Thursday, February 20, 2025

Shaheed Salamat Rehte Hein – شہید سلامت رہتے ہیں

ان دنوں *روحانیت* کے لفظ سے نا آشنا، میں ایک چھوٹی سی بچی تھی، نہیں جانتی تھی کہ روح اور جسم میں کوئی تعلق بھی ہوتا ہے۔ میں تو اتنا ہی سمجھتی تھی کہ بس سانس نکلی اور انسان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔
*عالمِ ارواح* کیا ہے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی کیا ہوتی ہے؟ اور مرنے والے کا کوئی تعلق اس دنیا میں رہنے والوں سے باقی رہتا ہے؟ یہ باتیں تو آج بھی میری سمجھ سے بالاتر ہیں لیکن میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ عمر بھر نہ بھلا سکوں گی۔

پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ گھر میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ میں ان دنوں ماں اور باپ دونوں کی اُمیدوں کا واحد چراغ تھی۔ اکلوتی ہونے کے سبب ماں باپ کا اتنا پیار ملا کہ لگتا تھا دُنیا کی ہر خوشی میری جھولی میں پڑی ہے۔ امی ابو کے بغیر ایک پل میرے لئے گزارنا مشکل تھا۔ وہ بھی مجھ کو اس قدر چاہتے تھے کہ ہماری تین زندگیوں کا یہ مثلث، آفتاب اور انجم و مہتاب کی مانند جگمگا رہا تھا۔

میرے والدین حسن میں اپنی مثال آپ تھے۔ دیکھنے والے انہیں دیکھ کر چاند سورج کی تشبیہ دیا کرتے تھے۔ دولت، شہرت، آسودہ زندگی، اور شمع پروانے کی طرح ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے والے میاں بیوی ہوں تو زندگی خوشگوار کیوں نہ گزرے گی۔ میں اسی پُرسکون جوڑے کی بسائی ہوئی جنت میں بے فکری کے دن گزار رہی تھی۔ لگتا تھا ہماری خوشیوں کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ دُکھ، پریشانی، غم کے سائے کیا ہوتے ہیں، میں نے کبھی ان کی جھلک نہ دیکھی تھی۔ ہمارے پُرمسرت گھر کی کسی درز میں پریشانیوں کی ہلکی سی رمق بھی داخل نہیں ہو پائی تھی۔ اچانک ہی ایک دن پتا چلا کہ جنگ کے بادل ہمارے ملک پر خوب گھن گرج سے منڈلانے لگے ہیں۔

یہ 1971ء کا سال تھا جب میرے والد صاحب اپنے فرائضِ منصبی کی خاطر بڑے عزم سے وطنِ عزیز کے دفاع کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ جنگ شروع ہوئے پانچ دن گزر چکے تھے۔ اتنے دنوں میں ابو صرف ایک بار چند منٹ کے لئے ہم سے ملنے گھر آ سکے تھے۔ وہ جب بھی دشمن کے کسی علاقے پر بمباری کر کے کامیاب لوٹتے، فوراً اس کی اطلاع ہم کو فون پر دیتے تھے اور ہم خدا کا شکر بجا لاتے تھے۔ امی اور دادی ہر لمحہ ابو کی اور وطن کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہتی تھیں۔

ان دنوں زندگی صرف اخبارات، ریڈیو، اور ٹیلی ویژن تک محدود تھی۔ اُس روز ابو نے علی الصباح دشمن کے دو تین علاقوں پر بمباری کے لیے پرواز کی تھی۔ اپنے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے فون پر امی اور مجھ سے بات بھی کی۔ ہمیں تسلی دیتے ہوئے کامیابی اور بخیریت واپسی کی امید ظاہر کی تھی۔ ابو سے فون پر بات کرتے ہوئے میری آواز بھرا گئی تھی۔ تب وہ میری دلجوئی کی خاطر بولے کہ تم ایک محافظ کی بیٹی ہو کر آزردہ ہوتی ہو؟ بھئی، میری بیٹی ہو کر چڑیا جیسے دل کی مالک کیسے ہو سکتی ہو؟ زیادہ پریشان نہ ہو، اپنے مشن کو مکمل کرتے ہی فوراً تمہارے پاس آ جاؤں گا اور ناشتہ ہم ساتھ کریں گے۔

ابو کی اس بات نے میرے سہمے ہوئے دل کو ڈھارس دی اور میں بے چینی سے ان کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ لمحوں پر محیط انتظار کی یہ کٹھن گھڑیاں صدیاں بن گئیں جو مجھ سے کاٹے نہ کٹ رہی تھیں۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، تین اور چار گھنٹے گزر گئے، مگر ابو کا نہ فون آیا اور نہ وہ خود ہی آئے۔ ان کے دفتر میں فون کر کے معلوم کرنا چاہا، مگر وہاں بھی کسی کو علم نہ تھا۔

دوپہر گزر گئی، شام ہو گئی، رات کی تاریکی ہر سو پھیل گئی، لیکن ابو کو نہ آنا تھا، نہ آئے۔ میں اور امی سخت پریشان تھے۔ بار بار ان کے دفتر فون کرتے رہے۔ قرآن پاک کی جتنی سورتیں یاد تھیں، دل ہی دل میں پڑھتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعا کرتے رہے۔ دوسرے دن کا سورج بھی طلوع ہوا اور پھر شام ڈھلے دور کہیں افق کے اُس پار غروب ہو گیا۔ دن گزرتے گئے، یہاں تک کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہو گیا۔ ہمارے ہزاروں جری فوجی دشمن کے نرغے میں پھنس گئے۔ آئے دن قیدیوں کے ناموں کا اعلان ہوتا، لیکن ان میں میرے ابو کا کہیں نام نہ ہوتا۔

شہید ہونے والوں کی سرکاری طور پر اطلاعات ان کے گھروں کو بھیجی جا رہی تھیں۔ جس جس گھر میں شہادت کی اطلاع پہنچتی، وہاں کہرام مچ جاتا۔ ہمارے علاقے میں چونکہ سب وطن کے محافظوں کے ہی گھر تھے، اسی لیے ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد کسی نہ کسی کے گھر شہادت کی اطلاع آ جاتی تھی۔ انسان اپنے جذبات کو کتنا بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کرے، مگر جذبات پر بند تو نہیں باندھا جا سکتا اور نہ ہی آنسوؤں کو بہنے سے روکا جا سکتا ہے۔

پاس پڑوس میں اکثر گھرانوں میں شہیدوں کے لئے فاتحہ خوانی ہوتی، قرآن پاک کے ختم ہوتے، اور لوگ پرسہ دینے آتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ہمارا دُکھ اور بڑھ جاتا۔ میں کہتی، امی ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ ابو کو زندہ سمجھ کر نہ تو خوش ہو سکتے ہیں اور نہ انہیں شہید سمجھ کر فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ جنہیں اطلاع مل جاتی ہے، کم از کم ان کو یہ کشمکش تو نہیں رہتی کہ ہمارے پیارے کس حال میں ہیں، کہاں ہیں، اور ان پر کیا بیتی ہے۔ کب لوٹیں گے؟یہ لوگ اپنے پیاروں کی شہادت پر صبر کر لیتے ہیں، مگر ہماری گومگو کی کیفیت تو جینے اور مرنے والی تھی۔ ان دنوں مجھے ابو کی یاد شدت سے آیا کرتی تھی۔ چپکے چپکے خدا سے دعا مانگتی کہ اے اللہ! ابو کے بارے میں صحیح صورتِ حال سے آگاہ کر دے۔ اگر وہ زندہ ہیں تو ہمیں خبر ہو، اور اگر شہید ہو گئے ہیں تو بھی ہمیں اس کا علم ہو جائے۔ میرے رب، ہمیں حوصلہ اور صبر بھی عطا فرما۔

میں اکثر شام کو اکیلی ہی ٹہلتی ہوئی دور تک نکل جاتی تھی۔ چونکہ ہمارا علاقہ الگ تھلگ تھا، لہٰذا کسی قسم کا ڈر خوف نہیں تھا۔ ماری پور کے اس علاقے میں رات تو کیا، دن کو بھی دُور دُور تک رش نہیں ہوتا تھا اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ مجھے یہاں چہل قدمی کرنے میں کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اکیلی ہی یوں واک کرتی، دور تک نکل جاتی۔ اُس روز چہل قدمی کرتے ہوئے ابو کی یاد بہت شدت سے آ رہی تھی۔ راستے بھر انہی کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو میں نے واپسی کا سوچا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی گھر کی سمت آ رہی تھی کہ اچانک ابو کی شبیہ ذہن میں ابھری اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔

اس روز میں نے کتنے دل سے ابو کو یاد کیا تھا کہ اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے وہ میرے ساتھ چل رہے ہوں۔ کچھ دیر اور چلتی گئی تو یوں لگا جیسے کوئی میرا تعاقب کر رہا ہے۔ میں نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ سوچا، شاید یہ میرا وہم ہے۔ یہ سوچ کر میں نے گھر کی راہ لی اور قدم تیز کر لیے۔ تھوڑا سا آگے چلی ہوں گی کہ دوبارہ کسی کے ساتھ ساتھ چلنے کا احساس ہوا۔اس سے پہلے کہ پلٹ کر دیکھتی، کھلی آنکھوں سے کیا دیکھتی ہوں کہ ابو میرے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کی وردی پر خون لگا ہوا ہے، مگر چہرے پر کوئی تکلیف نہیں ہے، بلکہ ایک دلکش سی مسکراہٹ ہے اور چہرے پر سکون چھایا ہوا ہے۔ ان کے لب ہلتے ہیں، جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں، مگر بولتے نہیں۔ خون ان کے سر کے بالوں میں لگا ہوا تھا اور ماتھے سے بہہ کر چہرے پر آ رہا تھا، جیسے سر پر کوئی گہرا زخم لگا ہو۔میں نے ان سے سوال کیا، ابو کیا آپ شہید ہو گئے ہیں؟ وہ اپنی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ میں نے کہا، ابو کیا آپ یہی بتانے آئے ہیں؟ ان کے لب ہلتے ہیں، جیسے ہاں کہہ رہے ہوں، مگر کوئی آواز مجھ تک نہیں آئی۔ میں نے ان کی لبوں کی جنبش سے ان کی بات کو سمجھ لیا۔ پھر میں نے کہا، اچھا ابو، گھر چلیں۔ میں وفورِ جذبات میں ان کے گلے لگنے کے لیے آگے بڑھی تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا اور گھر کی طرف اشارہ کیا، جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم بس گھر جاؤ۔

میں نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں وہیں ششدر کھڑی رہی، سوچ رہی تھی کہ یہ کھلی آنکھوں سے میں نے کیا دیکھ لیا؟ میں نے اپنے والد کو زندہ مگر زخمی حالت میں دیکھا، ان سے بات بھی کی، اور انہوں نے بغیر کچھ بولے مجھے جواب بھی دیا، جو میں سمجھ بھی گئی۔ یا اللہ، یہ تو نے مجھے جاگتی حالت میں کیا دکھا دیا؟ یہ کیسی انہونی تھی جس پر کوئی اور یقین کرے گا بھی نہیں۔ اس بات پر مجھے خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔

دن رات ایک ہی بات سوچتی تھی کہ ابو کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ میں انہیں دیکھنا اور ان سے ملنا چاہتی تھی۔ میری شدید آرزو تھی کہ ان سے ملاقات ہو۔ میں دن رات دعائیں کرتی تھی کہ یا اللہ، جہاں بھی میرے ابو ہیں، وہ سلامت رہیں۔ اور پھر گھر کے راستے میں میری جاگتی آنکھوں نے انہیں زندہ سلامت دیکھ لیا۔ وہ کس حال میں تھے، یہ بھی دیکھ لیا۔ گویا میری روح کا ان سے لمحہ بھر کے لیے تعلق قائم ہوا اور میری دعا قبول ہو چکی تھی۔ انہوں نے میرے روبرو آ کر بتا دیا کہ میں شہید ہوں اور زندہ سلامت ہوں، کیونکہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے، یہاں تک کہ انہیں رزق بھی اللہ کی طرف سے ملتا رہتا ہے۔

یہ ایک معجزہ تھا، میرے دل سے نکلی دعا کا اثر تھا۔ میں جو جاننے کو بے تاب تھی، وہ بات میں جان گئی۔ انہوں نے خود آ کر مجھے اپنے بارے میں اطلاع دے دی تاکہ میرا اضطراب ختم ہو اور سکون مل جائے۔ ان کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کے بعد میں کتنی ہی دیر تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس راستے کو دیکھتی رہی۔ میری نگاہیں انہیں تلاش کرتی رہیں، مگر وہ دوبارہ نظر نہ آئے۔ روح کا رشتہ بس ایک لمحے کو قائم ہوا اور پھر ٹوٹ گیا۔

کانپتی ہوئی بمشکل گھر پہنچی۔ گھر آ کر امی کو سارا واقعہ سنایا۔ ممکن ہے کہ لوگ اس واقعے پر یقین نہ کریں، لیکن جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا، اس پر مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے انہیں ایک جھلک زندہ حالت میں دیکھا تھا۔ اس میں نہ کوئی تصور کا دخل تھا، نہ خواب کا۔ تاہم آج بھی میں اس گتھی کو حل نہیں کر سکی کہ کیا واقعی مرنے والوں کی روح اپنے کسی زندہ پیارے رشتہ دار سے رابطہ کر سکتی ہے؟ یا روحیں واقعی اس دنیا میں واپس آ سکتی ہیں؟

Latest Posts

Related POSTS