت اور میرا خواب تھی۔ میں نے اس کے حصول کے لئے ان دونوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیا تھا۔
جب میں نے محسوس کیا کہ لوہا خوب گرم ہوچکا ہے تو سوچا کہ اب کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
میں نے شائستہ کو مشورہ دیا کہ وہ ناصر سے طلاق لے لے۔ میں نے اسے یہ مشورہ اس لئے دیا تھا کہ طلاق ہونے پر میرے خواب پورے ہوجائیں گے۔ میں اس سے شادی کرلوں گا۔ اس لئے کہ میرے سوا ایسا کوئی دور دور تک نظر نہیں آتا تھا جو اسے سہارا دے سکے لیکن شائستہ ذہنی طور پر طلاق لینے کے لئے آمادہ نہیں تھی۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ میں نے ٹٹولا بھی لیکن وہ نہیں کھلی۔ مجھے شک ہوتا کہ شائستہ کے دل کے کسی گوشے میں ناصر کی محبت موجود ہے، شاید اس لئے بھی کہ ناصر اس کی پہلی محبت ہے جسے عورت اپنے لئے سرمایہ سمجھتی ہے۔
ایک روز میں نے ان کے جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناصر کے دفتر جاکر جلتی پر تیل چھڑکا۔ اسے شائستہ کے خلاف بھڑکایا اور مشورہ دیا کہ روزروز کے جھگڑوں سے بہتر ہے کہ وہ شائستہ کو طلاق دے دے، کیونکہ وہ تم پر رکیک قسم کے الزامات لگا کر نہ صرف گھر کا ماحول پراگندہ کررہی ہے بلکہ ازدواجی زندگی زہرناک بنا رہی ہے۔ تمہاری زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے لیکن ناصر کسی قیمت پر شائستہ کو طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ شائستہ ایک دن ضرور راہ راست پر آجائے گی۔ اس کے اس انکار نے مجھے اندر ہی اندر تپا دیا تھا۔ میرا خون کھول اٹھا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔
ایک روز میں نے ایک منصوبے کے تحت شائستہ کو اعتماد میں لینے کے لئے جھوٹ بولا۔ ’’ناصر دوسری شادی کرنے کے لئے لڑکی تلاش کررہا ہے۔‘‘
’’دوسری شادی…؟‘‘ وہ بری طرح چونکی۔ اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔ ’’وہ کس لئے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ کیا میں
بدصورت ہوگئی ہوں؟ بے کشش لگتی ہوں؟‘‘
’’وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی شادی کو بارہ برس کا عرصہ ہوگیا ہے، وہ اب تک اولاد نہ دے سکی۔ اسے وارث چاہئے۔ تم ایک بانجھ عورت ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ تم نے بہت بری خبر سنائی ہے منظور!‘‘ وہ پریشان اور متفکر ہوکر بولی۔ ’’میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ دوسری شادی کے بارے میں سوچے گا۔‘‘
’’اس بہانے تم اس سے طلاق لے لو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اگر اس نے کسی وجہ سے طلاق نہیں دی تو؟‘‘
’’کیوں نہیں دے گا، کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘
’’مجھے پریشان کرنے کے لئے کیونکہ ہم دونوں کے درمیان نفرت پیدا ہوگئی ہے اور میں برسوں سے اس پر آوارگی کے الزامات عائد کرتی رہی ہوں۔‘‘
’’اگر وہ طلاق نہ دے تو عدالت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ تم اس سے خلع لے لو اور پھر تمہیں طلاق دیئے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتا ہے لہٰذا پہلی فرصت میں تمہیں طلاق دے دے گا۔‘‘
’’میں نے تو خلع لینے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، نہ اس کا خیال آیا۔‘‘ پھر چند لمحے گہری سوچ میں غرق رہنے کے بعد بولی۔ ’’ناصر سے طلاق اور خلع لینے کی دونوں صورتوں میں میرا نقصان ہے۔‘‘
’’کیسا نقصان…؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’اس طرح میں اس کی دولت اور اثاثوں سے محروم ہوجائوں گی۔‘‘ وہ کہنے لگی۔ ’’وہ دوسری شادی کرنے کے لئے مجھے طلاق دے سکتا ہے۔ مجھے مہر کیا ملے گا، چند ہزار روپے…؟ اب میرے لئے ایک ہی صورت ہے کہ اسے قتل کردیا جائے۔‘‘ آخری جملہ کہتے وقت اس کا چہرہ سپاٹ اور آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’قتل…؟‘‘ میں اچھل پڑا اور یہ میری سماعت کا فتور نہیں تھا۔ ’’لیکن فلم کی ہیروئن نے قتل کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا، جبکہ اس کا منگیتر محبت کے راستے میں دیوار بنا ہوا تھا۔‘‘
’’مگر میرا شوہر میرے محبوب اور محبت کی راہ میں دیوار بنا ہوا ہے، اس لئے اسے قتل کئے بغیر چارہ نہیں۔‘‘ وہ سفاک لہجے میں بولی۔ ’’جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے۔‘‘
یہ شائستہ کا ایک نیا، انوکھا اور وحشیانہ روپ تھا۔ نفرت اور محبت نے اسے دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا۔ میں ایسا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن اس پر ناصر کو قتل کرنے کا جنون سوار ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد شائستہ نے میرے سامنے ناصر کے قتل کا منصوبہ پیش کیا تو میں اس منصوبے کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کا یہ منصوبہ ہر طرح سے بے عیب تھا۔ اس میں کوئی خامی تھی اور نہ ہی مجھے اس میں کوئی جھول نظر آیا تھا۔
میں ذہنی طور پر ناصر کے قتل میں حصہ لینے کے لئے خود کو تیار کرچکا تھا۔
شائستہ کی محبت نے مجھے اس قدر خودغرض اور مطلبی بنا دیا تھا کہ میں نے اپنے دیرینہ دوست کے تمام احسانات کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ میں اپنا مستقبل روشن بنانا چاہتا تھا۔ یہ اس صورت میں ہی ممکن تھا کہ میں شائستہ کا ہر طرح ساتھ دوں۔ ناصر کی دیوار گرنے کے بعد شائستہ صرف میری تھی۔ کبھی میرا ضمیر خلش کے خنجر کی طرح میرے وجود میں چبھتا تو میں اسے نکال دیتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کون ایسا ہے جو غرض کے اندھے جنون میں مبتلا ہوکر انسانیت کا خون نہیں کررہا۔
شائستہ اس کام میں دیر کرنا نہیں چاہتی تھی، کیونکہ ناصر نے تین برس پہلے ہی اپنا سارا کاروبار اور جائداد شائستہ کے نام ایک وصیت میں لکھ دی تھی۔ ناصر کو قتل کرنے کی صورت میں اس پر کوئی الزام نہیں آتا۔ اب اس کاروبار اور اثاثے میں سہیل کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ سہیل بھی لاکھوں کا مالک تھا اور اسے کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن شائستہ کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ ناصر دوسری شادی کرنے کی صورت میں اسے طلاق نہ دے دے۔ اس طرح وصیت بھی بدل دی جائے گی۔
چاندنی رات کا نظارہ ناصر کی بڑی کمزوری تھی۔ وہ چودہویں کی دودھیا چاندنی کے منجمد دریا کا پورا لطف اٹھاتا تھا۔ ہم دونوں ایک دو مرتبہ ساحل سمندر پر جاکر چاندنی راتوں کا نظارہ کرچکے تھے۔ اس روز چودہویں رات کا چاند تھا، آسمان ابرآلود نہ تھا۔
میں نے منصوبے کے تحت کلفٹن پہنچ کر موبائل فون پر ناصر سے رابطہ کیا۔ یہ اسمارٹ موبائل فون جس کی مالیت تیس ہزار سے زیادہ تھی، ناصر نے دیا تھا۔ میری کال ملتے ہی وہ شائستہ کے ساتھ کلفٹن چلا آیا۔ میں نے اس سے کہا تھا۔ ’’یار! آج چودہویں کی رات ہے۔ چاند اپنے پورے جوبن پر ہے، جاڑے کی چاندنی کا نظارہ بڑا دلکش ہے۔ تم انجوائے
گے، آجائو۔‘‘
٭…٭…٭
ہم تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد دیوار پر بیٹھ گئے۔ سردی کے باعث اس وقت یہاں کوئی نہ تھا اور جگہ سنسان پڑی تھی۔ تنہائی اور ویرانی کا بسیرا تھا۔ ہر طرف دودھیا چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔
اس دیوار کے نیچے بڑے بڑے نوکیلے پتھر دور تک پھیلے ہوئے تھے تاکہ سمندر کا پانی دیوار تک نہ پہنچ سکے۔ ہم دونوں آپس میں کاروبار کے موضوع پر باتیں کرنے لگے، مگر میری نگاہیں باربار ان نوکیلے پتھروں کی جانب اٹھ جاتی تھیں جو بڑے خطرناک تھے۔ میری حالت غیر ہورہی تھی اور سینہ انجانے خیال سے بری طرح دھڑک رہا تھا۔
میری یہ ہیجانی کیفیت اس لئے تھی کہ ناصر میرا دوست ہی نہیں بلکہ محسن بھی تھا۔ اس نے میری ذات پر کبھی شک نہیں کیا تھا، جبکہ میں نہ صرف خودغرض بلکہ احسان فراموش بھی تھا۔ شائستہ اور اپنے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہنے دیا تھا۔ میں نے بہ دقت تمام اپنی کیفیت پر قابو پایا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ شائستہ نے خود کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔ بظاہر وہ پرسکون دکھائی دیتی تھی، لیکن اس کی آنکھوں سے درندگی جھانک رہی تھی۔ اگر ناصر اس کی آنکھوں میں جھانک لیتا تو وہ شاید چوکنا ہوجاتا کیونکہ درندگی نے شائستہ کی آنکھوں کو خوفناک بنا دیا تھا۔
سمندر کی لہریں کسی قدر بپھری ہوئی تھیں۔ دودھیا چاندنی میں سمندر کی طغیانی کا نظارہ دلکش اور روح پرور تھا۔ میں انجانے خوف اور خدشات سے لرزاں تھا۔ گو میں زیرزمین دنیا کا باسی تھا لیکن میں نے کبھی کسی کو قتل کرنا تو درکنار، مرغی تک ذبح نہیں کی تھی۔ میرے اندر ضمیر زندہ تھا، اس لئے یکایک میرے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ میرا ارادہ متزلزل ہونے لگا۔ میں یہ کیا کرنے جارہا ہوں؟ شائستہ میری دسترس میں ہے، ہمارے شب و روز بڑے پرکیف اور سہانے گزر رہے ہیں۔ شائستہ نے ناصر سے انتقام لینے کی غرض سے مجھے بھی اپنے ساتھ غلاظت کی دلدل میں گرایا ہے۔ ناصر کو راستے سے ہٹانے کی آخر ضرورت کیا ہے۔ ابھی اس زندگی کو اسی طرح رواں دواں رہنا چاہئے تھا۔
لیکن اس وقت شائستہ کو اس کے خوفناک ارادے سے باز رکھنے کی کوئی صورت اور تدبیر دکھائی نہ دیتی تھی اور قتل کے منصوبے پر عمل کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں رہا تھا۔
’’میں گاڑی میں سے تھرماس اور کپ لے کر آتی ہوں۔‘‘ وہ سمندر کی لہروں پر نظریں مرکوز کرکے بولی۔ ’’میں کریم کافی بنا کر لائی ہوں جو اس سہانے اور سرد موسم میں بڑا مزا دے گی۔‘‘
شائستہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر وہ ہماری پشت پر آگئی۔ ناصر نے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ پھر اس نے اپنی نگاہیں چاند پر مرکوز کردیں۔ وہ کوئی شعر گنگنانے لگا جو چاند سے متعلق تھا۔ شائستہ، ناصر کے ٹھیک پیچھے چند قدم دور کھڑی تھی۔ وہ کیا گنگنا رہا تھا، میرے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ میں صرف ایک لفظ چاند ہی ٹھیک سے سن سکا تھا۔
اس وقت میرا ذہن کہیں اور تھا۔ جو واقعہ پیش آنے والا تھا، اس کے تصور نے مجھے دہشت زدہ کردیا تھا۔ میں اپنی جگہ ساکت و جامد تھا۔ شائستہ سرعت سے پلٹی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ ناصر کی پشت پر رکھ کر پوری قوت سے اسے آگے کی طرف دھکا دے دیا۔ چونکہ وہ چودہویں کے چاند کے سحر میں کھویا ہوا تھا، اس لئے اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا۔ وہ منہ کے بل ان نوکیلے پتھروں پر گرا۔ اس کے منہ سے ایک دلخراش چیخ نکلی جو فضا میں گونج کر رہ گئی۔ ناصر کا سر پھٹ گیا تھا۔ پتھر خون سے سرخ ہونے لگے تھے۔
ہم دونوں گاڑی میں واپس جارہے تھے۔ شائستہ نے قتل کا یہی منصوبہ بنایا تھا۔ اس لمحے مجھے فلم کی ہیروئن روز یاد آئی جو اپنے محبوب جیک کے لئے زبردست ایثار کرتی ہے۔ اس کی محبت کی خاطر اپنے شوہر کو اپنے ہاتھوں دنیا سے رخصت کردیتی ہے۔ اس خیال سے مجھ پر ایک عجیب سی سرشاری طاری ہوگئی تھی۔ میرا تابناک مستقبل میری نظروں کے سامنے لہرانے لگا۔ گھر پہنچ کر اس نے بڑے خواب ناک لہجے میں کہا۔ ’’میری دیرینہ آرزو پوری ہوگئی، جس کے لئے میں ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ میرے راستے کا پتھر ہٹ چکا ہے۔ ہم دونوں اب شادی کرلیں گے۔ روز کو اس کا محبوب جیک مل گیا ہے۔‘‘
’’ہاں میری روز…! میں تمہارا جیک ہوں۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’پولیس کی کارروائی مکمل
ہونے تک ہمیں محتاط اور ہوشیار رہنا ہوگا اور شادی میں دیر ہونے کی صورت میں پولیس ہم پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔‘‘
’’جیک…!‘‘ اس نے پلکیں جھپکاکر مجھے حیرت سے دیکھا۔ ’’نہیں…! تم جیک نہیں ہو… میرا جیک میرا سہیل ہے۔ میں نے اسے پانے کے لئے ناصر کو راستے سے ہٹایا ہے۔ تم میرے دوست ہو… تمہارے تعاون کی قیمت میں ادا کرچکی ہوں۔‘‘
مجھ پر جیسے کوئی بجلی سی آگری۔ ’’روز…! نہیں اب تم سہیل سے نہیں مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘
’’میں تم سے کسی قیمت پر شادی نہیں کروں گی… اب تم یہاں ایک دن بھی نہیں رہو گے۔‘‘ شائستہ نے تیز لہجے میں کہا۔
’’تم مجھ سے شادی نہیں کرو گی تو میں سہیل سے بھی تمہیں شادی نہیں کرنے دوں گا۔‘‘ میں نے برہمی سے کہا۔
’’تم کیا کرو گے…؟‘‘
’’میں پولیس کو بیان دوں گا کہ تم نے ناصر کو قتل کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس…؟‘‘ وہ استہزائیہ لہجے میں بولی۔
’’ہاں…!‘‘ میں نے جیب سے موبائل فون نکال کر اس کی نظروں کے سامنے لہرایا۔ ’’اس میں ویڈیو ہے جس میں تم ناصر کو دھکا دے کر گرا رہی ہو۔ یہ دیکھو…! کتنی صاف اور واضح ویڈیو ہے۔‘‘
وہ اس خاموش گواہ کو دیکھتے ہی بے ہوش ہوگئی۔
(ختم شد)