ہمارے پڑوس میں اماں صغری رہتی تھیں، کبھی انہوں نے اچھے دن بھی دیکھے تھے لیکن بیوگی کے بعد حالات ایسے ہو گئے کہ وہ تیرے میرے گھر کام کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ امی نے ان کو پریشان دیکھ کر ملازمہ رکھ لیا اور وہ ہمارے گھر کام کرنے لگیں۔ اماں صغری کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ارشاد تھا۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا مگر اس خاتون کے حالات اجازت نہ دیتے تھے کہ اپنے بچے کو پڑھا سکیں حالانکہ گائوں کے اسکول کی فیس بھی ان دنوں برائے نام ہی تھی۔ جب امی نے مجھے اسکول داخل کرایا، میری عمر پانچ برس تھی۔ پہلے دن اسکول جانے کا تجربہ اچھا نہ رہا۔ لڑکیوں نے مجھے ستایا، بال کھینچے اور کچھ لڑکوں نے میری کتاب چھیننے کی کوشش کی تو وہ پھٹ گئی۔ میں روتی ہوئی گھر لوٹی۔ ماں نے مجھے اس قدر غمزدہ و ملول دیکھا، پوچھا۔ کیا بات ہے ؟ میں نے کہا کہ اسکول کے لڑکے اور لڑکیاں بہت بُرے ہیں ، وہ مجھے تنگ کرتے ہیں ، اب میں کبھی اسکول نہیں جائوں گی۔ اماں صغری نے سُنا تو بولیں۔ میں کل جا کر ساری باتیں ٹیچر کو بتائوں گی، وہ ان بچوں کی پٹائی لگائیں گی۔ اگلے دن جب میں اماں صغری کے ہمراہ اسکول جانے لگی تو ان کے بیٹے ارشاد نے کہا۔ اماں اگر آپ مجھے اسکول داخل کرادیں تو میں دیکھوں گا کہ کون نورین کو کچھ کہتا ہے ، میں اس بچے کی ایسی پٹائی لگائوں گا کہ وہ یاد کرے گا۔ اس پر امی بولیں۔ بیٹے تم اسکول میں داخلہ لے لو اور نورین کے ساتھ آیا جایا کرو۔ تمہاری فیس، کتابوں کا خرچہ سب میں دوں گی۔ اماں صغری کی تو دلی مراد بر آئی۔ اگلے دن ارشاد کو اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے چار پانچ سال بڑا تھا۔ ہم اکٹھے اسکول جاتے۔ مجھے اس کے ساتھ تحفظ محسوس ہوتا، یوں میری اس کے ساتھ انسیت ہو گئی۔ ارشاد روزانہ شام کو کتابیں لے کر آجاتا، ہم مل کر سبق یاد کرتے۔ بڑا ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی میں کافی تیز تھا۔ ہم دونوں بھیا کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے کیونکہ میرا بھائی شہر پڑھنے گیا ہوا تھا۔ ان دنوں میری عمر نو دس سال کے قریب تھی۔ اتنی معصوم تھی کہ دنیا کی باتوں کو نہیں سمجھتی تھی مگر ارشاد تیرہ چودہ برس کا تھا، اس کے بارے میں گھر والوں کو کوئی بدگمانی نہ تھی۔ امی اسے اپنے بچوں جیسا سمجھتی تھیں اور اب زیادہ اس کا خیال رکھنے لگیں۔ کہتی تھیں – کہ ارشاد اسکول میں نورین کا خیال کرتا ہے تبھی شریر بچے اس کو تنگ نہیں کرتے۔ یونہی دو سال گزر گئے۔ اب ارشاد میں کچھ تبدیلی آنے لگی۔ میں اور وہ جب تنہا ہوتے وہ مجھ سے عجیب و غریب باتیں کرنے لگتا۔ ان باتوں کا ردعمل یہ ہوتا کہ میں پریشان بھی ہوتی تھی اور کبھی جھینپ جاتی، لیکن ان باتوں کا ذکر میں کبھی کسی سے نہ کرتی تھی کیونکہ میں اس کو اپنا محافظ سمجھتی تھی۔ اس کا ساتھ میرے لئے بڑا سہارا تھا۔ میں کسی صورت نہیں چاہتی تھی کہ وہ کہیں چلا جائے۔ تبھی اس کی ہر بات مان لیتی جو باتیں بری کرتا نظر انداز کر دیا کرتی اور پوری پوری راز داری سے کام بھی لیتی۔ اُس روز ہمارے یہاں ایک خوشی کی تقریب تھی، سو امی نے ارشاد کو روک لیا کہ کاموں میں ہاتھ بٹائے۔ کام کرتے ہوئے وہ گنگنانے لگا تو پتا چلا کہ اس کی آواز بہت اچھی ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہر ایک نے اس سے فرمائش کی کہ وہ کوئی گانا سنائے۔ اس نے بہت اصرار پر کچھ شادی کے موقع کے خوشی بھرے گیت سنائے تو مہمان جھوم اٹھے ، پھر تو ساری رات اس کے گیتوں نے رت جگے کا سماں باندھ دیا۔ جب سب تھک کر سونے چلے گئے تب امی نے ارشاد سے کہا کہ تم بھی یہیں مہمانوں والے کمرے میں سو جائو۔ سبھی نیند کی آغوش میں جاچکے تھے لیکن مجھے اور ارشاد کو نیند نہ آئی۔ ہم دونوں جاگ رہے تھے۔ پہلے وہ اٹھا اور صحن میں پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا پھر میں اس کے پیچھے کمرے سے باہر آگئی۔ وہ بولا۔ باہر کیوں آئی ہو ؟ کیا نیند نہیں آرہی۔ ہاں۔ میں نے کہا۔ نیند بالکل نہیں آرہی۔ بےچینی سی ہو رہی ہے۔ زیادہ دیر تک جاگنے سے ایسا ہو جاتا ہے، تھکن ہو جائے تو بھی نیند نہیں آتی۔ اس رات ہم دونوں جاگتے رہے اور ہم نے خُوب باتیں کیں۔ مجھے ذرا بھی احساس نہ ہوا کہ وہ ہماری ملازمہ کا لڑکا ہے اور میرا اس کا کوئی میل نہیں ہے۔ اس رات پہلی بار کم عمری کے باوجود محبت کی اہمیت اور دوسری کئی پرکشش باتوں سے آشنا ہو ئی جو زندگی میں یاد گار بن جاتی ہیں۔ پو پھٹنے سے پہلے میں ارشاد کے ساتھ صحن سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی اور آنکھیں موند کر سوتی بن گئی۔ اس وقت میری عمر دس برس تھی اور یہ وہ عمر ہوتی ہے جب زبان چُپ رہتی ہے مگر آنکھیں بولتی ہیں۔ انہی دنوں جب مجھے اپنے حسن اور عمر کی دلکشی کا پہلی بار احساس ہوا تو میں نے ارشاد کے بارے سوچنا شروع کیا۔ میں اس میں دلچسپی ضرور رکھتی تھی لیکن محبت مجھے اس سے نہ تھی، نہ کبھی یہ سوچا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے بلکہ اب تو سوچتی کہ اگر اس سے اچھا کوئی اور مل جائے تو میں اپنی ملازمہ کے اس سپوت کی جانب مڑ کر بھی نہ دیکھوں گی۔ مجبوری یہ تھی کہ مجھے ابھی تک اسکول میں ارشاد کے پروٹیکشن کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ رہنے کی عادت ایسی پر گئی تھی کہ اس کے بغیر خود کو تنہا اور ادھورا خیال کرتی تھی ، دراصل میں ارشاد کو نہیں، اس کی باتوں کو پسند کرتی تھی جن سے مجھے کو روحانی سکون ملتا تھا۔ ایک روز گائوں میں کسی کا انتقال ہو گیا۔ گھر والے وہاں چلے گئے۔ ارشاد اور اس کی بہن کو ہمارے پاس چھوڑ گئے تاکہ ہم اکیلے نہ رہیں۔ اس کی بہن تو کھانا کھا کر سو گئی میں اور ارشاد باتوں کے چسکے میں بیٹھ گئے کہ ہم کو ابھی نیند نہ آرہی تھی۔ یہ دن میری زندگی کا سیاہ ترین دن تھا۔ ہم آدھی رات کو باتوں میں محو تھے۔ احساس نہ ہوا کہ آپا کا منگیتر جمال کب وہاں آیا اور ہماری باتیں سنتا رہا حالانکہ ہم غلط قسم کی باتیں نہ کر رہے تھے لیکن اس شخص کے لئے تو کم نہ تھا کہ لڑکا اور لڑکی تنہائی میں آدھی رات کو باتوں میں مگن ہوں۔ بہر حال جمال بھائی دبے قدموں کمرے میں آئے اور ہم کو بہت بُرا بھلا کہا۔ انہوں نے ارشاد کو تو دو چار جوتے بھی لگائے کہ نوکرانی کے بچے تیری یہ ہمت ! اپنی اوقات بُھول گیا تو۔ انہوں نے بازو سے پکڑ کر اس کو اسی وقت گھر سے نکال دیا اور بولے۔ اب کبھی میں تیری صورت نہ دیکھوں۔ اب کبھی ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ارشاد تو اس دن سے ایسا گیا پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا لیکن میں کم نصیب آج بھی ایک گراں بوجھ تلے دبی سسک رہی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ جمال بھائی خوب اس واقعے کی تشہیر کریں گے، امی ابا سے بھی شکایت کریں گے۔ باجی کو بتائیں گے کہ دیکھو تمہاری بہن کی یہ حرکتیں ہیں لیکن انہوں نے ایسانہ کیا بلکہ اس جرم کی انہوں نے مجھے ایسی سزا دی کہ اے کاش ! مجھ کو موت ہی آجاتی تو اچھا تھا۔ اب جب موقع ملتا، وہ اس بات کی آڑ میں میرے نزدیک آجاتے، دھمکیاں دیتے۔ اگر میرا ساتھ نہ دیا تو سارے زمانے میں رسوا کر دوں گا، تمہاری زندگی برباد ہو جائے گی، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہو گی۔ نہ ہی تمہاری کبھی شادی ہو سکے گی۔ میں سہم کر رہ جاتی ، اندر ہی اندر گھٹتی رہتی۔ یہ باتیں ایسی تھیں کہ ہم ان کو زبان پر لانے سے کترانے لگتی ہیں۔ مجھ پر ان کا اس قدر رعب و دہشت طاری ہوئی کہ ان کے دیکھنے سے میری روح فنا ہو جاتی۔ دل سے چاہتی تھی کہ امی سے کہہ دوں کہ اس عذاب سے جان چھوٹ جائے پھر آپا کا خیال آتا۔ وہ ان سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ چھ ماہ بعد ان کی شادی ہونے والی تھی۔ امی سے کہوں یا آپا ہی سے کہہ دوں۔ بس یہ سوچتے سوچتے صبح ہو جاتی۔ میں ایک کم سن بچی، عقل کم اور خوف زیادہ۔ اتنا حوصلہ تھا اور نہ اخلاقی جرات اور جمال کا یہ عالم جب تنہا دیکھتے بانہہ پکڑ لیتے۔ تب دل سے دعا کرتی یا اللہ کہیں سے آپا یا بھائی آجائیں اور اس مردود کو دیکھ لیں۔ بے شک مجھے جو بُرا بھلا کہیں لیکن اس خبیث انسان کا تو اسی وقت فیصلہ کر ڈالیں گے۔ بہت دُکھ ہوتا تھا اپنی بزدلی پر۔ سب کہتے ، نورین کو دیکھو! کتنی اچھی تربیت ماں نے اسے دی ہے کہ چپ رہتی ہے۔ خواہ مخواہ چپڑ چپڑ نہیں کرتی، فالتو بات تو کرنا جانتی ہی نہیں ، جیسے اس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔ اچھی لڑکیوں کے یہی طور اطوار ہوتے ہیں کہ فضول میں ہر وقت باتیں نہ بگھاریں، بہت عقل مند اور سنجیدہ لڑکی ہے۔ تبھی میں سوچتی۔ اے کاش کہ میری زبان ہوتی، میں چپڑ چپڑ ہی بولتی مگر بول سکتی، اب تو کسی نے میری قوت گویائی چھین لی تھی۔ ایک بار ہمت کر کے آپی سے کہا۔ آپی ، آپ کے منگیتر اچھے انسان نہیں لگتے۔ آپ ان سے شادی نہ کریں ، انکار کر دیں۔ میر اتنا کہنا تھا کہ وہ غصہ سے بھبھک اٹھیں، کیوں ؟ کیا تم مجھ سے جیلس ہو یا جمال تم کو پسند آگئے ہیں ؟ کیوں نہ کروں میں ان سے شادی بھئی ! کیا تم کرنا چاہتی ہو جمال سے شادی۔ اف میرے اللہ میں تو کہہ کر پچھتائی۔ وہ تو میرے پیچھے پڑ گئیں حالانکہ مجھ سے وہ بے حد پیار کرتی تھیں پہلی بار میں نے ان کی ڈانٹ کھائی تو روہانسی ہو کر کمرے میں خوب روئی۔ شاید یہ موضوع ہی اتنا نازک تھا کہ آپا اس بارے دوسری کوئی بات سوچ نہ سکتی تھیں آپا کی شادی کا دن آگیا۔ وہ بہت خوش تھیں۔ شادی کی تیاریاں دُھوم دھام سے ہوئیں۔ آپا دلہن بن گئیں اور بدروح جمال دولہا۔ وہ بیاہ کر میری پیاری آپی کو اپنے گھر لے گیا۔ وہ میرا دولہا بھائی بن گیا۔ اس راکشس کو دولہا بھائی کہنے کا میرا دل نہ چاہتا۔ میں نے نہ تو نیگ لیا اور نہ جوتا چھپائی میں حصہ لیا۔ جب جوتا چھپائی کی رسم ہونے لگی میں چھت پر چلی گئی- آپا کی رخصتی تک وہاں ہی چھپی رہی۔ کیا بتائوں کتنا کچھ ہو رہا تھا مجھ کو کہ میری پیاری بہن کی شادی کس قدر آن فیئر آدمی سے ہو رہی تھی جو میری پاکیزہ بہن کے لائق نہ تھا۔ آپا کی شادی کے بعد امی اور میری منجھلی بہن ان کے گھر جاتیں مگر میں نہ جاتی۔ آپا شکوہ کرتیں۔ نورین تم کیوں میرے گھر نہیں آتیں ؟ میں بہانہ کر دیتی، وہ خاموش ہو جاتیں۔ امی بھی کہتیں۔ نورین تم کیوں بہن کے گھر نہیں جاتیں ؟ جب ان کی ساس ہماری دعوت کرتی ہیں، کھانے پر بلاتی ہیں تب بھی تم بہانے کرتی ہو۔ امی مجھے ان کے گھر جانا اچھا نہیں لگتا اور کوئی بہانہ سوجھتا ہی نہ تھا تب امی اتنا کہہ کر چپ ہو جاتیں کہ عجیب لڑکی ہو۔آپا کے یہاں اللہ نے چاند سا بیٹا دیا۔ سبھی خوش تھے۔ اماں زبردستی مجھے ان کے گھر لے گئیں۔ وہاں تو مجھ کو دو گھڑی بیٹھنا دوبھر ہو گیا کہ جمال کا چھوٹا بھائی ہمارے ارد گرد منڈلانے لگا۔ یا اللہ یہ تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، بڑے بھائی تو بڑے، چھوٹے بھی سبحان الله- جی چاہا کہ ابھی یہاں سے اٹھ کر بھاگ جائوں، میرا تو دم گھٹنے لگا، قسم کھائی کہ اب تو کبھی ادھر کا رخ نہ کروں گی۔ مگر یہ دن یوم آخر نہ تھا۔ اس کے بعد بھی کئی بار مجھے آپا کے گھر جانا پڑا یوں کہ پھر دوسرے بچے کی پیدائش ۔ وہ اسپتال میں اور میں ان کے گھر ان کے منے کو سنبھال رہی ہوتی مگر یہ بھرا پراگھر تھا۔ آپ کی نند اور ساس میرے ہمراہ ہو تیں، تب مجھ کو کسی بات کا دھڑ کا نہ رہتا۔ غرض کہ ایسے وقت گزرتا گیا۔ منجھلی بہن کی شادی ہو گئی۔ میں بھی بڑی اور سمجھ دار ہو چکی تھی اور اب میری باری تھی۔ آپا کی ساس نے اپنے چھوٹے بیٹے کے لئے جانے کب سے مجھ کو پسند کر کے یہ راز دل میں رکھ لیا تھا۔ اب انہوں نے اور ان کے شوہر نے اپنی گفتگو کا جادو چلایا اور میرا رشتہ کمال کے لئے مانگ لیا بلکہ منوا لیا۔ آپا بھی اس بندھن سے خوش تھیں مگر دولہا بھائی اس معاملے سے دور اور اور نیوٹرل رہے۔ میں کسی صورت آپا کی دیورانی بن کر ان کے گھر نہ جانا چاہتی تھی۔ ماضی کا تلخ تجربہ ابھی تک میرے ذہن پر تازیانے لگاتا تھا۔ یہ تو ایسا زخم تھا جو بھرنے والا ہی نہ تھا۔ بھلا جس آدمی سے میں دس برس کی عمر سے نفرت کرتی چلی آرہی تھی کیونکر اسی کے گھر اس کی بھابھی بن کر جانا پسند کرتی۔ ہونی ہو کر رہتی ہے ، بزرگوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور وہ تو اپنی اولاد کے لئے اچھا ہی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ بہر حال ، شادی ہو نا تھی ہو گئی مگر کچھ دنوں بعد ہی میرے میاں کا تبادلہ سرگودھا ہو گیا۔ ان کو مکان بھی مل گیا اور وہ مجھ کو لے کر ڈیوٹی پر آگئے۔ اب مجھے دولہا بھائی کی شکل دیکھنے سے نجات مل گئی۔ کمال بہت اچھے انسان تھے مجھے کو ان سے کوئی گلہ نہ تھا، ہم یہاں شہر میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے مگر کلیجے میں ایک پھانس سی چبھی رہتی تھی۔ جی چاہتا کمال کو بتا دوں یہ تمہارا بھائی کس کردار کا مالک ہے – الله نے میری سن لی اور وہ نوکری کے لیے پانچ سال کے کنٹریکٹ پر دبئی چلے گئے پانچ سال میں صرف ایک مرتبہ عید کی چھٹیوں پر آپا اور جمال گھر آئے اور میں عید کے بہانے میکے چلی گئی۔ وہ ایک ہفتہ رہ کر واپس چلے گئے۔ کوئی طویل المدت پراجیکٹ تھا اور ابھی مکمل نہ ہوا تھا لہذا ان کو دوبارہ تین سال کے لئے کنٹریکٹ پر رکھ لیا گیا۔ وہ وہیں رہ گئے۔ مجھے میرے رب نے سکھ سکون ہر شے سے نوازا۔ پیارے دو بچے ، ساس سسر اور شوہر کا پیار، میری زندگی خوشیوں بھری تھی۔ پرانے زخم بھی مندمل لگتے تھے۔ اچانک ایک روز اطلاع ملی کہ تعمیراتی کام کے دوران بھاری کرین گرنے سے جمال وہاں موقع پر جاں بحق ہو گئے ،دوسرے بھی کافی کارکن زخمی ہوئے تھے اور کچھ جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا۔ ماضی میں جو بھی بُرا ہوا تھا لیکن یہ حادثہ اس سے برا تھا کیونکہ میری پیاری آپا کا گھر اجڑ گیا تھا۔ ان کی بادشاہی، بیوگی میں تبدیل ہو گئی اور ان کے تین بچے یتیم ہو گئے۔ آپا کا سہاگ لٹ گیا۔ وہ بیوہ ہو کر دولہا بھائی کی میت کے ساتھ وطن لوٹیں۔ وہ بہت غمزدہ تھیں اور مجھ سے ان کا غم دیکھا نہ جاتا تھا۔ میرے دل میں اپنے دولہا بھائی کے لئے غصّہ تو بہت تھا لیکن میں نے کبھی یہ نہ چاہا کہ آپا کو اتنا غم ملے کہ میری بہن بیوہ ہو جائے یا ان کے بچے یتیمی کے دکھ سے دوچار ہوں لیکن خُدا کی کرنی ان کی قسمت میں ایسا ہونا ہی لکھا تھا، سو ہو گیا۔ خُدا جانتا ہے میں نے کبھی ان کو ایسی بددعا نہ دی تھی۔ اللہ تعالی کی مصلحتیں اور اس کی مرضی وہ جو چاہے ، ہو جاتا ہے ، انسان تو بے بس ہے، قادر کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اور یہی بندگی کا تقاضا بھی ہے۔