Friday, February 14, 2025

Shakhsiat Mein Kami

میں نے کراچی کے ایک مشہور شاپنگ سینٹر میں اس کو پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ وہاں سیلز مین تھا اور کافی اسمارٹ اور خوبصورت تھا۔ اس میں گاہک کو مائل و قائل کرنے کی خداداد صلاحیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مالک کا منظور نظر تھا کیونکہ اس کی چرب زبانی کے باعث سیل خاطر خواہ ہوتی تھی۔ میں اپنی دوست نتاشہ کے ساتھ اس شاپنگ مال کے کاسمیٹک کارنر میں گئی تھی، جہاں زیادہ تر خواتین کی دلچسپی کا سامان سجا ہوا تھا۔ میں نے ذرا دیر میں ہی اندازہ کر لیا کہ یہ نوجوان سیلز مین خواتین کو گھیر کر خریداری کروانے کا ماہر ہے۔ اس کا نام ارباب خان تھا۔ نیلی آنکھیں، سنہرے بال، اونچ لمبا اور گورا چٹا، کیا با نک پن تھا موصوف میں ! ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ کوئی عورت اس کی طرف جائے اور کچھ خریدے بغیر چلی جائے۔

ارباب خان کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کو مذہب سے کچھ خاص شغف نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ شوخ رنگ لباس میں ملبوس ہوتا ، شاید یہ اس کی ملازمت کا تقاضا تھا۔ امیر نہ ہونے کے باوجود اونچے خواب دیکھتا تھا۔ اس کی باتوں سے میں نے جلد ہی اندازہ کر لیا تھا کہ وہ اس کوشش میں ہے، کہ کسی طرح جلد بہت سی دولت کمالے جو سیلز مین والی ملازمت میں ممکن نہ تھی۔ برے کاموں کا ارباب میں حوصلہ نہ تھا لہذا شرافت سے امیر بنے کا ایک ہی سیدھا سادہ سا طریقہ تھا کہ کسی امیر والدین کی اکلوتی لڑکی کو پھانس کر اس سے شادی کر لے۔ جب اس نے اپنی چرب زبانی سے میری سہیلی نتاشہ کو لبھانا شروع کیا تو مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ وہ نتاشہ کے ساتھ دوستی کر کے کس طرح سے جیتے جاگتے خواب دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کاسمیٹک سینٹر پر ہر طبقے کی لڑکیاں آیا کرتی تھیں۔ وہ اس تلاش میں تھا کہ اس کی نظر نتاشہ پر پڑ گئی ۔ حالانکہ وہ معمولی شکل وصورت کی تھی لیکن اس نے میری سہیلی کے شاپنگ کے انداز سے بھانپ لیا کہ یہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو یا نہ ہو، بے حد لاڈلی ضرور ہے۔ نتاشہ ایک بڑے صنعت کار کی بیٹی تھی۔ اس کی عادت تھی کہ جب شاپنگ کرتی ، بے تحاشا روپے خرچ کر دیتی ۔ اس کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی تبھی شاپنگ کرنا اس کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا اور مجھے ساتھ لے کر چلنا بھی گویا اس کی کمزوری تھی کہ میرے بغیر وہ خود کو ادھورا خیال کرتی تھی۔ میں نے ارباب خان کی باتوں سے بھانپ لیا کہ یہ لڑکا میری دوست کی دولت سے مرعوب ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں بڑی سی قیمتی گاڑی سے اترتے بھی دیکھ لیا تھا، ورنہ معمولی صورت کی نتاشہ میں سوائے دولت مند ہونے کیے اور کوئی کشش نہ تھی۔ لباس بھی وہ ایسے فیشن کے منتخب کرتی کہ عجوبہ لگتی ، اوپر سے گفتگو بھی بے اثر ہی کرتی تھی۔ چالاک ارباب نے اس کو غیر معمولی توجہ دینی شروع کر دی تو وہ بار بار اس کے کاسمیٹک سینٹر جانے لگی اور تبھی میرے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بچ گئیں۔ نتاشہ اس کی غیر معمولی توجہ سے سرشار ہو کر رفتہ رفتہ ارباب خان کی جانب ملتفت ہونے لگی۔ یوں بات بڑھتے بڑھتے روایتی محبت کے قصہ پر آ کر ٹھہر گئی ۔ بس پھر کیا تھا، ارباب نے برسوں پہلے جو خواب دیکھا تھا ، اس کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ یہ لڑکی کسی اعتبار سے اس کا آئیڈیل نہ تھی ، تاہم اس نوجوان نے میری دوست کو اپنی محبت کا پکا یقین دلا دیا۔ اب اسے اپنے خواب کی تعبیر پوری ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ بھولی بھالی نتاشہ اس کے مردانہ حسن اور خوش گفتاری سے اتنی متاثر ہو گئی تھی کہ اب اس کا ارباب سے ملے بغیر جی نہیں لگتا تھا۔

ارباب کی ڈیوٹی آدھا دن بعد بدل جاتی تھی۔ صبح نو سے چار بجے تک اس کی ڈیوٹی ہوتی ۔ اس کے بعد دوسرے سیلز مین کی باری آجاتی اور وہ محبت کی منزلیں طے کرنے کو آزاد ہو جاتا۔ میں جانتی تھی کہ ارباب خان جو متوسط اور مذہبی گھرانے سے ہے، اس کے خاندان میں ایسی باتوں کو برداشت نہیں کیا جاتا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ آزادانہ گھومے پھرے اور غیر خاندان میں شادی پر ان کے ہاں سخت پابندی تھی۔ جو ایسا کرتا تھا ، اس کو اچھی نظروں سے نہ دیکھا جاتا تھا مگر اس پر تو دولت مند ہونے کا بھوت تھا حالانکہ یہ لوگ اتنے صاحب حیثیت بھی نہ تھے کہ نتاشہ کے والد جیسے دولت مندوں کے چونچلے اٹھاتے ۔ ارباب خان کو شام میں کلب جانا اور ڈانس کرنا نتاشہ نے سکھایا۔ حتی کہ تمبولا کھیلنا بھی اسے نہیں آتا تھا، جب کہ یہ میری دوست کا محبوب کھیل تھا۔ تاش بھی وہ بہت شوق سے کھیلتی تھی۔ وہ جب ارباب سے ملنے جاتی تو کچھ نہ کچھ رقم زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیتی۔ اس نے ارباب کوکبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ غریب ہے اور نتاشہ امیر ۔ کبھی کبھی ساحل سمندر کسی خوب صورت تفریحی مقام پر یاکسی رومانی ماحول میں جب دونوں ساتھ بیٹھتے تو وہ اس قدر کھو جاتی کہ بس سے باہر ہونے لگتی حالانکہ ارباب بھی ایک نوجوان لڑکا تھا لیکن اس نے بھی اپنی طرف سے برائی کے لئے پہل نہ کی ، نہ ہی اس حوالے سے میری دوست کی ہمت افزائی کی یہ دراصل ارباب کے دل میں اس جذباتی لڑکی کے لئے اس قسم کے جذبات تھے ہی نہیں ، وہ تو اپنے مقصد یعنی اس کی دولت پر نظر رکھے ہوئے تھا کہ شرافت سے شادی کر کے امیر ہو جائے تبھی اس نے نتاشہ کی نسوانیت کو برباد کرنے کی کوشش نہ کی ۔ وہ اکثر شکوہ کرتی کہ ارباب حد سے زیادہ شریف ہے۔ مڈل کلاس آدمی ہے نا ، ان لوگوں کو بچپن سے یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ اپنے جذبوں پر قابورکھو، تب ہی یہ ایسا ہے۔ یوں بھی اسے ارباب کی سرد مہری سے شکوہ ہوتا اور کبھی فخریہ کہتی کہ دیکھو میں نے کتنے صحیح بندے کا انتخاب کیا ہے، جس کو ہوس نہیں بلکہ سچی محبت سے سروکار ہے۔ ارباب کے محتاط رویئے کو اس نے شرافت جانا اور دل میں اس کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھتی گئی۔ وہ اس سے سچ مچ خلوص دل سے شادی کی خواہش مند ہوگئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے ارباب کی اتنی تعریفیں کیں کہ گھر والوں کو قائل ہونا پڑا۔ جب بیٹی کا اصرار بڑھا تو اس کے ڈیڈی نے ارباب کو ملاقات کے لئے گھر بلایا اور کافی آؤ بھگت کی۔ انہوں نے ارباب سے ہر وہ بات پوچھی جو داماد بنانے کے لئے پوچھنا ضروری تھی اور اسے کہا کہ ہفتہ بعد سوچ بچار کر کے جواب دیں گے کہ تم کو داماد بنانا چاہیے یا نہیں، تاہم اس کو گرمجوشی سے ہی رخصت کیا۔ ایک ہفتہ بعد جب ارباب نتاشہ کے والد سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو راضی ہیں مگر تم پہلے یہ بتاؤ کیا تم ہماری بیٹی کو وہی آسائشیں مہیا کر سکو گے جو اس کو یہاں حاصل ہیں؟ کیا تمہارا گھر بھی ایسا ہی ہے جیسا ہمارا ہے؟ یہ باتیں سن کر سیلز مین نوجوان سکتے میں آگیا۔ ایک بڑا بزنس مین ہونے کی وجہ سے اس کے والد نے شاید ارباب کا دماغ پڑھ لیا تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، تبھی انہوں نے اس کی ذہنیت کو اس کے سامنے عیاں کر دیا۔ ان کی کھری کھری باتوں نے ارباب کی آنکھیں کھول دیں اور دولت حاصل کرنے کا نشہ ہرن ہو گیا۔ تھوڑی دیگر گم صم رہنے کے بعد ارباب نے نتاشہ کے ڈیڈی کو جواب دیا کہ یہ تمام چیزیں مہیا کرنا میرے بس میں نہیں ۔ میں تو خود ایک شاپنگ سینٹر پر معمولی نوکری کرتا ہوں اور اپنی پوری تنخواہ اپنے گھر والوں ہے کو دے دیتا ہوں ۔ مہینے کی آخری تاریخوں میں بھی دودھ والے اور کبھی ترکاری والے سے میرا جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ میں آپ کی بیٹی کو کچھ نہیں دے سکتا ، نہ کار، نہ کوٹھی اور نہ نوکر چاکر ہے آپ کی لڑکی میری حقیقت جانتی ہے ۔ تاہم اس نے خود مجھ سے شادی پر آمادگی ظاہر کی ہے اور اس کے حوصلہ دینے پر میں آپ کے در دولت پر آیا ہوں ۔ بے شک میری بات کی سچائی جاننے کے لئے آپ اپنی صاحب زادی سے پوچھ سکتے ہیں۔ میں نے تو ان کو بتا دیا ہے کہ میں ایک غریب کے آدمی ہوں۔

ارباب کے بیان پر گھاگ بزنس مین نے ذرا ٹھہر کر کہا۔ ٹھیک ہے تو تم جس قدر بھی اونچے خواب دیکھو مگر زیادہ لانچ برا ہوتا ہے اور لالچی انسان کو کوئی تبھی اپنی بیٹی دینا پسند نہیں کرتا۔ میں تم جیسے خالی ہاتھ آدمی کو اپنا داماد بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ رشتہ ہمیشہ یا تو اپنی برادری میں کیا جاتا ہے ، جہاں امیری غریبی کی تفریق کبھی کبھار نظر انداز کرنا پڑتی ہے یا پھر اپنی برابر کے لوگوں میں، ورنہ اتنی تفریق ہو تو داماد نو کر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا تمہیں نوکر والی حیثیت قبول ہوگی یا پھر میں اپنی بیٹی کی خوشی کو مدنظر رکھوں کہ ۔ وہ مجھے بہت عزیز ہے لیکن اس کو صرف ایک جوڑے میں رخصت کر دوں تا کہ اسے پتا چل جائے کہ محض محبت سے گزر بسر نہیں ہوسکتی۔ زندگی میں خوشیاں لانے کے لئے دولت بھی بے حد اہم اور ضروری ہوتی ہے۔ اگر تم کو اس صورت میں میری بیٹی سے شادی منظور ہے کہ میں اس کو جائیداد میں سے کچھ نہیں دوں گا، صرف ایک جوڑے میں رخصت کروں گا، جہیز میں بھی پھوٹی کوڑی اسے نہ ملے گی۔ اگر تم کو اس صورت نتاشہ قبول ہو تو میں تمہارا اس سے نکاح پڑھوانے پر تیار ہوں ۔ تم اپنے والدین کو میرے پاس بھیج دو۔ میں چاہتا ہوں کہ جس کو میں نے اتنے نازوں سے پالا ہے، وہ لاڈلی یہ بھی جان لے کہ زندگی کی حقیقتیں کیسی ہوتی ہیں ۔ بے شک اسے تلخ حقائق سے بھی ٹکرانا چاہیے تاکہ اسے والدین کی نافرمانی کی سزامل سکے۔ ایسے ناعاقبت اندیش اور سرکش بچوں کا یہی علاج ہے ۔ یہ محض دھمکی یا مذاق نہیں، میرے اس فیصلے کو تم ہلکا مت لینا۔ میں نے دولت بڑی مشکل سے کمائی ہے، لہذا میں جو کہتا ہوں وہی کرتا بھی ہوں۔ تمہیں میرا فیصلہ قبول ہو تو اپنے والدین سے کہہ دو۔ وہ آکر شادی کی تاریخ طے کر لیں لیکن مجھ سے کچھ ملنے کی امید نہ رکھیں۔ اس کے بعد جو تم لوگوں کی قسمت ، جو حالات ہوں گے مجھ سے شکوہ مت کرنا ۔ زندگی جیسی بھی ہو، اپنے بل بوتے پر گزارنا اور اگر تم کو یہ صورت حال منظور نہیں ہے، تو خبر دار ! جو آئندہ میری بیٹی سے ملنے کی کوشش کی۔ میں اپنی عزت کی حفاظت کرنا جانتا ہوں۔ میں جان لینا بھی جانتا ہوں اور دینا بھی۔ تم نے نتاشہ سے ملاقاتیں جاری رکھیں تو اس دنیا سے اوپر بھجوا دوں گا اور یہ میرے لئے مشکل بات نہیں ہے۔ اس ملک میں کرایے کے قاتل بہت ہیں۔ ارباب کا ایک رئیس سے پہلی بار سابقہ پڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ دولت صرف دو وصاف سے حاصل ہوتی ہے، ایک عقل اور محنت سے اور دوسرا ذریعہ فراڈ، ریا کاری اور کرپشن کا ہے۔ یہ ذریعہ تو بہر حال اس کی دسترس میں ہی نہ تھا۔ وہ نہ تو کوئی بد معاش چور اچکا اور لیٹرا تھا اور نہ ڈکیت اور نہ ہی کوئی بددیانت بیوروکریٹ یا برا سیاست دان تھا۔ وہ تو متوسط طبقے کا ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا، جو معمولی نوکری کر کے حلال روزی کما رہا تھا۔ بس اس کے کچھ خواب تھے جو کچھ بے لگام سے بھی تھے تبھی اس نے شارٹ کٹ سے اپنے خواب پورے کرنے کی کوشش کی تھی۔ بہر حال اب اسے اپنی چال پر نظر ثانی کا موقع ملا۔ اس نے سوچا کہ کیا خبر، نتاشہ جس نے کبھی غربت میں ایک دن بھی نہیں گزارا ، غربت میں اس کا ساتھ دے بھی سکے یا نہیں؟ وہ مجھ سے اس وجہ سے طلاق طلب کر لے کہ میں اس کی آسائشیں پوری نہ کر سکوں ۔ اسے اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑ جائے اور وہ نا آسودہ ہو جائے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس سے نہ ملوں اور کنارہ کرلوں۔ اس نے یہ بھی غلط سوچا۔ جیسا اس دولت کے لالچی نے ابتدا میں غلط سوچا تھا مگر میں اپنی دوست نتاشہ کو اس کے بچپن سے جانتی تھی۔ وہ ایسی لڑکی تھی کہ غربت میں بھی کبھی اس کا ساتھ نہ چھوڑتی اور اس پل صراط کو پار کرنے میں اس کی مدد کرتی۔ اس کے ڈیڈی کا مقصد بھی ارباب کے پختہ ارادے کو اس کے حوصلے اور ہمت کو آزمانا ہی تھا، ورنہ کوئی بھی دولت مند باپ اپنی بیٹی کی خوشی کے لئے قربانی دیتا ہے تو پھر وہ اس کی خوشیوں کا نگہبان بھی بن جاتا ہے۔

ارباب کی کوتاہ سوچ نے اس بیچ راستے سے واپس پلٹ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ اصل بات یہی تھی کہ اس نے نتاشہ سے نہیں بلکہ اس کی دولت سے محبت کی تھی۔ وہ اس کی دولت کے حصول کی خاطر محبت کا جال پھینک کر خود ہواؤں میں اڑ رہا تھا اور جب دولت کے تصور کو جدا کر کے اس نے نتاشہ کو دیکھا تو وہ اسے محض کاغذ کا ایک پھول نظر آئی ، جس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ اس کا فیصلہ یہی ثابت کرتا تھا کہ وہ لالچی اور ایک خود غرض انسان ہے۔ نتاشہ کے ڈیڈی سے ملاقات کے تیسرے روز اس نے جب میری دوست کو فون کیا تو میں اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اسپیکر آن کر دیا۔ وہ کہ رہا تھا کہ میں پاکستان سے باہر جارہا ہوں۔ میرا انتظار مت کرنا، میں شاید واپس نہ آ سکوں ۔ یہ سن کر نتاشہ کا رنگ زرد ہو گیا اور وہ رونے بلکنے لگی، مگر ادھر سے جواب نہ آیا اور فون بند کر دیا گیا۔ ارباب کےایک دوست نے اس کے ویزے کا بندو بست کر دیا ، یوں وہ یونان یا اٹلی جانے کی بجائے دبئی چلا گیا۔ کافی عرصہ وہاں رہنے کے بعد اس نے اتنا کما لیا کہ خود کو مالدار کہہ سکے، وہ خوشحال تو ہو گیا مگر اس نے لڑکی کی والد کی باتوں سے خوفزدہ ہو کر نتاشہ کو کھو دیا شاید اس کی شخصیت میں کچھ کمی تھی۔ محبت میں خلوص نہ تھا کہ خود پر بھروسہ رکھتا۔ اگر یہ دو اوصاف انسان کی شخصیت میں نہ ہوں تو اس کے لئے سچی خوشیوں کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS