Thursday, October 10, 2024

Shadi Ki Ayashi

میرے حقیقی والد کی وفات کے بعد نانا نے میری ماں کا عقد ثانی جس شخص سے کیا، وہ ایک لالچی اور بے ضمیر شخص تھا۔ ناناجان کی زندگی تک اس کا سلوک ہم سب سے ٹھیک رہا لیکن ان کے مرتے ہی اس آدمی نے جس کا نام مجیب خان تھا، اپنی فطرت دکھانی شروع کر دی۔ مجیب ابا کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لہذا اسے میری ماں کے پہلے شوہر کے بچوں کو پالنا پڑا۔ میرے حقیقی والد ذاتی مکان اور کچھ اراضی چھوڑ گئے تھے۔ ہمارا خرچہ اسی جائیداد سے نکل آتا تھا پھر بھی مجیب ابا کو ہم خار کی مانند بھٹکتے تھے۔ ہم تین بہن بھائی تھے۔ جب حقیقی والد کی وفات ہوئی، میں دو برس کی اور دونوں بھائی مجھ سے کچھ بڑے تھے۔ میرے حقیقی والد کی زرعی اراضی کی پیداوار پر ابا کا گزارا تھا، تبھی وہ کوئی کام تم کر نہ کرتے تھے۔ کچھ دن ادھر تو کبھی اُدھر ہلکا پھلکا کام ڈھونڈ لیتے اور تھوڑے عرصے بعد کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کے دوست بھی اچھی صحبت کے نہ تھے۔ ابا کو بھی انہوں نے چرس کی لت لگا دی تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، میری ماں ایک شریف عورت تھی، ہر حال میں ان کو   گزارہ کرنا ہی تھا۔ میرے بھائیوں کو ماں نے اسکول میں داخل کرادیا کہ بڑے ہو کر انہوں نے ہی گھر کا بوجھ اٹھانا تھا لیکن ابا نے مجھے اسکول نہ جانے دیا۔ ماں سے کہتے کہ لڑکی کو پڑھا کر کیا کرنا ہے۔ اس کو گھر داری اور سلیقہ سکھائو ، یہی عورت کی کامیابی زندگی کی ضمانت ہے کہ وہ سلیقہ شعار اور فرمانبردار ہو۔ بھائی چھوٹے تھے، میری حمایت میں نہیں بول سکتے تھے ، یوں میں اسکول جانے سے رہ گئی۔ جن دنوں میں پانچ سال کی تھی انہوں نے میری قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ عید میں دو دن تھے والد صاحب نے امی سے کہا۔ بخت بی بی ! میں اپنے دوست کے پاس کسی کام سے جارہا ہوں، کلثوم کے لئے عید کے کپڑے اور چوڑیاں لینی ہیں ، تو اسے تیار کر دو۔ میں اس کے لئے شہر سے ریڈی میڈ کپڑے، نئی جوتی اور کی چوڑیاں لیتا آئوں گا اور بچی سیر بھی کر لے گی۔ ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ سوچا کہ عید کی شاپنگ سے میری بچی خوش ہو جائے گی، سیر بھی کر لے گی۔ انہوں نے مجھے نہلا یا اور صاف ستھرے کپڑے پہنا کر تیار کر دیا۔ والد صاحب میری انگلی پکڑ کر گھر سے چل دیئے۔ میں جو بخت بی بی کی بیٹی، بے بخت ہونے کو باپ کے ساتھ آنکھوں میں سیر سپاٹے کا خواب سجا کر گھر سے نکل آئی تھی۔ شہر جانے کی بجائے ابا ایک بیل گاڑی میں بیٹھ کر اگلے گائوں آگئے۔ یہ بیل گاڑی ہرے چنوں ک سے بھری ہوئی تھی اور گائوں جارہی تھی۔ تمام راستہ، میں ہرے چنے کھائی گئی۔ مسافرت کا بھی پتا نہ چلا اور ہم گائوں آگئے ۔ اتبا نے دوست سے ملنے کا تو بہانہ کیا تھا، اصل میں وہ میرے بدلے اپنی شادی طے کر آیا تھا، اس کو نو عمر لڑکی سے شادی کا شوق تھا جبکہ امی، اس سے پانچ برس بڑی اور تین بچوں کی ماں تھیں۔ ہوا یہ تھا کہ انہی دنوں ابا نے ایک شخص کی لڑکی کو دیکھا وہ اس کے دل کو بھا گئی۔ یہ والد کا پر انا واقف کار تھا۔ میرے باپ نے اس سے کہا کہ تو مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دے دے، بدلے میں تیرے بیٹے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دوں گا۔ چنانچہ مجھے میرا باپ اس کے گائوں لے گیا۔ وہاں اس نے اپنا نکاح اس شخص کی بیٹی سے پڑھوایا اور میر انکاح اپنے نئے سالے سے کرا دیا۔ سب کے سامنے یہ فیصلہ کیا گیا کہ میری رخصتی بالغ ہونے پر کر دی جائے گی۔ میرے والد نے جس لڑکی سے نکاح کیا، اس کی رخصتی بھی چند ماہ بعد ہو نا قرار پائی تھی۔ اس وقت میں اتنی کم سن تھی کہ مجھے علم نہ تھا کہ میری قسمت کا فیصلہ کر دیا گیا ہے بلکہ میں تو وہاں موجود لوگوں کی گود میں بیٹھ رہی تھی۔ گھر واپس آنے سے پہلے محلے والوں میں سے کسی نے یہ خبر میری ماں کو دے دی۔ ان کو یقین نہ آیا مگر جب والد نے گھر پہنچ کر اس خبر کی تصدیق کر دی تو وہ ہکا بکارہ گئیں وہ تو ان پر اعتماد کرتی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ میرا خاوند ہمیشہ میرا رہے گا۔ وہ تو کسی اور کا ہو چکا تھا۔ اس کی پیاری بیٹی کے بدلے میں اس کو سو کن مل رہی تھی، اس پر میری ماں بہت روئی بیٹی، والد سے پوچھا کہ میرا قصور تو بتائو۔ اگر میری سوتن لانی تھی تو میری ہی بیٹی کے بدلے میں کیوں لائے ہو ؟ یہ باتیں میری سمجھ دار ہونے پر میری والدہ نے مجھے بتائیں۔ جب میں گھر پہنچی تو خوشی سے ماں کی گود میں چلی گئی جس ہستی نے چند گھنٹوں پہلے مجھے خوشی خوشی تیار کیا تھا، وہ اب مجھے لپٹا کر رو رہی تھیں۔ دن رات کا    رونا، اب میری ماں کا مقدر بن گیا تھا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد میرا باپ اپنی منکوحہ کو رخصت کروا کر لے آیا۔ وہ دل کی بُری نہیں تھی، لڑکی سی تھی۔ وہ خود اس شادی سے خوش نہ تھی۔ بدلے کی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنے غم کی پناہ میری ماں کی ہستی میں تلاش کی۔ ہاتھ جوڑ کر امی کو منالیا کہ مجھ سے ناراض مت ہو۔ میں تو خود مجبور تھی، مجھے کو تو زبر دستی اس کے پلے باندھا گیا ہے۔ دو سال تک وہ میری ماں کے ساتھ رہی، بچے کی پیدائش پر وہ نوزائیدہ سمیت دنیا سے چل بسی۔ سوتن کی موت پر بھی میری ماں نے بہت آنسو بہائے کیونکہ وہ ایک نیک دل لڑکی تھی اور میری ماں کو بہت سکھ پہنچاتی تھی۔ سارے گھر کا کام کرتی، امی کے کپڑے دھوتی، ان کے پیر تک دباتی تھی۔ سچ کہوں کہ ایسی نیک دل لڑکی میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ جب میں سمجھ دار ہو گئی تو سہیلیوں کے منہ سے اپنے خاوند کا نام سنا اور اپنے ان دیکھے جیون ساتھی کی پرستش کرنے لگی۔ میری سہیلیاں مجھے اس کے نام سے چھیٹر تیں تو میں آسمان کی وسعتوں میں پہنچ جاتی۔ ماں نے میرا جہیز بنانا شروع کر دیا تھا۔ میں سولہ برس کی ہو گئی تو سسرال والوں نے رخصتی کا مطالبہ کر دیا۔ باپ نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ کئی سال تک سسرال والے تقاضا کرتے رہے اور ابا انکار کرتے رہے۔ آخر وہ لوگ تنگ آگئے۔ کہا کہ تم اپنی بیٹی کو رخصت کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ اب بڑی ہو گئی ہے۔ میں اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کروں گا ، وہ ابھی چھوٹی ہے ۔ جب میری مرضی ہو گی تب رخصتی دوں گا۔ تم لوگوں کو جلدی ہے تو طلاق دے دو۔ وہ بولے طلاق کی بات کیوں کرتے ہو ؟ جبکہ رشتہ بدلے کا تھا اور ہم نے اپنی بیٹی وعدے کے مطابق، وقت پر رُخصت کر کے تمہارے حوالے کر دی تھی۔ اب وہ میرے پاس تو نہیں ہے نا؟ اس کی عمر اتنی ہی تھی، موت حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم نے تو زندہ رخصت کر کے دے دی تھی ، اب اگر انتقال کر گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنی بیٹی کی رخصتی نہ دو، مگر ابا کے دل میں فتور آ چکا تھا۔ وہ اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے۔ بولے کہ میں نے طلاق لینی ہے اور میں اس کے لئے عدالت تک جائوں گا۔ تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو۔ گائوں کے لوگوں نے بھی سمجھایا کہ وہ شریف لوگ ہیں، تم بیٹی کا نکاح کر چکے ہو، اپنے وعدے سے مت پھر و مگر والد نے موقف اختیار کیا کہ جب میری لڑ کی چار پانچ برس کی تھی تب نکاح ہوا تھا حالانکہ اس عمر میں لڑکی کا نکاح نہیں ہوتا۔ اس کے بدلے والی جو میر ی گھر والی تھی وہ بھی مر گئی ہے، میرے پاس تو کچھ نہ رہا۔ اب اسی وجہ سے میں عدالت جائوں گا۔ بہر حال ابا عدالت سے مجھے طلاق دلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد  وہی کیا، جو وہ چاہتا تھا۔ میرے بھائی عبدل کے نکاح کے بدلے کسی اور گھرانے میں بدلے کی رسم دُہرا دی گئی اور میری بھابی کے بھائی سے میر انکاح کر دیا گیا۔ بھائی کی دلہن رخصت ہو کر گھر آگئی مگر اس دفعہ بھی میرے والد نے میری رخصتی نہ کی بلکہ سسرال والوں سے ایک سال کی مہلت مانگ لی۔ بھابی کا بھائی جس سے میرا عقد ثانی ہوا تھا، کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار تھا، اس نے مجھ سے صرف اس لئے نکاح کیا تھا کہ اس کی بہن کی شادی وٹے سٹے کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ ابا کو جب اس امر کا علم ہوا کہ وہ مجھے سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو اس کو بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے ماں سے کہا۔ یہ اچھا ہوا، اب میں اس لڑکے سے کہتا ہوں کہ حق مہر کی آدھی رقم دے دو، ہم تم سے خلع لے لیتے ہیں۔ اس طرح تم اپنی پسند کی شادی کر لینا اور ہم اس رقم سے اپنی بیٹی کی کسی اور جگہ شادی کر دیں گے ۔ جب میرے چچا نے یہ سنا تو کہا۔ مجیب شرم کرو، بیٹی بکائو چیز نہیں ہوتی۔ تم لڑکے سے کیا بات کرنے چلے ہو ، اس کے بزرگوں سے بات کرو، جن کی مرضی سے رشتہ ہوا تھا۔ کیا دوبارہ خلع کے لئے بیٹی کو عدالت لے جائو گے ؟ جو بات کرنی ہے، کچہری میں جانے کی بجائے زبانی کلامی کر لو یا برادری کو ہمراہ لے لو۔ لیکن ابا کے دل میں تو لالچ  نے گھر کر لیا تھا۔ انہوں نے کسی کی نہ مانی اور ان لوگوں سے جان بوجھ کر پھڈا کر کے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ میری ماں رونے لگی کہ اب میری بیٹی کو دوبارہ طلاق مت دلوائو بلکہ خوشی خوشی رخصتی دے دو۔ اس پر ابا نے جو تا اٹھا کر میری ماں کو مارا تو وہ بیچاری سسک کر چپ ہو گئی۔ ابا ایک بار پھر مجھے عدالت لے گیا، کچہری اور تحصیل کے چکر لگنے لگے۔ مجھے  کہا عدالت میں یہ کہنا ہے اور یہ کہنا ہے اور میں دُعا کرتی کہ خُدا کرے یہ باتیں مجھے من و عن یاد رہ جائیں ورنہ وہ گھر آکر میری کھال ادھیڑ ڈالیں گے۔ سال بھر کچہری کے چکر لگتے رہے۔ جس سے نکاح ہوا تھا، اس نے عدالت میں بیان دیا کہ میں کسی سے عشق نہیں کرتا۔ کلثوم میری منکوحہ ہے، میں اس کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں لیکن میرا باپ ڈرا ڈرا کر وہی بیان دلواتا تھا جو وہ چاہتا تھا بالآخر اس بار بھی  مجھ کو خلع دلوانے میں کامیاب رہا۔ وہ میرے تیسرے نکاح کی تیاریاں کرنے لگا تو ماں نے کہا۔ کلثوم تو خود  سے کہہ دے کہ اب میں نکاح نہیں کروں گی۔ بس بہت ہو گیا۔ میں نے ابا سے جرات کر کے کہہ دیا۔ وہ بولا۔ بس بیٹی یہ آخری دفعہ ہے۔ تیرے دوسرے بھائی کا گھر بھی تو بسانا ہے، یہاں وٹے سٹے کے بغیر لڑکے کی شادی نہیں ہو سکتی۔ تیرے بدلے تیرے چھوٹے بھائی کا گھر بس جائے گا۔ میں اسی لئے ایسا کر رہا ہوں ورنہ مجھے اور کیا لالچ ہے۔ ابا کے تیور دیکھ میں پھوپی کے گھر چلی گئی اور ان کو تمام احوال بتا کر کہا کہ عمر بھر کنواری رہ لوں گی مگر یہ بار بار نکاح والا کھیل اب نہیں کر سکتی۔ وہ بچاری سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے۔ دو دن بھی نہ گزرے تھے ، میرا باپ پھوپی کے گھر چند لوگوں کے ہمراہ آگیا، ساتھ گائوں کا مولوی بھی تھا۔ یہ سب میر انکاح پڑھانے آئے تھے۔ کسی کو میرے رونے دھونے کی پروانہ تھی۔ انہوں نے زبردستی میرے نکاح نامے پر انگوٹھے لگوائے اور چلے گئے ، ابا نے پھوپی کو دھمکایا کہ نکاح ہو گیا ہے۔ میں اس کا دماغ درست کر لوں تو آپ ہی مان جائے گی۔ کچھ دن ٹھہر کر میں اس کی رخصتی کر دوں گا۔ خُدا کی کرنی نکاح کے تیسرے روز میری ماں فوت ہو گئی۔ میری سگی پھوپی ہمارے گھر آئیں اور چند روز میرے ساتھ رہیں۔ انہوں نے میرے بھائیوں سے کہا کہ تمہارا باپ بے غیرتی پر اتر آیا ہے۔ تمہارے گھر آباد ہیں مگر اس کا اپنا گھر خالی ہو گیا ہے۔ اب یہ تیسری شادی ضرور کرے گالہذا تم کلثوم بی بی کو جلد از جلد رخصت کرنے کی کرو ورنہ یہ پھر اس کو طلاق دلوا کر اس کے ذریعے اپنی شادی کا سامان کرے گا۔ یہ بات سولہ آنے صحیح تھی، سو، بھائیوں نے میری نگرانی شروع کر دی۔ انہوں نے بھی میرے تنسیخ نکاح کے مقدموں کی وجہ سے کافی خواری اٹھائی تھی۔ بڑے بھائی کے سسرال والے اب تک ناراض تھے ، یہ تو بھابی نے ہمت کی اور اپنا گھر نہ ٹوٹنے دیا، ورنہ ابا تو اس کی بھی طلاق کروانے پر تلے ہوئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے صلاح کی کہ اگر ابا اس بار بھی کلثوم بی بی کی رخصتی پر جلد راضی نہ ہوئے تو ہم اس کو مکان کے ایک کمرے میں بند کر کے تالا لگادیں گے اور اپنی بہن کی رخصتی کر دیں گے۔ میرے سُسرال والے جلد رخصتی کا مطالبہ کر رہے تھے ،ادھر دونوں بھائی بھی ابا پر دبائو ڈال رہے تھے ۔  ابا ہر بات کے جواب میں کہتا، تم لوگوں کو اتنی کیا جلدی پڑی ہے۔ بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کروں گا ، اچھا جہیز دوں گا۔ ذرا تیاری تو کر لینے دو۔ سوچنے سمجھنے کا موقع تو دو۔ بھائی بولے۔ ابا اب تم کیا سوچو گے ؟ کلثوم کے نکاح کرنے سے پہلے سوچنا تھا۔ مگر ابا نے دل میں کچھ اور ٹھانی ہوئی تھی۔ ادھر بھائیوں نے اپنے طور پر میری رخصتی کی تیاریاں شروع کر دیں اور کہا کہ دیکھتے ہیں اب ہم کون روکتا ہے۔ ابا کی نیت میں فتور تھا۔ اس نے سوچاہ لڑکے بڑے ہو گئے ہیں ، اب یہ میری چلنے نہیں دیں گے بس ایک روز اس نے میری پھوپی کو تیار کیا۔ کلثوم بی بی کو شہر لیے جارہا ہوں تا کہ تم میری بیٹی کے جہیز کے جوڑے خریدنے میں مدد کر سکو۔ پھوپی اُن کی باتوں میں آگئی کہ چلو اب  کسی طور اپنے گھر کی ہو گی۔ بھائیوں کو ان پر اعتبار تھا سو منع نہ کیا اور میں پھوپھی کے ساتھ ان کے گھر چلی گئی۔ وہاں ابا پہلے سے موجود تھا، وہ ہمیں لے کر بازار آیا وہاں پھوپی کو ایک واقف کے گھر بٹھادیا اور کہا کہ تم ٹانگ سے لنگڑی ہو، بازار میں رش ہے ، وہاں کہاں چل سکتی ہو۔ میں کلثوم کو اپنے دوست کی بیوی کے ساتھ لے جاتا ہوں۔ یہ اپنی پسند کے جوڑے خرید لے گی۔ پھوپی بچاری ہانپتی کانپتی رہ گئی اور ابا مجھے بازار لے آیا۔ چند جوڑے دلوائے ، پھر اس عورت کو جس کو وہ دوست کی بیوی کہہ رہا تھا، گھر بھیج دیا کہ پھوپی کو کہنا وہ گھر چلی جائے۔ ہمیں خریداری میں دیر لگے گی۔ میں کلثوم کو لے کر ان کے گھر آجائوں گا۔ بازار میں ایک سفید رنگ کی ویگن تیار کھڑی تھی، ابا نے مجھے اس میں بٹھا یا خود آگے کہیں جاکر اتر گیا اور میں اس میں بیٹھی رہ گئی۔ میں سمجھی، وہ پانی پینے اترا ہے ، حسرت سے باپ کو ڈھونڈتی رہ گئی۔ در اصل اس نے ان لوگوں سے آٹھ لاکھ روپے کھرے کئے اور رقم جیب میں ڈال کر چلا گیا۔ پھوپی جب گائوں پہنچی تو رو پیٹ رہی تھی۔ ابا نے اس کو سمجھا دیا تھا کہ کہنا کہ کلثوم میرے گھر آئی اور تھوڑی دیر بعد ہی باہر چلی گئی۔ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ہر ایک سے یہی کہنا ورنہ تیری جان نکال دوں گا۔ پھوپی ابا کے ڈر سے ہر ایک سے یہی کہتی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ بھائی اس بات پر یقین نہیں کرتے تھے مگر وہ کلہاڑی مارتے تو کس کو مارتے۔ پھوپی بچاری بوڑھی اور ابا گھر پر تھا ہی نہیں، نجانے کدھر غائب تھا۔ ادھر سسرال والوں کو بھی کچھ کہنا تھا۔ اس بار طلاق کا کیس آسان نہ تھا۔ وہ ان سے کہتے ۔ ابا کسی کام سے پشاور گئے تھے، آجائیں تو بات کرتے ہیں۔ وہ  خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو بیٹھے۔ ابا کراچی چلا گیا۔ وہاں ایک سولہ سالہ بنگالن چھوکری کو خرید کر اس سے نکاح کر لیا اور کراچی میں ہی رہنے لگا۔ ان دنوں کراچی میں بنگالی لڑکیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار زوروں پر تھا جن کو ان کے دلال بنگال سے اسمگل کر کے بردہ فروشی کرتے تھے۔ دیگن والے مجھے کوئٹہ لے آئے، یہاں پہاڑی علاقے کے آدمی نے مجھ سے نکاح کر لیا۔ میں نے بہت کہا کہ میر انکاح ہو چکا ہے اور نکاح پر نکاح جائز نہیں لیکن ان لوگوں کو میری کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔ انہوں نے مجھے خریدا تھا سو میں ان کی باندی تھی۔ ادھر میرے باپ نے میرے نئے سسرال والوں کے ساتھ مل کر تھانے جا کر اپنے کچھ مخالفوں کے نام میرے اغوا کا پرچہ درج کروادیا۔ ادھر میں پہاڑوں میں چھ سال قید رہی۔ ان دنوں کا کیا حال لکھوں کہ زمین کانپ اُٹھے۔ کیسے کیسے عذاب وہاں نہ ہے۔ ہم بے شک امیر نہ تھے مگر تھوڑی سی زرعی اراضی سے اتنا اناج اور روپیہ آ جاتا تھا کہ پیٹ بھر ، سکون کی روٹی کھا کر سو جاتے تھے مگر یہاں تو جوار کی سوکھی روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بے آب و گیاہ کالے دیو جیسے پہاڑ ، ان پہاڑوں میں ایسے لوگ رہتے تھے جو برسوں نہیں نہاتے تھے۔ چھ ماہ میں ایک بار نہا لیتے۔ ان کے جسموں سے ایسی بُو آتی تھی کہ مجھے ابکائی آجاتی تھی۔ رفتہ رفتہ میں اس کی عادی ہو گئی کیونکہ میرے سے بھی اب ویسی ہی بُو آتی تھی۔ میں بھی مہینوں نہانے کو ترستی تھی۔ روکھی سوکھی روٹی، پیاز اور بھیٹر کے دُودھ کی لسی سے نوالے نگلتے میرے حلق میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ یہاں کوئی عورت بیمار ہو جاتی تو وہ مر جاتی مگرا سے علاج کو نہ لے جاتے تھے۔ یہاں کی زندگی کتنی کٹھن تھی، میں نے سوچ لیا واپس جانے کی امید بے کار ہے ۔ اب یہیں جینا ہے اور مرنا ہے۔ ابا کو بد دعائیں دیتی تھی جس نے بڑھاپے میں نئی دلہن کا ارمان پورا کرنے کے لیئے مجھے بیچ دیا تھا۔ خُدا چاہتا ہے کہ انسان اس کی رحمتوں سے مایوس نہ ہو ۔ چھ سال بعد جب میں بالکل مایوس ہو چکی تھی ایک بار مجھے پہاڑ سے شہر کے اسپتال جانے کا موقع ملا، جہاں میرے شوہر کی بیمار ماں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے گردے کا آپریشن ہو نا تھا۔ اتفاق سے مجھے نرس سے اکیلے میں بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اس سے منت کی کہ تم کسی طرح اس پتے پر میرے بھائیوں کو اطلاع کر دو آکر مجھے یہاں سے لے جائیں۔ وہ رحم دل لڑکی تھی۔ اس نے گھر جا کر اپنے باپ کو بتایا، اس کا باپ اسی وقت میرے بھائیوں کے پاس چلا گیا اور میرا پیغام ان کو دیا۔ وہ اس کے ساتھ شہر آئے اور فوراً ڈی سی صاحب سے ملے ۔ وہ میر انکاح نامہ بھی ساتھ لائے تھے۔ اس طرح انہوں نے مجھے برآمد کرا کر میرے بھائیوں کے حوالے کیا اور مجھے ظالموں کے چنگل سے رہائی دلائی۔ ابا کا پتا چلا کہ وہ کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر چکے ہیں۔ اب کون ان کا بال بیکا کر سکتا تھا۔ یر ایک معجزہ ہی تھا کہ میں دوبارہ اپنے گھر واپس آگئی۔ جب میں گھر پہنچی میری حالت بری تھی۔ عور تیں مجھے دیکھنے آئی تھیں اور افسوس کرتی تھیں۔ ان سے بھائیوں نے یہی کہا تھا کہ یہ شہر میں ، بازار کی بھیٹر میں گم ہو گئی تھی اور والد سے بچھڑ کر رستہ بھول گئی تھی۔ جن لوگوں سے رستہ پوچھا وہ   اسے اٹھا کر لے گئے۔ یہ ان کے چنگل میں تھی۔ فرق یہ تھا کہ انہوں نے اس سے جبری مشقت نہیں لی بلکہ خادمہ بنا کر ر کھا۔ یہ معاملہ میرے بھائیوں نے میرے سسرال میں جا کر بتایا۔ وہ لوگ مجھے دیکھنے آئے اور میری حالت دیکھ کر یقین آگیا  انہوں نے ہم کو معاف کر دیا۔ طلاق تو وہ دے ہی چکے تھے اور جس سے نکاح ہوا تھا اس نے شادی بھی کر لی تھی۔ اس کے بعد میں بھائی، بھابیوں کے ساتھ رہنے لگی۔ بھتیجے بھتیجیاں مجھ سے پیار کرنے لگے ۔ مجھ کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ صد شکر کہ میں ان رشتوں کے درمیان، اپنوں میں ہوں۔ ان کی موجودگی میں ہیں خود کو تہی دامن نہیں سمجھتی۔

Latest Posts

Related POSTS