Saturday, January 18, 2025

Shak Ka Naag

کبھی کبھی بڑوں کے فیصلے بچوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ دادی اماں نے تایا کے بیٹے خرم کے ساتھ اس وقت میری بات پکی کر دی تھی جب میں ابھی پالنے میں تھی۔ خرم مجھ سے دو سال بڑے تھے۔ ہم نے ایک گھر میں پرورش پائی۔ دادا، دادی کے وفات پانے کے بعد بڑی حویلی کے بیچ دیوار اٹھا دی گئی۔ یوں ابو اور تایا کے گھر الگ الگ ہو گئے لیکن ہم بچوں کے دل ایک تھے ، لہٰذا اس دیوار سے ہم کو کوئی فرق نہ پڑا۔ ہمارے دلوں کے بیچ کوئی دیوار حائل نہ ہوئی۔ البتہ ہم نے بڑوں سے اصرار کر کے آنگن کے بیچ اٹھنے والی دیوار کے اندر ”دری“ یعنی بڑی کھڑ کی نکلوالی تاکہ ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے میں آسانی رہے۔ مجھے اور خرم کو پتا تھا کہ ہم نے ایک ہو جانا ہے لہٰذا ایک دوسرے کو سپنوں میں بسا لیا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کا ہو جانے کے لیے لمحہ لمحہ انتظار کیا تھا۔ پل پل گنتے تھے کہ کب وہ دن آئے گا جب خرم دولہا بن کر مجھ کو بیاہ کر لے جائے گا۔

والد اور تایا جان کا کاروبار ایک تھا۔ ساتھ کام پر جاتے اور ساتھ لوٹتے تھے۔ ان کا خیال تھا خرم اور میں تعلیم مکمل کر لیں تو ہم کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے۔ پھر وہ وقت آگیا۔ خاندان میں مدتوں بعد پہلی خوشی تھی ، اسی لیے دونوں بھائی دھوم دھام سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ زور و شور سے تیاریاں جاری تھیں۔ جہیز کے معاملے میں امی ابو کوئی کسر چھوڑنا نہ چاہتے تھے حالانکہ آپس کا معاملہ تھا۔ ان تکلفات کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن اپنی چاہ اور خوشی کی بات تھی۔ ابو اور تایا سب سے کہتے تھے۔ بھئی ہمارے پہلوٹی کی اولاد ہیں، کیوں نہ ارمان نکالیں۔ ہم تو ایسی شادی کریں گے کہ خاندان والے تو کیا د نیا یاد رکھے گی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مجھے خرم اور ان کو مجھ سے شدید پیار تھا۔ جہاں ایسی چاہت ہو ، وہاں دوست ، دشمن سب کی نگاہیں لگی ہوتی ہیں۔ کہنے والے کہتے تھے کہ چاند ، سورج کی جوڑی بننے جارہی ہے۔ سبھی خوش نظر آتے تھے مگر ایک ہماری ممانی تھیں جو خوش نہ تھیں۔ شاید وہ رنگ میں بھنگ ڈالنا چاہتی تھیں۔ جب سنا تاریخ رکھی جارہی ہے تو وہ ماموں جان کو لے کر آگئیں اورامی کو کہا۔ بچپن کے قصے رہنے دو۔ خرم میں ایسی کیا خاص بات ہے جو میرے بیٹے شان میں نہیں ہے۔ صوفیہ کا رشتہ ہم لیں گے ، اپنے بیٹے شان کے لیے۔ تمہیں اگر جیٹھ کو خوش کرنا ہی ہے تو دوسری بیٹی سوہا کار شتہ خرم کو دے دینا۔

بھابی ! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ امی بولیں ۔ یہ تو بچپن سے رشتہ طے ہے۔ ہماری ساس بات پکی کر گئی تھیں اور اب تو شادی کی تیاریاں بھی مکمل ہیں، پہلے آپ کہاں تھیں ؟ امی نے لاکھ سمجھایا پر ممانی کی ایک ہی رٹ کہ میرے بیٹے کو صوفیہ پسند ہے، مجھے اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے۔ آپ یہ رشتہ مجھے دیں۔ غرض انہوں نے اس قدر واویلا مچایا کہ سارے خاندان کو خبر ہو گئی۔ ہر ایک انگشت بہ دست به دندان تھا۔ ماموں حمید ، امی کے اکلوتے بھائی تھے۔ وہ ان کو کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ ناراضی تو دور کی بات ،ماموں ذرا سامنہ بنا لیتے تو امی کی جان پر بن جاتی تھی، کجا یہ کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے ناتا توڑنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ امی کو روتا دیکھ کر میں نے ان کو حوصلہ دیا کہ امی ! پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ ماموں جان سے جدا نہیں ہونا چاہتیں تو بے شک مجھے قربان کر دیں اور ان کی خوشی پوری کر دیں لیکن میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی۔ بات منہ سے نکلی کہ کو ٹھوں چڑھی … ہر طرف ہائے ہائے ہونے لگی۔ خود لڑکی نے منہ کھول کر کہہ دیا ہے کہ تایا زاد سے نہیں، میں تو ماموں زاد سے شادی کروں گی۔ حالانکہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا تھا۔ مجھے خرم سے پیار تھا، وہ تو میری جان تھے۔ یہ تو ماں کا دل رکھنے کو ایسا کہا تھا کہ وہ رورو کر ہلکان ہوئی جارہی تھیں۔ بات خرم تک پہنچ گئی۔ وہ میرے پاس آئے، بولے۔ صوفیہ ! سچ سچ بتادوا گر تم شان سے شادی کرنا چاہتی ہو تو میں خود تمہارے راستے سے ہٹ جاتا ہوں ؟ ان کی بات سن کر میں رونے لگی۔ قسم کھا کر کہا۔ خرم ! مجھے تمہارے سوا کسی سے پیار نہیں ہے۔ تمہارے علاوہ کسی سے محبت نہیں کرتی۔ خدا کے لیے ایسا خیال دل سے نکال دو۔ میراشان سے کوئی واسطہ نہیں۔

یہ میری سہاگ رات تھی۔ ایسی بات کہہ کر میں اپنی سہاگ رات کو بے کیف نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شان کا دیا ہوا تحفہ تو اسی وقت میں نے امی کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ رکھ لیجئے ، مجھے نہیں چاہئے۔ آپ کے بھانجے کا دل رکھنے کو لے تو لیا ہے مگر مجھ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ امی نے وہ پرفیوم اور انگوٹھی میرے جہیز والے سوٹ کیس میں ڈال دی ہے۔ میں نے تو سوٹ کیس کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔ سب سامان امی اور میری بہنوں نے رکھا تھا۔ ہماری نئی زندگی کی شروعات بہت اچھی ہوئی۔ شادی کے ایک ہفتہ بعد میں اور خرم ہنی مون کے لیے سوات اور کالام گئے۔ وہاں سے لوٹے تو دعوتیں ہونے لگیں۔ خاندان بھر نے دولہا، دلہن کو کھانے پر مدعو کیا۔ ہر روز کسی نہ کسی کے گھر کبھی پہنچ اور کبھی ڈنر ہوتا تھا۔ یہ ہنگامہ ختم ہوا تو خرم کام پر جانے لگے اور میں گھر میں تائی اماں ، ان کی بیٹیوں کے ہمراہ ہنسی خوشی وقت گزار نے لگی۔ شادی کے چار ماہ بعد اللہ تعالی نے میری گود ہری کر دی۔ میں نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا۔ ہمارا گھر خوشیوں سے بھر گیا۔ ننھے منے نے سبھی کے دل مسرور کر دیئے۔ کہتے ہیں جب چاند اور بڑھ نہیں سکتا تو گٹھنے لگتا ہے۔ یونہی جب خوشیاں اور بڑھ نہیں سکتیں تو انہیں کسی کی نظر لگ جاتی ہے۔ میری خوشیوں کو بھی نظر لگ گئی۔ یہ شروع سردیوں کے دن تھے۔ خیال آیا کیوں نہ جہیز کے کپڑوں کو دھوپ لگوالوں۔ ایسا نہ ہو کہ کیڑا لگ جائے۔ گرم کپڑے تو ویسے بھی سردیوں میں نکالنے تھے۔ جب پیٹی کھولی، اس میں سے شان کا تحفے والاڈ بانکل آیا جس میں پرفیوم اور انگوٹھی کے ساتھ ایک پرچہ بھی تہہ کیا ہوا نکل آیا۔ میں نے یہ ڈبا کبھی کھولا نہ تھا۔ مجھے خبر نہ تھی اس میں کوئی پرچہ بھی رکھا ہوا ہے۔ حیرت سے ڈبے میں رکھا پر چہ کھول کر پڑھنے لگی۔ شان نے لکھا تھا۔

جان سے پیاری صوفیہ … شاید تم کو خبر نہیں کہ میں تمہیں کتنی شدت سے چاہتا ہوں۔ تم چھوٹی سی تھیں تبھی اماں کہا کرتی تھیں کہ میں تیرے لیے صوفیہ کو بیاہ کر لائوں گی۔ یہ بات ان کے دل میں تھی مگر وقت سے پہلے زبان پر نہیں لانا چاہتی تھیں، تبھی ہم نے تم کو کھو دیا۔ تم کیا جانو تم کو کھو دینے کا مجھے کتناد کھ ہے۔ جب تک زندہ رہوں گا، یہ دکھ سانپ بن کر مجھ کو ڈستار ہے گا۔ آج بھی دعا کر رہا ہوں۔ اے کاش! کوئی معجزہ ہو جائے اور تم میری ہو جائو۔ تمہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ چاہنے والا تمہارا شان۔

میں محویت سے خط پڑھنے میں مصروف تھی۔ مجھے خبر نہ ہوئی کہ کب خرم آکر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ خرم نے وہ پرچہ بڑی آہستگی سے میرے ہاتھ سے لے لیا اور تحفے والا ڈ با بھی اٹھا کر دیکھنے لگے۔ خط پڑھا پھر بولے۔ اچھا تو یہ معاملہ ہے، پرانی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ گہرا لگائو ہے کہ تحفے اتنے چھپا کر اور سنبھال کر رکھے گئے ہیں اور خط بھی… کیا وقتا فوقتا ان کو دیکھتی رہتی ہو ؟ ایسی بات تھی تو پہلے کیوں نہ بتایا؟ میں اب بھی تم کو آزاد کر کے تمہاری خوشیاں پوری کر سکتا ہوں۔ ایک بار کہہ کر تو دیکھو۔ جو قسمت میں لکھا تھا ہو گیا… کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں، اپنی بے گناہی کے ثبوت میں سو بار روئی، بغیر خطا کے معافیاں طلب کیں مگر خرم کا دل صاف نہ ہوا۔ ان کے دل سے شک دور نہ ہو سکا۔ اس کے بعد وہ دوسال ساتھ رہے مگر اس طرح جیسے ایک دریا کے دو کنارے ساتھ ساتھ چلتے تو ہیں مگر ملتے نہیں۔ شک و شبے نے ان کے اور میرے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی خلیج پیدا کر دی تھی۔ وہ مجھ سے بات کرتے تو بھی لگتا جیسے ان کی آواز کہیں بہت دور سے آرہی ہے۔ کبھی پیار کا لفظی اظہار کرتے بھی تو یوں محسوس ہوتا جیسے کنویں سے بول رہے ہیں۔ انہیں جیسے پیار پر اختیار نہ تھا۔ ویسے ہی نفرت کے جذبے پر بھی اختیار نہ تھا۔ ننھے منے نہال کی خاطر انہوں نے میرے ساتھ اس نام نہاد دو سال کی ازدواجی زندگی کو برداشت کیا۔ اکثر مجھے پرفیوم اور ہیرے کی انگوٹھی کو سنبھال کر رکھنے کا طعنہ دیا کرتے تھے جس کو وہ شان کے پیار کی نشانی کہتے تھے۔ شبہے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتاتے تھے کہ تم نے شان کا دیا ہوا تحفہ مجھ سے چھپا کر کیوں رکھا۔ اگر تم فیئر تھیں تو مجھے بتا دیتیں یا پھر یہ تحفے اپنی ماں کے گھر چھوڑ کر آتیں، ساتھ لانے اور خفیہ طور پر ان چیزوں کا دیدار کرنے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تمہارے دل میں اس کا پیار ہے جو اس کی یاد کو یوں چھپ چھپ کر تازہ کرتی رہتی ہو۔

Latest Posts

Related POSTS