Friday, October 11, 2024

Shadi ya Azab

ایک روز اسکول سے گھر آئی تو دیکھا، مہمان آئے ہوئے ہیں۔ امی نے کہا کہ انہیں سلام کرو، یہ خاص مہمان ہیں۔ میری عمر پندرہ سال تھی، پھر بھی خاص مہمانوں کا مطلب سمجھ گئی۔ سوچا جانے ماں کو میرے بیاہنے کی اتنی جلدی کیوں پڑی ہے۔ پتا چلا لوگ خوشحال ہیں اور میں خوبصورت، گویا دونوں طرف سے حالات موزوں تھے لہذا رشتہ ہو گیا اور میٹرک کا امتحان دیتے ہی میری شادی سرور سے ہو گئی۔ ہم کو خبر نہ تھی کہ وہ ذہنی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے، دیکھنے میں تو وہ بالکل ٹھیک لگتا تھا۔ بات چیت کرنے سے بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ اس کے دماغ میں کچھ خرابی ہے کہ کوئی کل ڈھیلی ہو گی۔ میں دلہن بن کر ان کے گھر گئی تو پہلی رات انہوں نے اس طرح میرا سواگت کیا کہ خود تو کھانا کھالیا اور میرا کسی نے خیال نہ کیا۔ یوں شادی کی پہلی رات مجھے بھوکا سونا پڑا- کہ جب دولہا صاحب تشریف لائے ان کی عجیب و غریب حرکتوں سے ڈر سہم کر ایک طرف ہو کے بیٹھ گئی۔ اگلے روز ولیمہ تھا۔ میرے گھر والے ولیمہ میں آئے تو میں نے رونا شروع کر دیا کہ مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔ میری تڑپ دیکھ کر ماں کا دل پسیجا۔ یوں انہوں نے ہماری ساس سے منت کی اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ولیمے کے فوراً بعد میکے واپس آگئی۔ جب بس میرے سسرال سے میکے کو چلی تو سب سے پہلے میں ہی دوڑ کر بس میں چڑھ گئی۔ یہ بھی سمجھ نہ تھی کہ ساس سسر سے اجازت ہی لیتی ۔ وہی آنکھیں جو کل رو رہی تھیں، میکے لوٹنے کی خوشی میں چمک اٹھی تھیں۔ خیر میکے میں ایک ہفتہ گزر گیا۔ دعا کرتی تھی خدا کرے سسرال والے کبھی مجھے لینے نہ آئیں اور وہ بھی نہ آئے۔ مجھے تو کسی بات کی فکر نہ تھی لیکن امی بہت پریشان تھیں کہ اب کیا ہو گا۔ ادھر میں اپنی سہیلیوں اور کزنز سے مل بیٹھ کر اتنی خوش تھی کہ جیسے واپس جانا ہی نہیں ہے۔ میرا سسرال لاہور میں تھا اور میں بیاہ کر اوکاڑہ سے گئی تھی۔ دس روز گزرے تھے کہ لاہور سے خالہ زاد بہن آگئی۔ بولی۔ کچھ ہوش بھی ہے شہر بانو! تمہارا دولہا کتنا اداس ہے وہاں اور تم سے بہت ناراض ہے۔ اسی نے مجھ کو سمجھا بجھا کر راضی کیا کہ میں سرور کو فون کروں۔ اس نے ہی فون بھی ملا کر دیا۔ فون سرور نے اٹھایا۔ اس کی آواز سنی تو مجھ کو بڑی شرم آئی۔ کچھ بات منہ سے نہ نکلتی تھی۔ ادھر روبی تھی کہ ٹہوکے دے رہی تھی۔ کچھ تو بولو ! بس پھر کیا تھا۔ میں نے کون سا اپنی عقل سے کام لینا تھا، جو وہ کہتی تھی وہی میں فون پر داہرتی جارہی تھی۔ میں نے اپنے دولہا سے کہا کہ آپ لوگ لینے نہیں آئے اس وجہ سے میں نہیں آئی۔ یہ روبی کے کہنے سے کہا تھا۔ اگلے روزی سرور اپنی بڑی بہن کے ہمراہ مجھے لینے آگیا۔ اس کو دیکھ کر میں تو چھپ گئی۔ ماں نے سجا سنوار کر دوبارہ دلہن بنا کر اس کے ساتھ روانہ کر دیا۔ میری عمر کم تھی، تبھی حرکتیں بھی بچوں جیسی تھیں۔ میں سرور کی پروا نہ کرتی اور اپنے میں مگن رہتی۔ وہ بھی اپنی حرکتوں میں بادشاہ تھا کہ کبھی میرے پیچھے بھاگتا اور میں آگے اور وہ پیچھے، سارے گھر میں دھمکا چوکڑی مچی ہوتی۔ کبھی ہوائی قلابازی لگاتا اور میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی پھر سوچتی کہ دولہے ایسے تو نہیں ہوتے۔ یہ پاگل جب خوش ہوتا ہے تو بندروں کی مانند اچھل کود کرنے لگتا ہے، تبھی یہ سوچ کر آنکھوں سے برسات کی جھڑی لگ جاتی۔ میرے رونے سے سرور کو خوشی ملتی تھی۔ میں روتی تو وہ اور میرے رلانے کے اسباب کرتا- کبھی چھڑی اٹھا کر مارنے لگتا تا کہ یہ اور روئے ، میں مارے بچنے کو دوڑتی- کبھی برآمدے میں، کبھی چھت پراس کو خوب چکر لگواتی ۔ وہ تھک کر بیٹھے جاتا تو مجھے کو روتے روتے ہنسی آجاتی اور میں تالیاں بجانے لگتی۔ یہ تماشا پڑوسی بھی دیکھتے ،افسوس کرتے، کبھی دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے۔ میں دو تین دن ہی سرور کے کمرے میں سو پائی، پھر میں نے وہاں سونا بند کر دیا کیونکہ وہ مجھے رات بھر سونے نہ دیتے تھے بہت ڈراتے تھے۔ ان کو پتا چلا کہ بلی سے ڈرتی ہوں بلی پکڑ کر لے آتے اور ڈراتے۔ ایک رات بلی پکڑ کر غسل خانے میں بند کر دی، پھر مجھے بھی بند کر دیا۔ بلی کو دیکھ کر میری جان نکل گئی۔ وہ تو شکر کہ غسل خانے میں کھڑکی تھی میں نے کھڑکی کھولی تو بلی شرافت سے کود کر باہر نکل گئی مگر سرور تو میرے ڈرنے سے اس قدر محظوظ ہوئے کہ کیا بتائوں۔ اس کے بعد تو ساری رات مجھ کو غسل خانے میں بند رکھتے اور میں بچوں کی طرح ایڑھیاں رگڑتی رہتی۔ توبہ کرتی معافی مانگتی، مگر وہ مجھ کو تنگ کر کے ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔ کہتے کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو اس لئے ایسی حرکتیں کرتا ہوں۔ اب میں خوف سے سہم کر سرور کی ہر بات مان لیتی تھی۔ ان کی حرکتیں ایسی ہوتی تھیں کہ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو مر گیا ہوتا، تبھی اپنی ساس کے پاس سونے لگی۔ سرور کو اور غصہ آیا۔ وہ گھر میں توڑ پھوڑ کرنے لگا تب میری ساس نے سمجھا بجھا کر پھر سے اس کے حوالے کیا اور اپنے پاس سلانے سے منع کر دیا۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاتی تھی، بس روتی رہتی تھی۔ وہ موڈ میں آکر پیار کی بات کرتا، کبھی مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیتا کہ ٹھنڈ سے میری جان نکل جاتی۔ ذرا دیر بعد پائوں پکڑ کر معافی مانگنے لگتا۔ میں ایسی پاگل کہ معاف کر دیتی، پھر سے اس کے ساتھ باتیں کرنے لگتی مگر جب مغرب ہو جاتی اور دن کا اجالا ختم ہو جاتا رات ہونے لگتی خوف آنے لگتا کہ جانے اب یہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ تب دعا کرتی۔ اے خدا کبھی رات نہ آئے کہ میں اس ظالم کے ظلم کا شکار بنوں۔ یہ جمعرات کی شام تھی۔ اس نے میرے ساتھ بڑی بے دردی کا سلوک کیا تھا۔ میرے بازو اورپشت پر اس طرح دانت پیوست کیے کہ جس سے خون رسنے لگا۔ تکلیف سے بلبلانے لگی مگر وہاں میری فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ کسی طرح کمرے سے نکل پائی اور بھاگ کر ساس کے کمرے کی طرف گئی۔ جبھی سسر صاحب کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ سرور کی ماں ! بچی کو اپنے پاس لے آئو ، شاید وہ پاگل اس کو مار رہا ہے۔ رہنے دور مر نہیں جائے گی، آج لے آئی تو روز ہی ادھر آجائے گی، خود ہی عادی ہو جائے گی اب بیٹے کو سنبھالنا اس کا کام ہے۔ جب ساس کی باتیں سنیں، دکھ سے بےقابو ہوگئی اور میری دھاڑیں نکل گئیں۔ جن کا میں آسرا ڈھونڈ رہی تھی وہ ایسے کہہ رہے تھے۔ گویا یہاں میرا کوئی نہ تھا۔ تبھی میری سکاریں سن کر سسر صاحب کورحم آ گیا۔ اس رات تو انہوں نے میری ساس کو مجبور کیا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ سلائیں۔ تب اس خاتون نے مجھ کو ساتھ سلایا۔ صبح سرور نے آکر معافی مانگی۔ ماں سے کہا کہ جب میرا سر گھومتا ہے تو میں سکون کی گولیاں کھا لیتا ہوں اس کے بعد میری ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ مجھے پتا نہیں چلتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے ضد کی انکل مجھے میرے میکے چھوڑ آئے ورنہ میں کھانا پینا چھوڑ دوں گی اور اسی حال میں بھوکی مرجائوں گی۔ آپ کا بیٹا ذہنی بیمار تھا، آپ نے یہ بات میرے والدین سے کیوں چھپائی۔ انہوں نے کہا۔ بیٹا ! اس نے محلے کے کسی چھوٹے بچے کو ستایا تھا تو اس کے والدین نے اس کو پکڑ کر تھانے میں بند کرا دیا تھا تب میں دبئی میں تھا اور سرور کی عمر پندرہ سال تھی، جو اس کو تھانے لے گئے تھے، انہوں نے روپیہ دے کر اس کو بہت پٹوایا تھا جس کے بعد اس کی ذہنی حالت خراب ہو گئی۔ مجھ کو اطلاع ملی، فورا دبئی سے آ گیا، اس کا ہم نے کافی علاج کروایا۔ تب یہ ٹھیک ہو گیا۔ اب پھر سے اس کے مزاج میں سختی آنے لگی – کبھی صحیح ہوتا کبھی ایسا ہو جاتا، ڈاکٹر نے کہا کہ شادی کر دیں، یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ بیٹی شہر بانو ! ہماری آپ سے دشمنی تو نہیں تھی۔ ہم نے ایک امید پراس کی شادی کر دی کہ ٹھیک ہو جائے گا، تم ہم کو معاف کر دو۔ میں خود یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ تم کو میکے چھوڑ آئوں گا۔ تم تیار ہو جائو۔ میں نے جلدی جلدی تیاری باندھی۔ سرور سے کہا کہ جلدی واپس آجائوں گی۔ قسم کھائو کہ آجائو گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے قسمیں بھی کھا لیں۔ سرور نے اپنے والد سے ضد کی کہ میں بھی ساتھ جائوں گا اور اس کو واپس لے کر آئیں گے۔ جونہی میکے کی دہلیز پر قدم رکھا، میں نے رونا شروع کر دیا۔ گھر والے سمجھے کہ اداسی کے سبب رور ہی ہوں۔ اسی وقت میری سہیلی نیلم آگئی جو ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ نیلم نے جب میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو اس کی انگلیوں پر میری قمیص سے رستا ہوا خون لگ گیا۔ وہ پریشان ہو گئی۔ بولی۔ یہ تمہیں کیا ہوا ہے۔ تمہاری پشت پر خون لگا ہوا ہے۔ امی نے اس کی بات سن لی۔ انہوں نے کمرے میں لے جا کر میری پشت دیکھی جو دانتوں اور ناخنوں سے ادھڑی ہوئی تھی۔ میرا بدن زخمی دیکھ کر امی تو چیخنے چلانے لگیں۔ ان کو تب پتا چلا کہ میں اس قدر زخمی ہوں۔ سچ بتا ! کیا معاملہ ہے۔ میں نے کہا۔ امی! سرور ذہنی مریض ہے۔ کبھی پیار جتلاتا ہے تو میرا منہ مٹھائیوں سے بھر دیتا ہے اور کبھی سچ مچ کا ڈریکولا بن جاتا ہے۔ ماں ! مجھ کو وہاں رہنے سے ڈر لگتا ہے۔ بتائو کہ کب تک میں یہ برداشت کروں گی۔ مجھ کو خوف رہنے لگا ہے کہ کسی دن جان سے نہ مار دے، اس سے پہلے کہ میں اس پاگل کے ہاتھوں قتل ہو جائوں، خدا کے لئے مجھے بچا لو۔ میں تو درد سے بھری آئی تھی۔ فریاد کرتے بس نہ کر رہی تھی۔ میری حالت دیکھ کر ماں کے آنسو بہہ نکلے۔ انہوں نے میرے سسر سے کہا کہ میں نے اپنی کم سن بچی کو اس لیے تو آپ لوگوں کے حوالے نہ کیا تھا کہ آپ کا بیٹا اس کا یہ حشر کر دے۔ اب میں اس کو کبھی نہ بھیجوں گی اور آپ اکیلے واپس گھر جائیں گے۔ سسر تو چپ رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں، سرور البتہ پریشان لگ رہا تھا۔ باپ نے کہا۔ اب چلو سرور ! بعد میں ہم تمہاری دلہن کو لے آئیں گے۔ عجیب بات یہ کہ جب وہ جانے لگا تو کہنے لگا۔ اچھا شہربانو بہن ! خدا حافظ ۔ یہ سن کر میری امی نے سر پکڑ لیا۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے سکھ کا سانس لیا اور فیصلہ کر لیا کہ بس اب ان سے ہم رشتہ ختم کر لیں گے۔ دوماہ میکے میں سکون سے رہی، میری طبیعت خراب ہو گئی۔ تبھی یہ انکشاف ہوا کہ میں اس پاگل کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ یہ انکشاف ایسا تھا کہ پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ جس بندھن کو ہم توڑ رہے تھے گویا اسے قدرت اور مضبوط کر رہی تھی۔ اب تو میرے پیروں میں یہ زنجیر پڑ گئی تھی۔ بہر حال ہم نے خاموشی اختیار کی اور قدرت کے فیصلہ کا انتظار کرنے لگے۔ وقت مقررہ پر میری بچی پیدا ہو گئی۔ اس کی اطلاع ہم نے سسرال والوں کو نہ دی۔ پھر بھی کسی طور ان کو اطلاع ہو گئی اور وہ بچی کو دیکھنے کے بہانے آ گئے۔ ساس سر قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے اتنے عرصے میں سرور کو اسپتال میں دکھایا ہے اور اس کا علاج کروایا ہے۔ اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہماری بات کا یقین نہیں ہے تو بے شک اس ڈاکٹر سے چل کر پوچھ لیں جس سے علاج کروایا ہے۔ اب اگر آپ کی بیٹی کو ہمارے گھر میں کسی قسم کی شکایت ہو تو ہم ذمہ دار ہیں۔ ایک بار ہماری بہو اور بچی کو ہم کو دے دو، ہم ان کو لینے آئے ہیں۔ میرا تو جی نہ چاہتا تھا کہ ان کی صورت دیکھوں، ممانی بیچ میں پڑ گئیں ، انہوں نے یہ رشتہ کروایا تھا۔ والد کی تو میرے بچپن میں وفات ہو گئی تھی، ہمارے سر پرست ماموں ہی تھے۔ انہوں نے ذمہ داری اٹھائی کہ اگر شہر بانو کو کچھ نقصان پہنچا تومیرا گریبان پکڑنا۔ غرض اسی طرح امی کو مجبور کیا کہ وہ لاچار مان گئیں ۔ یوں بادل ناخواستہ مجھ کو ساس سسر کے ہمراہ ایک بار پھر اس گھر لوٹ کر آنا پڑا۔ جہاں دکھ درد، اذیت میری منتظر تھی۔ چند دن بھی سکون سے نہ گزرے کہ سرور پہلے جیسا ہو گیا۔ شاید وہ پیدائشی اذیت پسند تھا۔ ہر بار وہی وحشت ، وہی اذیت پسندی، اپنی ذات تک تو حوصلہ پیدا کر بھی لیتی ، اب تو میری معصوم بچی کی زندگی کا سوال تھا۔ ایک روز میرے شوہر نے مجھ سے کہا۔ اس کو مجھے دو۔ میں اپنی بچی کی تصویر اتارتا ہوں۔ ننھی منی پھول سی بچی اور سخت سردی میں اس کے سارے کپڑے اتار دیئے۔ میں چلانے لگی۔ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ اس کو سردی لگ جائے گی، کہنے لگا۔ اس طرح بچوں کی تصویر اچھی آتی ہے۔ اف خدا میرے دل کا سکون ختم ہو گیا۔ سسر صاحب کو بھی خوب اندازہ تھا تبھی وہ اب آدھی آدھی رات تک ہمارے کمرے کے باہر ٹہلتے رہتے تھے ۔ جب تک سرور گہری نیند سو نہیں جاتا تھا مگر میں تو پکی نیند سو ہی نہیں سکتی تھی کہ جانے کب اٹھ کر یہ جنونی میری بچی کو گلا دبا دے ۔ ایک روز میں غسل خانے میں نہا رہی تھی اور بچی پالنے میں سورہی تھی۔ سسر صاحب کی توجہ تو میری بچی کی جانب رہتی تھی تب انہوں نے جانے کیا دیکھا کہ کمرے میں جا کر بچی کو پالنے سے اٹھا کر باہر لے آئے۔ جب میں نہا کر نکلی تو میں نے دیکھا کہ وہ پوتی کو سینے سے لگائے ٹہل رہے ہیں۔ انہوں نے بچی کو میری بانہوں میں دے کر کہا۔ بیٹی ! آج میں نے جان لیا ہے کہ تیرا اور تیری بچی کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ تم اپنی بیٹی کو لے کر میکے چلی جائو۔ سرور کے ساتھ زندگی نہیں گزر سکتی۔ ہم نے سمجھا تھا کہ یہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ قدرت کو منظور نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی نقصان ہو ، تم تیار ہو جائو۔ میں تم کو تمہارے ماں باپ کے گھر چھوڑ آتا ہوں۔ تم ہم کو معاف کر دینا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ میں بچی کو لے کر میکے آگئی اور پھر سسرال نہ گئی۔ میری والدہ نے طلاق کا تقاضا کیا۔ سسر صاحب نے طلاق بھجوا دی ۔ اب میں آزاد تھی سب نے امی سے کہا کہ تمہارا شوہر فوت ہو چکا ہے، کب تک جوان بچی کو بٹھائو گی ، اس کی دوسری شادی کر دو ، لیکن میں تو اب شادی کے نام سے ہی کانپ جاتی تھی۔ والدہ نے میری بیٹی کو سنبھالا اور میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ماموں نے تعلیمی اخراجات اٹھائے اور کسی وقت کی پروا کیے بغیر میں نے گریجویشن مکمل کی۔ والدہ نے مشورہ دیا کہ ٹیچنگ کی لائن اچھی ہے تم اسی کو اپنا لو۔ مزید دو سال پڑھنا پڑا۔ ان دنوں بی ایڈ ہوتا تھا تب اسکول میں سرکاری نوکری ملتی تھی۔ پس بی ایڈ بھی کیا۔ تب تک میری بیٹی منزہ سات برس کی ہو چکی تھی۔ ملازمت کے لئے سال بھر درخواستیں گزارتی رہی۔ بالآ خر قسمت نے یاوری کی اور میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئی۔ یہ ٹیچنگ کا پیشہ میرے لئے عزت اور ترقی کا زینہ ثابت ہوا۔ ایم اے، ایم ایڈ کیا، کالج میں لیکچرار ہو گئی- ایک دن آیا کہ میں کالج میں پرنسپل کے عہدے پر پہنچی۔ یہ میری زندگی کی بڑی کامیابی تھی۔ میری بیٹی بھی میرے کالج میں پڑھی پھر اسے اسکالرشپ ملی لیکن مجھے اس کو بیاہنے کی فکر ہوئی۔ وہ خوبصورت اور تعلیم یافتہ تھی۔ اچھے رشتے آ رہے تھے مگر دل ڈرتا تھا کہ اپنی قسمت سے ڈری ہوئی تھی تبھی بیٹی کا رشتہ کرنے سے خوفزدہ تھی۔ آخر کار امی نے ہمت کی اور اپنے محلے کے ایک گھرانے میں رشتہ طے کر دیا کہ یہ لوگ برسوں کے دیکھے بھالے اور جانے پہنچانے لوگ تھے۔ لڑکا ہمارے سامنے بڑا ہوا اور پڑھ لکھ کر انجینئر بن گیا۔ منزہ کا رشتہ میں نے ارسلان سے کر دیا اور وہ بیاہ کر بیرون ملک چلی گئی۔ باقاعدہ فون کرتی اور مجھ کو تسلی دیتی کہ فکر نہ کریں۔ میں بہت خوش ہوں۔ میں اب ریٹائرڈ ہو چکی تھی۔ پنشن سے اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ بڑی بہن کا بیٹا میرے پاس رہتا ہے۔ اس کے بچوں سے تنہائی کا احساس مٹ جاتا ہے۔ ان دونوں، نور مقدم اور فائزہ انعام کے واقعات نظروں سے گزرے تو بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ مجھے اپنی بیتی یاد آگئی۔ خدا ہربیٹی کو ایسے سانحات سے بچائے کہ بیٹیاں تو دل کا سکون ہوتی ہیں، ان کو پھانس بھی لگ جائے ماں باپ تڑپ جاتے ہیں۔ اگر اولاد ذہنی طور پر نارمل نہ ہو تو والدین کو چاہیے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کسی لڑکے یا لڑکی کی زندگی تباہ نہ کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس کو خود سنبھالیں کسی بے گناہ اور معصوم لڑکی کی زندگی سے نہ کھیلیں-

Latest Posts

Related POSTS