دیہات کی اکثر لڑکیاں اپنے علاقے کے مشہور آدمی سے متاثر رہتی ہیں۔ ان کی بہادری کے قصے سن کر ان کو اپنا آئیڈیل بنالیتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پولیس کی چیرہ دستیوں سے صرف وہی ایک شخص انہیں اور ان کے کنبے کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ میرن نے بھی خواجہ سرور کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بڑے دل گردے کا آدمی ہے، بہترین گھڑ سوار اور اعلیٰ درجے ک شکاری ہے ۔ اپنی آن پر مرمٹنے والا، کمزوروں کا بھی دست راست تھا۔ غرض اس شخص کے قصے ہم جولیوں سے کنویں کی منڈیر پر سن کر میرن نے اس کو اپنے خوابوں میں بسالیا تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کی ان پڑھ دیہاتی لڑکی تھی۔ وہ سرور کو حاصل نہیں کر سکتی تھی تاہم سوتے جاگتے اس کے تصور میں اس کا پرتو بہتا تھا۔ حالانکہ اس نے اس سونے سجیلے گبھرو کے معاشقوں کے قصے بھی سن رکھے تھے لیکن ان قصوں سے اسے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ زبردستی تو کسی کی بہو بیٹی کو اٹھا کر نہیں لے گیا تھا۔ جو خود اس کی پناہ میں جانے کو راضی ہوتی ، وہ اس کو پناہ دینے سے ڈرتا بھی نہ تھا، پھر اسے ان کے وارثوں کی فکر نہ ہوتی کہ یہ لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس طرح اس کی تین بیویاں ہوئیں۔ پہلی بیوی اس کی اپنی خاندان کی چچا زاد شریک حیا جو اس سے آٹھ سال عمر میں بڑی تھی اور باقی دونوں پچھیں، چھبیس سال کی یعنی اس کی ہم عمر تھیں، جن کو کالی کر کے ان کے لواحقین قتل کر رہے تھے تو وہ بھاگ کر اس کی پناہ میں آگئی تھیں۔ دونوں ہی بے حد خوبصورت تھیں لہذا سرور نے ان کی رضامندی سے ان کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ یہ لڑکیاں جب بھاگ کر ان کی پناہ میں آئیں تو ان کے ورثا، سرور کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے اور منصفی چاہی۔ ان کے نزدیک منصفی یہ تھی کہ ان کی بھاگی ہوئی لڑکیاں انہی کے حوالے کر دی جائیں تا کہ وہ ان کو بد چلنی کی سزا کے طور پر جہنم واصل کر کے اپنی غیرت کی آگ کو لڑکیوں کے خوف سے ٹھنڈا کریں یا پھر ان کو کسی دور دراز علاقے میں فروخت کر آئیں لیکن خواجہ سرور نے یہ انصاف کیا کہ لڑکیاں منہ مانگے داموں خود خرید لیں اور پھر ان سے نکاح کر لیا۔ دو زندگیاں بچا کر ان کو عزت کی زندگی دینا بھی کچھ لوگوں کے نزدیک ایک احسن قدم تھا ورنہ دیہاتی کب ان کو جان سے مارے بغیر چھوڑنے والے تھے۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے لہذا لڑکیوں کے ورثا کو خواجہ سرور سے صلح کرتے ہی بنی۔ یہ تو ثابت تھا کہ وہ کسی کی بہو بیٹی کو زبردستی یا میلی نظر سے دیکھ کر اٹھانے کا قائل نہ تھا۔ کوئی سندری خود سے اس پر فریفتہ ہو جاتی تو اس کی نسوانی جذبات کا مان رکھنا بھی وہ اپنی مردانگی کے لئے لازم سمجھتا تھا۔ اس قسم کے کچھ معاشقے موصوف کے بارے میں مشہور تھے لیکن میرن کا اس سے کیا لینا دینا، وہ اس کے خوابوں کا شہزادہ تھا مگر شادی تو اس کی مدد سے طے تھی۔ دیہات میں لڑکیوں کی شادیاں جلد کر دی جاتی ہیں، میرن نے بھی ستر ہویں سال میں قدم رکھا تو باپ نے اس کو اپنے چچازاد کے سپوت ممد و سے بیاہ دیا، جو بہت زیادہ خوشحال نہ تھا۔ وہ دو وقت کی روٹی اس کو کھلا سکتا تھا۔ اپنے سے بھی ہلکے گھر میں ڈولی سے اتری تو اس کے خیالوں کے محل ڈھے گئے۔ وہ شادی کے بعد ذہنی طور پر سخت نا آسودہ زندگی بسر کرنے لگی۔ اس کے خوابوں میں وہی شہزادا رہتا تھا جس کی تعریفیں ندی پر پانی بھرتی لڑکیاں کرتی تھیں۔ خواجہ سرور کا علاقہ غازی گھاٹ سے دوسری جانب دس میل پرے تھا۔ درمیان میں چناب کا پانی گھس آیا تھا لیکن اس کا پاس ایک چھوٹی ندی کے برابر رہ جاتا تھا اس کو ہم دریا کی ذیلی شاخ کہ سکتے ہیں تاہم اس کو تیر کرہی پار کیا جا سکتا تھا۔ایک شام میرن کی اپنے شوہر سے لڑائی ہو گئی۔ ممدو ایک تو اس کو بھاتا نہ تھا اوپر سے رعب جماتا تھا۔ میرن کی نفاست پسند طبیعت کو اس کے پسینے سے ڈوبے کپڑوں کی بو برداشت نہ ہوتی تھی۔ وہ سارا دن دھوپ ، دھول، مٹی میں کام کر کے رات کو تھکا ہارا آنا تو بغیر کپڑے تبدیل کئے کھاٹ پر پسر جاتا اور سر پر سرسوں کا کڑوا تیل چپر لیتا۔ سر کی مالش کروانے کے بعد وہ میران سے کہتا۔ اب میرے پیروں کو تیل لگا، بہت درد ہو رہا ہے۔ اس کو محمد کی یہ فرمائش بالکل بھی اچھی نہ لگتی۔ وہ کہتی۔ اف تیل کی تیکھی بو سے میرا دم گھٹتا جاتا ہے۔ کم از کم تیل تو تھوڑا لگ یا کر ۔ بدن پر ساری بوتل بہا لیتا ہے۔ مالش ہم جیسے مزدوروں کے لئے بہت ضروری ہے دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا۔ اس شخص کو مالش کا چسکا تھا۔ دن بھر کی لادی سے اس کے بازو کمر اور پنڈلیاں اکٹر جاتے تھے اور ان میں رٹ پڑ جاتے تھے۔ بے شک وہ صبح سویرے نہاد ھو کر کام پر جاتا۔ صبح سویرے نہانا اس کا معمول تھا لیکن رات کو تیل میں نہا کر سونا بھی اس کا معمول تھا۔ میرن کو اس کا یہ معمول گوارانہ کھس۔ وہ ناک بھوں چڑھاتی تو وہ کہتا۔ سچی تو نہیں جانتی دو وقت کی روٹی کمانے کو مجھے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر تجھ کو منوں وزن اٹھانا پڑے تو تو جانے ، دن بھر مال کی ٹرکوں پر لادی سے میرا انگ انگ دکھ جاتا ہے اور بدن چور چور ہو جاتا ہے۔ اس روز میرن نے مالش کرنے سے انکار دیا تو لڑائی ہو گی اور وہ بکتا جلتا بغیر کچھ کھائے پیئے ہی سو گیا مگر میرن کی نیند اڑ گئی۔ اس نے بھی رات کا کھانا نہ کھایا دیر تک اپنے نصیبوں کو روتی رہی۔ یہ سوچ کر کہ اب تمام حیاتی ہی اس کو تیل کی سڑی بساند کے ساتھ گزارنی پڑے گی۔ پہلے جب ان کی کسی بات پر لڑائی ہوتی تو وہ ممدو سے کہتی کہ اگر تو نے مجھے تنگ کیا تو میں خواجہ سرور کے پاس چلی جائوں گی اور اس سے تیری شکایت کر دوں گی پھر وہ آپ ہی تجھ کو مزہ چکھا دے گا۔ ہاں ہاں کہہ دے ! میں نہیں ڈرتا اس سے ، اس نے جو بگاڑنا ہے ، بگاڑلے۔ ممدو جانتا تھا کہ یہ دیوانی، نا سمجھ ایسا غصے میں کہتی ہے۔ بھلا کب یہ اس کے ڈیرے پر جا کر میری شکایت کرنے والی اور بھلا وہ کیوں ہم میاں بیوی کے معاملات میں آکر ٹانگ اڑائے گا۔ اس رات بھی میرن نے اسے یہی دھمکی دی تھی، جس پر وہ بولا کہ ہاں جا جا ! اس کی پناہ میں جا کر بیٹھ جا۔ جانتی ہے نا کہ وہ پناہ میں آنے والی عورتوں سے شادی رچا لیتا ہے تو تو بھی کر لینا اس سے شادی تو چاہتی تھی۔ تبھی میرن کے جی میں کیا سمائی کہ اس نے شوہر کا ٹرنک کھولا اور اس کا دھلا ہوا جوڑا نکال کر پہن لیا۔ اگرچہ کرتا ڈھیلا اور تھوڑا سا ناپ میں لمبا تھا مگر کام چلانا تھا۔ سر پر پگڑی رکھ وہ رات کی تاریکی میں اکیلی گھر سے نکل پڑی۔ سرور کا گائوں دس میل پر تھا مگر دل میں جب لگن لگی ہو تو دور کی منزل بھی سامنے نظر آتی ہے۔ شوہر کی بات تو اس کے دل میں شگاف ڈال چکی تھی، برے دل سے وہ رات کے وقت پیدل، تن تنہا، بیابان میں چلتی رہی۔ جب بھی ممدو سے لڑائی ہوتی تھی وہ یونہی رعب ڈالنے کو اس سے کہتی تھی کہ اب اگر تو نے مجھ سے لڑائی کی تو میں تیری شامت بلا، خواجہ سرور ز میندار سے شکایت کر دوں گی۔ وہ تجھ کو جیل کے اندر کرادے گا، تب تو جانے گا کہ میرن کیا بلا ہے۔ جا، جا کر دے شکایت، میں نہیں ڈرنے کا کسی سے۔ وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا تھا لیکن آج واقعی میرن نے وہی کر دکھانے کی ٹھان لی جو کہ وہ کہا کرتی تھی۔ آج سچ مچ وہ ممدو کی شکایت کرنے خواجہ سرور کی بستی کی طرف چل دی، وہ بھی رات کے وقت … جانے یہ جرات اس میں کہاں سے آگئی تھی ؟ جبکہ ایسا تو اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ جس دھمکی سے وہ ممدو کو محض دھمکاتی ہے کبھی اس کو پورا کر کے بھی دکھا سکتی ہے۔ رستے میں ریت کا صحرا اور ڈھیلوں بھری زمین بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ راہ میں آئے ندی نالے اور دریا کو بھی اس نے تیر کر پار کر لیا۔ کھیت کھلیان اورسنسان میدان پار کرنے کے بعد بالآخر اذان سے ذرا پہلے وہ خواجہ سرور کی بستی میں پہنچ گئی۔ سرور خواجہ چارپائی ڈالے اپنے ڈیرے پر سو رہا تھا۔ ذرا دیر کو تو اس کا چہرہ تکتی رہی پھر سوچنے لگی کہ کہاں یہ اتنا حسین، مگر خوبصورتی میں ، میں بھی کسی سے کم تو نہیں۔ میرن کو اپنے حسن پر اتنا تو اعتماد تھا کہ وہ کسی مرد سے ٹھکرائی نہیں جاسکتی۔ تھوڑی دیر مبہوت کھڑی رہنے کے بعد بالآخر اس نے آگے بڑھا کر سوتے ہوئے سرور کا کندھا ہلایا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ چاندنی کی روشنی میں نہائی ایک حسین و جمیل عورت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ کچھ ساعتیں اس کو سمجھنے میں لگیں۔ جب ہوش درست ہوا تو پوچھا۔ تو کون ہے ، اس وقت یہاں کیوں آئی ہے اور کیا چاہتی ہے ؟ میں میرن ہوں۔ دریا پار سے تمہارے پاس فریاد لے کر آئی ہوں۔ کس کے بارے میں فریاد لائی ہے اس وقت ؟ ممدو کے بارے میں ، وہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ سے ہراساں رکھتا ہے۔ کبھی تو مارتا بھی ہے اور میری بالکل بھی عزت نہیں کرتا سر کار آپ ہی بتائو کہ کیا کوئی انسان بنا عزت کے جی سکتا ہے ؟ رستے میں گیڈر سور اور کتنے جانور ہوتے ہیں۔ کیا تجھ کو ڈر نہیں لگا؟ ڈر ! اگر لگن سچی ہو تو کسی شے سے ڈر نہیں لگتا، لیکن مجھے تو رستے میں ایسا کوئی جانور ملا ہی نہیں جس سے ڈر لگتا۔ وہاں سوائے خاموشی اور سنسان رستے کے اور کچھ تھا ہی نہیں۔ تم دریا پار سے آئی ہو۔ کیا کشتی پر دریا پار کیا تھا؟ میں نے مشکیزے پر تیر کر دریار پار کیا ہے۔ مجھ کو دریا پار کرنے کی حیچ آتی ہے جی۔ خواجہ سرور نے اندازہ لگا لیا کہ یہ عورت جرات مند اور دلیر ہی نہیں بے خوف اور بے باک بھی ہے۔ اے نیک بخت تو نے تو کمال کر دیا۔ ٹھیک ہے صبح ہونے کو ہے تو ادھر سامنے کمرے میں کچھ دیر آرام کر لے۔ تھوڑی دیر میں یہاں نوکر بیلی آجائیں گے۔ وہ تیرے ناشتے پانی کا انتظام کر دیں گے۔ اس کے بعد میں تجھ کو گھر بھیج دوں گا اور وہاں ہی تیری فریاد سنوں گا۔ یہاں دوپہر کے بعد بستی کے مرد آنا شروع ہو جاتے ہیں، اس لئے تیرا ادھر رکنا بھی ٹھیک نہیں۔ میرن کمرے میں چلی گئی ، جہاں چارپائی پڑی تھی۔ پانی کا جگ گلاس اور کچھ فروٹ بھی رکھے تھے۔ میرن نے پانی پیا اور چارپائی پر لیٹ گئی وہ اس قدر تھکی ہوئی تھی کہ اس کو لیٹتے ہی نیند آگئی۔ نماز کے وقت خواجہ سرور نے وضو کیا اور قریبی مسجد چلا گیا۔ وہاں سے ڈیرے پر لوٹ آنے کی بجائے گھر چلا گیا۔ بڑی بیوی کو ماجرہ بیان کر کے کہا کہ تم ملازمہ بھیج کر اس عورت کو گھر بلوا لو جو اس وقت ڈیرے پر ہے۔ شاید بہت تھکی ہوئی تھی۔ پیدل ، طویل سفر کیا ہے رات بھر ۔ اس کو ناشتہ کرا دینا۔ میں کسی کام سے ساتھ والے گائوں جائوں گا، دو چار گھنٹے بعد لوٹ آئوں گا، تبھی آکر اس عورت کا حال احوال سنوں گا۔ یہ ہدایات دے کر خواجہ سرور روانہ ہو گیا۔ واپس آیا تو دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کیا، اخبار دیکھا، پھر اوطاق میں چلا گیا۔ اپنے ملازم سے کہا کہ اس عورت کو اوطاق میں لے آئو ، جو پرلے گائوں سے آئی ہے۔ فریادی ہے اور دادرسی چاہتی ہے۔ ہم اس کا مسئلہ سننا چاہتے ہیں۔ ملازم میرن کو لے کر حاضر ہوا تو خواجہ سرور نے سوال کیا۔ ہاں بھاگاں والی ! اب بتا اپنا مسئلہ ۔ سردار جی ! میں کہاں بھاگاں والی، میں تو نصیبوں پھوٹی ہوں۔ اگر بھاگوان ہوتی تو کیا اس طرح ساری رات میں جنگل بیابان گزرتی تمہارے در کی فریادی ہوتی۔ ٹھیک ہے بی بی ، تو بھاگوان نہ سہی مگر بڑی دلیر اور ہمت والی ہے ورنہ اس طرح کسی عورت کا تنہا جنگلی جانوروں بھرے علاقے سے گزر کر یہاں آنا، ممکن خیال نہیں کر سکتا، اب اپنا مسئلہ بتائو۔ میرن نے اپنی روداد اس کے گوش گزار کر دی۔ ٹھیک ہے۔ میں نے سن لیا اور جان بھی لیا کہ تو مظلوم ہے لیکن تمہارا آج کا جھگڑا کسی بڑی بات پر نہیں ہوا ہے۔ شوہر تھکا ہار آئے تو بیوی کو اس کی خدمت گزاری کرنا ہی پڑتی ہے۔ تیرے شوہر نے کچھ ایسا غلط حکم نہیں دیا تھا کہ تو گھر سے ہی نکل پڑی۔ اب میری صلاح یہ ہے کہ واپس اپنے گھر کو لوٹ جا۔ یہی بہتر ہے۔ سردار جی ! اگر مجھ کو واپس لوٹنا ہوتا تو میں آتی ہی کیوں؟ میں واپس اب نہ جائوں گی، ممدو نے مجھے ایسی بات کہہ دی ہے کہ میرے دل میں شگاف پڑ گیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ تو جا کر خواجہ سرور کی پناہ میں بیٹھ جاتا کہ وہ تجھ سے بیاہ رچالے۔ اچھا! تو تواب چاہتی کیا ہے؟ میں آپ کی پناہ میں بیٹھ جانا چاہتی ہوں۔ اس کے سوا میری خود کو سمونے کی اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر آپ نے مجھ کو پناہ نہ دی تو پھر مجھ کو دریا میں پھینک دیں یا جنگلی جانوروں کے آگے ڈل دیں لیکن جدھر سے نکلی ہوں ادھر مڑ کر نہ دیکھوں گی۔ عورت کے مضبوط لہجے سے اس کے پر یقین عزم کا اظہار ہوتا تھا۔ سرور کی جہاں دیدہ نظروں نے پہچان لیا کہ میرن کوئی معمولی عورت نہیں ہے اگر اس کو بے آس کر کے واپس کیا تو یہ گھر نہ جائے گی بلکہ دریا میں چھلانگ لگادے گی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ تو تیار رہ، میں تجھے کسی محفوظ مقام پر پہنچاتا ہوں۔ جنگل بیابان کا پیدل سفر کر کے ایک تنہا عورت نے آج اس کی مردانگی کو للکارا تھا۔ اس نے درخت کے تنے سے بندھا ہوا گھوڑا کھولا، اپنے ساتھ میرن کو بٹھایا اور اپنے ایک زمیندار دوست کے پاس روانہ ہو گیا۔ اس دوست کا نام کالے خان تھا۔ میرن کو کالے خان کے حوالے کر کے خواجہ سرور نے کہا کہ یہ میری امانت ہے۔ اس کی حفاظت تیرا فرض ہے۔ میں ابھی واپس جارہا ہوں، چند دنوں میں لوٹ کر آؤں گا اور اس کو لے جاؤں گا۔ کالے خان نے میرن کو اپنی بیوی کے پاس پہنچا دیا اور کہا کہ یہ میرے دوست کی امانت ہے ۔ اس کا خیال رکھنا۔ اس وقت اس کی بڑی بیگم بھائی کے گھر گئی ہوئی تھی لہذا کالے خان نے میرن کو اپنی چھوٹی بیگم یعنی دوسری بیوی کے حوالے کیا تھا، جو کافی تیز عورت تھی وہ قرائن سے بھانپ گئی کہ معاملہ سادہ نہیں ہے۔ میرن بہت خوبصورت تھی، کالے خان کی بیوی نے اس سے دو چار میٹھی باتیں کی اور ماجرا پو چھا تو اس نے من و عن ساری رام کہانی سنادی۔ میزبان خاتون کے دل میں خیال آیا کہ خواجہ سرور ایک وجیہ اور خوبر وجوان ہے، یقیناً اس نے اس عورت کو نہیں ورغلایا، بلکہ یہ خود اس کے پیچھے بھاگ کر آئی ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ اس کی آڑ میں کہیں اس کا شوہر ہی یہ کھیل نہ کھیل رہا ہو۔ اس خیال آتے ہی عورت کی روایتی جلسن نے اس کا انگ انگ جلانا شروع کر دیا۔ ایک سوتن پہلے تھی اور یہ دوسری نجانے کتنی مدت کے لئے آئی تھی۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کا بھائی باز خان آگیا۔ اس نے جو اتنی حسین اور نوخیز لڑکی کو دیکھا تو اس کی رال ٹپک پڑی۔ کون ہے یہ ؟ اس نے سوچا، پھر بہن کو کریدا اور اپنی پسند سے بھی آگاہ کر دیا کہ اگر غیر شادی شدہ ہے تو میرے ساتھ اس کی شادی کرا دے۔ بہن تو پہلے ہی خوف اور بد گمانی کے سمندر میں ڈبکیاں لگارہی تھی بھائی کی اس فرمائش پر کھل اٹھی۔ بولی۔ ذرا حالات معلوم کرلوں تو تیرے حوالے کرتی ہوں۔ تھوڑا صبر سے کام لے۔ بیوی نے کالے خان سے میرن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے صرف اتنا کہا کہ یہ میرے دوست کی امانت ہے، مجھے نہیں معلوم کب وہ آکر اس کو لے جائے۔ فی الحال تو میرن کو یہیں رہنا ہے۔ جب چار ماہ تک خواجہ سرور نہ آیا تو میرن بے قرار ہو گئی۔ ادھر کالے خان کی بیوی کو بھی خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں کالے خان اس سے شادی نہ کرلے جب میرن جیسی خوبصورت بلا گھر میں ہو تو کالے خان جیسے زمینداروں کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس بی بی نے اپنے خدشات کا بھائی سے ذکر کیا تو اس نے اور جلتی پر تیل کا کام کیا دوچار باتیں جھوٹی سچی گڑھ کر اس کو خوب ڈرایا۔ عورت کچے کانوں کی تھی ڈرگئی۔ سوچا کہ میر ابھائی صحیح کہتا ہے۔ پانی پلوں سے گزرنے سے پہلے ہی اس کو کہیں کسی تھان کے کھونٹے سے باندھنے کا بندوبست کر دینا چاہیے ۔ اس نے بھائی سے کہا۔ اگر یہ تم کو پسند ہے اور تم شادی کرنا چاہتے ہو تو بے شک اس کو لے جاؤ ، مگر اس امر کے لئے اسے راضی کرنا تمہارا کام ہے۔ آپا یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ میں خود میران کو راضی کرلوں گا۔ دیکھ لینا یہ خوشی خوشی پیچھے چلتی جائے گی۔ تم پر کوئی آنچ نہ آئے گی، بے فکر ہو جاؤ۔ کالے خان مقدمے کی پیشی کے سلسلے میں شہر گیا ہوا تھا۔ موقعہ مناسب دیکھ کر باز خان نے میران سے کہا۔ بی بی ابھی نوکر نے تمہارے لئے پیغام دیا ہے کہ خواجہ سرور نے تم کو نیلے بیٹ والی بستی میں بلایا ہے جہاں وہ تم سے نکاح کرے گا۔ اسی بستی میں اس کے جگری دوست مشتاق کا ڈیرہ ہے۔ اس نے ہی نکاح کا انتظام کیا ہے، خواجہ خود ادھر نہیں آسکتا ۔ اگر تم کو اس کے ساتھ نکاح منظور ہے تو کالے خان کے گھر والے تم کو نیلی پیٹ پہنچانے کا انتظام کردیں گے۔ میرن کا تو سارا وجود اس خوش خبری کے سننے کا منتظر تھا۔ اس نے کہا۔ ہاں مجھے منظور ہے مگر کب جانا ہے اور کس کے ساتھ جانا ہے؟ یہ تم آپا سے پوچھ لو۔ میں تو فارغ نہیں ہوں کل ضروری کام سے شہر جارہا ہوں۔ چال باز خان نے بیزاری سے جواب دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی کالے کی بیوی نے میرن کو بتایا اور بولی کہ آج شام کو تم کو انہوں نے بلوایا ہے۔ کالے خان تو آیا نہیں ہے۔ میں باز خان کے ساتھ تمہارے جانے کا بندوبست کر دیتی ہوں۔ اور کوئی قابل اعتبار بندہ نہیں ہے ، باز خان کو بھی کل شہر چلے جانا ہے لہذا آج رات وہ تمہیں نیلی بیٹ کی بستی پہنچا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ میرن جو اتنے دنوں سے گھٹن کا شکار تھی اوتاولی ہو کر بولی اور جلدی جلدی کپڑے بدل، بال سنوار کر تیار ہو گئی۔ کالے کی بیوی نے اس کو چاندی کے کچھ زیورات دیئے کہا کہ نکاح ہونے جارہا ہے فی الحال تم یہ پہن لو۔ خواجہ نکاح کے بعد سونے کے زیورات تم کو خود پہنا دے گا۔ اور ممدو کا کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ میرا نکاح باقی ہے ؟ یہ قانونی معاملات سلجھانے میں ہی تو سرور مصروف تھا۔ اب طلاق نامہ لے لیا ہے تو ہی تم سے نکاح کر رہا ہے۔ باقی باتیں تم خود اس سے مل کر پوچھ لینا۔ بیچاری میرن کالے خان کی بیوی پر اعتبار کرتی تھی۔ اس اعتبار کی وجہ سے وہ باز خان کے ساتھ چلی گئی۔ کافی دور گھوڑی پر سفر کرنے کے بعد باز خان اس کو ایک مقام پر لے آیا لیکن یہاں تو دور دور تک خواجہ سرور کا نام و نشان نہ تھا۔ اس نے اپنی امانت اس لئے جگری دوست کالے خان کے سپرد کی تھی کہ وہ نکاح کے بغیر کسی عورت کو چھونا نہ چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ میرن کو اپنے پاس رکھنے کے بعد اس سے کوئی غلطی ہو جائے۔ اس کو ممدو اور اس کے باپ سے معاملات طے کرنے تھے۔ ان سے طلاق نامہ لینے کے بعد ہی وہ میرن کا جائز وارث بن سکتا تھا۔ یوں تاخیر ہو گئی اور کالے خان کی بیوی نے معاملے کو سمجھے بنا میرن کو اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھ کر اپنے بھائی کے سپرد کر دیا۔ میرن دھو کے میں لٹ کر باز خان کی بیوی بن گئی۔ وہ گھر سے نکل چکی تھی اب واپس لوٹنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ دو دن بعد جب کالے خان شہر سے لوٹا اور اس کو پتا چلا کہ اس کے دوست کی امانت باز خان لے اڑا ہے تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے بیوی سے کہا کہ بے شک وہ گھر چھوڑ کر آئی تھی اور تمہارے خیال میں اچھی عورت نہ تھی لیکن وہ میرے دوست کی امانت تھی۔ وہ دوست جو مجھ پر بھروسہ کرتا ہے۔ تم نے مجھے کو خواجہ سرور کے سامنے شرمندہ کیا ہے۔ اب وہ بھی مجھ پر اعتماد نہ کرے گا۔ اس جرم میں ، میں تم کو طلاق دیتا ہوں۔ یوں ایک دوست نے دوسرے دوست سے وفاداری نبھانے کی خاطر اپنی بیوی کو طلاق دے کر اپنے گھر سے نکال دیا۔ میرن تو باز خان کے ساتھ بری بھلی جو زندگی ملی گزارنے لگی لیکن باز خان کی بہن مطلقہ ہو کر میکے لوٹ آئی۔