زندگی کیسے کیسے سبق سکھاتی ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا – میرے زندگی کیسے بدلی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا – لیکن شید میرے سے زیادہ میرے سوہنے رب کو میری اولاد پر رحم ا آگیا تھا – ان دنوں چچا ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے۔ جب میں پانچ سال کی تھی ، دادی نے چچازاد اسد سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ وہ مجھ سے دو بریں بڑا تھا۔ دادی ہمیشہ چچی کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ فاطمہ کو بہو بنانا لیکن دادی کی آنکھیں بند ہوتے ہی چچی نے اپنا مزاج بدل لیا۔ دادی جان کی قبر کی مٹی ابھی گیلی تھی کہ انہوں نے صحن کے بیچوں بیچ دیوار اٹھادی۔ یوں محبتوں کے تاج محل میں دراڑ پڑ گئی ۔ پہلے ہمارا اور چچا کا مکان ایک تھا پھر ایک کے دو گھر ہوگئے۔ رفتہ رفتہ چچی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئیں۔ ہم بچوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا اور دعا سلام متروک ہوگئی۔ ابو اور چچانے بھی دوری اختیار کر لی۔ جب ضرورت ہوتی وہ باہرمل لیتے ۔ میں جو اسد کی ٹھیکرے کی مانگ تھی ، اس کی صورت کو ترسنے لگی ۔ امی اور چچی کی چپقلش میں ہم معصوم دلوں کا بے حد نقصان ہوا ، بچپن کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہم گھائل پرندوں کی مانند نفرتوں کے جال میں پھڑ پھڑاتے رو گئے۔ خالہ سلیمہ مجھ سے پیار کرتی تھیں۔ وہ جیسے تاک میں تھیں ، انہوں نے فورا جھولی پھیلا کر اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگ لیا۔ابو نے چچا کو آخری بار کہلوایا، چچی نے ٹکا سا جواب دیا تو خالہ جان کی مرادوں کے پھول کھل اٹھے اور میری شادی کی تاریخ خالہ کے بیٹے سعد سے طے ہوگئی ۔ مجھ سے کسی نے نہ پوچھا، اپنی مرضی سے والدہ نے میری زندگی کا سودا طے کر دیا۔ چند دنوں بعد میں خالہ کی بہو بن کر ان کے گھر آگئی ۔ سعد اچھی پوسٹ پر تھے، ہر طرح سے اس گھر میں سکھ چین تھا، خالہ کا پیار اور دیگر سہولتیں موجود تھیں لیکن دل نے اس رشتے کو قبول نہ کیا تھا، عر صے تک افسردہ رہی۔ بچپن سے اسد کی محبت کا نقش دل پر تھا جو ٹوٹتا ہی نہیں تھا۔ ایک روز مجھ کو اداس دیکھ کر امی نے سمجھایا کہ بیٹی! شادی ہوگئی ہے اور سعد میں کوئی عیب بھی نہیں ہے، ساس پیار کرنے والی ملی ہے ،تمہاری سگی خالہ ہے، ماں سے بڑھ کر پیار کرتی ہے، ان نعمتوں کا شکرکرو ، اچھی قسمت پر شاکر رہو، ایسا نہ ہو اللہ تعالی ناراض ہو جاۓ اور یہ سب تم سے چھن جائے ۔ اماں کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیا، کافی دن سوچا بالآخر اس نتیجے پر پہنچی واقعی ماں ٹھیک کہتی ہیں۔ چچی مجھ کو بہو بنانا نہیں چاہتی تھیں، اگر اسد سے شادی ہو جاتی اور وہ میرا جینا حرام کر دیتیں تب کیا ہوتا۔ اسد سے میرا ذہنی رشتہ بچپن کا تھا ، اس کو بھلا دینا آسان نہ تھا پھر بھی صبر کر لیا۔ اس کی یادوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن کر دیا اور اس کی چاہت کو کاغذ کی ناؤ بنا کر ماضی کی لہروں میں بہادیا۔ قسم کھا لی کہ سچے دل سے اپنے شوہر کی ہوکر رہوں گی ،اللہ کی خوشنودی کی خاطر سہاگ بندھن کا احترام کروں گی اور اسد کی یاد دل میں بسا کر خیالوں میں بھی شوہر سے خیانت نہ کروں گی ۔ قدرت کو کیا منظور ہے، یہ انسان کو پتانہیں ہوتا۔ شادی کے تین برس بعد اچا نک میرا اسد سے آمنا سامنا ہو جاۓ گا۔ ایک دن خبر آ گئی کہ تایا جان کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ بھی ہمارے ہی محلے میں رہتے تھے۔ سب عزیز رشتے داران کے گھر اکٹھا ہوگئے ۔ چچا ان دنوں عمرہ پر گئے ہوۓ تھے، میت کے گھر چچی اور سعد آگئے ۔ آپس کی رشتے داری تھی، ایسے موقعوں پر آمنا سامنا لازم ہوتا ہے۔ تین سال بعد اسد نے مجھ کو دیکھا تو افسردہ ہو گیا۔ میں کافی دیلی اور کمزور ہوگئی تھی۔ مجھ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر اداسی کے بادل چھا گئے۔ چھوٹے سے گھر میں لوگوں کا رش ہوا تو میرا دم گھٹنے لگا تو چھت پر چلی گئی ، معلوم نہ تھا وہ بھی وہاں ہے ۔ لوگ جب عصر کے وقت تایا کا جنازہ اٹھانے آئے ، دل پر عجب وحشت طاری ہوگئی ،سارے گھر میں کہرام مچاتھا، آہ و بکا کی آوازوں سے میرا بھی دل بیٹھ گیا۔ ان دنوں امید سے تھی، اس سبب بھی شاید مجھ کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا، جب آنکھوں تلے اندھیرا سا آنے لگا تو اوپر چھت پر جانے کی سوجھی۔ خیال ہوا اس طرح کچھ تازہ ہوا ملے گی توطبیعت بحال ہو جاۓ گی ۔ یہی سوچ کر او پر گئی تھی، بی گمان بھی نہ تھا کہ وہاں کوئی اور بھی موجود ہوگا۔ جب میں اوپر جانے کو سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ، خالہ جان کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ خیر چھت پر پہنچی تو کسی کو چار پائی پر لیٹا ہوا پایا۔ میرے قدموں کی آہٹ سے وہ اٹھ بیٹھا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ اسد تھا۔ ابھی ہم حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، بات کرنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ چت پر سعد آ گئے ۔ دراصل وہ گھر جانے کے لیے خالہ سے چابی لینے آۓ تھے۔ خالہ نے کہا کہ چابی فاطمہ کے پرس میں ہے۔ فاطمہ کہاں ہے؟ میرے شوہر نے اپنی ماں سے دریافت کیا۔ ابھی ابھی چھت پر گئی ہے۔یہ سن کر وہ چھت پر آگئے بھی یہ دیکھ کر بت بن گئے کہ وہاں سعد بھی موجود تھا۔ سعد کو سامنے دیکھ کر میرے بھی اوسان خطا ہو چکے تھے، میں نے کوئی جرم نہ کیا تھا پھر بھی خود کو مجرم محسوس کر رہی تھی کیونکہ سعد جانتے تھے کہ میری بچپن سے نسبت اسد سے طے تھی۔ وہ یہی سمجھے کہ میں جان بوجھ کر چھت پر اس سے ملنے آئی ہوں۔ لحہ بھر بعد وہ آگے بڑھے اور مجھ کو بازو سے پکڑ کر ساتھ لے آۓ۔ انہوں نے مجھے بمشکل پرس اٹھانے دیا۔ گھر آتے ہی مارنے لگے، کچھ اس بری طرح کہ میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی سعد کے اندریہ درندہ نما شخص بھی چھپا ہوا ہے، وہ بالکل حیوان لگ رہے تھے۔ وہ شاید مجھ کو مار ہی ڈالتے اگر اس وقت خالہ نہ آ جاتیں۔ انہوں نے بیٹے کو پکڑا اور مجھے دوسرے کمرے میں جانے کو کہا۔ میں نے دوڑ کر اندر سے کمرے کی کنڈی لگا لی۔ جو واقعہ ہوا تھا، وہ کوئی واقعہ نہ تھا محض اتفاق تھا مگر کوئی کچھ اور سمجھ رہا تھا اور میں نہیں سمجھا سکتی تھی کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے ۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ جس شخص کو مجازی خدا سمجھ کر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں عمر گزارنے کا عہد کر چکی ہوں ، وہ مجھ سے اتنا برا سلوک بھی کر سکتا ہے۔ بڑی دیر تک خالہ سعد کو سمجھاتی رہیں ۔ سعد نے رات کو نیند کے لیے دوخواب آور گولیاں بھی کھائیں تب کہیں جا کر سوۓ ۔ ان کے سو جانے کے بعد خالہ نے کمرے کا در کھٹکھٹایا اور کہا کہ میں ہوں، فاطمہ ! درواز کھولو، سعد ہو چکا ہے ۔ تب میں نے دروازہ کھولا ۔ خالہ نے پوچھا کہ کیا ہوا اور یہ کیسے ہوا….؟ میں نے رورو کر قسمیں کھائیں اور بتایا کہ خالہ میرا کوئی قصور نہیں ہے ، مجھ کو وہاں بھیٹر میں گھٹن ہورہی تھی ، جی متلانے لگا تو چھت پر چلی گئی ، مجھے کوخبر تھی کہ وہاں اسد پہلے سے موجود ہے، خبر ہو تو کیوں جاتی ، اسی لمحے سعد بھی وہاں آگئے ، انہوں نے سمجھا کہ میں اسد سے ملنے او پر گئی تھی ، مجھ کواس لیے مارا ہے کہ تمہارا ابھی تک منگیتر سے تعلق قائم ہے، خالہ جی! مجھ کو اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے، ایسا بالکل نہیں ہے،شادی کے بعد میں بھی اس نے ملی ہی نہیں، یہ سراسر بہتان ہے۔ خالہ نے میرے بیان پر یقین کرلیا، مجھے گلے لگایا۔ میں زاروقطار رو رہی تھی ، ان کو مجھ پر ترس آیا۔ اس دن یقین آ گیا کہ خالہ واقعی ماں کی جگہ ہوتی ہے، اگر خالہ کی جگہ کوئی اور عورت ساس ہوتی تو میری باتوں پر یقین نہ کرتی بلکہ بڑھا چڑھا کر زمانے کو سناتی اور مجھے طلاق دلوادیتی لیکن خالہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ میں نے اس کو چھت پر جانے کو کہا تھا، اس بچاری کو کیا خبرتھی وہاں کوئی اور موجود ہے، اسے متلی ہورہی تھی اس لیے اوپر بھیجا تھا کہ سانس بحال ہو جاۓ گا ۔ خالہ نے معاملہ اپنے اوپر لے کر میرا پورا پورا دفاع کیا۔ میری قسموں پر شاید میرے شوہر کو یقین نہ آتا لیکن انہوں نے اپنی ماں کی قسموں پر یقین کرلیا۔ کہتے ہیں کہ شکی مرد کے دل سے شک نہیں جاتا، سعد نے بھی وقتی طور پر یقین کرلیا جبکہ ایک خلش دل میں تھی سو وہ موجود رہی۔ اب زندگی پہلے جیسی نہ رہی تھی ۔ بات بات پر وہ مجھے میرے منگیتر کا طعنہ دیتے تھے۔ ان کے طعنوں نے میری زندگی کو ایک دہکتا ہوا جہنم بنا دیا۔ ہر دم میرا دل تڑپنے لگا کہ ان کو میری پاک دامنی کا اعتبار نہیں ہے۔ وہ بات بات پر کہتے تھے، تمہارا ماضی مشکوک ہے لہذا مجھے یقین نہیں ہے تمہاری کوکھ میں پلنے والی اولا دمیری ہے یا نہیں ….. میں کیسے اسے قبول کروں گا، کس طرح باپ کا پیار دے سکوں گا۔ جب کوئی شوہر اپنی بیوی سے ایسی باتیں کرے تو زندگی اچھی کیسے گزرسکتی ہے۔ بلاشبہ میں زندہ ، شک کی چتا میں جل رہی تھی۔ روز ہی اپنے نصیب پر آنسو بہاتی تھی ، آٹھ آٹھ آنسو روتی تھی اور سوچتی بھی کہ اس عذاب سے تو بہتر تھا ، میں طلاق لے لیتی۔ اس شخص نے ماں کے مجبور کر نے پر مجھے پناہ تو دے دی تھی لیکن اپنی اولاد کو شک بھری نظروں سے دیکھتا تھا، یہ بات میرے لیے سوہان روح تھی۔ میں نے میکے جانا ترک کر دیا کیونکہ ساتھ ہی اسد کا گھر تھا۔ سعد شک کرتے تھے کہ میکے میں شاید اسد سے ملنے جاتی ہوں ۔ جب ایسی سوچ ان کو ستاتی تو بہانے بہانے سے جھگڑنے لگتے تھے۔ ایک حد ہوتی ۔ میں ایک بچی کی ماں بن چکی تھی ۔ اس اہانت آمیز سلوک کو سہتے سہتے تھک گئی تھی ۔ سعد اپنی بچی کو بھی نہیں اٹھاتے تھے۔ یہ معصوم پھول بھی باپ کی شک و شبے بھری نگاہوں کی تپش سے مرجھا کر رہ گیا تھا۔ وہ اسے اٹھانا یا ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے ہوۓ بھی اولاد کو محبت نہ دے سکے۔ اس عذاب ناک زندگی کو جب پانچ برس گزر گئے تب ایک روز میں نے سوچا کہ ایسے جینے سے مر جانا اچھا ہے، بس اپنی معصوم اولاد کی خاطر ہر جبر سہہ رہی تھی کہ یہ بچی باپ کے گھر کی چھت تلے بڑی ہو جاۓ ، باپ کے سائے میں پرورش پاۓ گی تو زمانے کی دست و برد سے بچ جاۓ گی۔ ایک عورت کب تک شوہر کی بدسلوکی کے قاتل وار سہہ سکتی ہے، ایک روز جبکہ ایک عزیزہ کی شادی میں جانا تھا، میں نے سعد سے کہا۔ بچی کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا خریدنا چاہتی ہوں، اس کو شادی میں لے جاؤں گی ۔ یہ سن کر وہ یکدم غصے سے آگ بگولا ہو گئے ۔ خدا جانے کس سوچ میں تپ رہے تھے، چلا کر بولے ۔ میں کیوں لے کر دوں ، میری بیٹی تو نہیں ہے ، جس کی ہے ، وہی لے کر دے، میں تو آستین میں سانپ پال رہا ہوں ۔ آج میری غیرت بھی تڑپ گئی۔ اف میرے خدا…..! میں کب تک ایسی بے غیرتی کا جیون جیتی رہوں گی، مجھ کو اس کم ظرف آدمی سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ پس اس روز جانے مجھ میں کہاں سے ہمت اور طاقت عود کر آئی۔اسی وقت فون کر کے بھائی کو بلا لیا اور یہ الفاظ ان کے سامنے دہرائے جو سعد نے کہے تھے۔ میں نے بھائی کو کہا۔ اگر تم لوگوں کے پاس میرے اور میری بیٹی کے لیے رہنے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی نہیں ہے تو بے شک میں سڑک پر رہ کر بھیک مانگ لوں گی لیکن اب میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہوں گی ، خدا کے لیے مجھے کو یہاں سے لے چلو، اب میں نے مزید ایک پل یہاں نہیں رہنا۔ بھائی نے جانے کیسے میرے حق میں فیصلہ کر لیا۔ کیا کہ چلو میرے ساتھ ، خاندان کے بزرگ خود فیصلہ کر لیں گے، اب تم اس قدر ذلت میں زندگی نہیں گزارو گی اور ہم مر نہیں گئے ہیں، ابھی تمہارے وارث زندہ ہیں ۔ خالہ روکتی رہ گئیں ۔ بھائی مجھے اور میری بیٹی لیلی کو ساتھ لے آۓ ۔ ابو، امی نے ٹھنڈے دل سے تمام احوال سنا اور پھر خالہ، خالو کو بلوا بھیجا، ان سے حتمی بات کی۔ انہوں نے بیٹے کی طرف سے معافی مانگی لیکن میں نے خالہ اور خالو ا کے ہمراہ گھر لوٹ جانے سے انکار کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ عام کوساتھ لے کر آۓ ، اس نے امی ابو سے معافی مانگی۔ یقین دہانی کرائی کہ اب بھی میں فاطمہ کو تنگ نہ کروں گا اور اچھارکھوں گا۔امی ابو نے پوچھا۔ فاطمہ تم کیا کہتی ہو؟ کیا تمہاری مرضی ہے ؟ میں نے صاف منع کر دیا، کہا۔ اگر آپ نے مجھے گھر میں نہیں رکھنا تو میں دارالامان مع بچی چلی جاتی ہوں لیکن واپس سعد کے گھر نہ جاؤں گی۔ والدین نے سمجھایا، رشتے داروں نے بھی زور لگایا لیکن میں نہ مانی کیونکہ میں سعد کی فطرت کو اچھی طرح سمجھ چکی تھی ۔ انسان جان بوجھ کر آگ میں نہیں کو دتا۔ میں بھی کیونکہ جانتی تھی جاؤں گی تو پھر وہی ہوگا۔ شک کا ناگ عاضم کے اندر گھر کر گیا تھا، جب موقع پاۓ گاپھر حیوان بن جائے گا۔ ابو نے دیکھا کہ واقعی فاطمہ نہیں چاہتی ، زبردستی کی تو جان سے جاۓ گی ، انہوں نے سعد پر دباؤ ڈالا کہ ہماری بیٹی کو طلاق دے دو، وہ تمہارے ساتھ رہنا ۔ نہیں چاہتی۔ خالہ کی دلی خواہش تھی کہ میں واپس آجاؤں، وہ اپنی پوتی سے بھی بہت پیار کرتی تھیں ۔ مجھے سسرال جانے سے ہی خوف آتا تھا۔ چند دن خاموشی رہی پھر سعد نے ایک عورت سے مراسم استوار کر لیے۔ ماں سے کہا کہ تنہا زندگی کب تک گزاروں ، میں شادی کے بغیر نہیں رہ سکتا، دوسری بیوی کا انتخاب کرلیا ہے، آپ راضی ہوجائے ورنہ میں خود نکاح کرلوں گا۔ اب خالہ سٹپٹا گئیں ۔ بیٹا ہاتھ سے جارہا تھا اور بہو واپس آنے کو راضی نہ تھی ۔ امی سے بات کی ۔ انہوں نے صاف کہہ دیا جو شخص اپنی اولاد کو اولاد تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے، مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے، اس کے ساتھ فاطمہ زندگی کیسے گزارسکتی ہے۔ مایوس ہوکر خالہ نے بیٹے کا دامن تھام لیا۔ عالم نے اپنی مرضی کی عورت سے نکاح کر لیا۔ ابو نے عدالت میں میرے لیے خلع کا دعوی دائر کیا۔ خلع کے بعد میں آزاد تھی لیکن اپنی بچی کی خاطر دوسری شادی نہ کرنا چاہتی تھی ۔ایک روز پچا اور چچی آۓ ، وہ امی ابو کو منانے آئے تھے کیونکہ اسد نے میرے سوا کسی سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے والدین سے کہا کہ عمر بھر شادی نہ کروں گا ، اگر میری خوشی منظور ہے تو تایا سے فاطمہ کا رشتہ طلب کیجئے ، اب وہ آزاد ہے۔ چچی اور چچا نے بہت زیادہ منت سماجت کی تو امی ، ابوراضی ہو گئے ۔ انہوں نے مجھے بھی سمجھا بجھا کر منالیا، یوں میری شادی اسد سے ہوگئی۔ اس شادی پر بھی رشتے داروں نے خوب باتیں بنائیں، لوگوں نے انگلیاں اٹھائیں۔ سعد نے خاندان بھر میں پرو پیگنڈا کیا کہ فاطمہ کے اپنے چچازاد اسد سے غلط تعلقات تھے اور شادی کے بعد بھی اس نے اپنے سابقہ منگیتر سے تعلق ختم نہیں کیا تھا، میں نے بیوی کواس لیے چھوڑا ہے۔ بات سچ ہو یا غلط! پروپیگنڈا بڑا کام کرتا ہے۔ مجھ کو سب نے غلط سمجھا حالانکہ میرا خدا جانتا ہے میں غلط نہ تھی، سچ ہے لوگوں کے منہ پر ہاتھ نہیں رکھا جاسکتا، میں یہی کہوں گی کہ اسد کی محبت سچی تھی ، اس وجہ سے اس کو میں مل گئی۔ میں اپنےضمیر سے شرمندہ ہوں اور نہ اپنے خدا سے ….. ہاں اس کی مشکور ضرور ہوں کہ اس نے طلاق کے بعد مجھ کو ایک نئی پیار بھری اور خوبصورت زندگی عطا کردی۔ چچی سوچتی تھیں کہ یہ رشتہ پہلے کر لیتی تو اچھا تھا، پھر بھی دیر آید درست آید ۔ ان کا بیٹا خوش ہے تو وہ بھی خوش ہیں ۔ ہم پرسکون زندگی جی رہے ہیں ،سعد نے کفران نعمت کیا بیٹی کو اپنا نہ جاناآج تک وہ اولاد کی چاہ میں تڑپ رہا ہے یہی اس کی سزا ہے ۔ ہم کو اس سے کیا غرض ، جس نے اپنی سگی بیٹی سے غرض نہ رکھی ، ایسے شکی انسانوں سے خدا ہی بچاۓ جو اپنی زندگی بر با دکر دیتے ہیں اور دوسروں کی بھی-