Sunday, October 6, 2024

Shadi Ya Aziyat

ایک دن ہمارے اسپتال میں ایک ذہنی مریضہ لائی گئی، جس کے بیٹے نے ماں سے کسی معمولی بات پر ناراض ہو کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔ ماں کو جب یہ خبر ملی تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی بعد میں بیٹے کو تو بچا لیا گیا مگر ماں کو ذہنی صدمے سے بحالی کے لئے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ جب یہ عورت آئی، اس کی حالت غیر تھی۔ وہ چیختی چلاتی روتی پیٹتی اور کبھی اپنے سامنے والوں کو بھی مارنے کو لپکتی تھی میری ساتھی نرس بولی۔ یہ عورت میرے قابو میں نہ آئے گی۔ مجھے تو اس کو انجکشن لگانے سے بھی خوف آ رہا ہے۔ تب میں نے کہا ۔ عارفہ ! تم مجھ سے ڈیوٹی بدل لو۔ آئو ہم انچارج سے کہہ کر ڈیوٹی تبدیل کرا لیتے ہیں۔ سب حیران تھے کہ جس عورت کی وحشت سے ایسی حالت ہے، میں اس کے ساتھ ڈیوٹی کرنے پر مصر ہوں۔ ایک نرس نے پوچھا سارا! کیا تم اس عورت سے ڈر نہ لگے گا؟ ڈر کس بات کا؟ یہ ذہنی مریض دراصل اندر سے بڑے مخلص اور نرم و نازک ہوتے ہیں ۔ جب اپنے سماج کے سنگدلانہ رویوں اور حالات سے نبرد آزما نہیں ہو سکتے تو ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ہم ان کو پیار اور اعتماد دیں گے تو یہ ہم پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں ، ہم پھر ان سے اپنی بات بھی منوا سکتے ہیں۔ اس عورت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے اس کو اتنا پیار دیا کہ وہ پندرہ دنوں میں ٹھیک ہوگئی۔ اب وہ آرام سے انجکشن لگوا لیتی تھی۔ اب اس کو باندھنا نہیں پڑتا تھا ، پھر جب وہ بالکل ٹھیک ہوگئی تو میری اُس کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ وہ بڑی اچھی اور سمجھ دار عورت تھی، گھریلو حالات سے ذہنی دبائو کا شکار ہوئی تھی ، پاگل نہیں تھی۔ سب مجھ سے پوچھتے تھے کہ تمہارے پاس کیا منتر ہے، جو تم ایسے لوگوں کو قابو کر لیتی ہو؟ میں مسکرا ديتي ، لیکن اس سوال پر میرا دل اندر سے رونے لگتا۔ جو میرا اپنا تھا، اُس کو تو میں قابو نہ کر سکی اپنا نہ بنا سکی، نہ ہی اُس کو نارمل ذہنی حالت پر لا سکی۔

وه کون تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میرا سب کچھ وہی تھا۔ ایک لڑکی جب کسی کو دل میں بسا لیتی ہے، سب کہتے ہیں کہ تیرا منگیتر بڑا بانکا، سجیلا، گبرو ہے، بڑا خوبصورت ہے۔ ذہین، دانا، عاقل ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے، تو بڑی خوش قسمت ہے تب وہ لڑکی خود کو خوش بخت سمجھتی ہے۔ میں بھی خود کو بہت خوش نصیب سمجھتی تھی۔ ایڈن میری پھوپھی کا بیٹا تھا۔ وہ پڑھائی میں ہمیشہ فرسٹ آتا تھا۔ اس کے علاوہ مضمون نویسی، تقریروں کھیلوں میں غرض ہر میدان میں اول رہتا تھا۔ ہم سب کو اُس سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ میری پھوپھی کہتی تھیں کہ ایڈن اور سارا کی جوڑی خوب رہے گی۔ میں تو بس اس کو ہی اپنی بہو بنائوں گی۔ ایسی باتیں سُن سُن کر میرے دل میں بھی ایڈن کی محبت پیدا ہو گئی اور تصور میں اُسی کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگی۔ ایڈن کو میڈیکل لائن میں جانے کا شوق تھا۔ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ انہی دنوں اس نے ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا۔ اس نے خوب محنت کی تھی۔ اُس کو اُمید تھی کہ اُس کے نمبر بہت اچھے آئیں گے، وہ اپنے لئے پہلے سے ڈاکٹروں والا سفید کوٹ لے کر آیا تھا۔ ان دنوں میں نرسنگ کی ٹریننگ کر رہی تھی۔ ہماری پھوپھو بھی اسی پیشے سے منسلک تھیں اور کافی عرصہ لیبیا میں خدمات انجام دی تھیں۔ کافی روپیہ کمایا تھا۔ اب ایک چھوٹا سا بنگلہ ناظم آباد میں خرید لیا تھا۔ یہ لوگ چین اور سکون سے زندگی کے دن گزار رہے تھے۔ جب شہر کے حالات خراب ہوئے ، تو ایک رات اُن کے گھر میں ڈکیتی پڑ گئی۔ آدھی رات کو جب سب سو رہے تھے ، ڈاکوئوں نے پھوپھا کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور کہا کہ چابیاں نکالو اور گھر کا سارا مال ہمارے حوالے کر دو۔ میری پھوپھو کی بیٹی کم سن تھی۔ اُس کی عمر تب دس برس تھی۔ اُس کی آنکھ کھلی تو پانچ اجنبی افراد کو دیکھا، جو اس کے گھر والوں کو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ چپکے سے کمرے سے کھسک گئی۔ ڈاکوئوں نے بچی جان کر غالباً اُس کی جانب توجہ نہ دی۔ وہ بھاگ کر گیٹ پر پہنچی اور آہستہ سے گیٹ کو کھول کر باہر نکلی اور پڑوسی کے گھر کی بیل بجانے لگی۔

وہ اٹھ کر اپنے گیٹ پر آئے تو انہوں نے بچی کے رونے کی آواز سنی۔ پوچھا کون؟ بچی نے باپ کا نام بتا کر کہا کہ جلدی آیئے، ہمارے ابو کو انہوں نے پکڑ لیا ہے اور ان کے سر پر پستول رکھا ہوا ہے۔ ہمسایہ نے نہ صرف پولیس کو اطلاع کر دی بلکہ آس پاس کے گھروں کی کال بیل بجا کر سب کو جگا دیا۔ پڑوسی باہر نکل آئے، اتنے میں پولیس بھی آ گئی اور سب مل کر گھر کے اندر چلے گئے۔ ڈاکو دوسرا گیٹ پھلانگ کر بھاگ نکلے لیکن ایک پولیس کے باتھ آ گیا اور پکڑا گیا۔ اس واقعے کے بعد پھوپھا اس قدر پریشان ہوئے کہ پنجاب شفٹ ہو گئے۔ گھر بھی فروخت کر دیا۔ اس کے بعد میری ایڈن سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ یہ سنا کہ تھوڑے سے نمبروں کی کمی کے باعث اُسے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا جس کی وجہ سے وہ بہت دلبرداشتہ ہو گیا ہے اور تمام دن اپنے کمرے میں بند پڑا رہتا ہے ۔ سال گزر گیا میں نے نرسنگ کی ٹریننگ مکمل کر لی اور ایک اسپتال میں جاب کر لی۔ انہی دنوں ہماری پھوپھو آئیں۔ کہا کہ شادی کی تاریخ دے دو، میں اب بیٹے کے سر پر سہرا سجا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ امی سے بہت اصرار کیا اور تاریخ لے لی، یوں میری شادی میرے خوابوں کے شہزادے ایڈن سے ہو گئی۔ جس روز نکاح ہونا تھا، عجیب بات ہوئی۔ ایڈن کو میں نے دیکھا، وہ گھبرایا ہوا عجیب سا لگ رہا تھا۔ میں سمجھی دولہا بنا ہے، اس لئے کچھ مختلف سا لگ رہا ہے، شرما رہا ہے لیکن جب پادری صاحب نکاح پڑھا رہے تھے ، اُس وقت بھی اس کی حالت نارمل نہیں تھی ۔ اس کا رویہ عجیب سا تھا۔ وہ پادری صاحب کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہا تھا۔ کبھی ہنس پڑتا، کبھی چپ ہو جاتا، جو وہ کہتے وہ نہ کہتا۔ اس پر پادری صاحب کو غصہ آگیا۔ انہوں نے اُس کو ڈانٹا کہ یہ کیا تماشا کر رہے ہو؟ یہ شادی ہو رہی ہے ، کوئی مذاق نہیں۔ جو میں کہہ رہا ہوں ویسا کرو۔ لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟ ایڈن ایسا تو نہ تھا۔ مجھے خود اُس سے ایسی اُمید نہیں تھی۔ اس کے بجائے میں شرم سے پانی پانی ہوئے جا رہی تھی۔ خدا خدا کر کے کسی طرح نکاح ہوا۔ مبارک سلامت کے بعد ہم گھر چلے ۔ سوچ رہی تھی آج دولہا صاحب کی خوب خبر لوں گی کہ معقول آدمی ! یہ تم بھرے مجمعے میں نامعقول قسم کی حرکتیں کر رہے تھے؟ گھر پہنچتے پہنچتے پتا چلا کہ دولہا صاحب غائب ہیں۔ رات ان کا انتظار کرتی رہی۔ میرے بھائی، ابو سب ایڈن کو ڈھونڈ رہے تھے۔ تین دن بعد وہ کہیں ایک دوست کے گھر سے برآمد ہوا۔ یہ اس کو مارے باندھے گھر لائے۔ میرا تو رو رو کر برا حال تھا لیکن اب میں رونا بھول چکی تھی۔ اس سوچ میں ڈوبی تھی کہ آخر ایڈن کو کیا ہو گیا ہے؟ شادی کے فوراً بعد سہاگ رات کو بھاگ جانا کہاں کی شرافت ہے۔ خدانخواستہ کہیں… اس سے آگے کی باتیں بھی دھیان میں آ رہی تھیں کہ شاید وہ کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہے، شاید مجھ سے نفرت کرتا ہے یا پھر وہ شادی کے لائق نہیں رہا، لیکن یہ میں ہرگز سوچنا نہ چاہتی تھی کہ خدانخواستہ اُس کے دماغ میں خلل واقع ہو گیا ہے۔ بھلا اتنے بہت سے سوالات کا کیا جواب ہو سکتا ہے ؟ ؟ اگر جواب تھا بھی تو ایڈن کے پاس… اس سے پہلے کہ میں اس سے کوئی سوال کرتی ، پھوپھو نے جلدی سے بوریا بستر باندھ لیا۔ کہنے لگیں۔ مجھے فیصل آباد جانا ہے، جہاں ہمارا گھر ہے۔ یہاں میرا بیٹا بے گھری سے پریشان ہو رہا ہے۔ میرے والدین منہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ مجھے اور اپنے بیٹے کو لے کر آنا فاناً فیصل آباد چل دیں۔ میں نے بھی سوچا اپنے گھر جا کر ایڈن سے پوچھوں گی۔ یہاں کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو ایڈن کا دِل بُرا ہوگا۔

ہماری پھوپھو کا گھر کافی بڑا تھا۔ انہوں نے ایک حصہ مجھے اور ایڈن کو دے دیا اور پہلے ہی دن بولیں۔ بھئی تم اب اپنے دولہا کو سنبھالو، آج سے اس کو دیکھنے بھالنے کی ذمہ داری میری نہیں ۔ دو تین دن وہ ٹھیک رہا ، پیار سے بات چیت کرتا۔ میں نے پوچھا بھی کہ تم نے وہاں ایسی حرکت کیوں کی؟ تو کہا۔ بعد میں بتائوں گا۔ میں چُپ ہوگئی کہ چلو نئی نئی بات ہے، تلخی نہ ہو ، بعد میں پوچھ لوں گی۔ شادی کے چھٹے روز جب میں اس کے لئے کھانا نکال کر لائی تو اس نے کھانے کی ٹرے ایک طرف سرکا دی ، کچن میں گیا اور اپنے لئے خود کھانا نکال کر لایا۔ میں حیرت سے اُس کی طرف دیکھتی رہی مگر اُس نے میری حیرت کا بھی کوئی نوٹس نہ لیا اور چُپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔ مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ تم نے کھانا کھانا ہے کہ نہیں؟ پھر اُٹھ کر گھر سے باہر چلا گیا اور دو دن تک نہ آیا۔ میں نے ساس سے پوچھا ، وہ ٹال گئیں۔ کہا کہ کسی دوست کے پاس گیا ہوگا۔ میں نئی دلہن اُس کا انتظار کررہی تھی ، وہ بغیر اطلاع کے غائب تھا اور میری ساس کے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہ تھی۔ اگلے دن وہ آیا مجھ سے بات نہ کی۔ آتے ہی بستر پر لیٹ کر چھت کو گھورنے لگا۔ میں نے پانی پینے کو دیا تو مجھے گھورنے لگا، پھر خود اُٹھا اور پانی بھر کر لایا اور پیا۔ میں نے پوچھا ۔ ایڈن کیوں تم نے میرے ہاتھ سے پانی نہیں لیا، مجھ سے ناراض ہو کیا؟ کیا خبر تم نے پانی میں کچھ ملا دیا ہو، اس لئے نہیں لیا۔ میں اُس کی بات سن کربگا بگاره گئی ۔ اس کا رویہ ایسا سرد تھا کہ اُس کے بعد، مخاطب ہونے کی جرأت بھی نہ کر سکی۔ رات کو بھی وہ مجھ سے منہ موڑ کر سو گیا۔ اگلے دن کھانا بنا رہی تھی کہ مجھے پشت پر سے یوں دھکا دیا کہ میں چولہے پر گرتے گرتے بچی۔ میں نے کہا ۔ ایڈن تم ہوش میں تو ہو؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ اگر میں جل جاتی، کہنے لگا سوری اور جا کر اندر لیٹ گیا۔ میں نے سوچا اب اس کی شکایت پھوپھو سے کروں گی، مگر پہلے یہ کھانا کھا لے ورنہ کھانے کا مزہ بھی خراب ہو جائے گا۔ میں غصے میں تھی، پهر بهی شرافت کا ثبوت دیا اور اس کے لئے کھانا لے کر گئی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ غسل خانے میں چلا گیا اور ہاتھ دھونے لگا۔ میں انتظار کر رہی تھی کہ وہ ہاتھ دھو کر آ جائے تو ہم کھانا شروع کریں۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا وہ مسلسل ہاتھ دھوئے جا رہا تھا یہاں تک کہ صابن کی تکیہ ختم ہو گئی۔ میں روہانسی ہوگئی۔ قریب تھا کہ زور زور سے رونے لگوں، اتنے میں میری نند آ گئی۔ یہ مجھ سے واقعی محبت کرتی تھی۔ میں نے کہا۔ پروین دیکھو تو ذرا ایڈن کو، کس قدر زچ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مسلسل ایک گھنٹے سے ہاتھ ہی دھوئے جا رہا ہے صبح اس نے چولہے پر اچانک دھکیل دیا کہ جلتے جلتے بچی۔ پروین بولی بهابهی ایک بات کہوں ، قسم کھائو کہ تم پھر ایڈن سے نفرت نہیں کرو گی اس کو چھوڑ کر نہ جائو گی۔ دراصل ایڈن بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اُن کو ہمدردی کے ساتھ علاج کی بھی ضرورت ہے یہ ذہنی مریض ہیں ، کبھی کبھی تو ان پر پاگل پن کا شدید دوره پڑتا ہے۔ یہ بات امی نے آپ لوگوں سے چھپائی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ شادی کے بعد شاید ایڈن بھیا ٹھیک ہو جائیں۔ انہیں میڈیکل میں داخلہ نہ ملنے کا شدید ذہنی صدمہ ہوا ہے۔

پروین کی بات سن کر میں سکتے میں رہ گئی۔ پھوپھو نے ہم سے کتنا بڑا ہاتھ کھیلا تھا۔ اپنے پاگل بیٹے سے میری شادی کر کے میری زندگی کو دائو پر لگا دیا تھا۔ وہ کتنی خود غرض تھیں۔ اگر وہ ہمیں بتا دیتیں تو کم از کم شادی سے پہلے ہم کراچی میں ایڈن کا علاج تو کراتے۔ اُس کے بعد میرے دل میں ایڈن کے لئے شدید ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے۔ اب وہ جو بھی حرکات کرتا مجھے برا نہ لگتا۔ اب تو بُرا منانے والے بات ہی نہ رہی تھی۔ وہ ذہنی مریض تھا اور ایک پاگل کی بات کا کیا بُرا منانا۔ وہ تو خود سہارے اور ہمدردی کا مستحق ہوتا ہے۔ میرے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ کیا کیا خواب سجائے تھے ایڈن کے بارے کیا کچھ نہ سوچا تھا اور کیا ہو گیا؟ بہر حال میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہر حال میں اس کا علاج کروائوں گی، اس کو زندگی کی طرف لائوں گی۔ اُسی وقت امی جان کو خط لکھا اور تمام احوال انہیں لکھ دیا۔ امی اور بھائی فوراً آ گئے اور ہمیں کراچی لے آئے تا کہ اس کا علاج کرایا جاسکے۔ میں نے ایڈن کی خاطر ایک مینٹل اسپتال میں ہی سروس کر لی ، کیونکہ اس کا علاج مہنگا تھا اور یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اسپتال کے مالک کو تمام حالات بتائے اور کہا کہ بے شک آپ مجھ سے ڈبل ڈیوٹی لیں اور تنخواہ بھی نہ دیں مگر میرے شوہر کا علاج ہونا چاہئے کہ میں ان کے علاج کی استطاعت نہیں أن کو مجھ پر رحم آ گیا۔ اُنہوں نے مجھے اپنے اسپتال میں رکھا اور ایک کمره بھی رہنے کے لئے دے دیا۔ دوماہ میرے جیون ساتھی کا علاج ہوا۔ ایک دن وہ سڑک پر بھاگ گیا، میں پیچھے بھاگی ، دیکھا تو لوگ اُس کو مار رہے تھے۔ میں نے ان کو روکا کہ کیوں مار رہے ہو ؟ یہ تو مریض ہے، اسپتال سے بھاگ کر آیا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ باندھ کر رکھو اس مریض کو پتا ہے اس نے کیا کیا ہے۔ کیا کیا ہے؟
وہ بولے کار میں چھوٹی بچی بیٹھی تھی ، اُس کا باپ سامنے دُکان سے خریداری میں مصروف تھا کہ یہ آیا اور کار میں بیٹھی بچی کا گلا دبانے لگا۔ اب ہم اس کو نہ ماریں تو کیا کریں۔ وہ مشتعل تھے، میں بڑی مشکل سے انہیں سمجها بجھا کر اُس کو چھڑا کر لائی۔ کافی کوشش کی وہ ٹھیک ہو جائے مگر وہ اسپتال میں اس قدر ہنگامہ کرنے لگا کہ میرا بھی یہاں نوکری بحال رکھنا دشوار ہوگیا۔ آخر مجھے اس کو گھر لانا پڑا۔ میرے گھر والے بہت جلد اس کی حرکتوں سے تنگ آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ تم اس کو کہیں لے جائو اور اس کے ساتھ الگ گھر لے کر رہو ۔ ہم اس کو نہیں رکھ سکتے۔ جب کسی کے پیچھے پڑتا ہے، تو اس کا جینا حرام کر ڈالتا ہے۔ ہاتھ دھونے لگتا ہے تو صبح سے شام تک ہاتھ دھونے میں ہی لگا رہتا ہے اور کبھی بیٹھے بیٹھے اُٹھ کر گلا دبانے لگتا ہے۔

تب میں نے سوچاکہ میں کیوں اس کی خاطر اپنے والدین کی زندگی عذاب میں ڈالوں۔ میری ایک سہیلی لاہور میں رہتی تھی، اُسے فون کر کے احوال بتایا۔ وہ بولی پریشان نہ ہو، یہاں آ جائو ۔ ہم تمہارے شوہر کو لاہور کے مینٹل اسپتال میں داخل کروا دیتے ہیں ، شاید ٹھیک ہو جائے۔ وہاں بھی میں نے ایڈن کو داخل کیا، خود اس کے ساتھ رہی، مگر اسے افاقہ نہ ہوا۔ بظاہر ٹھیک ہو جاتا ، اچھی طرح بات چیت کرتا، اُس کی کسی حرکت سے بھی اندازہ نہ ہوتا کہ وہ ذہنی مریض ہے۔ ایک دن اچانک اُس نے کس کر میرے منہ پر تھپڑ مار دیا کہ میرا منہ پھر گیا، گال سوج گیا میں رونے بیٹھ گئی۔ پھر لاہور سے اسے فیصل آباد لے آئی تاکہ بے گھری سے تو نجات ملے۔ یہاں آ کر ایک اسپتال میں سروس تلاش کر لی۔ چاہتی تھی کہ کچھ رقم اکٹھی کر لوں تا کہ ایڈن کا علاج کروا سکوں۔ میرے ساس سسر بیٹے کے علاج کے لیے پھوٹی کوڑی دینے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے مجھ سے اس کی شادی اسی وجہ سے کی تھی کہ اپنی بلا میرے سر منڈھ کر خود سکون کی نیند سونا چاہتے تھے۔ میں نے لیکن ایڈن کو کبھی بلا نہ سمجھا۔ مجھے اس سے کوئی شکوہ نہ تھا۔ وہ بھلا کب اپنے حواسوں میں تھا۔ ان دنوں پھپھو نے میرا جینا حرام کر ڈالا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مجھ سے تعاون کریں کہ انہوں نے مجھ پر جان بوجھ کر ظلم ڈھایا تھا۔ میری عمر ہی کیا تھی جو مجھ کو اپنے پاگل بیٹے سے بیاہ کر لے آئیں۔ اب ستم یہ کہ میں پڑوسن سےبھی بات نہ کروں، اچھے کپڑے اس لئے نہ  پہنوں کہ میرا شوہر پاگل ہے ۔ ایک دن میں سو رہی تھی کہ اچانک ایڈن آ گیا۔ جانے اسے کیا سوجھی کہ میرا گلا گھونٹنے لگا۔ بڑی مشکل سے میں نے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرایا۔ اگر میرا دیور اچانک نہ آجاتا تو شاید میں مر چکی ہوتی۔ تبھی میرے دیور نے کہا۔ بھابھی پلیز! خُدا کے لئے اب تم یہاں سے چلی جائو، ایڈن تو ٹھیک ہو گا نہیں تم جان سے چلی جائو گی ، مگر ساس کہنے لگی کہ ایڈن کو بھی ساتھ لے جائو، ورنہ میں تم کو اکیلے جانے نہ دوں گی۔ میں نے کہا۔ پھپھو ! میں نے اپنا زیور تک بیچ کر آپ کے بیٹے کے علاج پر لگا دیا ہے۔ آپ مجھے اس کے علاج کا خرچہ نہیں دے سکتیں، تو رہنے کے لئے اپنا کراچی والا گھر دے دیں۔ آخر میں اس پاگل کے ساتھ کہاں رہوں۔ کون مجھے رہنے دے گا۔ وہ بولیں۔ اس مکان کا نام بھی مت لو۔ اس کا کرایہ مجھے ملتا ہے ، کیا تم کرایہ دو گی؟ میں نے تبھی فیصلہ کر لیا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ انہیں اپنے بیٹے سے ہمدردی نہیں تو مجھے کیوں ہو۔ میں صبح ڈیوٹی پر گئی تو میری ساس بھی وہاں آگئیں۔ کہا کہ اسپتال سے چھٹی ،لو ، ہم سب کراچی چلتے ہیں۔ میں نے اپنے انچارج سے کہہ دیا کہ ان سے کہیں کہ چھٹی نہیں مل سکتی۔ تب انہوں نے دھمکی دی کہ اچھا تو پھر ہم یہیں بیٹھے ہیں ۔ تم ڈیوٹی کر لو ہم تمہیں ساتھ ہی لے کر جائیں گے ۔

ایک نرس نجمہ میرے ساتھ کام کرتی تھی۔ اس نے جب یہ صورت حال دیکھی ، بولی۔ سارہ تمہاری ساس کے تیور ٹھیک نہیں لگتے۔ تم ان کے ساتھ مت جانا۔ چھٹی ہونے سے تھوڑی دیر پہلے میرے ساتھ نکل چلو۔ میں تم کو بعد میں ریل میں بٹھا دوں گی۔ تم اپنے میکے چلی جانا۔ میں نے یہی بہتر جانا ۔ چھٹی سے پہلے ہی نجمہ کے ساتھ اسپتال سے نکل کر اُس کے گھر چلی گئی۔ پھپھو ڈیوٹی ختم ہونے تک ویٹنگ روم میں بیٹھی میرا انتظار کرتی رہیں۔ جب پتا چلا کہ میں جاچکی ہوں تو وہیں واویلا مچادیا کہ ساره میرے زیورات اور قیمتی اشیاء لے گئی ہے۔ یوں پولیس نے ریلوے اسٹیشن پر میرے لئے ناکہ بندی کی، مگر میں اسٹیشن کب گئی تھی؟ میں تو نجمہ کے گھر پر تھی۔ اُس نے آمی کو اطلاع کر دی کہ میں اُس کے گھر پر ہوں ، آ کر لے جائیں۔ تب والد اور بھائی آئے اور مجھے اپنے ساتھ کراچی لے گئے کچھ دنوں بعد پھپھو مجھے لینے آ گئیں، لیکن ابو جان نے نہ جانے دیا اور ان سے کہا کہ تم نے میری بیٹی کی زندگی برباد کر دی۔ اپنے پاگل بیٹے کی بیماری کو چھپا کر ہمیں دھوکا دیا ہے۔ اب سیدھی طرح سے طلاق بھجوائو نہیں تو ہم کیس کر دیں گے ، مگر پهپهو سیدهی طرح کب ماننے والی تھیں ؟ والد صاحب کو تنسیخ نکاح کا دعوی کرنا پڑا ۔ دو سال عدالتوں کے چکر لگتے رہے۔ میں نے پھر سے اسپتال میں ملازمت کر لی جو کچھ کمایا، سب مقدمے پر خرچ کر دیا تب جا کر کیس سے جان چھٹی۔ آج بھی ایڈن کے بارے میں سوچتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ وہ اچھا بھلا تھا۔ خدا جانے اُس کو کیا ہوگیا؟ کاش اُس کے والدین میرا ساتھ دیتے تو میں اس کا خاطر خواه علاج کروا سکتی۔ انسان کے نصیب میں جو ہوتا ہے ملتا ہے۔ میرے نصیب میں شادی کے بعد کوئی خوشی نہ تھی بلکہ اذیت ہی اذیت تھی۔ اب تو پھر بھی سکون سے ہوں۔ ڈیوٹی دے کر آتی ہوں، تھک کر سو جاتی ہوں۔ جب سے ایڈن سے جُدا ہوئی ہوں ، تبھی سے اس جیسے ذہنی مریضوں سے ہمدردی ہو گئی ہے ۔ ان کی خدمت کر کے سکون ملتا ہے۔ شاید اس لئے بھی، کہ میں ایڈن کی وہ خدمت نہ کر سکی جو مجھے کرنا چاہئے تھی ۔

Latest Posts

Related POSTS