Tuesday, March 18, 2025

Shak Aik Marz

ظفر اچھا بھلا معقول لڑکا تھا، شائستہ مہذب اور پڑھا لکھا۔ محلے میں سبھی اسے اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے ، ہر کوئی عزت سے ملتا، سب اس کی تعریف کرتے۔ وہ تھا بھی قابل تعریف کہ شریف النفس تھا اور ایف اے پاس کر لینے کے بعد ملازمت کر رہا تھا۔ محلے میں بہت سے لوگ اس لئے بھی اس کی تکریم کرتے تھے کہ وہ باقاعدگی سے اخبار پڑھتا تھا اور پڑھنے کے بعد اسے چوک میں بیٹھے ان بزرگوں کو دے دیتا جو پڑھنے کا شوق تو رکھتے تھے لیکن اخبار خرید نہیں سکتے تھے۔

ظفر کو عادت تھی کہ خبروں کے ساتھ ساتھ اشتہارات بھی غور سے پڑھتا تھا۔ ان دنوں اس کی شادی ہونے والی تھی ، جب ایک روز اس کی نظر کچھ اس قسم کے اشتہارات پر پڑی جو ازدواجی زندگی کی سچی خوشیوں اور کامیابیوں سے متعلق تھے۔ ایک اشتہار میں درج تھا کہ ہر نوجوان کو شادی سے قبل ہم سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے تا کہ ازدواجی زندگی کی ناکامی کا امکان صد فی صد جاتا رہے۔ جانے اس کے جی میں کیا سمائی کہ اس نے بھی ایک روز ایک اشتہار سے متاثر ہو کر ماہر ڈاکٹر کے مطب پر جاکر حاضری دی، جس کا اشتہار اور پتا اخبار میں درج تھا۔ ڈاکٹر صاحب خندہ پیشانی سے ملے اور پوچھا کیا آپ شادی شدہ ہیں ؟ جی نہیں، عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ ظفر نے جواب دیا۔ تب تو آپ ٹھیک وقت پر صحیح جگہ آئے ہیں۔ کیا آپ اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ؟ ظاہر ہے ہر شخص ہی اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب دیکھنا چاہے گا۔ تب تو آپ کو ہم سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے ، ورنہ ممکن ہے کہ شادی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ جائے۔ غرض، اس چرب زبان ڈاکٹر نے اس سیدھے سادے نوجوان کو اس طرح اپنی لچھے دار باتوں میں الجھایا کہ بے چارے ظفر کا دماغ گھومنے لگا۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا آپ کو کچھ عرصہ ہم سے با قاعدہ علاج کروانا چاہیے ، ورنہ آپ کی شادی ناکام رہے گی۔ ظفر اس بات کا مطلب نہ سمجھا پھر بھی یہ خوف سا اس کے جاں گزیں ہو گیا کہ ممکن ہے ڈاکٹر کا قیافہ درست ہو ، اسے علاج کی ضرورت ہو اور اس بات کا اس کو علم نہ ہو۔ مطب سے لوٹا تو وہ بہت پریشان تھا۔ کئی روز تک گم صم رہا، کسی سے بات نہ کی۔ اس چالباز نام نہاد ڈاکٹر سے ملنے کے بعد وہ گوناگوں الجھنوں کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ کبھی سوچتا ڈاکٹر کی باتیں سچ نہ ہوں۔ تو کیا فی الحال شادی سے انکار کر دوں؟ کبھی ارادہ کرتا کہ ڈاکٹر کے پاس دوبارہ جاوں جس نے علاج اور دوا کی بھاری فیس بتائی تھی، پھر خود کو سمجھاتا کہ سب سوچوں پر مٹی ڈالوں اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کروں۔ ضرور ڈاکٹر کی باتیں وہم میں ڈالنے والی ہیں، لہٰذا اس بات کو ایسے بھول جائوں جیسے میں کسی ڈاکٹر کے پاس گیا ہی نہیں۔ پس وہ دوبارہ اس اشتہاری ڈاکٹر کے پاس نہ گیا، لیکن پریشان ضرور رہنے لگا اور شرم کی وجہ سے کسی سے اس بات کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ حتی کہ وہ دن آگیا جب اس کے والدین بڑی دھوم دھام سے بارات کے ساتھ چاند سی بہو بیاہ کر گھر لے آئے۔ جو وہم ڈاکٹر نے اس کے ذہن میں ڈالا تھا، وہ اس کے ذہن سے ابھی تک نہ مٹا تھا، لہٰذا بیوی کا گھونگھٹ اٹھاتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کہ کہیں میری ازدواجی زندگی ناکام نہ ہو جائے۔ شاید میری بیوی میرے ساتھ خوش نہ رہ سکے ، لیکن شادی کے بعد یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اس کی دلہن اپنے دولہا کو پا کر بہت خوش تھی اور اس سے محبت کرنے لگی۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے خوش تھے اور ایک دوجے بنا زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ ظفر کی شریک حیات نے ہر طرح سے اس کا خیال رکھا اور اس کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتی تھی۔ ظفر نے اس چرب زبان ڈاکٹر کی کہی باتوں کو جھوٹے کی بڑ سمجھ کر بھلادیا اور جو خوف اس کو اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق تھا وہ دور ہو گیا۔

کچھ عرصہ یونہی ہنسی خوشی گزر گیا۔ ایک روز وہ سسرال گیا، تو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کا چچازاد بھائی فرحان دس برس لندن میں گزارنے کے بعد کل کی فلائٹ سے وطن واپس لوٹ رہا ہے۔ اس کی سسرال میں سبھی افراد بہت خوش تھے کیونکہ فرحان ایک طویل عرصے بعد لوٹ رہا تھا۔ ظفر نے بھی رسما اس کی دعوت کا پرو گرام بنا ڈالا۔ دوسرے دن وہ فرحان کو خود جا کر گھر بلالا یا اور اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خاطر مدارات کا کچھ سامان لینے بازار چلا گیا۔ فرحان اور ظفر کی بیوی طیبہ گھر میں رہ گئے تھے۔ اچانک ہی، کچھ دور جانے کے بعد ظفر کے دل میں خیال آیا کہ اس کی بیوی اپنے کزن کے ساتھ اکیلی گھر میں ہے اور یہ کوئی احسن بات نہیں ہے۔ تبھی کچھ وہمی سا ہو کر وہ واپس لوٹ آیا اور گھر میں داخل ہونے کی بجائے باہر سے اس کمرے کی طرف گیا، جس میں وہ ان دونوں کو باتیں کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ اس نے کھڑکی کے سوراخ میں سے جھانک کر دیکھا۔ فرحان اور طیبہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ زیادہ بلند آواز سے نہیں بول رہے تھے تبھی ان کی باتیں ظفر کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر بالکل اسی طرح بیٹھے تھے جیسے وہ ان کو چھوڑ کر گیا تھا۔ البتہ ، اس کی بیوی بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی اس حرکت پر ظفر کو شبہ ہوا کہ وہ کسی خاص سبب سے ایسا کر رہی ہے۔ ظفر کے والد کے دفتر سے آنے کے وقت ہو رہا تھا اور وہ اس کے سسرال کے مردوں کا اپنے گھر آنا جانا پسند نہ کرتے تھے۔ ممکن ہے ، میری بیوی اس ڈر سے بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی ہو۔ اس نے سوچا، تاہم شبہ دل میں گھر کر چکا تھا۔ فرحان کے جانے کے بعد اس نے اپنے شک کا اظہار بیوی سے کیا تو وہ بری طرح رونے لگی اور کلام پاک اٹھا کر کہنے لگی کہ وہ فرحان کو سگے بھائیوں کی طرح سمجھتی ہے اور دعوت بھی اس نے نہیں خود ظفر نے اس کی ہے۔ اس بات سے اس کا شک وقتی طور پر دور ہو گیا، لیکن آہستہ آہستہ یہ شک اس کے دل میں گھر کرتا گیا۔ اب اس کو وہم ہونے لگا کہ اس کی بیوی نے محض گھر بچانے کے لئے جھوٹی قسم اٹھائی ہے۔ وہ دوبارہ فرحان سے ملا اور اس سے اپنی الجھن بیان کی۔ وہ چونکہ یورپ سے آیا تھا اور خاصا روشن خیال تھا، اس لئے ظفر نے اس کے سامنے اپنی الجھن ظاہر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی کیونکہ ہر صورت وہ اس الجھن سے نجات چاہتا تھا۔ فرحان نے تحمل سے اس کی بات سنی، پھر کہنے لگا کہ تمہیں کس طرح یقین دلایا جا سکتا ہے کہ میرا تمہاری بیوی کے ساتھ کوئی غلط تعلق نہیں ہے۔ کیا صرف سمجھانے سے، کیا قسم اٹھانے سے ؟ جیسے بھی تم کہو، میں تیار ہوں۔ اس نے یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ محض تمہارا وہم ہے۔ میرا تمہاری بیوی سے نہ کبھی پہلے کسی قسم کا کوئی تعلق رہا ہے اور نہ اب یا آئندہ رہے گا۔ وہ میری سگی بہن جیسی ہے۔ اگر تم خود مجھے مدعونہ کرتے تو میں تمہارے گھر آتا بھی نہیں۔ تم نہ بھی آتے مگر میری بیوی تو میکے جاسکتی ہے؟ فرحان نے اپنے غصے پر قابو پایا اور مجبور ہو کر مسجد میں جاکر قرآن پاک پر قسم کھائی اور ان باتوں کو دوہرایا تا کہ ظفر اپنی اس ذہنی کشمکش سے نکل جائے جو اسے تکلیف دے رہی ہے اور نارمل ہو جائے تا کہ خوش و خرم نارمل زندگی گزار سکے۔

فرحان کی اس کوشش کے سبب ظفر نارمل ہو گیا اور بظاہر مطمئن بھی، لیکن یہ وقتی اطمینان تھا۔ کچھ دن بعد پھر اسے شکوک و شبہات ستانے لگے کہ ممکن ہے فرحان نے میرے مجبور کرنے پر قرآن اٹھایا ہوا اور جھوٹی قسم کھائی ہو۔اب وہ پہلے سے زیادہ پریشان رہنے لگا۔ اس نے ایک بار پھر بیوی سے باز پرس اور مطالبہ کیا کہ وہ اس کو اپنی بے گناہی کا یقین دلائے اور اس بات کے لئے مقدس کتاب کو پھر سے اٹھائے کہ اس نے ڈر کی وجہ سے تو جھوٹی قسم کھائی ہے۔ بے چاری قسمت کی ماری طیبہ نے شوہر کے سکون دل کی خاطر ایک بار پھر قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کہا کہ وہ ظفر کے سوا تمام مردوں کو اپنا سگا بھائی سمجھتی ہے، سمجھتی تھی اور آئندہ بھی سمجھتی رہے گی۔ اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ہر طرح کے حالات میں زندگی بھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اور ہمیشہ اس کی وفادار رہے گی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اب بھی اگر آپ کو شک ہے تو میں عمر بھر فرحان سے پردہ کروں گی اور کبھی اس کے سامنے نہیں جائوں گی نہ کبھی اس سے بات کروں گی۔ کہو گے تو میکے جانا بھی بند کر دوں گی۔ اس بات پر ظفر کے آنسو نکل پڑے۔ اس نے کہا۔ تم میکے جانا بند نہ کرو، میں یہ پابندی تم پر نہیں لگائوں گا۔ بس میں ویسے ہی وہم کا مریض ہو گیا ہوں، ورنہ جانتا ہوں کہ تم باوفا ہو اور میرے سوا کسی سے محبت نہیں کر تیں۔ مجھے معاف کر دو۔ میں آئندہ تم پر شک نہ کروں گا۔ بس ایک بات مان لو۔ جب تک فرحان لندن واپس نہیں چلا جاتا تم میکے نہ جانا اور نہ کہیں باہر جانا۔ اس میں کیا مضائقہ تھا بھلا، طیبہ تو خود پریشان تھی۔ اس نے فورا وعدہ کر لیا تا کہ اس کی پر سکون زندگی میں کوئی خلل نہ آئے۔ ظفر نے بھی پھر اسے نہ جتلایا کہ وہ اس پر شک رکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی یہ سمجھے کہ مسلمان ہو کر بھی میرے شوہر کو قرآن پر قسم کھانے پر اعتبار نہیں ہے۔ فرحان جو ظفر کے مدعو کرنے پر ایک بار اس کے گھر آگیا تھا، دوبارہ نہ آیا۔ یہ کوئی آسمانی عذاب کہیے یا کسی مظلوم کی بد دعا کہ اس کے بعد بھی ظفر کو دلی سکون نہ ملا اور وہ مسلسل شک کی آگ میں ایک سزا کے طور پر جھلستا ہی رہا۔ جب بیوی میکے جاتی تو اس کو طرح طرح کے خیالات ستانے لگتے۔اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی بیوی اس کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہے۔ انہیں دنوں طیبہ نے اپنی دانست میں شوہر کو خوشخبری سنائی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ وہ بے حد خوش تھی، لیکن ظفر کو اس خبر سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔ اس کو اشتہاری ڈاکٹر کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس عطائی نے کہا تھا کہ اگر تم نے علاج نہ کرایا تو شاید تمہیں اولاد کی خوشی نصیب نہ ہو۔ تبھی اس کے دل میں یہ خیال جاگ پڑا۔ ہو سکتا ہے یہ خوش خبری، مجھ سے نہیں کسی اور سے وابستہ ہو۔ یہ خیال آتے ہی کچھ دن وہ بہت پریشان رہا۔ تنہا اپنی اس نامعقول سوچ سے لڑتا رہا، بالآخر جب بات اس کے اختیار سے باہر ہو گئی تو تنگ آکر اس نے اپنی سوچ کا جہنم بیوی کے سامنے کھول دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے شک ہے، تم جو خوش خبری مجھے سنارہی ہو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُن دنوں ایسے معاملات میں ڈی این اے وغیرہ کے چرچے نہیں تھے ، جیسا کہ اب ہیں ، تاہم ایسے ذہنی عارضے لاحق ہو سکتے تھے جیسا ظفر کو لاحق تھا۔

شوہر کی بات سن کر طیبہ تو پتھر کا بت بن گئی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ خوش ہونے کی بجائے اس کا شوہر ایسی بات کر دے گا۔ اس کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ ذرا دیر بعد جونہی اسے ہوش آیا، اس نے چیخ ماری اور پھر آگ بگولہ ہو گئی۔ عزت نفس کو مجروح کرنے کی تکلیف برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ بات اب حد سے بڑھ گئی تھی۔ طیبہ نے اپنے چہرے پر تھپڑ مارے اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اس نے ایک بار پھر مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بہت بڑی قسم کھائی اور بولی۔ ہونے والے بچے کے باپ آپ ہی ہیں۔ میں شادی سے پہلے بھی پاک دامن تھی اور اب بھی پاک دامن ہوں اور آئندہ بھی اپنی پاک دامنی کو برقرار رکھوں گی۔ اگر میں نے جھوٹی قسم اٹھائی ہو تو اللہ تعالی اس دنیا کو میرے لئے جہنم بنادے، میں کبھی بخشی نہ جائوں۔ غرض جس قدر ممکن ہو سکا، اس نے شوہر کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس سے زیادہ شریف الطبع بیوی اور کیا کر سکتی ہے۔ غرض طیبہ نے جس قدم ممکن ہو سکا ظفر کا وہم دور کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا دل پھر بھی شک کی آلودگی سے پاک نہ ہو سکا۔ طیبہ کیا، کوئی بھی یہ بات نہیں سمجھ سکتا تھا کہ دراصل ظفر کسی ذہنی عارضہ میں مبتلا ہے کیونکہ وہ بالکل صحت مند تھا، ہر طرح سے تندرست نظر آتا تھا۔ ایک وہم کے سوا اس کا ہر فعل نارمل انسان کے جیسا ہی تھا، پھر کوئی کیسے جان سکتا تھا کہ اس کا ذہن کیوں ہر وقت شک و شبہ میں کھولتا رہتا ہے۔ طیبہ بچاری تو طلاق کے خوف سے ہی ہاتھ جوڑنے لگتی تھی۔ اس کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی۔ صحت خراب رہنے لگی تھی۔ ظفر بھی دن رات اپنے مرض کے سبب اذیت کی سولی پر لٹکا رہتا تھا۔ کئی برس اس نے چپکے چپکے یہ اذیت سہی۔ وہ دو بچوں کا باپ بن چکا تھا، پھر بھی اپنی بیوی کی ہر حرکت پر اسے شبہ ہونے لگتا تھا کہ دروازے کے پاس کیوں کھڑی تھی ؟ کسی کا انتظار تو نہیں کر رہی تھی ؟ اکثر اپنے بچوں کی صورتوں کا تقابل ، اپنی صورت سے کرنے لگتا۔ کبھی بہت پیار کرتا، کبھی لا تعلق ہو جاتا، تب طیبہ روتے روتے نڈھال ہو جاتی۔ اس کو ہلکان دیکھ کر وہ معافیاں مانگنے لگتا۔ سوچتا، کاش وہ اس اشتہاری ڈاکٹر سے نہ ملا ہوتا۔ کبھی سوچتا کہ خود کشی کر لے تا کہ اس سوچ کے دوزخ سے نجات مل جائے، جس کی وجہ سے اس کی اور اس کی بیوی کی زندگی تباہ ہوئی، پھر خیال آتا کہ اگر سوچ کا دوزخ اتنا اذیت ناک ہے تواصل دوزخ کس قدر اذیت ناک ہو گی اور بطور مسلمان ، اس کے ایمان میں یہ یقین شامل تھا کہ خود کشی حرام ہے اور جو لوگ خود کشی کرتے ہیں ان کو دوزخ میں جلنا ہو گا۔ ایک دن وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں سڑک کنارے چل رہا تھا کہ اس نے فٹ پاتھ پر ایک شخص کو کھڑے دیکھا۔ اسے لگا کہ پہلے بھی اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔ دفعتاً اس کے سوئے ہوئے ذہن میں کوندا سا لپکا، جیسے کسی نے بجلی کا کرنٹ لگا دیا ہو۔ یہ وہی شخص تھا جو خود کو ڈاکٹر ظاہر کر کے لوگوں کو ازدواجی زندگی کی اصلی اور سچی خوشی کو پانے کے لئے ان کے ذہنوں کو اپنی چرب زبانی سے گرفت میں کر کے دوائیں بچتا اور اپنی دکان چمکاتا تھا۔ ظفر کو خیال آیا کہ یہی تو وہ شخص ہے ، جس نے اس کو ازدواجی زندگی میں ناکامی سے ڈرایا تھا، جب اس کی عمر محض سترہ اٹھارہ سال تھی اور اس کی زندگی میں اس وقت تک کوئی لڑکی بھی نہیں آئی تھی۔ وہ جیون کے ایسے کسی تجربے سے بھی نہ گزرا تھا، جس کو اس منحوس ڈاکٹر نے اصلی اور سچی خوشی کہا تھا۔

اپنی طرف متوجہ پا کر اس شخص نے بھی ظفر کو پہچان لیا اور گرمجوشی سے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ہیلو! کیسے ہو مسٹر ؟ بڑے دنوں بعد نظر آئے ہو ، کیا میرا مطب ڈھونڈ رہے تھے ؟ بالآخر تم کو میری ضرورت پڑھی گئی، آئو میرے ساتھ ۔ ظفر اس کے ساتھ چل دیا۔ دو چار قدم پر ہی اس کا مطب تھا، وہ کلینک جہاں وہ ایک بار پہلے بھی آچکا تھا مگر آج وہ کہیں اور جا رہا تھا، اتفاق سے ڈاکٹر مل گیا۔ شاید تم میرا کلینک کا پتا بھول چکے تھے، تبھی تم کو دقت ہو رہی تھی۔ تو تمہارے چہرے پر پریشانی دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا کہ تم میرے کلینک کو ڈھونڈ رہے ہو۔ آئو بیٹھ جائو۔ ظفر جو اس کے ساتھ مطب میں داخل ہو چکا تھا، اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا، ایسے انسان کی مانند جس پر کسی نے تنومی عمل کر دیا ہو۔ اب بتائو، کیسی گزر رہی ہے تمہاری زندگی ؟ شادی ہو گئی تمہاری ؟ کیا ابھی تک کامیابی سے چل رہی ہے یا… ڈاکٹر سوالات پہ سوالات کئے جارہا تھا۔ ظفر جو پتھر کے بت کی مانند اس کے سامنے خاموش بیٹھا تھا، اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر اس کا گلا دبوچ لیا۔ اس کے ہاتھوں کی سختی کی وجہ سے اس شخص کا سانس رکنے لگا اور آنکھیں باہر نکل آئیں۔ خوش قسمتی سے دو افراد اگر اسی وقت نہ آجاتے تو اس کی جان گئی تھی۔ آنے والے افراد نے جو یہ وحشت ناک منظر دیکھا، تو وہ ظفر پر جھپٹ پڑے اور اس نیم جان کو اس کے پنجے سے چھڑایا۔ بہر حال اس کے بعد دکان کے اندر مجمع اکٹھا ہو گیا۔ متاثرہ کو فورا طبی امداد دی گئی اور ظفر کو حوالہ پولیس کیا۔ پولیس نے حملہ کی وجہ پوچھی تو ظفر نے بتایا کہ میں بالکل ٹھیک ٹھاک تھا مگر کم سنی میں ایک دن اس فریبی سے ملنے چلا گیا۔ بس اس کے بعد میری بربادی کا دور شروع ہو گیا۔ یہ میری خوشیوں کا قاتل ہے جس نے مجھے اصلی اور سچی خوشی کا جھانسہ دے کر میری زندگی کی اصلی اور سچی خوشیاں چھین لیں۔ میں زندہ کی صورت ، مردہ بن کر رہ گیا۔ اس کو مارتا نہ تو کیا کرتا۔ تمام رام کہانی سن کر منصف نے فیصلہ دیا کہ یہ شخص چونکہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہے ، اسے وہم کی بیماری ہے مرض کے غلبہ کی وجہ سے اس شخص پر حملہ کیا جس کو یہ پریشانی کی وجہ سمجھتا تھا۔ پہلے کسی ماہر ڈاکٹر سے اس کا ذہنی معائنہ کروانا چاہیے ، اس کے بعد سزا کا تعین ہو گا، لہٰذا ایک ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر سے ظفر کا ابتدائی معائنہ کرایا گیا، اس کے بعد ماہرین نفسیات ڈاکٹرز کے ایک بورڈ نے اس کا چیک آپ کیا اور تجویز کیا کہ اس کو جو ذہنی مرض لاحق ہے ، اس کا علاج ممکن ہے اور یہ واقعی ذہنی مریض ہے۔ کچھ عرصے کے علاج کے بعد ظفر کی ذہنی صحت کی دوبارہ چانچ ہوئی تو وہ تقریباً صحت مند ہو چکا تھا۔ ہم اس محلے میں مزید چار برس رہے۔ طیبہ نے اس دوران میری امی سے ظفر کی ایسی کوئی شکایت نہیں کی کہ اس کے جیون ساتھی کو شک و شبہ یا وہم کا مرض لاحق ہے۔ غالب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا۔ اللہ سب کو ان عطائیوں اور نیم حکیموں سے محفوظ رکھے، جو لوگوں کی ہنستی بستی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS