Friday, October 11, 2024

Shaheed Ki Qabar

ہم یوپی، کے رہنے والے تھے۔ رہائش ایک قصبے میں تھی۔ میرے بچپن سے ہی والد صاحب پریشان رہتے تھے۔ وہ بیوی کے ہاتھوں تنگ تھے کہ وہ من مانی کرتی تھیں اور شوہر کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ میرے نانا کی کافی جائیداد تھی، وہ بزنس بھی کرتے تھے ، مالدار تھے۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا، نانا کا کاروبار آخری سانس لے رہا تھا مگر ہماری نانی کو شوہر کے خسارے سے کچھ مطلب نہ تھا۔ بڑی شاہ خرچ خاتون تھیں، ان کی قسمت اچھی تھی، بڑی پُر سکون اور عیش بھری زندگی گزار کر نانا سے قبل اس جہان کو خیر باد کہہ کر چلی گئیں اور شوہر کو تڑپتا ہوا چھوڑ گئیں۔ ان دنوں میں نو برس کی تھی، مجھے نانا کا پُر نور چہرہ یاد ہے۔ تحریک آزادی زوروں پر تھی، وہ کہا کرتے تھے کہ جو شہید ہوتے ہیں، وہ مرتے نہیں۔ بلاشبہ وہ فرشتہ صفت انسان تھے تحریک آزادی کے بعد بٹوارے کے وقت جب وہ ہمیں پاکستان لارہے تھے ، تو رستے میں شہید ہو گئے۔ خُدا کا شکر اس سفر میں ہمارے تینوں ماموں سلامت رہے۔ وہ ہمیں اور والد صاحب کو پاکستان لے آئے۔ والد صاحب لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے جبکہ ماموں مجھ کو پڑھانا چاہتے تھے۔اگر والد صاحب چاہتے تو مشن اسکول کافی کھلے ہوئے تھے لیکن انہوں نے خود وقت دے کر مجھے معمولی سا لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا۔ وہ ہجرت کے سفر میں ہی کافی بیمار ہو گئے تھے۔ وہ روز بہ روز کمزور ہوتے گئے اور دنیا کو جلد ہی خیر باد کہہ دیا اور ہم کو دُنیا کی ٹھوکریں کھانے کو چھوڑ گئے۔ والدہ بھی نانی کے مزاج پر تھیں۔ ان کو ہماری اتنی پروا کب تھی جتنی والد کو تھی۔ والدہ دولت مند باپ کی بیٹی تھیں، لیکن عقل نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میں اپنی والدہ کی مار کٹائی سے آٹھ سال کی عمر میں پختہ ذہن ہو گئی تھی۔ ہر نماز کے بعد دعا کرتی، خُدایا مجھے توفیق دے کہ بڑی ہو کر ماں کی عزت کر سکوں۔

میں سب سے بڑی تھی۔ ان کا ہر کام مجھ کو انجام دینا ہوتا تھا۔ یہ ماں کا فیصلہ تھا کہ وہ چاہے جو کہیں لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دینا، وہ غلط کہتی تھیں اور ہم چپ رہتے تھے۔ نانی مجھ سے کہا کرتی تھیں، آمنہ تم غلط بات کو ضرور رد کیا کرو کیونکہ تم نے اپنی قبر میں جانا اور تمہاری ماں نے اپنی قبر میں۔ اور یہ دُنیا ایک سرائے لیکن دار العمل ہے یہاں انسان جو کرے گا اس کا جواب ہاتھ کے ہاتھ ملے گا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد نہ صرف یہ کہ ماموں نے ہم کو سنبھالا بلکہ اچھی تعلیم و تربیت دینے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے جہاں بھی جھوٹ فریب دیکھا، وہاں کنارہ کیا۔ مجھے بھی کہتے تھے کہ جھوٹ فریب سے بچنا اور اگر کبھی راہ اللہ میں جان دینی ہو تو گھبرانا نہیں کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اللہ منصف ہے اور یہ دُنیا فانی ہے۔ پاکستان آ کر ماموں کو راولپنڈی کے قریب زمین ملی۔ ہم سب وہاں گھر بنا کر رہنے لگے۔ میں ان دنوں دس سال کی تھی مگر سمجھدار بہت تھی، جس گائوں میں ماموں نے رہائش رکھی وہاں ان دنوں جہالت چھائی ہوئی تھی۔ ایک دن ماموں کے ساتھ کھیت میں گئی۔ وہاں مزارع کھیتی باڑی میں مصروف تھے اور میں وہاں پھول توڑ توڑ کر جمع کر رہی تھی کہ اچانک ایک طرف سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ماموں نے آواز کی طرف کان لگائے۔ جس سمت سے آواز آرہی تھی،اُدھر نالہ تھا۔ ماموں کچھ دیر توقف کئے رہے لیکن جب چیخیں مسلسل گونجتی رہیں تو وہ آواز کی سمت دوڑے۔ میں تجس میں ماموں کے پیچھے دوڑتی گئی۔ دیکھا کہ ایک ہٹا کٹا مونچھوں والا نوجوان ، نازک سی لڑکی کو کھینچے لئے جاتا ہے۔ لڑکی خوبصورت تھی لیکن لباس سے غریب چرواہے کی بیٹی لگتی تھی۔ وہ دھان پان سی، خوفزدہ اپنا آپ چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر کہاں ایک نازک اندام پیکر اور کہاں ایک بد خصلت دیو ! یہ چوہدری کا بیٹا راول ہمارے علاقے کا ایک بدسیرت نوجوان تھا، ایک بدمست ہاتھی کی طرح بے لگام۔ اس کی برائیوں کے قصے زبان زدِ عام تھے۔

ماموں کی نظر جیسے ہی ہم پر پڑی وہ بے چینی کے عالم میں کبھی ہمیں اور کبھی اُن کو دیکھتے تھے۔ میرے ساتھ ماموں کی بیٹی اور بیٹا بھی دوڑتے چلے آئے تھے۔ ان کو شاید ہم بچوں کی فکر زیادہ تھی، تبھی انہوں نے پل بھر میں فیصلہ کر لیا اور کلہاڑی لہراتے ہوئے راول کی طرف بھاگے۔ اس نے جونہی ماموں کو اپنی طرف آتے دیکھا ایک دم جیب سے چاقو نکالا اور اس مظلوم لڑکی پر وار کرنا شروع کر دیا۔ وہ پے در پے وار کرتا گیا، جب ماموں نزدیک پہنچے تو بھاگ نکلا۔ ماموں نے کافی پیچھا کیا، مگر وہ گھنے جنگلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ماموں بے بسی کے عالم میں واپس پلٹے اور وہ اس لڑکی کو جو خون میں لت پت تھی، افسوس بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ ہم بچے مارے خوف کے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے ؟ بس مارے خوف کے ہماری آواز بند ہو گئی تھی۔ تبھی وہاں ممانی بھی آگئیں۔ ماموں کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کیا کریں ؟ لڑکی تو دم توڑ چکی تھی ، اب اس کی لاش کس کے حوالے کریں۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ جا کر چھوٹے ماموں کو بلا لائو۔ اور ہم تھے کہ خوف کے مارے ہل نہیں پارہے تھے ۔ تبھی ممانی نے ہمت بندھائی اور ہم گائوں کی طرف بھاگے۔ رستے میں چھوٹے ماموں مل گئے جو کھانا لا رہے تھے ، کیونکہ بڑے ماموں اکثر کھانا کھیتوں میں کھا لیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمارے رنگ اڑے ہوئے دیکھے تو سمجھ گئے کوئی بات ہوئی ہے۔ پوچھا، کیا ہوا؟ تم کدھر سے آرہے ہو اور بھائی صاحب کہاں ہیں ؟ ہم بچوں نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ میں ذرا سمجھدار اور ہمت والی تھی، ان کو بتا دیا کہ ایک مونچھوں والے آدمی نے لڑکی کو چاقو سے مار دیا ہے اور وہ خون میں نہائی پڑی ہے۔ بڑے ماموں بھی اُدھر ہی ہیں۔ یہ سُن کر چھوٹے ماموں واپس گائوں کی طرف دوڑ پڑے اور گائوں والوں کو اس سانحے سے آگاہ کیا۔ تھوڑی دیر میں پورا گائوں وہاں آپہنچا۔ سب کو یہی ڈر تھا کہ کہیں ان کا کوئی رشتے دار تو مارا نہیں گیا۔

اتنے میں مجمع کو چیرتا ہوا ایک غریب شخص آگے بڑھا اور لڑکی کو خون میں ڈوبا دیکھ کر رونے دھاڑنے لگا۔ وہ زینت زینت پکار رہا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ شخص گائوں میں نیا نیا آیا تھا۔ اس کا نام عبدل رزاق تھا۔ اس کے دو بیٹے اور بیوی پچھلے گائوں میں مارے گئے تھے۔ کسی دُشمنی میں وہ اجل کا لقمہ بنے اور یہ بابا، جان بچا کر اپنی بیٹی کے ساتھ یہاں آگیا تھا مگر بیٹی کی موت بھی ادھر ہی لکھی تھی۔ جس کے لئے بے خبر باپ خود اسے یہاں لے آیا تھا۔ کچھ تھوڑی بہت پولیس کی پوچھ کچھ بھی ہوئی مگر کسی نے ایف آئی آر نہ لکھوائی بلکہ گائوں کے معزز لوگوں کے صلاح و مشورے ہوئے اور پھر اس لڑکی کو ماموں کی زمین میں جہاں واردات ہوئی تھی، دفن کر دیا گیا۔ دفن کرنے سے پہلے نہ تو لڑکی کو گائوں والوں نے غسل دینے دیا اور نہ کفن دیا۔ بس انہی کپڑوں کے ساتھ ہی دفنادیا جو وہ پہنے ہوئی تھی، یہ کہہ کر، یہ کیونکہ شہید ہوئی ہے لہذا اسی حالت میں دفن کر دیں۔ اس واقعہ کے پچیس سال بعد ماموں نے اپنی یہ زمین فروخت کرنا تھی جہاں اب درخت اور جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ یہاں ہی زینت کی قبر تھی، جس کو سب گائوں والے بھلا چکے تھے کیونکہ اب تو قبر کا نشان بھی مٹ گیا تھا۔ ماموں کی زمین ڈیم کے قریب تھی اور وہاں مٹی نکالنے کے لئے بڑے بڑے گڑھے کئے جارہے تھے۔ انہی گڑھوں میں کہیں زینت کی قبر والی جگہ بھی تھی۔ یہاں پورا قبرستان تو نہیں تھا کہ جگہ کو چھوڑ دیتے۔ صرف ایک ہی قبر تھی وہ بھی لاوارث کیونکہ لڑکی کا والد تو کب کا مر کھپ گیا تھا۔ کھدائی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ جس دن اس جگہ کی باری آئی، جہاں زینت کو دفن کیا گیا تھا ، وہاں کھدائی کرنے والی گاڑی خراب ہو گئی ، جس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ ٹھیک نہ ہوئی ، تب دوسری گاڑی لائی گئی ، وہ بھی جام ہو گئی۔ کسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہاں کسی نیک بزرگ کی قبر معلوم ہوتی ہے۔ وہ لوگ گائوں والوں کے پاس گئے اور بزرگوں سے مشکل بیان کی تو ان میں سے دو چار نے ایک ہی بات کی کہ مشین سے کھدائی کرنے کی بجائے قبر کو کرالوں سے کھود نا چاہئے۔ گائوں والوں نے مولوی صاحب سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ پچیس سال پرانی بات ہے اب تو ہڈیاں بھی باقی نہیں ہوں گی۔ بہر حال قبر کھودیں، اگر کوئی ہڈیاں وغیرہ ملیں تو ان کو اکٹھی کر کے کسی اور جگہ دفن کر دیں۔

گائوں کے کچھ نوجوانوں نے جو ہمارے رشتہ دار تھے ، ہمت کر کے کھدائی شروع کر دی، جب ہم نے قبر کی کھدائی کی خبر سنی تو رہا نہ گیا۔ میں اور ممانی نے وہاں جانے کا سوچا۔ ممانی میری ساس بھی تھیں اور ہم نے اس لڑکی کو قتل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دل میں تجسس ابھرا کہ دیکھیں وہاں اب کیا برآمد ہوتا ہے ؟ نانا تو کہتے تھے شہید مرتے نہیں، لیکن ہمارا خیال تھا ماموں قبر والی جگہ کی صحیح نشان دہی نہ کر سکیں گے۔ یہ لوگ اندازے سے جگہ کھود رہے ہوں گے اور ناحق وقت برباد کر رہے ہیں۔ مشیری تو مشینری ہے ، وہ ویسے بھی خراب ہو سکتی ہے۔ خیر ، زینت کی قبر کھودی جانے لگی، کھودنے والے لڑکے ہمارے رشتہ دار تھے۔ لہذا ان کے ساتھ ہم دوچار عور تیں بھی گئی تھیں اور کھدائی ہوتے دیکھ رہی تھیں۔ جب قبر کے اوپر رکھی گئی سل یا سلیب نما پلیٹوں کو ہٹایا گیا تو یہ دیکھ ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ پچیس سال گزر جانے کے باوجود زینت کی لاش قبر میں اسی طرح رکھی گئی تھی جیسے اُسے آج کل میں ہی دفنایا گیا ہو۔ ہمارے گھر کے مردوں نے ہمیں وہاں ٹھرنے نہ دیا کہ ڈیم کے محکمے والے ملازم آگئے تھے۔ بہرحال مولوی صاحب نے کہا کہ اس لاش کو نہ چھیڑا جائے اور اسی طرح دوبارہ دفن کر دیا جائے۔ زمینت کی قبر پر دوبارہ سیمنٹ کی سلیبس رکھ کر ، مٹی ڈال کے بند کر دیا گیا۔ ماموں نے گائوں والوں کے مشورے سے اس کے اطراف احاطہ سا بنادیا اور پھر ڈیم والوں نے مٹی وہاں سے نہیں لی بلکہ وہ جگہ چھوڑ دی۔ کہا کہ یہ شہید کی قبر ہے اس کو مسمار نہ کیا جائے ۔ وہاں مکتبہ لگادیا گیا کہ ”یہ شہید کا مسکن ہے۔ اب گائوں والے تبصرہ کر رہے تھے کہ واقعی وہ لڑکی پاکیزہ تھی جو اپنی عزت کی خاطر جان سے گئی۔ وہ شہید ہو گئی تھی کیونکہ بے گناہ، بےدردی سے مار دی گئی تھی۔ اگر اس کو شہید ہی ہونا کہتے ہیں تو بے شک وہ شہید ہی ہوئی کیونکہ آنا فاناً ظالم قاتل نے اس کو ، اس کے ہی خون سے نہلا دیا تھا۔ مرتے دم تک یہ واقعہ میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دل و دماغ پر کچھ اس طرح نقش ہے کہ بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا سکتی۔

Latest Posts

Related POSTS